1 2 ینلماعلا بر للہ دلحما 3 یمحرلا...

5
آؿ ِ درس ؾ و ا رک و ا وع اور اور اس آؿ ؾ ا اور ر ا ۔ اور اور اس ؾ د ا دی اور ر ا اس آ﴿ 1 ؿ ، ؿ ؾ وع ا لعا رب ا د ا﴿ 2 ا ؾ ن الرح الر﴿ 3 ؿ ؿ اور ینلک یوم ا ما﴿ 4 ا ِ روز تع وسکک هعبد وا ا﴿ 5 د اور دت ی ۔ اے اتقس اط ا ال اھد﴿ 6 ا را

Upload: others

Post on 16-Nov-2020

13 views

Category:

Documents


0 download

TRANSCRIPT

Page 1: 1 2 ینلماعلا بر للہ دلحما 3 یمحرلا حمرلاhirafoundation.com/wp-content/uploads/2014/12/Dars-e...1بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے بامہر

درسِ قرآؿ کریم

اللہ تعالی کے ناؾ پر ہم قرآؿ کریم کا ترجمہ اور اس کی مختصر تشریح اور تفسیر کا سلسلہ شروع کرتے ہیں اللہ تبارک و تعالی اپنے فضل و کرؾ سے

آمینسے اس کو اپنی رضا اور خوشنودی کے مطابق انجاؾ دینے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کو ہم سب کے لیے نافع اور مفید بنائے ۔اپنی رحمت اور

﴾ 1بسم اللہ الرحمن الرحیم﴿

شروع اللہ کے ناؾ سے جو سب پر مہرباؿ ہے ، بہت مہرباؿ ہے

﴾2 ﴿الحمد للہ رب العالمین

تماؾ تعریفیں اللہ کی ہیں

﴾3﴿الرحمن الرحیم

جوسب پر مہرباؿ اور بہت مہرباؿ ہے

﴾4﴿مالک یوم الدین

جو روزِ جزا کا مالک ہے

﴾5﴿ایاک هعبد وایاک وس تعین

اے اللہ ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں

﴾6﴿اھدنا الصراط ا لمس تقیم

ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما

Page 2: 1 2 ینلماعلا بر للہ دلحما 3 یمحرلا حمرلاhirafoundation.com/wp-content/uploads/2014/12/Dars-e...1بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے بامہر

صراط الذین اهعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا

﴾7﴿الضالین

اؿ لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعاؾ کیا ہے نہ کہ اؿ لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازؽ ہوا ہے اور نہ اؿُ کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں ۔

تلاوت ِسنت وادب

قرآؿ کریم کی تلاوت کا ادب یہ ہے کہ قرآؿ کریم کی تلاو ت کرنے سے پہلے تعوذ اور تسمیہ پڑھا جاتا ہے لہذا اس وقت بھی ہم نے قرآؿ

الرجیم اور بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا۔اؿ دونوں فقروں کا پڑھنا تلاوت کے لیے ایک سنت ہے اس میں سے جو

ن

ی ط

شل

کریم کا آغاز اعوذ باللہ من ا

الرجیم یہ خود قرآؿ کریم کی کوئی آیت نہیں ہے ۔دوسری طرػ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآؿ کریم کی ایک

ن

ی ط

شل

پہلا فقرہ ہے یعنی اعوذ با للہ من ا

الرجیم ایک آیت تو نہیں ہے لیکن قرآؿ کریم کی ایک آیت کی تعمیل میں ایک جملہ ہے جو پڑھا جاتا

ن

ی ط

شل

آیت ہے اب اگرچہ اعوذ با للہ من ا

الرجیمہے۔کو نکہ سورہ النحل میں ایک آیت ہے کہ

ن

ی ط

شل

باللہ من ا

عذ

سی یعنی جب آپ قرآؿ پڑھیں تو مردود شیطاؿ سے اللہ فاذا قرات القرآؿ فا

کی پناہ مانگ لیا کریں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ قرآؿ کریم کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے شیطاؿ مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لینی چاہیئے چنانچہ اس حکم کی

الرجیم پڑھا جاتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں شیطاؿ مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔

