adab menhamd o munajat

376
و د ر ا ب د ا ں ی م د م ح و ب ا ج ا ن م رطاس ق ور پ گ ا ن ے ک مد ح و اب اج ن م ر مب ن ے ک ں می ا ض م ر ی مد مد ح م: ں می ا ں’ ی الد

Upload: aijazubaid9462

Post on 16-Jun-2015

450 views

Category:

Documents


0 download

DESCRIPTION

http://kitaben.urdulibrary.org/AllBooks.html.

TRANSCRIPT

Page 1: Adab MenHamd o Munajat

مناجات و حمد میں ادب اردو

مضامین کے نمبر مناجات و حمد کے ناگپور قرطاس

الدین امین : محمد مدیر

Page 2: Adab MenHamd o Munajat

زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ قلم بن جائیں

اورسمندر اور اس کے بعد

سات سمندروں کا پانی سیاہی ہو جائے

(ثنا و تب بھی اللہ کی باتیں )حمد گیںختم نہ ہو

(۔۔۔۳۔۔۔ )سورۂ لقمان:

Page 3: Adab MenHamd o Munajat

فہرست

عمومی

5.............................................................................حمد

آان کا اسلوب بںیحمد اور مناجات کے تناظر م 6..................................انی قر

11................................................(ںی می روشنیحمد و مناجات )شرع

26..............................تی اہمی اور فنیبی تہذ،یخی تاریحمد و مناجات ک

34............................................متی قدر و قی و ادبینی دیحمد ک

42.............................................. و ضرورتتی اہمیحمد اور مناجات ک

49........................................... محاسنی شعر ںی می شاعر ہی حمدمیقد

57..........................................تی روای مناجات کںی موںی مثنویدکن

89..................................................ی شاعر ہی حمدیغزل گو شعرا ک

101..................................................................حمد و مناجات

116..................... غزل کا مطلعی پہلی‘‘ کلی ’’بال جبرںیحمد و ثنا کے باب م

مقامی اور شخصی

119............................................تی روای حمد و مناجات کںیناگپور م

Page 4: Adab MenHamd o Munajat

آاکولہ ک 137.........................................ی شاعر ی و مناجاتہی حمدیضلع

آابادیح 151..ںی کے دوسرے نصف می صدںیسوی بی شاعر ی و مناجاتہی حمدںی مدر

173....................................ی اور ڈاکٹرفرازحامدی شاعر ہی حمدیراجستھان ک

آارا ک 183......................................................ی شاعر ہی حمدیشہر

آائی وارثی جاممیحک 190..............................ںی منےی:حمد و مناجات کے

194...................................... نغمےی اور مناجاتی شاعر ہی حمدیساحل ک

آازادنظموں میمنصوراعجاز ک 201.............................. حمد و مناجات کامظاہرہںی

205................................. حمد و مناجاتںی کتب می رائج درسںیمہاراشٹر م

Page 5: Adab MenHamd o Munajat

حمدالدین خان)پرتاپ گڑھ( امتیاز

یہ پیاری زمیں، وہ چرخ بریں، سبحان اللہ سبحان اللہ

تو حسن کا خالق اور حسیں، سبحان اللہ سبحان اللہ

گلزار کی یہ زیب و زینت، سبحان اللہ سبحان اللہ

آادم و حوا کی مورت، سبحان اللہ سبحان اللہ یہ

یہ پھول ساتن، یہ پھول سامن، سبحان اللہ سبحان اللہ

ہر ایک کرن ہے شعلہ بدن، سبحان اللہ سبحان اللہ

یہ جگ مگ دن، جھلمل راتیں، سبحان اللہ سبحان اللہ

موسم کی بدلتی سوغاتیں، سبحان اللہ سبحان اللہ

یہ شام و سحر کے میخانے، سبحان اللہ سبحان اللہ

ہر دل کے چھلکتے پیمانے، سبحان اللہ سبحان اللہ

ہر ذرے میں جلوہ تیرا، سبحان اللہ سبحان اللہ

ہر ایک جگہ تیرا چرچا، سبحان اللہ سبحان اللہ

تو نور و نکہت، ناز و ادا، سبحان اللہ سبحان اللہ

ب کا داتا سب کا مولا، سبحان اللہ سبحان اللہ

Page 6: Adab MenHamd o Munajat

حاجی ابوالکلام ڈاکٹر)مہاراشٹر(۴۴۰۰۱۸ ناگپور پورہ، مومن انصارنگر،

آان میں تناظر کے مناجات اور حمد بیان اسلوب کا قر

اس کے لغوی معنی کی اہمیت نہ جب کوئی لفظ اصطلاحی معنوں میں استعمال ہونے لگتا ہے تو صرف ختم ہو جاتی ہے بلکہ اس کا اس معنی میں استعمال بھی متروک ہو جاتا ہے۔ اردو زبان میں دو

مدح ‘‘ اور ’’منت سماجت‘‘ مستعمل ہیں۔ مدح کے لغوی معنی تعریف، توصیف، ستائش ’’الفاظ اور منت سماجت بمعنی عرض معروض، خوشامد اور درخواست وغیرہ۔ اول الذکر سے ’’حمد‘‘ اور

یی ثانی الذکر سے ’’مناجات‘‘ کی اصطلاحیں مشتق اور مستعمل ہیں۔ یہ اصطلاحیں ذات باری تعالیہذا حمد کے لئے مخصوص قرار ہہ لاشریک اور دی جا چکی ہیں۔ ل مناجات کا اطلاق خدائے وحد

آازاد الحمد کی تشریح میں حمد کی کے علاوہ کسی اور کے لئے درست نہیں۔ مولانا ابوالکلام :تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں

’’عربی میں حمد کے معنی ثنائے جمیل کے ہیں یعنی اچھی صفتیں بیان کرنا۔ اگر کسی کیآان، جلد بری صفتیں بیان کی جائیں تو وہ حمد (۳۱اول،ص: نہ ہو گی۔ ‘‘ )ترجمان القر

آان ایک ایسا مخزن علم ہے جس سے ہر بیکراں سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا بحر جا حل نکالا مسئلہ کا قر سکتے ہیں سوال غوطہ لگانے کا ہے۔ جویندہ قسم کے موتی کھنگالے جا ہے جس میں سے ہر

یی نے اپنے بندوں کو طریقہ زندگی سکھانے کے پائندہ۔ جو تلاشتا ہے وہ پاتا ہے۔ خدائے تعال اجمالی روشنی ڈالی ہے جس کی جیتی جاگتی تصویر حضور سرور لئے زندگی کے ہر پہلو پر

آان تلاوت فرما کر آاپ کی زبان ترجمان سے قر ملسو هيلع هللا ىلصکائنات کی تیئس سالہ عملی زندگی ہے۔ کہ کوئی گوشہ تشنہ نہ رہے۔ تا روشن کر دیا پہلو کو زندگی کے ہر

Page 7: Adab MenHamd o Munajat

آاسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے آان پاک کی کئی سورتیں اسی مفہوم سے شروع ہوتی ہیں کہ قر وہ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ یہ ترغیب ہے بنی نوع انسان کے لئے کہ وہ بھی اللہ کی پاکی

ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ خدائے لم یزل کی پاکی بیان کرنا، اس بیان کرے۔ یہاں اس بات کوآان کا اپنا ایک منفرد اسلوب بیان صفات کی تعریف کرنا کی ذات و آاتا ہے۔ یہ قر حمد کے زمرہ میں

ہے۔

یوت ومافی یم آایت سے شروع ہوتی ہیں۔ ’’ سبح للہ مافی الس ’’سورۃ الحشر‘‘ اور ’’ الصف ‘‘ اس آاسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ الارض‘‘ پاکی بیان کرتے ہیں اللہ کی جو کچھ

آایت کریمہ سے ہوتی ہے۔ ’’یسبح للہ اسی طرح ’’سورۃ الجمعہ‘‘ اور ’’ التغابن‘‘ کی ابتدا بھی اس یوت وما یم آاسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین مافی الس فی الارض‘‘ اللہ کی بیان کرتے ہیں جو کچھ

آایتیں ہیں جن میں اہل ایمان کو آان پاک میں ایسی بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی میں ہے۔ قریی کی حمد درج ذیل ہے۔ بیان کرے۔ چہ جائے کہ یہ حکم لزومی نہیں۔ ان میں سے چند اللہ تعال

آایت نمبر یی، یی‘‘ )سورۂ الاعل سب سے اپنے رب کی جو (پاکی بیان کرو۱ ’’سبح اسم ربک الاعلآایت نمبر بلند یی فادعوبھا‘‘ )سورۂ الاعراف، ( اور اللہ کے لئے حسن و۱۸۰ ہے۔ ’’وللہ الاسماء الحسن

خوبی کے نام ہیں )یعنی صفتیں ہیں (پس چاہئے کہ انہیں ان صفتوں سے پکارو۔ اسی طرحیوت والارض ومافیھن کہہ کر فیصلہ کر دیا یم آان پاک میں للہ ملک الس آاسمانوں اور قر کہ جو کچھ

:کیا ہے علامہ اقبال نے یوں ادا اللہ ہی کی حکمرانی ہے۔ اسی مفہوم کو زمین میں ہے سب پر

درس او، اللہ بس، باقی ہوس

فتد مرد حق در بند کس نہ تا

حق حاصل نہیں۔ کسی کو حکمرانی اور فرمانروائی صرف خدا کے لئے ہے۔ اس کے سوا

صفات کا احاطہ نہیں کیا جا صفات میں لامحدود ہے۔ اس کی ذات و خدائے پاک اپنی ذات ویی کی تعریف و مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ جہاں تک توصیف میں ہر سکتا۔ اس لئے اللہ تعالیوات و یم الارض ہے۔ ذات کا سوال ہے تو وہ نورالس

ہے۔ یہ وہ طریقہ مناجات اس سے مانگنے کا ایک مخصوص انداز مدح رب العالمین ہے تو حمدآاپ کو کمتر، حقیر اور گناہ گار ہو کر پیش دعا ہے جس میں بندہ اپنے رب کے حضور اپنے

Page 8: Adab MenHamd o Munajat

درجہ دعا مناجات کا مناجات دعا ہو سکتی ہے لیکن ہر کرتے ہوئے التجا کرتا ہے۔ اس لئے ہر تعلق ایمان سے ہے۔ ایک حاصل نہیں کر سکتی۔ دعا تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن مناجات کا

صاحب ایمان کوہی یہ کیفیت حاصل ہو سکتی ہے۔

مناجات فضائل کی حامل ہے وہیں حمد و میری دانست میں دیباچۂ سورۂ فاتحہ جہاں بے شمار ہیں جن میں ’’سورۃ الحمد‘‘ اور ’’سورۃ اس سورۂ مبارکہ کے کل بیس اسما کی بہترین مثال ہے نیز

بھی ملتا ہے۔ انسان اس کی بلندی کو مناجات کا انداز و المناجاۃ‘‘ بھی ہیں۔ سورۂ فاتحہ سے حمدآایتوں اللہ ماجور کر سکتا ہے۔ یہ نقل بھی عند نہیں چھو سکتا لیکن نقل تو تو ہے۔ سورۂ فاتحہ سات آایتیں پر :مشتمل ہے جس کی پہلی تین

للہ رب العالمین الحمد

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔

الرحمن الرحیم

وہ مہربان اور رحم والا ہے۔

مالک یوم الدین

مالک ہے کا یوم جزا

یی کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ سورہ بھی حمد کی ہیں جن میں خدائے تعالیی نے اس کے ساتھ ال کا اضافہ فرما کر ’’حمد‘‘ کے لفظ سے شروع ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اللہ تعال

آایت ایاک نعبدوایاک نستعین‘‘ )ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں ’’اسے مختص بالذات کر دیا۔ چوتھی چاہتے ہیں (میں اظہار عبودیت اور استعانت ہے اور یہ کیفیت مناجات کے اور تجھ ہی سے مدد

آایتیں مناجات کی بہترین مثالیں ہیں آاخری تین :لئے ضروری ہے۔

اھدنا الصراط المستقیم

ہمیں سیدھے راستے پر چلا

صراط الذین انعمت علیھم

نے انعام فرمایا ہے۔ راستہ جن پر تو ان لوگوں کا

Page 9: Adab MenHamd o Munajat

غیرالمغضوب علیھم ولا الضالین

تیرا غضب نازل ہو ا اور نہ ہی گمراہوں کا۔ راستہ جن پر نہ کہ ان لوگوں کا

ہہ ترجمہ کا ترانۂ وحدت کے نام سے قلم بند علامہ اقبال نے اسی کو کیا ہے۔ علامہ اقبال نے بعین پوری طرح سمونے حق تو ادا نہیں کیا۔ یہ ان کی شاعرانہ مجبوری تھی لیکن اس کے مفہوم کو

کی کوشش کی ہے۔

رب ہے سارے جہانوں کا سب حمد تجھے ہی زیبا ہے تو

سب سورج چاند ستاروں کا سب جانوں کا بے جانوں کا

تو مفہوم ہی سمجھ لیتا لاینفک ہے۔ کاش کہ نمازی سورۂ فاتحہ کاو جز نماز کا یہ سبع من المثانی ہرآان پاک میں حمد کے مفہوم کی بے شمار آایتیں موجود اس کی نماز کی کیفیت ہی بدل جاتی۔ قر

ہیں جن میں سے چند نمونہ ازخروارے پیش کی جاتی ہے۔ خدائے پاک کی اس سے بہتر حمد کیا ہو سکتی ہے کہ وہ خود فرمائے کہ اس کی حمد اس طرح بیان کی جائے۔

آایت کریمہ سے ہوتی ہے۔ الحمد سورۃ الانعام یوت والارض تمام کی ابتدا اس یم اللہ الذی خلق السآاسمانوں اور زمین کو آاخری تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے پیدا فرمایا۔ سورۃ الحشر کی

یی کے صفات بیان کی گئی ہیں۔ آایتیں جن میں اللہ تعال

الاھو ہال لا الذی ہھوالل٭ ھوالرحمن الرحیم۔ہ، عالم الغیب والشھادی

جاننے والا۔ وہی ہے بڑا نہاں اور عیاں کا وہی ہے اللہ جس کے سواکوئی معبود نہیں، ہرمہربان اور رحمت والا

یحنی الاھو الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن العزیز الجبار المہ الذی لا الہھوالل٭ تکبر سب عما یشر کون۔ہالل

نہیں۔ بادشاہ، نہایت پاک، سلامتی دینے والا، امن وہی ہے اللہ جس کے سواکوئی معبود بخشنے والا، حفاظت فرمانے والا، عزت والا، عظمت والا، تکبر والا۔ اللہ کو پاکی ہے ان کے

شرک سے۔

Page 10: Adab MenHamd o Munajat

یی المہھوالل٭ یی یسبح لہہصورل الخالق البار یوت والارض وھوالعزیزہہ الاسماء الحسن یم مافی الس الحکیم۔

وہی ہے اللہ بنانے والا، پیدا کرنے والا، ہر ایک کو صورت دینے والا اسی کے ہیں سبآاسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ ہی عزت والا اچھے نام، اس کی پاکی بیان کرتے ہیں جو کچھ

حکمت والا ہے۔

آایت اکثر آایت الکرسی حمد کی بہترین مثال ہے۔ یہ یاد ہوتی ہے اس لئے اسی لوگوں کو اسی طرح پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

اپنے گنا ہوں کا اعتراف کرتے ہوئے دعا ایسی تمام دعائیں جس میں بندہ اپنے رب کے حضور رقت کی کیفیت طاری ہو جائے اور اسے اپنے گناہ جس کے پڑھنے سے خودبخود مانگتا ہے یا

آان میں اس مفہوم کے لئے ایک بہت ہی جامع آاتی ہیں۔ قر آانے لگیں مناجات کے زمرہ میں یاد روحانی جوانسان کے لئے ممنوع یا مضر ہے یا وہ عمل بدنی ہو لفظ ’’ظلم‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ ہر

کی جا دعائیں تحریر کیا جانا اپنے اوپر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ ذیل میں اس مفہوم کی چند :رہی ہیں

آایت نمبرۂ)سور۔ ‘‘ ربناظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین ’’٭ الاعراف، ۲۳)

ظلم کیا اور اگر ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

اا کما حملت ’’٭ یاناربنا ولاتحمل علینا اصر علی الذین من قبلنا ربناہہربنالاتواخذنا ان نسینا اواخط ۂ)سور۔ ‘‘ وعف عنا وغفرلنا والرحمنا انت مولانافانصرناعلی القوم الکافرینہولاتحملنامالا طاقتلنا ب

آایت نمبرہالبقر ،۲۶۸)

ہماری اگر ہم بھولیں یا کوئی غلطی کریں۔ اے ہمارے رب ہم کر اے ہمارے رب نہ پکڑ نے ہم سے اگلوں پر رکھا تھا۔ اے ہمارے رب اور ہم پر وہ بھاری بوجھ نہ ڈال جیسا کہ تو پر

دے اور بخش دے ہمیں اور ہم پر ہمیں معاف فرما اور بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہویی ہے اور کافروں پر رحم فرما۔ تو فرما۔ مدد ہماری ہمارا مول

Page 11: Adab MenHamd o Munajat

آایات پر مضمون کی طوالت کے مد اکتفا کیا جاتا ہے۔ نظر انہی

***

Page 12: Adab MenHamd o Munajat

الحسن منظور منظور)مہاراشٹر(۴۱۱۰۰۳ پونے کھڑکی، روڈ، الفنسٹن ۱۵

میں( روشنی )شرعی مناجات و حمد

دعا، مناجات، التجا، گزارش، دہائی، فریاد، معاونت یا استعانت یہ سارے الفاظ فکری لحاظ سے انصاف اور ایک ہی قبیل کے ہیں۔ معمولات زندگی میں اگرچہ تقاضائے بشری کے تحت عدل و

گستری کے لئے صاحب اقتدار کے پاس داد اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر متعلقہ، افسران و نہ صرف ان رشتہ براہ راست خالق کائنات سے وابستہ ہوتا ہے تو جانا پڑتا ہے لیکن جب ان الفاظ کا

آافاقی ہو جاتا ہے بلکہ ان میں عقیدتوں کی پاکیزگیوں کے ساتھ ادب و کا احاطہ فکر وسیع و بھی ان الفاظ کے معنی، احترام کی نازکی اور روحانی لطافت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس وقت جو

یی کونہ صرف اس کے ایک ذاتی نام سے مطالب اور دعا آاداب جانتا ہے اور اللہ تعال مانگنے کے یی سے بھی واقفیت اور ان کے ۹۹بلکہ اس کے سینکڑوں صفاتی نام یعنی پہچانتا اسمائے حسن

شناس شخص وہ چاہے حالت عشرت خدا ایسا مکمل یقین اور اعتقاد رکھتا ہو تو روحانی اثرات پرآاقا ہویا غلام، دہقان و یا ھونپڑی میں رہتا ہوجمیں اپنی کسان ہو یا دولت سے بھرے محلوں میں، وہ

ناخواندہ یا سائنسداں ہو یا کہ گدا، ڈاکٹر،عالم، انجینئر کہ سکندر، شاہ ہو ذیشان، قلندر ہو امیر سادھا ملازمت پیشہ انسان۔ ان کی زندگی کے تمام گوشے، سکھ دکھ، اونچ نیچ، دھوپ سیدھا

آاپ کو ان میں ایک ایسی دلربائی چھاؤں یہاں تک کہ فرط انبساط اور دلفگار غم میں بھی مناجات کے منکر لوگوں سے بالکل جدا اور پرکشش و حمد آائے گی جو یکساں کیفیت نظر

آائے گا۔ یہ ہر حال میں جلال یکساں نظر قلب مطمئنہ کا آائے گی اور ان کے چہروں پر نظر رحیم کے احسان کو اللہ کہہ کر اس رحمن و الحمد خرم ہیں تو راضی بہ رضا رہیں گے۔ خوش و اس وقت بھی فرخندہ جبیں مشکلات میں گھرے ہوئے ہونگے تو جتائیں گے اور اگر مصائب و

یی کہہ کر اپنے صبر سے مرضی مولا از کریں گے۔ یہی بات انہیں کفر استقامت کا اظہار و ہمہ اول

Page 13: Adab MenHamd o Munajat

و دعا اور حمد حاصل عبادت ہے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو شرک سے بچائے رکھتی ہے جو و پر دعائیں پڑھتے ضرور ہیں لیکن ان کی روحانی صرف روایتی طور مناجات کے منکر ہیں یا

یی، با اثر آاپ زندگی کے کسی بھی اعل ضرورت، اہمیت اور مطالب سے ناواقف محض ہیں انہیں راحت میں مطمئن تونگری میں بام عروج پر، یہ کبھی سکون و با اقتدار حالت میں دیکھئے یااور آائیں گے کیونکہ ان کے دلوں میں ایک اللہ کے ڈر کی بجائے اس دنیائے فانی کے نظر نہ

انہیں ہمیشہ بے چین رکھی ہے جو سینکڑوں ڈر، خوف، دہشت، وحشت اور وساوس نے جگہ بنا سربستہ راز یہ ہے اور بے قرار رکھتی ہے۔ بمقابلہ ان کے اہل دعا کی مطمئن اور پراعتماد زندگی کا بڑا

خوف اور دل میں بسالو اور دنیا کے سارے مادی ڈر محبت کو اور کہ بس ایک اللہ کے ڈر کاسۂ گدائی لے در در اور مانگنا ہو وہ اسی خالق کائنات سے مانگو وحشت سے نجات پالو۔ جو

سے بے نیاز کر پھرنے سے بچے رہو، ساری توقعات اسی رب کریم سے وابستہ رکھ کر ساری دنیا:ل کہو کہہببانگ د ا ور ہو جاؤ

دامن حسن ازل ہے جس کے قبضے میں مدام

اس کے ہاتھوں میں خدائی قبضے میں مدام

آاستان ناز پر جس کی جبیں ہے سجدہ تو کیا

اس کو کوئی تاج سلطانی بھی پہنائے تو کیا؟

آان حکیم کی حسب ذیل یہ انداز زندگی اللہ کے انہی نیک اور مخلص بندوں کو حاصل ہے جو قر :آایات پر ایمان لائے ہوئے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں

(۶۲قبول کرتا ہے بے بس بے قرار کی، جب وہ اسے پکارتا ہے )سورۂ نمل: )اللہ(دعا(۱)

(۶۰قبول کروں گا۔ )المومن: رب نے کہا مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا(۲)

(۷۷نہ مانگو۔ )الفرقان: نہیں کرتا، اگر تم دعا کہیے کہ میرا پروردگار تمہاری پروا(۳)

اپنی عبادت کے بعد اللہ رب عبادت کی روح اور مغز ہے۔ وہ بندے جو پر مناجات دعا اور حمد و انکسار اور خلوص دل سے مناجات اور اپنی عافیت کے لیے و ناظر جان کر عجز حاضر و العزت کو

یی نہ ان کی توصیف بیان نہیں کرتے تو دعا نہیں مانگتے اس مالک حقیقی کی تعریف و اللہ تعال

Page 14: Adab MenHamd o Munajat

یلہی میں مغرور، خود نیاز کا و نماز و عبادت کا محتاج ہے نہ ان کی نذر بلکہ ایسے لوگ بارگاہ ایی ہمیں حمد و سر، گستاخ، بے ادب، بے روح و مردہ انسان کی مصداق ہیں۔ نہ صرف اللہ تعال

نن بھی ہمیں ہدایت دیتے ہیں مناجات کرنے کی تاکید دیتا ہے بلکہ ہمارے پیغمبر خاتم المرسلی:کہ

ایک گمراہ ہے سوا اس کے جس کو میں ’’اللہ نے فرمایا ہے کہ میرے بندو! تم میں سے ہر کہ میں تمہیں ہدایت دوں۔ میرے بندو! تم ہدایت دوں۔ پس تم مجھ ہی سے ہدایت طلب کرو

میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے ہی روزی میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوا اس شخص کے جس کو ہے سوا اس کے جس کو میں ایک ننگا مانگو تومیں تمہیں روزی دوں۔ میرے بندو!تم میں سے ہر

تاکہ میں تمہیں پہناؤں۔ میرے بندو!تم رات میں بھی گناہ پہناؤں۔ پس تم مجھ ہی سے لباس مانگو میں تمہیں بخش دوں گا۔ ‘‘ )صحیح دن میں بھی۔ مجھ ہی سے مغفرت چا ہو اور کرتے ہو

مسلم(

یلہی میں مناجات کرنے کے لیے یہ اللہ کے مقربین اور صالحین بندوں کا یہ کہنا ہے کہ بارگاہ ایی سے ہو اور اپنے مدعائے دل کے مطابق اللہ ضروری ہے کہ اس کی شروعات حمد باری تعالیی کو یی کے مختلف اسمائے حسن آان حکیم بھی ایسے ہی طرز تعال بیان کی بھی دہراتے رہیں۔ قر

ئª قدیر‘‘ تسلیم کر تلقین کرتا ہے۔ مناجات کا اسلوب ایسا ہو کہ اس میں بندہ اللہ کو ’’علی کل شی مدعائے دل کچھ کے اپنی عاجزی، انکسار، بے کسی اور مجبوریوں کا اظہار کرے اور پھر اپنا

آا ایسے خشوع و خضوع اور دل گداز انداز میں پیش کرے کہ اللہ کو جائے۔ اس بندۂ عاجز پر رحم یی نے بذات خود برائے تعلیم و آان حکیم میں اللہ تعال آایات اور حمد و قر تربیت ایسی ان گنت

ایسا مقام ارفع حاصل ہوا ہے مناجات کے مکمل مرقع پیش کئے ہیں جن میں سے سورۃ فاتحہ کو نفل ہو، ان کی شروعات اسی سورۃ فاتحہ سے ہونی فرض ہو یا واجب و نماز چاہے وہ سنت و کہ ہر

دلکش اور بڑا مناجات دونوں کا اور چاہئے ورنہ وہ نماز ناقابل قبول ہو گی۔ کیونکہ اس میں حمدنم نے فرمایا بب سے روایت ہے کہ نبی کری :روحانی امتزاج ہے۔ حضرت ابی بن کع

آان ہے اس جیسی افضل کوئی سورۃ نہ اس سے پہلے توریت میں نازل ہوئی اور نہ ’’سورہ فاتحہ ام القرانجیل میں ‘‘ )ترمذی(

Page 15: Adab MenHamd o Munajat

:اسی سورۃ فاتحہ کی عظمت سے متعلق اللہ رب العزت نے فرمایا

آان۔ آایتیں، بار بار دہرائے جانے والی اور قر نی(ہم نے دی ہیں تجھ کو سات ’’)اے میرے پیارے نب(۸۷‘‘ )الحجر:

آایات سے متعلق حدیث قدسی ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے :اسی سورۃ فاتحہ کی

یی فرماتا ہے کہ میری تعریف کی۔ اور ’’جب کوئی نمازی الحمداللہ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ تعالیی فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری توصیف کی جب نمازی الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعال

یی فرماتا ہے کہ میرے بندے اور جب نمازی مالک یوم الدین کہتا ہے تو نے میری بزرگی اللہ تعال ایاک نستعین پڑھتا ہے تو کر دئیے۔ نمازی جب ایاک نعبد و بیان کی اور اپنے سب کام میرے سپرد

وہ اس معاملہ ہے۔ میرا بندہ جو سوال کرے گا آاپس کا اللہ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کا جب نمازی یہ پڑھتا ہے اھدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیہم غیر کو ملے گا۔ پھر

المغضوب علیہم ولا الضالین۔ تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ سب میرے اس بندے کے لئے ہے اور یہ جوآانی مناجات کا یہ بھی ایک انداز ہے جو کچھ طلب کرے گا دور حاضر وہ اسے دیا جائے گا۔ قر

خواہی معلوم ہوتی ہے۔ کی فریاد اور داد

بھول جائیں ہم۔ پروردگار! اور ہم پر ویسا بوجھ نہ رکھنا ’’پروردگار!ہماری گرفت نہ کرنا، اگر٭ جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اور ہمیں معاف کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم

(۲۸۶فرما۔ ‘‘ )البقر: ظالم کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد مالک ہے۔ تو کر تو ہی ہمارا

آازما٭ ان کافروں سے۔ دے ہم کو زور اس ظالم قوم کا اور چھڑا پر ہم ’’اے رب ہمارے نہ (۸۵‘‘ )یونس:

ہی زبردست حکمت معاف کریا اللہ تو ہم کو اور ’’اے اللہ مت جانچ ہم پر ان کافروں کو٭(۵والا ہے۔ )الحشر:

ن یلہی میں پیش کی تھی۔ )طبری و یہ سب التجائیں رسول ا کرم مودودی( نے معراج میں بارگاہ ا

آالودہ مشکلات میں پیش کی جانے والی و روزمرہ کی زندگی میں روز شب پڑھی جانے والی اور قہر آانی مناجات اور وہ ادعیہ ماثورہ جو نم سے منقول ہیں بڑی افادیت کی حامل ہیں جس سرکار دو قر عال

یلہی میں صدق دل سے خشوع و و مومنین کا جاننا ہر مومنات کے لئے بہت ضروری ہے۔ بارگاہ ا

Page 16: Adab MenHamd o Munajat

خضوع کے ساتھ مناجات کرنے اور ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگنے کی فضیلت سے متعلق صحیح ابن ماجہ میں ایسی بیسیوں حدیثیں ہیں۔ ان میں سے صرف چند بخاری، مسلم اور ترمذی و

:ترجمہ ملاحظہ فرمائیے حدیثوں کا

نم نے فرمایا دعا(۱) آان کریم کی یہ نبی کری آاپ نے بطور دلیل قر مانگنا بعینہ عبادت کرنا ہے پھر میں تمہاری دعا قبول کرو مانگا آایت تلاوت فرمائی:)ترجمہ( ’’اللہ نے فرمایا ہے مجھ سے دعا

راہ تکبر(مجھ سے دعائیں نہیں مانگتے عبادت سے سرتابی کرتے لوگ )از کرونگا۔ بے شک جو‘‘ خوار ہو کر۔ ہیں وہ ضرور جہنم میں داخل ہوں گے ذلیل و

فائدہ نہیں دیتی۔ ہاں قدر سے بچنے کے لئے کوئی تدبیر و رسول اللہ نے فرمایا:قضا(۲)آافت و نازل ہو چکی اور اس مصیبت میں بھی جو مصیبت میں بھی نفع پہنچاتا ہے۔ جو اللہ اس

ہوتی ہے کہ اتنے میں دعا اس سے جا نازل ہونے کو ابھی تک نازل نہیں ہوئی اور بے شک بلا کی بدولت اس انسان دعا ملتی ہے۔ پس قیامت تک )بلا اور دعا( میں کشمکش ہوتی رہتی ہے۔ )اور