ن

ی ط

شل

تعمیل میں ہر قرات سے پہلے اعوذ با للہ من ا

تعوذ و تسمیہ پڑھنے کی حکمت

یہ تعلیم اس لیے دی گئی ہے کہ جب انساؿ قرآؿ کریم کی تلاوت کرے یا اس کو سمجھنے کی کوشش کرے تو وہ خالص اللہ تبارک و تعالی کی رضا

کی خاطر ہو اور صحیح طریقے پر ہو اس کے آداب کے ساتھ ہو کہیں ایسا نہ ہوکہ شیطاؿ دؽ میں کو ئی ایسی باتیں ڈالے یا کسی ایسے کاؾ پر آمادہ کرے جو

قرآؿ کریم کی تلاوت کے ادب اور قرآؿ کریم کی حرمت کے منافی ہو اور قرآؿ کریم کے صحیح مفہوؾ کو سمجھنے میں دشواری پیدا کرے اسی لیے یہ تعلیم

الرجیم پڑھ کر قرآؿ کریم کی تلاوت کا آغاز کیاکرو۔

ن

ی ط

شل

دی گئی ہے کہ اعوذ با للہ من ا

الرجیم

ن

ی ط

شل

کا سنت کے طور پر پڑھنا تعوذیعنی اعوذ با للہ من ا

الرجیم کا یہ جملہ صرػ قرآؿ کریم کی تلاوت سے پہلے پڑھنے کو سنت قرار

ن

ی ط

شل

یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ اعوذ با للہ من ا

الرجیم پڑھ کر تقریر شروع کرتے ہیں تو یہ سنت نہیں ےدیا گیا ہے دوسر

ن

ی ط

شل

اگرچہ ،کسی مقاؾ پر ایسا پڑھنا سنت نہیں جیسے بعض لوگ اعوذ با للہ من ا

رجیم سے اللہ کی پناہ مانگے تو اس میں کو ئی مضائقہ کی بات

ن

ی ط

س

جائز ہے کو ئی ناجائز نہیں ہے کو ئی حراؾ نہیں ہے اگر کوئی آدمی تقریر سے پہلے

الرجیم کہنا ہے۔تعوذ کا پڑھناایک ۔نہیں۔لیکن اس کو سنت نہیں سمجھنا چاہیئے

ن

ی ط

شل

سنت صرػ قرآؿ کریم کی تلاوت کے آغاز میں اعوذ باللہ من ا

باللہوامااور موقع پر بھی سنت ہے اور اس کا قرآؿ کریم نے حکم دیا ہے وہ یہ کہ

عذ

سی نزغ فا

ن

ی ط

شل

ک من ا

نع یعنی جب شیطاؿ تمہیں کچوکہ لگا ئے ینز

Page 3: 1 2 ینلماعلا بر للہ دلحما 3 یمحرلا حمرلاhirafoundation.com/wp-content/uploads/2014/12/Dars-e...1بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے بامہر

اس کی کئی صورتیں ہوتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ غصہ ؟ شیطاؿ کچوکہ کیا لگائے ۔تو بھی اللہ کی پناہ میں آجایا کرو شیطاؿ رجیم سے اللہ کی پناہ مانگا کرو

بہت زیادہ آتا ہے اور غصہ کی حالت میں انساؿ بعض اوقات آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اس حالت میں شیطاؿ اس کو کسی ایسے کاؾ پر آمادہ کر دیتا ہے

تو اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا کہ جب تمہیں شیطاؿ کچو کہ لگا ئے غصہ بہت زیادہ آرہا ہو تو ۔جو بعد میں شرمندگی کا موجب ہوتا ہے مناسب نہیں ہوتا

الرجیم میں شیطاؿ رجیم سے اللہ کی پناہ مانگتا ہو ں کہیں ایسا نہ ہو

ن

ی ط

شل

اس کا ایک حل یہ ہے کہ تم اللہ تعالی کی پناہ میں آجاؤیہ کہو کہ اعوذ با للہ من ا

یا میری زباؿ سے کو ئی ایسے کلمات ،کسی کے ساتھ زیادتی پر مشتمل ہو، نا حق ہو ،شیطاؿ مجھے اس غصے کی حالت میں کسی ایسے کاؾ پر آمادہ کر دے جو نائز ہو