( بلاسے بچ جاتا ہے۔

نن نے فرمایا:جو(۳) یی سے دعا شخص)از خاتم المرسلی نہیں مانگتا اللہ اس راہ تکبر( اللہ تعال سے ناراض ہوتا ہے۔

نت نے ارشاد(۴) یی اس کی دعائیں سختیوں اور فرمایا:جو آاں حضر شخص یہ چاہے کہ اللہ تعال چاہئے کہ فراخی اور خوشحالی میں بھی کثرت سے دعا مصیبتوں کے وقت قبول فرمائے اس کو

مانگا کرے۔

نم نے ارشاد فرمایا(۵) آاسمان و زمین ہتھیار ہے، دین کا مومن کا کہ:دعا رسول ا کر ستون ہے اور کانور۔

جلیل القدر اولیاء کے ملفوظات میں اس بات کی وضاحت نہایت ہی تفصیل سے کی گئی ہے کہآانے والی مختلف ضرورتوں کے حل، بہت سی رکاوٹوں سے اللہ کے بندوں کو زندگی میں پیش

آاسمانی و زمینی نجات اور اپنی کئی جائز تمناؤں کی حصول یابی کی حاجت ہوتی ہے۔ اسی طرح دفع کی خاطر بے چین و بے غارتگری کے تدارک و فساد اور قتل و آافات، مشکلات، بلیات، فتنہ و

آانی دعاؤں کے ساتھ حسب موقعہ ایسی بے شمار دعائیں اور قرار رہتے ہیں انہیں چاہئے کہ قر

Page 17: Adab MenHamd o Munajat

نم سے منقول ہیں انہیں بطور دعا سرکار دو مناجات احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں جو عالآافات کے انسداد کے لئے مناسب عملی جدوجہد بھی آامدہ ان پڑھیں اور ساتھ ہی ساتھ پیش

آانی دعائیں تو اللہ کا نہ کا جاری رکھیں۔ چونکہ قر کلام ہے۔ کلام ہیں ہی اور دعائیں ماثورہ حبیب الل اس سے بڑھ کر پر اثر، مقدس اور معتبر کلام اور کس کا ہو سکتا ہے اس لئے ہدایت ہے کہ اپنی

آان اور ادعیہ ماثورہ ہی سے اخذ کر کے اور ان کے تراجم کو حسب ضرورت دعائیں اور مناجات قراا بعد و دل مانگی جائیں۔ جن میں قبولیت کا اثر بدرجہ غایت دماغ میں رکھ کر نماز کے فور

نل کا کلام مقدس ہے۔ ہوتا ہے کیونکہ یہ اللہ و موجود رسو

گھر پر ہر شخص کی ضروریات اور مشکلات مختلف ہوتی ہیں وہ اپنی دعائیں مسجد یا انفرادی طور کردار کے پیش نظر پر مانگ سکتا ہے۔ لیکن امت اسلامیہ کے اجتماعی اعمال و میں علیحدہ طور

جماعت نماز کے بعد امام مسجد کو با مستحکم کرنے کے لیے ہر مربوط و ان کی اجتماعیت کو خضوع کے ساتھ حسب ضرورت اجتماعی دعائیں آاواز بلند نہایت ہی خشوع و چاہئے کہ بہ

نم آامین کہیں۔ یہ اجتماعی عمل نبی کری آامین ثم آاواز بلند مانگے اور دعا کے اختتام پر تمام مقتدی بہ نے جنگ بدر، جنگ احد اور جنگ احزاب)خندق( کے علاوہ تمام غزوات سے پہلے مجاہدین

نل کی ایک بہت بڑی اور اہم کڑی بم کے ساتھ مل کر کیا ہے۔ یہ اجتماعی عمل سنت رسو صحابہ کراآانی اسرار اور روحانی رموز کا ایک ایسا بحر پتا کا بیکراں ہے جس کے اور چھور ہے۔ جس میں قر

نک میں مرقوم ہے کہ ایسے قہر چلانا آالودہ حالات میں مشکل ہے۔ کتب اور احادیث اور سیرت پانپ نے ہر فجر کے فرض نماز کی دوسری رکعت میں رکوع سے اٹھنے کے بعد کھڑے نماز آا

کھڑے دعائے قنوت نازلہ پڑھ کر سجدے میں جانے کی ہدایت کی ہے )مزید تفصیلات کے لئے فلسفہ ربانی ہے اپنے امام مسجد سے پوچھ لیجئے ( اجتماعی حمد و مناجات کا یہی تو وہ پراسرار

حاضرہ کے انتہائی تباہ کن حالات میں بھی اپنے ایمان دور جس نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو قائم اور مستحکم رکھا ہے۔ یقین پر و

اا یہ ایک علمی خیانت میں حسب ذیل افسوس ناک واقعہ یہاں نہ لکھوں تو اس ضمن میں اگر یقین سے گزر رہے ہو گی۔ قارئین اسے غور سے پڑھیں اور سوچیں کہ ہم تاریخ کے کس ہیبت ناک دور

ہے اور وہ ہمیں اس کھٹکنے لگا طریقہ عبادت اور اجتماعیت بھی اب دیگر اقوام کو ہیں کہ ہمارا ء میں۲۰۰۲ھ ماہ فروری ۱۴۲۳سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے حج بیت اللہ کے دوران ذی الحجہ

Page 18: Adab MenHamd o Munajat

قیام مکہ معظمہ میں رہا۔ مناسک حج کی تکمیل کے بعد میرے بیشتر مکمل ایک مہینے تک میرا اوقات کعبۃ الہ ہی میں گزرے۔ اس دوران جملہ نماز پنج گانہ بشمول نماز جمعہ امام کعبہ ہی کے

امریکہ کے پہلے تھا کہ عراق پر میں پڑھی۔ یہ عالمی سیاست کا ایک ایسا تکلیف دہ دور اقتدا حملے کے زخم ابھی تازہ ہی تھے اور دوسرے تباہ کن حملے کی تیاریاں جاری تھیں۔ امریکی بمباروں سے افغانستان خون میں سراپا غلطاں ہو چکا تھا۔ فلسطین کے مسلمانوں پر صیہونی

آا رہی تھیں۔ عذاب کی خبریں ہر روز فروری سے ہندوستان میں گجرات کے ۲۸اخباروں میں مسلمانوں کے قتل عام کی خبروں نے تمام زائرین حرم کو بے چین کر رکھا تھا۔ مذہب اور دل کا

امام کعبہ بھی ان مصیبت زدہ مسلمانوں کی نجات اور راحت کے کہ نماز کے بعد تقاضہ بھی تھا لئے رب کعبہ سے گڑگڑا کر دعائیں مانگے لیکن میرے لئے یہ بات انتہائی روحانی اذیت کا

باعث بنی رہی کہ امام کعبہ نے اس ایک مہینے میں کسی ایک نماز میں بھی اس عالمی قتل ویی سے اجتماعی دعائیں نہیں مانگیں۔ امام کعبہ کی اس غارت گری کے انسداد کے لئے اللہ تعال

معتبر مقامی حضرات سے میں نے جب وہاں کے مقتدر و شرعی حرکت پر غیر متوقع اور غیر ء میں ایران میں اسلامی۱۹۷۹کہ فروری میں بتایا انھوں نے بڑے رازدارانہ انداز تو استفسار کیا

آانے کے بعد اس کے اثرات کو وسیع ہونے سے روکنے کے لئے امریکہ نے سعودی انقلاب اا دی کہ حج بیت اللہ ہر سخت تاکید حکومت کو اا وقول مسلمان کی انفرادی عبادت ہے اسے عمل

عالمی اجتماعیت سے بچائے رکھے۔ اس لئے اس تعلق سے کعبۃ اللہ میں اب اجتماعی دعائیں کیا ہے۔ میں نے اپنی نہیں ہوتیں !گویا سعودی حکومت نے کعبۃ اللہ میں بھی امریکہ اسلام نافذ

پر ’’حج بیت اللہ میں اجتماعی دعاؤں کی ۱۰۲تازہ تصنیف ’’سرود جاوداں ‘‘ کے صفحہ اہمیت‘‘ کے عنوان سے اس موضوع پر ایک توجہ طلب مضمون لکھا ہے۔

ملسو هيلع هللا ىلصمصطفی مدینہ محمد مناجات کی اہمیت اور اس کے روحانی اثرات سے متعلق سرکار ہیں جن کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اسی نقطہ نظر کی حیات طیبہ میں کئی تاریخی واقعات موجود

سے بڑی گہری فتن دور آاج کے حوصلہ فرسا اور پر بھی پڑھئے جو سے اس تاریخی واقعہ کو :مماثلت رکھتا ہے

ھ میں مدینہ منورہ کے اطراف کے یہودیوں، منافقوں اور مکہ کے قریشیوں نے ایک۵شوال عددی اور عسکری لحاظ سے یہ لشکر کفار حملہ کر دیا لشکر جرار لے کر مدینہ منورہ پر بہت بڑا

Page 19: Adab MenHamd o Munajat

بی کے اہل مدینہ کے مقابلے میں کئی گناہ بڑھ چڑھ کر نم نے حضرت سلمان فارس تھا۔ نبی کری محفوظ کر میں محصور و شہر کر مسلمانوں کو مشورے سے شہر مدینہ کے اطراف خندق کھود

ہے۔ ان احتیاطی تدابیر کے باوجود لیا تھا۔ تاریخ میں یہ غزوۂ احزاب یا خندق کے نام سے مشہور کہ ان کی نقل و سے گھیر رکھا تھا سمت سے کچھ ایسے انداز نے مسلمانوں کو ہر افواج کفار بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ایسے مشکل اور ہمت شکنی حالات میں بھی اللہ رب العزت نے حرکت کرنا

نر پر نر اور مسلمانوں نہ صرف بذریعہ وحی حضو آایات حمد و مناجات نازل فرمائی بلکہ حضو مندرجہ ذیل کی ہمت افزائی اور انہیں مصیبت میں ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے ہوئے یہ تاریخی خوش خبری

بھی سنائی کہ یقین رکھو مسلمانوں کی سلطنت وسیع ہو کر ایک طرف روم اور دوسری طرف فارسآایات یہ تھیں آانی حمد و مناجات کی :تک پہنچ جائیں گی۔ قر

جسے چاہے ملک دے دیتا ہے اور جس سے مالک ہے تو ہی ملک کا ’’)ترجمہ(اے اللہ! تو چاہے ملک چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے۔ تیرے

قادر ہے۔ تورات کودن میں بدل دیتا ہے اور پر چیز ہی ہر ہی ہاتھوں میں بھلائی ہے۔ بے شک تو زندہ سے اور جسے چاہتا ہے بے مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو دن کو رات میں۔ تو زندہ کو

(۲۷۔ ۲۶حساب رزق دیتا ہے۔ ‘‘ )العمران:

نہ خضوع کے ساتھ پڑھتے تھے آاواز سے بڑے خشوع و بلند یہ دعا نماز کے بعد ہر سلطان مدینآامین کہتے تھے۔ بہ اور سارے مقتدی صحاب

عرصہ ہو چکا تھا کہ دن سے زیادہ کا ۲۵کے محاصرے کو مورخین لکھتے ہیں کہ افواج کفارآائی جس میں سردی اور کڑک اور چمک بھی آاندھی یلہی سے اچانک ایک رات سخت حکم ا

آاندھی کے زور کہ ہاتھ کو غضب کی تھی اتنا اندھیرا تھا سے دشمنوں ہاتھ نہ سجھائی دیتا تھا۔ یہ کاری وار کے خیمے الٹ گئے اور ان کے اندر شدید افراتفری برپا ہو گئی۔ قدرت خداوندی کا

میدان وہ سہ نہ سکے۔ راتوں رات ہر ایک نے اپنے گھر کی راہ لی اور صبح جب مسلمان اٹھے تو نہ تھا۔ میں ایک بھی دشمن موجود

بن ویں صدی عیسوی کے معروف علامہ امام محمد ۱۴کا ایک اور تاریخی واقعہ بالکل اسی انداز حصن حصین‘‘ )مضبوط قلعہ( میں لکھا ہے ’’محمد الحزری شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تالیف

Page 20: Adab MenHamd o Munajat

کہ میری کتاب کی تالیف مکمل ہوتے ہی ہماری پرامن بستی اچانک خونخوار تیموری افواج کےآا گئی۔ ہم ایک غیر غارت گری پر ہو گئے۔ قتل و فوجی چھوٹے سے قلعے میں محصور نرغے میں لیا۔ اب قلعے میں پناہ گزیں نہتے لوگوں چاروں طرف سے گھیر آامادہ تیموری فوج نے قلعے کو

کہ ہم بے کے پاس اس مصیبت سے نجات پانے کے لئے سوا اس کے کوئی اور حل نہیں تھا چرا ظالم تیموریوں کے ہاتھوں قتل ہو جائیں کیونکہ نہ ہم فوجی مزاج کے لوگ تھے نہ چوں و

آالات حرب تھے۔ اس بلائے ناگہانی سے نجات پانے کے لئے مقابلے کے لئے ہمارے پاس قلعے میں محصور لوگوں کے ساتھ میں نے بھی اپنی کتاب میں مرقومہ مناسب اور حسب حال

یی سے راہ نجات کے لئے اجتماعی دعائیں مانگتے دعائیں ماثورہ کا ورد شروع کیا اور اللہ تعال ہوا کرتا تھا۔ رہے۔ ہماری مناجات کا اختتام کچھ اس طرح کی مناجات پر

نم۔ اے اللہ تیرے یہ محتاج بندے کلمہ توحید کا یی رسولہ الکری ہہ ونصلی عل وسیلہ لے کر تیری نحمدآائے ہیں۔ ہم تیرے کرم کے امیدوار ہیں تیرے سوا آازار بارگاہ میں ہمیں اس ظالم اور مردم

کرم افواج)تیموری( سے کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اس ناگہانی مصیبت میں ہم پر لطف و وسیلہ بنایا ہے۔ کرنے کا رد کے قضا کو ثنا کرتے ہیں اس اللہ کی جس نے دعا و فرما۔ ہم حمد

کہ ایک روز خواب شب جاری تھا کہنا ہے کہ ہمارا یہ اجتماعی عمل ہر المختصر مولف کتاب کانا کی زیارت ہوئی۔ میں نے دیکھا نر میں سردار انبی اقدس کے بائیں جانب بیٹھا ہوا کہ میں حضو

اس کی دائیں اپنی پناہ میں لیتا ہے خود ہوں )عربی روایات کے مطابق پناہ دہندہ جس شخص کو میں حال پوچھنے پر طرف ہو جاتا ہے اور اس کو اپنی بائیں جانب لے لیتا ہے ( ہماری مصیبت کا

نر مقابلہ نہیں کر سکتے ناتواں اس ظالم قوم کا ہم کمزور و نے نہایت ہی ادب سے کہا کہ حضونہ نے ہمارے لئے فرمائیے تو ہمارے لئے ان مصائب سے نجات پانے کی اللہ سے دعا رسول الل

کہ دشمن کی۔ جمعرات کی شب میں نے یہ خواب دیکھا اور اتوار کی رات کونہ معلوم کیا ہوا دعا کر بھاگ گئے۔ )یہ واقعہ مختلف کتابوں میں مختلف تفصیلات کے ساتھ محاصرہ چھوڑ قلعے کا

( لکھا گیا ہے۔

فرار ہو گیا اور کر کفار میدان جنگ چھوڑ جنگ لڑے جب لشکر بہرکیف غزوۂ احزاب میں بغیربم کو سالار جنگ سلطان مدینہ محمد نی اور مجاہدین صحابۂ کرا یی کی بروقت مصطف بھی اللہ تعال

مالک کائنات نے ان پریشان کن اور تکلیف دہ واقعات کی تو غیبی پرسکون قلب حاصل ہوا امداد

Page 21: Adab MenHamd o Munajat

ہہ سے امداد طلبی کی افادیت کو واضح کرتے ہوئے سورہ احزاب یاددہانی کراتے ہوئے اللہ جل شانآایات کو آایات مقدسہ کا کی ان آاپ ان کی شان نزول کو نازل فرمایا۔ ان ترجمہ پڑھنے سے پہلے

آا یلہی کی یہ شرطیں بھی بھی ملاحظہ فرمائیں تاکہ مناجات کرنے والوں کے ذہن میں قانون ا جائیں کہ اپنے مقاصد کی حصول یابی کے لئے حتی الامکان جدوجہد، ثابت قدمی، مومنانہ

گہری گستری پر یقین اور حالات کے تقاضوں پر شک و شبہات اللہ کی داد حکمت، بلا فراست و بھی ضروری ہے۔ جیسے سرور کائنات نے غزوۂ احزاب اور صلح حدیبیہ کے وقت اپنی نظر کا ہونا

آافات کو اجتماعی نقطہ نظر حکمت کا مومنانہ فراست و سے مظاہرہ کیا تھا۔ اجتماعی مصائب اور آاپ ہندوستانی مسلمانوں خروش سے نہیں۔ اگر اس نقطہ نظر چاہئے انفرادی جوش و ہی دیکھنا سے

یہ جان کر بربادی کا گہرا مطالعہ اور محاسبہ کریں گے تو کے مصائب اور عالم اسلام کی تباہی و نظر سے حل کرنے کی بجائے انفرادی انا و کہ ہمارے بیشتر مسائل اجتماعی فکر بڑا افسوس ہو گا

اا سوا نقصان کے ہمارے ہاتھ کچھ نہ اور بدحواس جوش و خروش کے حوالے کئے گئے اور نتیجتیلہی میں ایمان باللسان کے ساتھ تصدیق بالقلب اور منزل مقصود کی سمت لگا۔ المختصر مناجات ا

گامزنی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ عزم پر

آایات کاشان نزول بھی ملاحظہ فرمائیے جواس وقت کے منکرین دعا کی منافقانہ سورۂ احزاب کی آافرینی کو آان اور سیرت نگاروں نے مناجات کی روحانی اثر حرکتوں سے متعلق ہے۔ تمام مفسرین قر

تفصیل سے بیان کیا ہے۔ بطور اختصار یہاں ہم ’’مشتے نمونہ از ظاہر کرنے کے لئے اس واقعہ کوآان کا ایک مختصر سا خروارے ‘‘ کے مصداق مولانا سید یی مودودی کی تفسیر تفہیم القر ابولاعل

:آافرینی‘‘ کے لئے کافی ہے مناجات کی اثر ’’ہمارے موضوع اقتباس پیش کرتے ہیں جو

آائی تھی جبکہ دشمنوں کے لشکر مدینے پر آاندھی اس وقت نہیں آائے تھے۔ بلکہ اس ’’یہ چڑھ آائی تھی جب محاصرے کو اا ایک مہینہ گزر وقت آانے والی ’’فوجوں ‘‘ سے تقریب چکا تھا۔ نظر نہ

یی کے اشارے پر مراد وہ مخفی طاقتیں ہیں جو کام کرتی رہتی ہیں اور انسانی معاملات میں اللہ تعال حوادث کو صرف ان کے ظاہری اسباب پر تک نہیں ہوتی۔ انسان واقعات و انسانوں کو ان کی خبر

پر جو قوتیں کام کرتی ہیں وہ اس کے محسوس طور ہی اندر غیر محمول کرتا ہے لیکن اندرآاتیں، حالانکہ اکثر حالات میں انہی مخفی طاقتوں کی کارفرمائی فیصلہ کن ثابت حساب میں نہیں

Page 22: Adab MenHamd o Munajat

یی کے فرشتوں کی ماتحتی میں کام کرتی ہیں، اس لئے ’’فوجوں ہوتی ہے۔ یہ طاقتیں چونکہ اللہ تعال‘‘ سکتے ہیں۔ ‘‘ سے مراد فرشتے بھی لئے جا

آاندھی تو یلہی دشمنوں کے محاصرے کے دوسرے یا یہ آا سکتی تھی بحکم ا تیسرے دن بھی یی کو چونکہ ان کمزور ایمان والوں کو کرنا اجاگر جانچنا اور منافقین کی حرکتوں کو لیکن اللہ تعال

آانسو اور آانکھوں میں بے بسی کے تھا)جیسا کہ عراق پر امریکہ کے حملے کے دوران ہماری فف کی طرح کامیابی کی منافقانہ مسکراہٹ نمایاں تھی( بیشتر عرب مملکتوں کے لب پر برادران یوس

آایات جو آان کی دعائیہ مجاہدین اسلام کی صفوں میں گھس کر فکری انتشار پھیلا رہے تھے اور قر مضحکہ خیز بتا کر مسلمانوں کو محاذ جنگ سے پرے ہٹ کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ کو

آانے کی ترغیب دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ مختلف بہانے بتا کر کئی لوگ اس اندیشے کےآائے کہ اب مسلمانوں کو افواج پیش نظر صادق العقیدہ مسلمانوں کی صفوں سے یہ کہہ کر نکل

نہ مجاہدین عالم سرکار نہیں سکتا اور یہ کہ سرور کے ہاتھوں شکست فاش سے کوئی بچا کفار مدین فارس فتح کرنے کی جو خوش کن پیشن گوئیاں اسلام کو ایسے تشویشناک حالت میں بھی روم و

میں باللہ( دھوکا اور فریب ہے۔ دعا مناجات کے منکرین موجودہ دور کر رہے ہیں وہ محض)نعوذ بہکا رہے ہیں کہ اب دعا و مناجات میں اثر بھی یہی حرکتیں کر کے سادہ لوح مسلمانوں کو

مناجات کی شرعی شرائط سے نہ واقف ہیں اور نہ اس کی و لیکن یہی لوگ قبولیت دعا نہیں رہا:تعلیم دیتے ہیں انہی کے لئے علامہ اقبال نے کہا ہے کہ

’’رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی‘‘

آایات کا آانی :ترجمہ یہ ہے مذکورہ قر

جو)ابھی ابھی( اس نے تم پرکیا ہے اللہ کے احسان کو کرو ایمان لائے ہو یاد ’’اے لوگو!جوآائے توہم نے ان پر جب لشکر تم پر آاندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں چڑھ ایک سخت

آاتی تھیں۔ اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جوتم لوگ )کھلے چھپے (اس وقت کر جوتم کو نظر نہ نجد اور خیبر اور نیچے مکہ معظمہ( تم پر رہے تھے۔ جب وہ اوپر سے اور نیچے سے )یعنی اوپر

آانکھیں پتھرا گئیں۔ کلیجے منہ کو آائے۔ جب خوف کے مارے آا گئے اور تم لوگ اللہ کے چڑھ آازمائے گئے۔ ‘‘ بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اس وقت ایمان لانے والے خوب

Page 23: Adab MenHamd o Munajat

یلہی میں بصد خلوص، مناجات کرنے اور اس مجیب الدعوات کی جانب سے شرف قبولیت بارگاہ ا قارئین کی طمانیت قلب کی خاطر یہاں پیش تاریخی واقعات تھے جو حاصل کرنے والے یہ چند

کئے گئے ہیں۔ اگر رسالے کے صفحات میں اتنی گنجائش، راقم الحروف کے قلم میں توانائی اللہ کے مقربین و اور اس کے قبضہ قدرت میں حسب ضرورت ایسی ہی فرصت کی فراوانی ہوتی تو

کر کے یہاں پیش کئے جا صالحین کے ملفوظات سے ایسے سینکڑوں تاریخی واقعات اخذ نمایاں کرنے کے سکتے تھے۔ لیکن اب ہم دعا اور حمد و مناجات کے ان خارجی پہلوؤں کو

آاپ چاہتے ہیں۔ اگر مختصر کرنا بعد ان کے داخلی روحانی گوشوں پر روشنی ڈال کر اپنی بات کو بیان میں ایک خاصی قابل قدر ان کے طرز سے پڑھیں گے تو کسی بھی حمد و مناجات کو غور

آاپ کو نظر نہ کی بیشتر دعائے مسنونہ کاے آائ روحانی بات آان حکیم اور رسول الل آاغاز لفظ گی کہ قرھھم‘‘ یا’’ ی¸ل ربنا‘‘ سے ہوا ہے۔ دونوں الفاظ کے معنی اے ہمارے پیارے اللہ ہے اور مناجات ’’ال

بھی داخل کیا گیا ہے۔ شامل کرنے کے لئے حسب حال اسماء الحسنی کو ثنا کو و میں حمد یہی حمد و مناجات کے ایسے روحانی سرچشمے ہیں جن سے فیوض و برکات کی نورانی کرنیں

آائیے ہم ان الفاظ کے ہمیشہ جھلکتی رہتی ہیں اور اہل دعا انہی سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔ :بھی سمجھنے کی کوشش کریں گے روحانی رموز کو

آان وءاسما یی کے صفاتی نام ہیں جن کا ذکر قر یی:یہ اللہ تعال آایا ہے۔ عام طور الحسن حدیث میں بھی ۱۵۸ پرسب علمائے دین کا اتفاق ہے۔ جبکہ بعض علماء کے نزدیک یہ تعداد ۹۹ان کی تعداد پر

آان مجید میں ان ناموں کے بارے میں ارشاد ہے سے لے کر ایک ہزار :تک بھی ہے۔ قر

(۱۸ ’’اللہ کے سب نام اچھے ہیں اس لئے اسے اچھے ہی نام سے پکارو۔ ‘‘ )اعراف:

مذہب ہے جس نے یہ تمام نام اللہ کی ذات لاشریک ہی کی غمازی کرتے ہیں۔ اسلام وہ پہلایی اس خدائے واحد کی ذات کی تبلیغ کی اور اسے ’’اللہ‘‘ کہا یہ اس کا ذاتی نام ہے۔ امام غزال

یی کے جو آان و بات کو بہتر نہیں سمجھتے کہ اللہ تعال حدیث میں مروج ہیں ان کے صفاتی نام قر صفاتی نام تشکیل دے۔ اس میں خطرہ ہے۔ اسماء علاوہ بھی کوئی بندہ اپنی جانب سے کوئی نیا

یی کے شارحین اور صوفیائے کرام کی ہدایت ہے کہ مناجات کرتے وقت بندہ اپنے حسب الحسن پر مناجات میں شامل کرے۔ عربی کے ثنا کے طور و بھی حمد حال اللہ کے صفاتی ناموں کو

خضوع لہجہ میں خشوع و اس کے لب و سکتی ہے مگر علاوہ اپنی زبان میں بھی حمد کی جا

Page 24: Adab MenHamd o Munajat

بھی ثنا و کیونکہ اللہ کی حمد مصنوعی پن اور بے دلی نہ ہو انکساری بھی ہو کے ساتھ عاجزی واا کہا گیا ہے جزو ہی کا دعا یلہیات میں دعا ایک ایسی صنف ہے جس کے متعلق تاکید ہے۔ علم ا

کسی دوسری ہستی سے دعا مانگنا یا کے سوا ہی شرک نہیں بلکہ خدا سجدہ کرنا کہ غیراللہ کو یا بھی عبادت ہے۔ دعا کا قبول ہونا بھی شرک ہے کیونکہ دعا کرنا کے لئے پکارنا اس کو اپنی مدد

بہت ضروری ہے یقین ہونا اہل دعا کا ایمان و منحصر ہے۔ اس بات پر کی مرضی پر بالکل خدا نہ ہونا گمان اور خیر کی توقع رکھے اس لئے کہ رحمن چاہئے کہ وہ اللہ سے ہمیشہ اچھا البتہ بندے کو

عظمت اور کریمانہ صفات ہیں۔ و رحیم اللہ کی پر

مم(سے شروع ہوتی ہیں چونکہ یہ خالق ھھ ی¸ل آان حکیم کی بیشتر دعائیں اسی کلمہ )ال یل۔۔ ہ:قر ال۔۔ )ایک دعا اور مناجات میں اس کی حیثیت مرکزی قوت کائنات کا ذاتی نام)اللہ(ہے اس لئے ہر

Power Generator )اکمل ی و اعلی جیسی ہوتی ہے۔ اس کے معنی ہیں اے تمام تر ہہ کی در صرف کلمۂ ندا ہے۔ مگر صفات کے مالک، اس لئے یہ کلمہ بظاہر تو حقیقت اللہ جل شان

یی درجہ کی تعریف اور حمد ہے بھی اس میں اظہار انکسار کا و ثنا بھی ہے اور انتہائی عجز و اعلیی نے حمد و ثنا کے اہم ترین مواقع پر یوۃ والسلام کو اسی لئے اللہ تعال اسی اپنے نبی علیہ الصل

حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے :اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء۔ یہ نام ہے کلمے کے پڑھنے کاآان حکیم میں یہ نام اس مالک کائنات کا جو ازل سے ہے اور ابد مذکور بار ۲۶۹۷تک رہے گا۔ قر

غریب اور ایسی خاصیت بھی بتائی ہے ہوا ہے۔ اللہ کے مقربین بندوں نے اس نام کی ایک عجیب و:کی کسی اور زبان کے لفظ میں نہیں ملتی دنیا جو

ی¸لہ‘‘ کا ’’اس اسم ذات کا ایک ایک حرف اللہ کے ذاتی نام کی طرف ہی جاتا ہے۔ جیسے ’’الی¸لہ‘‘ کا لل ی¸لہ‘‘ رہ جاتا ہے اور ’’ لل ھہ‘‘ الف گرا دینے سے ’’ مل ھہ‘‘ بن جاتا ہے اور ’’ مل لام گرا دینے سے ’’

لفظ، حرف اور معنی و ھہ‘‘ رہ جاتا ہے۔ یعنی وہ ذات غیب الغیب جو ’’لام گرا دینے سے صرف کا‘‘ خیال سے پاک ہے۔

اسم اعظم تسلیم کرتے ہیں کیونکہ مذکورہ بالا صفت اس لئے بیشتر محققین دین اس اسم ذات کو دئے جائیں تو وہ ان میں سے اس طرح حرف گرا اللہ کے صفاتی ناموں میں بھی نہیں ہے اگر

کاف اسی لئے بقول حضرت اسم بے معنی ہو جاتا ہے۔ جیسے ’’رحیم‘‘ کی رے اور ’’کریم‘‘ کا تمام وصفی نام متحیر ہیں اور زبانوں کے قواعد علی کرم، اللہ کے ذاتی نام کے بارے میں دیگر

Page 25: Adab MenHamd o Munajat

عظیم ترین گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ اسی لئے صوفیائے کرام کے کئی سلسلوں میں اسی نام کو کرنے اور روحانی لطافتیں دور حمد و مناجات اور اسم اعظم قرار دے کر دل کی کثافتوں کو

کرنے کا سانس میں اسی نام کے ورد روز و شب ہر حاصل کرنے کے لئے اپنے پیروکاروں کوی¸لل‘‘ ’’لیتے وقت صرف درس دیا جاتا ہے۔ جس کی ترکیب یوں بتائی جاتی ہے کہ سانس اندر ا