الرجیم کا حکم دیا گیا ہے ۔اسی طرح اگر کبھی کسی گناہ کا خیاؽ آئے دؽ چاہ

ن

ی ط

شل

نکل جائیں جو نا مناسب ہیں یہ اس سے پناہ مانگنے کے لیے اعوذ با للہ من ا

رہا ہے کہ میں کبھی کسی گناہ کا ارتکاب کر لوں العیا ذ با للہ العلی العظیم تو اس موقع پر بھی یہ شیطاؿ کا کچوکہ ہے جو وہ گناہ کی طرػ بلانے کے لیے لگا رہا ہے

الرجیم پڑھ لینا قرآؿ کریم کی اس آیت کی تعمیل میں بہتر ہے ۔۔

ن

ی ط

شل

تو اس موقع پر بھی اعوذ با للہ من ا

الرجیم پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا اس کو سنت قرار دیا گیا ہے یا کم از کم تر غیب دی

ن

ی ط

شل

یہ دو مواقع ہیں جہاں قرآؿ کریم میں اعوذ با للہ من ا

دؽ میں کوئی ایسی بات ڈالی ہو جو کسی نا مناسب کاؾ کی طرػ انساؿ کو لے جائے نےگئی ہے ایک تلاوت شروع کرتے وقت یا اس وقت جب کہ شیطاؿ

باقی اور حالات میں مسنوؿ نہیں ہے لیکن ظاہر ہے کوئی جملہ ایسا ہے کہ جس میں اللہ تعالی کی پناہ مانگی جا رہی ہے تو اس کا پڑھنا کو ئی ناجائز نہیں ہے بری

الرجیم کے بارے میں

ن

ی ط

شل

۔تھی بات نہیں ہے یہ جس وقت بھی انساؿ پڑھے اور اللہ کی پناہ میں آجائے تو بہتر ہے ۔ یہ تفصیل اعوذ با للہ من ا

سورت کے آغاز میں تسمیہ کا پڑھنا

اس کے بعد دوسرا فقرہ جو تلاوت سے پہلے پڑھا جاتا ہے وہ ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ باقاعدہ قرآؿ کریم کی آیت ہے اور اس کو ہر سورت

کے شروع میں پچھلی سورت سے ممتاز کرنے کے لیے اس کو نازؽ کیا گیا ہے اور یہ ایسی آیت ہے جو قرآؿ کریم کی ہر سورت کے شروع میں سوائے

سورة توبہ کے آپ کو لکھی نظر آئے گی ۔اللہ تعالی نے اگر زندگی عطا فرمائی تو اس کی وضاحت اؿ شاء اللہ سورة توبہ کے شروع میں کی جا ئے گی ۔لیکن باقی

ساری سورتوں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی ہوئی ہے اور مسنوؿ بھی یہ ہے کہ جب انساؿ تلاوت کر رہا ہو اور ایک سورت کو ختم کرے تو دوسری

سورت کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے ۔پہلے تو بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ اور اس کا مطلب سمجھنے کی ضرورت ہے پھر بسم اللہ

الرحمن الرحیم کے احکاؾ اور اس کے بعد شریعت میں کن مواقع پر ہمیں یہ کہنے کا حکم دیا ہے اس کی تھوڑی سی تفصیل انشاء اللہ عرض کروں گا ۔

تسمیہ یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ اور لفظی تحقیق

ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کے ناؾ سے جو رحماؿ بھی ہے اور رحیم بھی ہے اس کا ترجمہ ہم نے یوں کیا کہ جو سب پر مہرباؿ ہے اور بہت مہرباؿ ہے۔

تو اللہ کے ناؾ سے اور اس کا ایک متعلق محذوػ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں شروع کرہا ہوں اللہ کے ناؾ سے ۔اس لیے ہم نے ترجمہ میں کہا کہ میں

اللہ تعالی کے ناؾ سے شروع کرنے کا رواج تو بہت پہلے سے تھااور قرآؿ ِکریم کے ۔شروع کر تا ہوں اللہ کے ناؾ سے جو سب پر مہرباؿ بہت مہرباؿ ہے