ھہ‘‘ اس طرح دہرائیں کہ قریب بیٹھنے والے کہیں اور وہی سانس باہر چھوڑتے وقت اس نام کا بقیہ ’’ اللہ جاری ہے۔ اللہ کے مقربین و صالحین صوفیائے کرام نے اسی کہ ذکر کو بھی یہ معلوم نہ ہو

بھی نام دیا ہے کیونکہ یہ خفی کا ذکر کہیں حق کہا ہے تو ذکر قلبی یا کہیں ذکر عمل کو کسی تکلیف اور تکلف کے جاری رہتا ہے اور کوئی شے اس کے کرنے میں مانع نہیں عمل بلا

یر اسی کی تعریف میں کہتے ہیں ہوتی۔ حضرت فرید :الدین عطا

آامد غذا ایں روح را ذکر حق

آامد ایں دل مجروح را مرہم

ذکر اس روح کے لئے غذا ہے اللہ کا

اور اس زخمی دل کے لئے مرہم ہے

یی فرماتے ہیں حضرت مولانا اور :روم

خود چہ شیرین ست نام پاک تو

آاب حیات ادراک تو خوشتر از

تیرا پاک نام خود کتنا میٹھا ہے

آاب حیات سے بدرجہا اچھا ہے اور تیرا ادراک

آان و یی قر :یہ اعتراف ہے کہ کا حدیث کے حوالے سے خاقان

پس از سی سال ایں معنی محقق شد بخاقانی

تیس سال بعد یہ حقیقت خاقانی پر ظاہر ہوئی

دے با باد حق بودن بہ از ملک سلیمانی

Page 26: Adab MenHamd o Munajat

کہ ایک پل کے لئے اللہ کا ذکر کرنا ملک سلیمان سے بہتر ہے

یی اور حکیم سنائی نے بھی اللہ کے نام کوہی بذات خود بہترین حمد و اسی طرح حضرت سعد کیا ہے۔ عربی زبان میں یہ مناجات کہا ہے اور اسی کو ’’سلطان الاذکار‘‘ کے نام سے یاد

لفظ)اللہ( اسلام سے پہلے کسی اور ہستی کے لئے کبھی استعمال نہیں ہوا۔ یہ بھی اسی لفظ کایہ الا اللہ کے تمام حروف اور الفاظ اسی نام سے نکلتے ہیں۔ اللہ کی اعجاز ہے کہ کلمۂ طیبہ لا ال

آان کا تاریخی فتنہ سرد ہونے کے بعد بھی یونانی فلسفہ اور عجمی ذات مطلق سے متعلق خلق قر اثرات نے اگرچہ مسلمانوں کو صراط مستقیم سے بھٹکانے کی حتی الامکان کوششیں کیں

آان، محدثین عظام اور ائمہ اربعہ کو لیکن دعا کی جن دیجئے ہمارے علمائے دین مبین، مفسرین قر خوبی نبھایا۔ اب تعلیمات نے بروقت امت اسلامیہ کی رہبری کی اور اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و

نئی تحقیق سابقہ سائنسی جدید سائنس نے بھی اس امر کا اعتراف کر لیا ہے کہ موجودہ دور میں ہر حتمی مفروضات کی نفی کرنے لگی ہے اس لئے اب سائنس کے کسی بھی اصول اور قوانین کو

خالق تھا وہ بھی وجود حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اب تک جنہیں اللہ کے وجود سے بھی انکارآائن سٹائن، مشہور کائنات کو فلسفی جوڈ اور کئی ملحد تسلیم کرنے لگے ہیں۔ ان میں البرٹ

یی کو صفات آان مجید کے پیش کردہ تصور الوہیت اور اسماء الحسن سائنس داں بھی شامل ہیں۔ قریلہیہ سے تعبیر کرنے سے ذات باری کا ایک ایسا لحاظ سے مکمل، تصور قائم ہو جاتا ہے جو ہر ا

مرغوب، مطلوب اور ادراک و وجدان کے مطابق ہے اور ا س طرح ایمان باللہ ایک اصول حیات کی لیتا ہے۔ صورت میں دلوں میں گہری جگہ پا

آان و احادیث کی ان تشریحات کی روشنی میں سوچئے کہ کوئی مصیبت زدہ لفظ اللہ سے متعلق قر گویا اس فرما‘‘ تو یا اللہ!میری مدد ’’بندہ اگر اپنی لاعلمی کی وجہ سے صرف اتنا بھی کہہ دے کہ

جس کے ذاتی نے اللہ کی حمد و مناجات کی اور اس مالک حقیقی کو اپنی امداد کے لئے پکاراآان نے گنوائے ہیں۔ و صفاتی نام قر

شعور مسلمانوں کی روزمرہ کی زندگی اور اسلامی معاشرے کی اللہ‘‘ با ’’یہی وجہ ہے کہ لفظآائے تو دینی فکر کہیں اس کا خاطر خواہ عکس نظر چھایا ہوا ہے کہ اگر ایسا تہذیب و تمدن پر نہ

شبہات کی نظروں تہذیب کوشک و نظر کے حامل لوگ ان بے شعور لوگوں کے معیار دین و و رحمۃ اللہ اور وعلیکم السلام سے دیکھنے لگتے ہیں کیونکہ اس کا مظاہرہ صرف ’’السلام علیکم و

Page 27: Adab MenHamd o Munajat

ہۃ‘‘ پرہی ختم نہیں ہوتا بلکہ اسلامی معاشرے کا رحمۃ اللہ و و یہ خاصہ ہے کہ٭کسی کام کی برکا ابتدا کرے تو کہے، بسم اللہ۔ ٭وعدہ کرے تو کہے، انشاء اللہ۔ ٭کسی خوبی کی تعریف کرے تو

آائے تو کہے، جزاک للہ۔ ٭کسی سے اپنی خیر عافیت کا و کہے، سبحان اللہ۔ ٭کوئی تکلیف پیش کہے، استغفراللہ۔ ٭کسی کو تو اللہ۔ ٭جانے انجانے میں گناہ سرزد ہو کہے، الحمد ذکر کرے تو

کہے، نعوذ باللہ اور ٭اگر آائے تو پر قلم زیبا کلمات زبان و کہے،فی امان اللہ،٭نا رخصت کرے تو انا اللہ راجعون۔ وغیرہ وغیرہ۔ للہ و کہے، انا سنے تو کسی کی موت کی خبر

نا کا دعا میں سید یلہی میں دعا اور الانبی وسیلہ:دراصل یہ کوئی متنازعہ فی مسئلہ نہیں ہے کہ بارگاہ ا توحید و ’’لوگ علم نہیں ؟جو مصطفی کے وسیلے سے کی جائے یا مناجات حبیب اللہ محمد

آاشنا ہیں وہی لوگ نہ صرف دعا کے منکر رسالت‘‘ کی گہرائی و گیرائی اور اس کی بصیرت سے نانہ کا ہیں بلکہ دعا کرتے ہیں جبکہ حدیث میں ہے سفارش سے بھی انکار وسیلہ یا میں رسول الل

یی سے حجاب میں ہے جب تک مجھ پر نر نے فرمایا: ’’دعا اللہ تعال جائے۔ درود نہ بھیجا کہ حضونر کاہ‘‘ )بی صدیقین کا اسوۂ حسنہ ہے۔ ہمارے ائمۂ اربعہ اور صالحین و وسیلہ تو قی( دعا میں حضو

نم )جن پر اللہ اور اس کے فرشتے بھی درود دعا سلام بھیجتے ہیں ( کا وسیلہ لینا و میں نبی کری مخلوق کے درمیان عبادت کے لئے بعینہ اسی طرح کا ہے جیسے خانہ کعبہ کی عمارت خالق و

ہیں انہیں صرف یہ رسالت کے یہ روحانی نکات جن کی سمجھ سے بعید و رابطہ ہے۔ توحیدنر کا مختصر سی بات کہہ کر نم یہ دقیق موضوع ختم کیا جاتا ہے کہ دعا میں حضو وسیلہ نبی کری

نہ کی محبت، ختم المرسلین کی الفت اور سرکار نہ سے وارفتگی کا اظہار کی تعظیم، رسول الل مدین بھی شرف قبولیت حاصل نہیں ہوتا اس کے دعاؤں کو پروردگار ہے۔ اس کے بغیرلدراصل خوشنودی

یہ کے مندرجہ ذیل چند مستند شرعی ثبوت خود ہمارے امام اعظم حضرت ابو نعتیہ اشعار ہی حنیف :کافی ہیں

فم آاد انت الذی لما توسل

من زلۃ بک فار وھو ابک

آاپ فم نے آاد نپ وہ ہیں کہ جب حضرت کیا اپنی لغزش معاف کرنے میں تو کامیاب کا توسل اختیارنآا ہو گئے۔

Page 28: Adab MenHamd o Munajat

ہہ وبک الخلیل دعا فعادث نار

برداو قد خمدث بنور سناک

فم نے دعا اور نپ ہی کے وسیلے سے حضرت ابراہی آاگ سرد ان کی تو آا آاپ کے نور کی ہو گئی وہ کی برکت تھی۔

اا فیی لم یزل متوسل وکذاک موس

یم۔ ۃ محتمی بحماک بک فی القی

نا وسیلہ اختیار اور آاپ ک فیی بھی نپ کی حمایت اسی طرح حضرت موس آا کرتے رہے اور قیامت میں بھی طلب کریں گے۔

نل کے مطابق نور فل خیال رہے کہ حدیث رسو ن کی تخلیق حضرت جبری فم سے پہلے ہو و محمد آاد اولیا مزید ثبوت کے لئے یہ اقتباسات بھی ملاحظہ فرمائیے کہ سردار چکی تھی۔ اسی بات پر

نر کا یم بھی اپنی نعت پاک میں شفاعت کے لئے حضو وسیلہ طلب کرتے حضرت غوث الاعظ :ہیں

ہر کس بہ جہاں گناہگار ست

گشتہ بہ شفاعت تو مغفور

نپ کی شفاعت ہی سے وہ بخشے جائیں گے۔ آا دنیا میں سبھی گنہگار ہیں

رسول اللہ گناہ بے حد من بیں تو یا

شفاعتے بکن وہ محوکن خیالاتم

ختم کیجئے۔ ہوں میری شفاعت فرمائیے اور میرے وسوسوں کو گنہگار یارسول اللہ میں بے حد

یی سے دعا نہ کا المختصر اللہ تعال یلہیات کا ایسا جامع و وسیلہ لینا میں رسول الل بلیغ اور ہی علم ا کر رکھی ہیں۔ آانے کی تمام راہیں بند شرک کے در و عظیم فلسفہ ہے جس نے کفر

سے سرچشمہ ہیں :یہ کہنا زیادہ صحیح نہیں ہے کہ کچھ لوگ دعا دعائیں روحانی قوتوں کا شعرا و ءادبا مذہب بیزاران میں یہ رجحان ہمارے چند یکسر انکار کرتے ہیں۔ دراصل موجودہ دور

Page 29: Adab MenHamd o Munajat

پرچم لہرائے ہوئے نوجوان نسل کو اس کی دین ہے جو ادب میں جدیدیت اور ترقی پسندی کا:نظر دیتے رہتے ہیں کہ و طرح کی فکر

آاپ انھوں نے چاند ہو گئے تو ’’وہ )بے دین( لوگ جب بیدار ستاروں پر کمندیں ڈالیں اور جب صرف دعا کے لئے اپنے کندھوں تک ہاتھ اٹھا کر رہ ہوئے تو )اہل دین( خواب غفلت سے بیدار

‘‘ گئے۔

اس طرح دعا سے متعلق مغربی مادہ پرستی اور روس کی اشتراکیت سے متاثر نوجوانوں میں یہ ذہنیاا یا کہ دعا مرض پیدا ہوا زندگی کارزار آادمی کو نشہ ہے جو جمود پرور خانقاہی نظام کا ایک ایسا مذہب

آاپ ایسے ناکارہ کر دیتا ہے۔ دعا میں بے عمل اور جدوجہد سے عاری بنا کر سے متعلق اگر یہ پوشیدہ حقائق بھی نمایاں ہو نفسیاتی مطالعہ کریں گے تو منفی رجحانات رکھنے والوں کا

کی مسلمانوں کی پسماندگی، جائیں گے کہ مسلم نوجوانوں میں یہ ذہنی مرض موجودہ دوریی محاذ پر شکست فاش، کھلے عام مسلمانوں کی تباہی و سے ہر اجتماعی طور بربادی اور اللہ تعال

کی جانب سے رحمتوں کے نزول سے یکسر مایوسی، قنوطیت اور احساس کمتری سے پیدا ہوا ہےیی اور وہ یہ سوچنے پر تقاضائے بشری کے تحت مجبور ہو گئے ہیں کہ یہ دعا،استغفار اور اللہ تعال

طلبی بے سود اور تضیع اوقات ہیں۔ حالانکہ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے مسلمانوں سے امداد عمل کی موجودہ اجتماعی مایوسی، معاشی بدحالی، معاشرتی گمراہی، سیاسی بے وقعتی اور علم و

آان و میں پسماندگی کا حدیث کی روشنی میں کبھی نہیں کیا ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم مطالعہ قرآان کفر گمراہی ہے۔ ان کا اس پر بھی ایمان و و نہیں کہ اللہ کی رحمتوں سے نا امیدی بقول قر

یقین نہیں ہے کہ وہ مستجیب الدعوات ہی حل المشکلات، دافع البلیات، قاضی الحاجات اور کی ہزاروں بربادیوں کے مسبب الاسباب ہے۔ وہ اس حقیقت سے بھی ناواقف ہیں کہ موجودہ دور

آاج جس حال نرغے میں گھرے ہونے کے باوجود یہ امت مسلمہ اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ میں بھی زندہ ہے اور اسی نظام حیات کے ساتھ زندہ رہنے کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔

اللہ کی رحمتوں کے طفیل ہے جو صادقین اور مخلص لوگوں کی دعاؤں کا یہ چند صالحین و کسی اور قوم مسلمانوں کے علاوہ اگر سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ورنہ اس کرۂ زمین پر نزول کا

رہے ہیں تو وہ قوم کبھی کی بے نام و کھلے عام ہو پر ہم ملت پر ایسے ہی مصائب ٹوٹتے جو و نشان ہو کر رہ جاتی۔

Page 30: Adab MenHamd o Munajat

عمل اور جدوجہد کے بندوں کو بہرکیف یہ دعائیں ہی اجتماعی زندگی کی وہ شاہ کلید ہے جو پر ترغیب دلاتی رہتی ہیں۔ لئے ذہنی، جسمانی، نفسیاتی اور روحانی طور

روکتی ہیں۔ پھیلاتی اور برائیوں کو دعائیں پاکیزگی کو٭

آان حکیم دعائیں تقدیریں بدلنے کی بھی قوت رکھتی ہیں۔٭ بقول قر

آاپ کو صبر کی مصائب میں دعاؤں سے بڑھ کر٭ کسی بات میں یہ وصف نہیں ہے جو قوت اور سکون قلب عطا کرے۔

صراط مستقیم کی سمت رہنمائی کرتی ہیں دعائیں گمراہی سے روک کر٭

آاپ کو٭ آاپ کی حفاظت کرتی ہیں جن کے وارد ہونے کا دعائیں ان مصائب سے بھی علم نہیں ہے۔

فراست دعاؤں کی روحانی دین ہے۔ و مومنانہ فہم٭

***

Page 31: Adab MenHamd o Munajat

الدین بشیر محمد ڈاکٹر)بہار(۸۰۳۱۰۷ نالندہ استھانواں، پور، چشتی

اہمیت فنی اور تہذیبی تاریخی، کی مناجات و حمد

Praise of God متبادل انگریزی کے کئی الفاظ وضع کیے گئے ہیں۔ حمد و مناجات کا

اا یکسانیت ہے۔ ان کا Psalm پھر یا Hymnاور لفظی معنی ہے جن کے مفہوم میں غالب(Literal Meaning )حتمی تعریف ثنائے رب کریم ہے۔ یا