م کو ئی کاؾ شروع کرتے یا کوئی بات کہنا شروع کرتے یا کوئی تحریر لکھواتے تو جب بھی نازؽ ہو نے سے پہلے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم

ھلل

کہ باسمک ا

کر لکھوایا کر تے جس کے معنی ہیں اے اللہ آپ کے ناؾ سے لیکن جب یہ آیت کریمہ نازؽ ہو گئی تو اس کے بعد آپ نے یہی جملہ اختیار فرمایا بسم اللہ

Page 4: 1 2 ینلماعلا بر للہ دلحما 3 یمحرلا حمرلاhirafoundation.com/wp-content/uploads/2014/12/Dars-e...1بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے بامہر

اللہ تبارک و تعالی کا ناؾ گرامی ہے اور پھر اس کی دو صفتیں بیاؿ ،الرحمن الرحیم اور اسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کاؾ کے آغاز کرنے کا حکم دیا اللہ

فرمائی گئیں الرحمن الرحیم دونوں لفظ رحمت سے نکلے ہیں رحماؿ کے معنی ہیں بہت رحم کرنے والا اور رحیم کا مطلب بھی بہت رحم کر نے والا ۔

رحماؿ اور رحیم میں فرؼ

اور ایک ہی جیسے اؿ کے معنی ہیں لیکن علمائے لغت نے یہ بات بیاؿ کی ہے کہ اؿ دونوں میں ایک اہم فرؼ بظاہر تو یہ ایک ہی جیسے الفاظ ہیں

رحم کرنے والے کو کہیں گے اور رحیم بھی بہت رحم کرنے والے کو کہیں گے لیکن اس بہت کی کیفیت میں فرؼ ہے مہرباؿ اورہے رحماؿ بھی بہت

ہو وسعت زیادہ extensiveرحماؿ اس ذات کو کہا جائے گا جس کی رحمت بہت زیادہ وسیع ہو جس کو آج کل کی زباؿ میں کہا جائے گا جو بہت زیادہ ۔

ہو یعنی زیادہ لوگوں تک اس کی رحمت پہنچنے والی ہو اس کو رحماؿ اور رحیم کے معنی یہ ہیں کہ جس کی رحمت میں گہرائی بہت زیادہ ہو کہ رحمت جس پر بھی

واضح ہوا کہ ۔زیادہ ہو intensive ہو اس میں گہرائی بہت زیادہ ہو جس کو آج کل کی اصطلاح میں اگر آپ کہنا چاہیں تو کہیں گے کہ جس کی رحمت

رحماؿ کے اندر وسعت ہے اور رحیم کے اندر گہرائی ہے اور مکمل ہونے کا مفہوؾ ہے تو اسی لیے کہا جاتا ہے کہ باری تعالی ایک طرػ تو رحماؿ ہے اللہ

تبارک و تعالی کی رحمت سب پر ہے یہاں تک کہ دنیا کے اندر اس کی رحمت صرػ مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں غیر مسلموں پر بھی ہے جانوروں پر

بھی ہے کائنات کی ہر چیز پر ہے درختوں پر بھی ہے۔جمادات پر بھی ہے ۔نباتات پر بھی ہے تو رحمت اس کی ساری کائنات کے اوپر پھیلی ہوئی ہے بہت

زیادہ وسیع ہے اس لیے رحماؿ کا ترجمہ ہم نے یہ کیا کہ جو سب پر مہرباؿ ہے یعنی اس کی رحمت سب کو شامل ہے بہت بھیلی ہو ئی ہے وسعت رکھتی ہے

ہے اس میں گہرائی ہے جس پر بھی ہے وہ تکمیل کے ساتھ ہے intensive ہے اور رحیم کا مطلب یہ کہ رحمت کامل ہے مکمل ہے extensiveبہت

پورے طور پر ہے اس میں کو ئی نقص نہیں اس میں کو ئی کمی نہیں اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ بہت مہرباؿ کے ساتھ کیا ۔ اب آیت کا ترجمہ یہ ہوا کہ

۔ سب پر مہرباؿ رحماؿ اور بہت مہرباؿ رحیم ہوناہے ایک فرؼ تو اؿ دونوں میں یہ ہے۔شروع اللہ کے ناؾ سے جو سب پر مہرباؿ ہے بہت مہرباؿ ہے

دوسرا فرؼ یہ ہے کہ رحماؿ کا لفظ صرػ اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ خاص ہے ۔اللہ تعالی کے علاوہ کسی فرد کو بھی رحماؿ نہیں کہا جا سکتا کیوں

کہ اللہ تعالی کی رحمت میں وسعت کا اشارہ ہے اتنی وسیع رحمت کسی کی بھی نہیں ہو سکتی ۔کو ئی فرد یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس کی رحمت یا اس کا رحم

کائنات کی ہر چیز کو شامل ہے ۔ یہ صرػ اللہ تبارک و تعالی کی صفت ہے کہ اس کی رحمت پوری کائنات کو شامل ہو تی ہے پوری کائنات کے اوپر وسعت

اگر کوئی شخص کسی انساؿ کو رحماؿ کہے تو یہ شرک ۔رکھتی ہے ۔لہذا رحماؿ کا لفظ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کے لیے استعماؽ کرنا جائز نہیں ہے حراؾ ہے

اسی سے یہ معلوؾ ۔ہے کیوں کہ اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ اس لفظ کا خصوصی امتیاز ہے اور اللہ تبارک و تعالی کے سوا کسی اور کو الرحماؿ کہنا جائز نہیں

مخفف کر کے رحمن صاحب، abbreviateہوا کہ آج کل جو ہمارے معاشرے میں جو غلط رواج پڑ گیا ہے کہ کسی کا ناؾ اگر عبد الرحمن ہے تو اس کو

رحمن صاحب کہتے ہیں یہ بہت غلط بات ہے رحمن کا لفظ اللہ تبارک و تعالی کی ذات کے علاوہ کسی کے لیے استعماؽ نہیں ہو سکتالہذا اگر کسی کا ناؾ عبد

الرحمن ہے تو اس کا ناؾ پورا عبد الرحمن ہی لینا چاہیئے صرػ رحمن کہہ کر اس کو خطاب کرنا یا اس کا حوالہ دینا درست نہیں اور اندیشہ ہے اللہ تعالی بچائے

کہ غیر ارادی طور پر خدا نخواستہ یہ انساؿ کو شرک کے قریب نہ لے جا ئے ۔لہذا اس سے بہت زیادہ احتراز کی ضرورت ہے ۔

Page 5: 1 2 ینلماعلا بر للہ دلحما 3 یمحرلا حمرلاhirafoundation.com/wp-content/uploads/2014/12/Dars-e...1بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے بامہر

رحیم کا لفظ البتہ اس معاملے میں رحماؿ سے مختلف ہے ۔رحیم کے معنی ہوتے ہیں جس کی رحمت مکمل ہو پوری ہو تو یہ وصف چونکہ کسی انساؿ

لہذا رحیم کا لفظ اللہ ۔میں اللہ تعالی کی تخلیق کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ جب کو ئی انساؿ کسی انساؿ کے ساتھ رحم کا معاملہ کرے تو مکمل رحم کا معاملہ کرے

م حریص علیکم لقد جاءکم رسوؽ ۔تعالی کے علاوہ کسی فرد کے لیے بھی استعماؽ کرنا جائز ہے اور خود قرآؿ کریم نے کیا ہے

ت

عی

م عزیز علیہ ما

شکف

ن

من ا

منین رؤوػ رحیم

ؤمل

یہاں رسوؽ اقدس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحیم فرمایا گیا اس کا مطلب آپ رحم کرنے والے ہیں اور آپ کی رحمت با

یہ بات معلوؾ ہو رہی اس سے تو ، یہ لفظ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعماؽ کرنے کا جواز اس آیت نے پیدا کیا ۔جس پر بھی ہے پوری ہے

حقیقی مصداؼ اللہ تعالی ہی ہیں لیکن اپنے وسیع معنی میں اس کو غیر اللہ اور ہے کہ کسی انساؿ کے لیے بھی رحیم کا لفظ استعماؽ ہو سکتا ہے اگرچہ اس کا صحیح

کے لیے استعماؽ کرنا بھی جائز ہے۔