زمانے میں ہوتی رہی ہے۔ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ اللہ کی ذات کا ہر توصیف اللہ کی تعریف و Physical )ضابطہ فلسفہ ہے کہ مادہ انکار کرنے والا حلقہ جس کا اپنا با

Substance )ہی سب کچھ ہے۔ اس سے پرے کچھ نہیں۔ وہ مزید کہتا ہے First

and last in matter مدلل جواب دیا اور اس ملحد علامہ اقبال نے اس فلسفے کا( Atheist )آانے والے خدا کے وجودسے چڑ جس کو کھڑا بارگاہ ایزدی میں لا تھی کو خود

کے حضور میں ‘‘ اس دعوے کی توثیق کرتی ہے۔ لینن خدا ’’نظم کیا۔ موصوف کی مشہور

آابادی کے لحاظ سے ایک نمبرپرعیسائی مذہب کے ماننے والے ہیں تو دوسرے آاج کل عالم میں نل کے پیروکار ہیں جومسلمان کہلاتے ہیں۔ یہ نمبر نمبر پر دو جو اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسو

جارج ایک کے بالکل قریب ہے۔ کہیں ایک کی جگہ نہ لے لے، اس کا خدشہ امریکہ کے صدر چین اور رات کاسکون چھین لیا ہے۔ لفظ اسلام سے اس کے رونگٹے بش کو ہے جس نے دن کا

کھڑے ہو جاتے ہیں۔

کہتے ہیں۔ اس سہ حرفی لفظ کا معنی مفسرین God اللہ رب العزت یعنی خدا کو انگریزی میں یعنی Operator ، D یعنی Generator ، O یعنی Gکے مطابق

Page 32: Adab MenHamd o Munajat

Destructor ہندو بھی ہے۔ پھر مطلب یہ کہ خدا خالق، پالنہار اور قہار یعنی تخریب کار نارائن‘‘ ہے۔ سنسکرت کے اس لفظ کا اشتقاق ’’دھرم میں اس کے متعدد ناموں میں ایک نام

آائن‘‘ ہوتے ہیں۔ ’’نار‘‘ بمعنی ’’ٹکڑے ’’نار‘‘ اور کچھ یوں ہے۔ قواعد کے رو سے اس کے دوآان یی نشیط کے مطابق ادیان سنسکرت نے اس کا معنی قر آائن‘‘ بمعنی متحرک۔ ڈاکٹر یحی پانی اور ’’

آایت دیا ہے۔ اس ترکیب کے ہے ( سے ملا عرش پانی پر ‘‘ )خدا کاءوکان عرشہ علی الما ’’کی آائن‘‘ بمعنی ہالہ، گھیراا ’’دوسرے معنی بھی دسیتاب ہیں۔ مثلا آاگ اور ’’ یعنی نور کے نار‘‘ بمعنی

یموت والارض‘‘ سے ملا دیا۔ مطلب یہ کہ ہالے والا۔ اس معنی کے رو سے بعض نے ’’اللہ نورالسآاثار پہلے ثنائے رب جلیل کے عالم انسانیت کے جذبے اور رویے میں یکجہتی اور یکسانیت کے

ہیں۔ تفریق و امتیاز محض مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے عقائد میں ہے۔ سے ہی موجود لیکن سبھی کے عقائد خداوندی میں تلاش وحدت ہی ہے۔

حمد‘‘ اللہ ’’لفظ ضابطہ صنف سخن نہیں لیکن عربی کا نعت کوئی با و کہا جاتا ہے کہ حمدیی کی تحمید و تمجید کے لیے مختص ہو گیا ہے۔ جس کے لیے حمدیہ شاعر ی نے ایک تعال

زبانوں میں بھی اس مستقل صنف سخن کی صورت اختیار کر لی ہے۔ عربی، فارسی ہی نہیں دیگر ہے۔ حمد و مناجات کا اپنا کوئی مخصوص فارم نہیں ہے۔ یک موضوعی صنف ہونے کا ذخیرہ موجود

آازاد غزل، مخمس، مسدس، کے چلتے غزلیہ ہیئت کے علاوہ قصیدہ، مثنوی، قطعہ، رباعی، نظم، مناجاتی شاعر مثلث، مربع، ثلاثی، دوہے، سانٹ، ترائیلے اور ہائیکو جیسی اصناف میں بھی حمدیہ و

رہی ہے۔ لیکن غزلیہ ہیئت کو دیگر اصناف کے مقابلے میں زیادہ شہرت ملی ہے۔ ی ہو

یہذا وہ خالق محتاج نہیں دنیا کی ہر کا کسی چیز خدا شئے اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ لآاتا ہے۔ دراصل اتنا حسین العالمین، مالک العالمیں اور رب العالمیں ہے۔ یہ کل عالم جتنا حسین نظر

آادم کی تخلیق کر کے تخلیقی صلاحیت انسانوں کو بھی ودیعت کر دی ہے نہیں تھا۔ اللہ نے اور اسی صلاحیت کی بنیاد پر بنی نوع انسان نے اس کائنات کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر

بلکہ ترقی کے لامحدود امکانات سے نوازا دیا۔ اللہ نے اپنے بندے کو محتاج محض نہیں بنایا کی بہرحال سے انکار کائنات میں انسان کی حصہ داری بھی مسلم ہے۔ اس امرلہے۔ رنگینی

:گنجائش نہیں۔ بقول اقبال

آافریدم آافریدی چراغ تو شب

Page 33: Adab MenHamd o Munajat

تو اشرف چاہتا وہ مکمل نظام اس کے تابع ہے۔ اگر سب سے بڑا ہے۔ کائنات کا لاریب خدا نباتات، جمادات اور حیوانات کی شکل میں خلق کر سکتا تھا۔ لیکن اس نے ایسا المخلوقات کو

نہیں کیا۔

بندے سے کتنی محبت ہے۔ بظاہر وہ خود انکشاف ہو جاتا ہے کہ اللہ کو اس سے اس امر کا ازآاتا ہے۔ یہ کائنات اسی کے دم کا دکھائی نہیں دیتا لیکن بظاہر قدرت میں وہ جلوہ فرما ظہور نظر

یی تک جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ثہے۔ تحت ال یی سے عرش عل ر

آان کریم جیسی کے نام سے باعث برکت و آاغاز خدا کام کا عام چلن ہے کہ ہر رحمت ہے۔ قر آاغاز بھی اللہ کے نام سے ہوا ہے۔ سورہ فاتحہ میں اپنی تعریف کے طریقے کو مقدس کتاب کا

معبود کے درمیان و بالکل واضح کر دیا ہے۔ کچھ بھی مبہم نہیں رکھا ہے۔ سب سے پہلے عبد امتیاز کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بندہ پہلی فرصت میں اپنے رب کی ربوبیت کا اعتراف کرے یعنی

اعانت اور فتح و عبادت و اقرار صدق دل سے کرے۔ پھر صفات کا برملا اظہار و اس کی ذات و مددگار سمجھ کر اسی کی عظمت کا اعتراف کرے اور نصرت کے لیے محض اسی کو حامی و

خلوص استدعا کرے جس پر انعام یافتہ ہستیاں قائم رہنے کی پر صراط مستقیم یعنی سیدھی راہ پر چلی ہیں اور گمراہ لوگوں کی راہ پر نہ چلنے کی دعا کرے جنھیں مغضوب بنایا گیا۔ سورہ فاتحہ

سکتا ہے کہ ہر نماز میں اس کے بعد ہی کوئی سورہ کی عظمت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا پڑھی جاتی ہے۔

توصیف سے ہے، سورہ فاتحہ میں جتنے موضوعات ہیں تعلق خالق کائنات کی تعریف و کا حمد ذکر میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے اچھی دعا سورہ فاتحہ اور سب سے اچھا دعائیہ انداز

یی حضرت امام احمد بریلوی اللہ اور رسول کی محبت میں سرشار تھے، ان رضا کلمہ طیب ہے۔ اعل :تھے۔ موصوف فرماتے ہیں فدا رسول پر کی سرشت اور زیست کے عناصر بھی اللہ و

کی قسم ایک پر لا الہ اللہ اور خدا ٹکڑے کیے جائیں تو میرے قلب کے دو اللہ اگر ’’بحمد‘‘ دوسرے پر محمد رسول اللہ ہو گا۔

کہ مسنون وظیفہ کی مقبول ہوا یہ سلام اتنا رضا کا ’’مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ احمد کر لیا ہے۔ حیثیت اختیار

Page 34: Adab MenHamd o Munajat

بحیثیت صنف سخن شعرا کرام حمد و مناجات میں بروئے کار مدحت کو خالق کائنات کی مدح وآازمائی و لانے کے ساتھ دیگر آا رہے ہیں۔ موضوعات خواہ موضوعات پربھی طبع خامہ فرسائی کرتے

آان، اشرف و پیدائش مقصد پھر یا ہو نقطہ نظر قصص الانبیاء ہوں، توحید کا حیات، تسلیمات قر شدید احساس، کا مصیبت اجتماعی سطح پر معصیت و فخر کے علاوہ انفرادی و مخلوق ہونے پر

اخلاقی اور مذہبی اقدار سے فراریت کے اعتماد، تہذیبی و و یقین پر رحیمی اللہ کی شان کریمی و اجتماعی مسائل کا اظہار تصور، نجی و قصور کا بخشش اور باغ بہشت میں حور و باوجود نجات و

مناجاتی شاعر ی کی زینت بنتی رہی و حمدیہ اور ازیں قبیل خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی دعا ہے۔

آانے والے خدا نہیں یہ بڑا اس کی کوئی شبیہ ہے یا پھر نہیں یا کسی نے دیکھا ہے یا کو خود :جواب ملا تو اہم اور پیچیدہ سوال ہے۔ یہی سوال جب سوامی ویویکانند نے رام کرشن سے پوچھا

"God can be realised one can see and talk to him

as I am doing with you. But who cares to do so" ?

بات بھی ہو سکتی سکتا ہے۔ روبرو جا حالانکہ جواب مبہم ہے۔ لیکن خدا کی خدائی محسوس کیایی اللہ سے ہے لیکن سب کے بس کی بات نہیں۔ اسلامی تاریخ کی روشنی میں حضرت موس

نر سے بھی راز نیاز کی باتیں ہوئیں لیکن ان کے باوجود اللہ کی و ہمکلام ہوئے معراج میں حضو میں ہی ہے۔ اس سوال کی پیچیدگی اور ژولیدگی اپنی جگہ مسلم شباہت کا سوال پردۂ خفا شکل و

اا سبھی متفق ہیں کہ کائنات کا نہایت قرینے اور عمدہ مکمل نظام جو ہے لیکن اس امر پر غالب کوئی ہے جو ناظم ضرور سلیقے سے منظم ڈھنگ سے کیسے اور کیوں کر چل رہا ہے۔ اس کا

آانکھوں سے اوجھل ہے۔ کائنات کے ہر پر توازن برقرار ہے۔ ضابطہ طور شعبے میں با بظاہر ہماری متناہی سلسلہ ممات کالا حیات و پھر عمل تنفس سے ہی قدرت کی کارسازی عیاں ہوتی ہے۔ یا

آا رہا ہے اور کب تک چلتا رہے گا۔ انسانی عقل و فکر کے مرحلے و خرد غور صدیوں سے چلا آاپ سے گزرتی ہے تو لمحہ بھرکے لیے فیصلہ کر لیتی ہے کہ پورا نظام کوئی چلا رہا ہے یا اپنے

اا عقل سلیم اپنا چلانے والا کر کے یہ تسلیم کر لیتی ہے کہ اس کا رد فیصلہ چل رہا ہے لیکن فورآاخر ہی پڑتا ہے۔ یقین کرنا پر خدا میں اندیکھے کوئی چالک ہے۔ ورنہ توازن برقرار نہیں ہوتا اور

Page 35: Adab MenHamd o Munajat

کسی( Concept )تصور دنیا کے تمام مذاہب میں کائنات کی تخلیق سے متعلق خالق کاکسی عظیم ہستی سبھی متحد ہیں کہ یہ دنیا پر ہے اور اس امر نہ کسی شکل میں موجود

Supreme Power ))آائی ہے اور نہ ہی کے بغیر نہ اتفاقیہ صورت میں معرض وجود میں تک پیچیدہ نظام چل سکتا ہے اور یہ کہ اس نے بنی نوع اس کے لامحدود و ناقابل فہم حد بغیر

آافریدہ کیا ہے، اس میں اس کی عبادت اور انسان کو جن اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے تشدد اور دیگر گنا ہوں سے اجتناب کی انسانیت کے عناصر کے فروغ اور ظلم و باہمی اخوت و

یہذا چند اس کرۂ ارض کی پوری حمد کر چھوڑ الحاد مادہ پرستوں کو ذمہ داریاں بھی شامل ہیں۔ لآابادی کے ذہن و ماحول کے خلاف اجتماعی رد احساسات، مسائل و ضمیر، جذبات و انسانی

امید تصورات کا بے حد خوبصورت مرقع ہوتی ہے۔ پر اور اعتماد عمل، زیست سے انسیت، وجود پرآابادی کے دلوں کی دھڑکنوں کا حمد و مناجات میں موجزن فرد کے حوالے سے پوری انسانی

ہونا ہی اس کی عظمت اور تمام اصناف شعر ی کے مقابل سرفرازی پر دلالت کرتا ہے۔ انہیں اوصاف کی بنا پر حمد و مناجات دیگر ادبی اصناف شعر ی کی طرح باقاعدہ فنی جواز رکھتی ہے۔

احساسات سے بھی ہے۔ چونکہ تعلق مذہبی جذبات سے بھی ہے انفرادی تصورات و ان اصناف کایہذا سب سے پہلے اس کا آانا نام اللہ کی ذات سب سے بڑی ہے ل لازمی عنصر ہے۔

انکساری کے ساتھ بارگاہ ہے۔ اپنے احتیاجات کے لیے عاجزی و نام حمد ثنائے رب جلیل کا پیرائے بیان شعر ی ہے، نام مناجات ہے۔ حمد و مناجات دونوں کا ایزدی میں رونے اور گڑگڑانے کا

معبود کے و ہوتے ہیں۔ عبد بحر کے پابند قافیہ اور وزن و اصناف کی طرح یہ بھی ردیف و دیگر بھی نیک عمل کرتا ہے وہ عبادت بندہ اپنے پالنہار کی خوشنودی کے لیے جو رشتے کی بنیاد پر

و عجز( Confession )کے زمرے میں شامل ہے۔ خالق کائنات کی بارگاہ میں اعتراف عبدیت کی شان اور انکسار عین تقاضائے بشری ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں طلب استعانت کو

کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔ انسان کی بے بسی اور درماندگی( Servitude )عبودیت لے جس کی کرم فرمائیاں اسے مراحل تسلیم کر الوراء کو کرتی ہے کہ وہ ذات وراء آاخرکار مجبور

بہ اپنے رب کے سامنے سر تشکر میں وہ دیوانہ وار حیات میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور اظہار یقین کر لیتا ہے۔ اس ذات حقیقی کے ا تھاہ قوت سجدہ ہو جاتا ہے اور بغیر دیکھے خدا پر

مجبور کر دیتا ہے اور وہ اپنی زبان یقین ہی انسان کو اللہ کی بڑائی کرنے پر کارسازی اور اوصاف پر

Page 36: Adab MenHamd o Munajat

دل منور ہو جاتا رہتا ہے۔ حتی کہ استحضار الہ سے اس کا توصیفی کلمات ادا کرتا میں تعریفی و کیف اور سرمستی کے عالم میں کے قریب کر دیتی ہے۔ جذب و خدا معبودی لگن بندہ کو ہے۔ یہ

اس کی حالت بدل جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ ثنائے رب جلیل میں اشتعال بڑھنے سے ہی عبدیت ہوتے ہیں۔ یہی وہ مرتبہ ہے جہاں رضی اللہ عنہ کے پروانے سے سرفراز کیا جاتا کے درجات بلند

شعار اور معمول بنانا مشروط ہے۔ حمدیہ ترانوں کے اپنا ہے۔ لیکن اس راہ میں حمد رب جلیل کویی نشیط فرماتے ہیں :ابتدائی نقوش اور تاریخی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر یحی

کندہ کیے ہوئے حمدیہ ’’عہد قبل تاریخ کے کلدانیوں اور حطیوں نے مٹی کی پکی اینٹوں پرآاج تک کمپیوٹرائزڈ کتابوں کے دور لکھے اور تک حمدیہ ترانے برابر ترانوں کے نقوش سے لے

آاسمانی معمور ہے وہاں قلوب انسانی الاپے جا رہے ہیں۔ ان کی گنگناہٹ سے جہاں فضائے سبب بنی ہوئی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ ثنائے رب کریم کایہ میں بھی ہلچل پیدا کرنے کا‘‘ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے۔

چرچا ہوتا رہے گا۔ حمدیہ ترانوں میں علامہ اقبال کی خلقت کا جب تک قائم رہے گی خدا دنیا میں دور ممتاز اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی صدائے بازگشت ہر کا ’’بچے کی دعا‘‘ منفرد و

آا رہی ہے۔ فی زمانہ مکتب و آاغاز سے یکساں طور پر سنائی دیتی مدرسہ میں تدریسی پروگرام کے :قبل یہ ترانہ خاص اہتمام کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے

آاتی ہے دعا بن کے تمنا مری لب پہ

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا مری

ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہے اس رہ پہ چلانا مجھ کو

Page 37: Adab MenHamd o Munajat

فنی لوازمات کے ساتھ یہ شعر جسے کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ اپنے تمام تر پر خصوصی طور اور حیات جاوداں کو کار فن ہے۔ فن کاری لازوال ہو کر مرکز توجہ بنا ہوا ہے۔ یہاں فن عروج کمال پر

:گئی ہے عطا کر

ہو میرے دم سے یونہی مرے وطن کی زینت

جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

نام محتاج تعارف نہیں۔ موصوف کی کا طرزی المنان عبد میں ڈاکٹر حمد و مناجات کی دنیا لانگھتی جا رہی ہے۔ موصوف کا شہرت و مقبولیت صوبائی سرحدوں کو لانگھ گئی ہے اور مزید

یہذا خالص بہاری شاعر ہیں۔ ان کے حمدیہ کلام ایک نئے لب و لہجہ تعلق صوبہ بہار سے ہے لآا رہے ہی۔ عربی لفظ سبحان اللہ کو اور رنگ و آاہنگ کے ساتھ معیاری رسالوں کی زینت بنتے

حصہ ہے اور شعر ی جس فنی چابکدستی سے اپنی حمدیہ شاعر ی میں کھپایا ہے گویا انہیں کاآاں عبد حسن دو بالا کرنے کا معبود کے رشتے کا اعتراف سبحان اللہ و موجب بھی ہے۔ مزید بر

آاہنگ ابھرتا ہے کی تکرار سے مزید مستحکم ہو گیا ہے اور ایک مخصوص و ترنم صوتی حسن و کی بھی خواہش ہے کہ اس کا بندہ اسے اپنا خالق ہونے کا جس سے سماعت متاثر ہوتی ہے۔ خدا

کرے۔ خالق کائنات بندے کے مکارم اخلاق سے ہی راضی بہ رضا ہوتا ہے۔ طرزی کا برملا اظہار :اعتراف نہایت دیدہ زیب اور متاثر کن ہے

میں بندہ ترا، تو میرا خدا، سبحان اللہ سبحان اللہ

بندے سے خدا کا یہ رشتہ، سبحان اللہ سبحان اللہ

میں حرف دعا، تو دست عطا، سبحان اللہ سبحان اللہ

محتاج تیرے ہیں شاہ و گدا، سبحان اللہ سبحان اللہ

بس تیری رضا، تیری ہی ثنا، ہو پیش نظر جس کے ائے خدا

وہ قلب و نظر کر دے تو عطا سبحان اللہ سبحان اللہ

Page 38: Adab MenHamd o Munajat

کا اعلان شعر ی کل ہے۔ اس امر مختار جو حاجت روائی کے لیے محض اسی کی طرف رجوع ہونا بندہ کسی اور کے سامنے فریاد کہ اس کا نہیں کرتا پسند یہ ہرگز پیرائے میں خوب ہے۔ یعنی خدا

:کرے

یی کے لیے اعزاز بڑا محتاج فقط ہے وہ تیرا طرز

کب در پہ کسی کے جانے دیا، سبحان اللہ سبحان الہ

خیال ہے کہ قیوم خضر کی حمدیہ شاعر ی ایک نئی منطق کے ساتھ پروان چڑھی ہے۔ موصوف کا ئیت کا اعتراف بے چوں چرا کر لینا چاہئے۔ اس مرحلے میںہاپنے رب کی ربوبیت اور اللہ کی الو

کی مرتکب ہو گا۔ اس امر محبت باعث گمراہی ہو گی اور بندہ راندۂ درگاہ کا و حیل کسی طرح کا:ترجمانی قیوم خضر کی زبانی

نہ منطق، نہ حجت، نہ کوئی دلیل

تو بے شک ہے رب سمیع العلیم

میں فریاد کش ہوں بصد انکسار

نگاہ کرم ائے غفور الرحیم

ہیں۔ اپنی حمدیہ شاعر ی کے حوالے سے خالق کائنات گو شمیم ایک کامیاب حمد احمد سید بیان کچھ یوں کرتے ششدر رہتی ہے کا اکثر حیران و عقل انسانی جو کے لاجواب صفات پر

:ہیں

لم یزل، رب کائنات ہے تو

عقل حیراں ہے، لاجواب ہے تو

تیرے پر تو سے مہر و مہہ روشن

آاب و تاب ہے تو سارے عالم کی

عشق گستاخ ہو تو کیوں کر ہو

خود ہی جلوہ خود ہی حجاب ہے تو

Page 39: Adab MenHamd o Munajat

یی، انسان ہو کائنات کی ہر یی ہویا اعل جمادات اسی کی قبضہ قدرت حیوان، نباتات یا یا شئے خواہ ادن سے ادھر نہیں ہو سکتا۔ رونما ہونے والے بڑے میں ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر ایک ذرہ بھی ادھر

حادثات بھی اسی کے مرہون منت ہیں لیکن مصلحت سے خالی نہیں۔ بڑے جانکاہ واقعات ویی علیہ کے تینوں معروف واقعات جو کہ حضرت خضرے اسلامی تاریخ شاہد ہ علیہ اور حضرت موس

یی علیہ کو سورہ کہف میں مذکور اپنے علم اور کلیم ہیں۔ مصلحت سے خالی نہ تھے۔ لیکن موس نہ کر سکے۔ لیکن واقعات منع کرنے کے باوجود صبر علیہ کے ہزار تکبر تھا۔ خضر اللہ ہونے کا

:تو حیران ہو گئے۔ بقول اقبال ہوا علم تھیں اس کا کے پس پشت جو مصلحتیں کارفرما

’’کشتی مکین‘‘ و ’’جان پاک‘‘ و ’’دیوار یتیم‘‘

یی بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش علم موس

فکری ہیں۔ ان کی مناجاتی شاعر ی فنی و الدین خاں اشرف ایک کہنہ مشق مناجات گو احمد ستائش ہے۔ ان کی سے اپنی شناخت قائم کر چکی ہے۔ ان کی کاوش لائق صد دونوں اعتبار

:ہے عنی مطلع میں فنی پیچیدگی قابل دیدیمناجات کا ابتدائی شعر

اسیر شب ہوں نگاہ کرم ادھر کر دے

چراغ بجھنے سے پہلے سحر کر دے

نگاہ فکر و ہنر، کچھ تو معتبر کر دے

ہر ایک اشک ندامت مرا گہر کر دے

خطائیں جتنی ہوئیں مجھ سے در گزر کر دے

نہیں ہوں قابل رحم و کرم مگر کر دے

عین فطرت ہے۔ لیکن ہونا زد سر نگاہ کا و مجموعہ ہوتی ہے۔ خطا شر کا و انسان کی ذات خیر خطاؤں کا اعتراف اور گنا ہوں سے توبہ، ندامت اور شرمساری سے ہی انسانیت نکھرتی ہے اور

آاتی ہے۔ صدق دل سے توبہ و یی کو باقاعدگی بے حد محبوب ہوتا ہے۔ استغفار کرنے والا اللہ تعال اپنے جوار رحمت کے سائے میں اسے جگہ دیتا ہے۔ اشرف کی مناجات میں ان امور کی جلوہ

:سکتی ہے گری دیکھی جا

Page 40: Adab MenHamd o Munajat

جہاں میں عیب سے خالی نہیں بشر کوئی

آافتاب بنیں جن پہ تو نظر کر دے وہ

رب یہ زندگی تو مسلسل عذاب ہے یا

صعوبتوں کے یہ حالات مختصر کر دے

تو اعتبار عطا ہے میں تجھ سے کیا مانگوں

جو ہو سکے تو دعاؤں کو با اثر کر دے

آاخر میں مناجاتی مقطع میں روشنی جو :مطالبہ مشروط ہے علم کی علامت ہے کا اور

یف میں کیوں قبول کروں ایسی روشنی اشر

جو مجھ کو اپنی حقیقت سے بے خود کر دے

ادبی مندرجہ مضمرات اور مشتملات سے حمد و مناجات کی مکمل تاریخی، تہذیبی اور فنی و فکری گرہیں بھی کھلتی ہیں لیکن ان امور سے جزوی اہمیت اجاگر تو نہیں ہوتی اور نہ فنی و

:واقفیت فراہم ضرور ہوتی ہے اور محض اتنی سی معلومات

آا جائے تو برا کیا ہے مفت ہاتھ

***

Page 41: Adab MenHamd o Munajat

عاشق ہرگانوی مناظر ڈاکٹر)بہار(۸۱۲۰۰۱ ،بھاگلپور۳ پور۔ بھیکن کوہسار،

قیمت و قدر ادبی و دینی کی حمد

ہہ لاشریک ہے۔ زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ سارے جہانوں کا خدا معبود ہے۔ وہ وحد نہیں۔ اسی لئے اس کی بندگی کی جاتی ہے۔ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ یعنی سوائے اللہ کے کوئی معبود

دوسرے تمام اللہ باطل ہیں۔ اللہ کی ذات و مشروط کی جاتی ہے۔ اللہ کے سوا اللہ کی اطاعت غیر پکارتے ہیں کیونکہ وہی حقیقی ذی روح مانتا ہے اور تمام بندے اللہ کو ہر صفات اور احکام کو

بھی عطا کرتا ہے۔ معبود ہے، وہی ادب کا ہنر

سے ملسو هيلع هللا ىلصحضرت شہاب الدین سہروردی ’’عوارف المعارف‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضور روایت ہے کہ میرے پروردگار نے مجھے ادب دیا ہے۔ دراصل ادب ظاہر اور باطن کی تہذیب اور

آاراستگی ہے۔ لیکن بندے میں ادب کامل نہیں ہوتا۔ کمال، مکارم اخلاق سے اور مکارم اخلاق، پیش نظر رکھا ہے اور زبان کے شاعروں نے اللہ کو ہر کی تحسین اور تہذیب خلق سے ہے۔ دنیا

تبھی تجربہ ہوا کیا ہے۔ اللہ کے سبھی محتاج ہیں۔ اردو زبان میں جب سے شاعر ی کا اسے یاد سے حمد لکھی گئی۔ لیکن حمد سے زیادہ نعت پر توجہ دی گئی ہے۔

قیمت کی وجہ سے یہ صرف ہمارے مضطرب جذبات کی تسکین و حمد کی دینی اور ادبی قدر بصارت کی توثیق کا سامان، تفنن طبع، احساس جمال، انفرادی لذت کوشی، خوف خدا، بصیرت و

شاعر ی برائے شاعر ی نہیں ہے بلکہ ادب میں اس کی مستقل صنفی حیثیت ہے۔ یہ صحیح ہے یا کہ عروض و بلاغت اور اصناف سخن کی قواعد کی کتابوں میں حمد و مناجات کی صنفی حیثیت

Page 42: Adab MenHamd o Munajat

قصیدہ نگار شعرا مثنوی و نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل گو، مرثیہ گو، رباعی گو یا ذکر کا ضابطہ یا خصوصی توجہ نہیں دی۔ بلکہ عقیدت اور بسم اللہ کے طور پر رسم پوری با نے حمد پر

کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ حمد و مناجات کے لئے والہانہ عشقیہ جذبے کی ضرورت ہوتی ہے سنجیدگی اور جوش محاربت، متانت و اعمال اس سے وابستہ ہیں۔ مہارت و افعال و و کیونکہ اظہار

میں اظہار عقیدت نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی شاعر حمد ربانی کی فراوانی کے بغیر

یہ صنف سخن، ماورائی، داخلی اور ذہنی قوت کی الہام، القا، گیان اور دھیان کے تصور سے مملو تفکر، عبقریت، ذہنی رفعت اور جذبات و دین ہے۔ شعر ی روایت کے معنوی تسلسل میں حمد تصور

:و حواس کے ذریعے سے دخیل ہے۔ سیموئل ٹیلر کولرج نے کہا تھا

تمام انسانی ادراک کا بنیادی اور ذیلی سمجھتا ہوں۔ بنیادی متخیلہ وہ ہے جو ’’میں متخیلہ کو محرک ہے اور وہ خارجی تخلیق کاری میں دماغ کے محدود حصہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ جبکہ

ہی کی بازگشت ہوتا ہے بنیادی تصور ہوتی ہے۔ ذیلی تصور" I am "لامحدود حصہ اس کی ذاتاا بنیادی تصور کی طرح تخلیق کا اور وہ شعوری ارادے کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ لیکن وہ تقریب

‘‘ محرک ہوتا ہے۔

آاواز ہے جو ’’میں ہوں ‘‘ کی طرف سے موضوعی تخلیق کا یہ لائحہ عمل داخلی Objective Co-relatives میں ضم ہو کر شعر ی روایت کے داخلی اور خارجی

جنم کی طرح حمدیہ شاعر ی کے معنوی تسلسل کو Pure Subjectivity عناصر کی تابع بناتی ہے۔ دیتی ہے یا

واضح نہیں ہے۔ کوئی مذہب کا عقیدت( Commitment )ابھی تک ادب کی وابستگی پورا ڈھانچہ صراحت چاہتا ہے کیونکہ دار ہے، کوئی دھرتی اور وطن کا وفا مند ہے، کوئی سیاست کا

آاج کا شاعر اور ادیب اپنا ذہنی اور جذباتی رشتہ زندگی کی ذہنی کیفیت ہمیشہ متغیر رہتی ہے۔ سچائیوں کے بجائے مجرد تصورات سے قائم کرنے میں لگا ہوا ہے اور ذاتی مسائل کا ادب

فنی عظمت ایسی ہی ہے تخلیق کر رہا ہے۔ ایسے میں دوسری اصناف کی طرح حمد کی فکری و یعنی علم انسانی کی جان اور لطیف ترین روح یہ صنف سخن مقام محمود کی بلند ترین مسند پر ہے

آاہنگ ہے۔ اور اردو شاعر ی کی دھڑکنوں کا

Page 43: Adab MenHamd o Munajat

اا ہوتے ہیں اور اسلوبیاتی تغیر بھی مختلف ادوار میں حمد کے فکری اور اسلوبیاتی تجربے یقیناا حمد کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے :محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ مثل

خسرو رین سہاگ کی جاگی پی کے سنگ

تن سیر و من پیو کو دو، وبھے ایک رنگ

)امیرخسرو(

چندر سوں تیرے نور کے نس دن کوں نورانی کیا

آاپی میرا ہے جیا تیری صفت کن کر سکے توں

قلی قطب شاہ( )محمد

مقدور کسے ہے ترے وصفوں کے رقم کا

وند ہے تو لوح و قلم کااحقا کہ خد

درد( )میر

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

)غالب(

کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا

باقی ہے ابد تک وہ ہے جلال تیرا

)حالی(

ہوا حمد خدا میں دل جو مصروف رقم میرا

الف الحمد کا سا بن گیا گویا قلم میرا

)شیخ ابراہیم ذوق(

یہاں بھی تو وہاں بھی تو زمیں تیری فلک تیرا

Page 44: Adab MenHamd o Munajat

آاج تک تیرا کہیں ہم نے پتہ پایا نہ ہر گز

)داغ دہلوی(

لا اے عشق مجھے شاہد اصلی کو دکھا

یی قم خذ بیدی وفقک اللہ تعال

(ء)انشاء اللہ خاں انشا

کروں پہلے توحید یزداں رقم

جھکا جس کے سجدے کو اول قلم

)میرحسن(

ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری

ثمرہ ہے قلم کا حمد باری

شنکر نسیم( )دیا

خدایا! نہیں کوئی جائے پناہ

مگر تیرا در اور تری بارگاہ

یمعیل میرٹھی( )اس

تو ہی بھروسہ تو ہی سہارا

پروردگارا پروردگارا

)حفیظ جالندھری(

یلہی تو فیاض ہے اور کریم ا

یلہی تو غفار ہے اور رحیم ا

مقدس معلی، منزہ عظیم

نہ تیرا شریک اور نہ تیرا سہیم

Page 45: Adab MenHamd o Munajat

تیری ذات والا ہے یکتا قدیم

آابادی( اکبر )نظیر

میں اس دنیا کی ہر ہستی کا ہوں سرمایۂ ہستی

مری ہی ذات سے سب ہیں یہاں نشو و نما پائے

)فراق گورکھپوری(

مٹی کو یہ تنویر شرر کس نے عطا کی

تجھ کو یہ چمک موج گہر کس نے عطا کی

آازاد( )جگن ناتھ

موسم موسم منظر منظر ترا روپ، روپ انوپ

خاک کو لوچ صبا کو خوشبو دینے والا تو

گورکھپوری( )ظفر

یقیں یہی ہے کہ ظاہر بھی ہے عیاں بھی وہی

نظر سے دور بھی ہے وہ قریب جاں بھی وہی

)شارق جمال(

وہ چاہے ذرے کو ماہ کر دے

گدا کو عالم پناہ کر دے

)بیکل اتساہی(

موسم کی سوغات لٹانے والا تو

شاخ حرا میں پھول کھلانے والا تو

)فضا ابن فیضی(

!کار فرمائے کائنات خدا

Page 46: Adab MenHamd o Munajat

!دو جہاں کی تجلیات خدا

)نادم بلخی(

لغ حرم کے اجالے میں تو چرا

برہمن کے اونچے شوالے میں تو

حنفی( )مظفر

چھپائے رکھنا حقیقت کمال ہے اسکا

ہے انتہا کہ تصور محال ہے اس کا

یی راہی( )غلام مرتض

تو ہر ایک سمت ہے جلوہ گر

ہہ تیری شان جل جلا ل

نویدی( )علیم صبا

تو منتہائے معانی سراپئے اظہار

میں لوح زیست پہ حرف فضول کی مانند

)عبدالاحدساز(

جو ہم مشک قیاس گاں اور جہل میں ہے

تسبیح اس کی دشت و دیار و جبل میں ہے

)سلیم شہزاد(

آاخر بھی تو آاغاز تو حرف حرف

دو جہاں تیری قدرت ہیں قادر بھی تو

)ابراہیم اشک(

اسی کی نیند تھی پلکوں پہ خواب اسی کے تھے

Page 47: Adab MenHamd o Munajat

کہ سوتے جاگتے سب انتخاب اسی کے تھے

)نذیر فتح پوری(

ہوں میں بھی اس کا مرا بست و در بھی اس کا ہے

سفر بھی اس کا ہے زاد سفر بھی اس کا ہے

)کرشن کمار طور(

یہ کائنات یہ رنگ بہار تیرا ہے

فلک کا روپ زمیں کا نکھار تیرا ہے

عاشق ہرگانوی( )مناظر

فکری اور اسلوبیاتی فرق نمایاں ہے، مثالیں بھری پڑی ہیں۔ حالی اور اقبال کا اب زمانہ نہیں رہا۔ چلی۔ اس طرح اخلاقی قدروں میں فرق ضرور بھی ادب سے خارج کرنے کی ہوا اسلامی ادب کو

آایا۔ فن کی تخلیق انسان کے کسی بھی بے ساختہ عمل سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ تخلیق دماغ ممکن عمل کے بغیر کی عمیق اور متواتر سوچ، دل کے گہرے احساس اور ضمیر کے بھرپور رد

نہیں ہوتی۔

نام ہے۔ یہ صحیح ہے کہ انسان عمل اور ثقافتی ارتباط کا نظریہ فکری ضبط، مخصوص عقیدہ، طرز عاقل کم، غیر عاقل زیادہ ہے۔ اس کی ذہانت میں جذبات کی ملاوٹ ہے۔ اس کی عقل کرۂ جذبات

میں چاروں طرف سے گھری ہوئی ہے۔ جانب حق الیقین عقل کی پرواز میں کوتاہی اور نارسائی نظر و مجبور کر دیتے ہیں۔ لیکن اہل فکر مسلمہ امر ہے۔ جذبات غالب عقل کو سوقالب بدلنے پر

سمجھنے اور پھول میں خوشبو شئے کی حقیقت کو بصیرت، مجتہد جو اور صاحب نور حکمت و لانے والی ایکس ریزی ذہنی قوت اور دیکھنے والی نورانی بصیرت بیرون شرع سے اندرون کی خبر

آاہٹوں کو محسوس کرنے اور خوب سننے حکم ظاہر کے باطن میں خفیف جھٹکوں اور ضعیف جذبات سے کوسوں میل والی حساس روحانی سماعت رکھتا ہے اور اللہ کی رحمت سے عقل کو

دور رکھتا ہے۔ سماج کا یہ چلن ہو گیا ہے۔ ادب میں بھی کچھ اس کی دھمک ملتی ہے۔ شاید میں بھی مذہب ہے۔ مگر شریعت کی بجائے بھی اثر ہے جب کہ ادب کے فیوڈل دور تحریکوں کا

Page 48: Adab MenHamd o Munajat

تصوف کے رنگ میں ہے۔ حالانکہ عبودیت کی جگہ وحدت الوجود اور اس سے وابستہ جذباتآایا ہے۔ اس کی وجہ تلاش مدام تلاش ہے اور میں تغیر کی منطق اور Articulationنہیں

پل قریب ہے اور یہی وجہ ہے کہ حمدیہ دلیل ہے کہ نشانیاتی عمل کے ذریعے معبود حقیقی ہر کم لیا ہے۔ شاعر ی نے تحریکوں کا اثر

ہم الگ الگ خانوں میں منقسم نہیں دیکھتے ء تک ادب اور مذہب کو۱۹۳۷سے اردو میں ابتدا تحریک اور روسی اس میں شدت نہیں ہے۔ لیکن ترقی پسند ہے بھی تو ہیں۔ اگر زیریں لہر

خانوں میں تقسیم کرنے کی اشتراکیت کے نظریے سے متاثر ہونے والوں نے ادب اور مذہب کو ء کے۱۹۸۰ء اور ۱۹۶۰ضرور پڑا۔ لیکن شعوری کوشش کی تھی جس کا منفی اثر سرمایۂ ادب پر

کوسمجھ لیا Perception بعد کے شعرا نے اس فیشن سے جان چھڑا کر حقیقت کےآان کریم کے سولہویں پارہ میں سورۃ ہے اور متعین طرز اظہار ’’حمد‘‘ کو بلا جھجک اپنایا ہے۔ قر

آایت ہے کہ آاخری :الکہف کی تیسری رکوع کی

یمت ربی النفدالبحرقبل ان تنفد کلمت ربی ولوجئنا بمثل’’ ‘‘ ہ مددا۔ہقل لوکان الجرمداد الکل

آان کریم میں سورۃ الشعرا :( میں بیان کیا گیا ہے کہ۲۲۷۔ ۲۶:۲۲۴)ءلیکن قر

‘‘ ’’ اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں۔٭

(۲۲۵مارتے ہیں۔ ‘‘ ) وادی میں سر کہ وہ)شاعر ( ہر ’’کیا تم نے نہیں دیکھا٭

‘‘ کرتے نہیں۔ کہتے وہ ہیں جو ’’اور٭

واضح اشارہ ہے کہ شعرا قابل اتباع نہیں ہیں اور شاعر ی ربط، پیغام دہی اور سنجیدگی کے عناصر حاضر ایک نظریاتی دور ترس ہوتے ہیں، عصر سے خالی ہے۔ حالانکہ شاعر نیک، ذہین، دانا اور خدا

زوال ہوتا ہے۔ عملی ارتقا کی نسبت سے عروج و ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ذہنی و

ویسے سچائی ماحول بھی رہا ہے۔ Anthroposphere سے بے توجہی کی وجہ حمد دیوان حمد ’’لاہوری کا ہے جو مجموعہ غلام سرور پہلا یہ بھی ہے کہ اردو میں حمدیہ شاعر ی کا

:ء میں مطبع نول کشور، لکھنو سے شائع ہوا۔ مثال دیکھئے۱۸۸۱ایزدی‘‘ کے نام سے

زباں پر ذکر حمد ایزدی ہر دم رواں رکھنا

Page 49: Adab MenHamd o Munajat

یلہی سے غرض اے مری جاں رکھنا فقط یاد ا

:بھی ہیں اس مجموعہ میں دوفارسی حمد

بحمد ایزدی ترکن زبان گوہر افشاں را

آاذری کن گو ہر افشاں چشم گریاں را چو ابر

آابرو کن ابر گریاں را زچشم خوں فشاں بے

ز جوش دیدۂ گریاں بگریاں برق خنداں را

ء میں شائع ہوا۔ سرورق پریہ۱۹۲۱خدا‘‘ نذر ’’ کا آابادی مجموعہ مضطر خیر دوسرا حمدیہ شاعر ی کا :شعر درج ہے

مبارک اے زباں دنیا میں جو کچھ بھی کہا تو نے

نے وہ میں نے لکھ لیا اور کر دیا نذر خدا تو

آافاقی اور ابدی حمد باعث تسکین قلب ہے۔ اس سے فرحت اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے۔ آاگہی سے بھرپور اس صنف کی طرف نعت کے مقابلے میں توجہ کم دی گی ہے حقیقتوں کی

پڑا ہے۔ حالانکہ مواد بکھرا

***

Page 50: Adab MenHamd o Munajat

قاضی رؤف انجمآاکولہ)مہاراشٹر( ٹاکلی، بارسی

ضرورت و اہمیت کی مناجات اور حمد

بزرگی کا اقرار کرنے، حاجت روا اور کے لغوی معنی تعریف کرنے خوبیاں بیان کرنے، بڑائی و حمدآاقا تسلیم کرنے کے ہیں لیکن یہ لفظ کسی مخلوق کے لئے مشکل کشا ماننے اور اپنا مالک اور

یی کے لئے ہی مخصوص ہے کیونکہ لفظ حمد صرف اللہ تبارک و استعمال نہیں کیا جاتا تعال سکتی ہے اس لئے کہ یہ اس کے لئے مدح کی جا تو ویسے کسی مخلوق کی تعریف متقاضی ہو

یی کہ روٹی، کپڑا اور مکان کے لئے بھی لفظ کسی زندہ، مردہ، جمادات، حیوانات، چرند پرند حت قلم سے معبود حقیقی کی تعریف بیان بول سکتے ہیں۔ علماء متاخرین کا قول ہے کہ اپنی زبان و

دل، زبان اور جملہ ارکان سے کرنے کو حمد کہا جاتا ہے خواہ اس کی لازم اور متعدی صفتوں پر لفظ شکر کے لفظ سے زیادہ عام اور مقبول ہے اس لئے کہ وہ جائے۔ حمد کا کیا شکر ادا اس کا

کسی لازم اور متعدی دونوں صفات کے لیے استعمال ہوتا ہے حمد کسی نعمت کے حصول یا اللہ کی نعمتیں ان گنت ہیں جن کا شمار پر ہوتی ہے۔ مخلوق پر خاص وصف کے اظہار کی بنا

اا ساری ہی مثالیں موجود کرنا انسان کے بس سے باہر کی بات ہے جس میں عالم اکبر کی تقریب نگاہ تک پھیلی ہوئی اس زمین کی مثال ہے ہمارے بال، نباتات کی مثال تو جسم حد ہیں۔ ہمارا

خون فراہم کرنے والی شریانیں، وریدیں اور عروق شعر ہیں۔ جسم کو ہماری ہڈیاں پہاڑوں کی مانند یہ)باریک رگیں (، دریاؤں، نہروں اور چشموں کی مثال ہیں جن کے ذریعہ عالم اکبر)زمین( کی

سرسبزی کی طرح )عالم اصغر( ہمارے جسم کی شادابی برقرار رکھی جاتی ہے۔

آاپ تقاضہ بھی یہی ہے کہ جب کسی سے کوئی چیز اخلاق کا تہذیب و مانگنی ہو تو پہلے اپنے دعا و نیاز کی تصویر بنا کر اس کی کچھ تعریف کی جائے اس کے بعد اپنا مقصد و کو عجز

Page 51: Adab MenHamd o Munajat

جائے اسی طرح رب العالمین سے جب دعا یا ممدوح کے سامنے عاجزی کے ساتھ بیان کیا اپنا حاجت روا اور اسی کو مناجات کرنی ہو تو پہلے اس کی حمد و ثنا بیان کی جانی چاہئے پھر

کہ اللہ تبارک و مشکل کشا مان کر دعا کرنی چاہئے۔ انسان کا علم چونکہ محدود ہے وہ نہیں جانتایی کی تعریف کس طرح کی جائے اور اس سے اپنی حاجتیں کس طرح پوری کرائی جائیں اس تعال

آاغاز ہی میں حضرت انسان کی رہنمائی کے لئے سورۃ یی نے اپنے کلام پاک کے لئے اللہ تعالآایات حمد آایات میں سے پہلی تین طریقہ گزاری کا فاتحہ نازل فرمائی ہے اس سورۃ کی سات

جسم دو اجزا سے مرکب ہے ایک تو آایات مناجات گزاری کا۔ انسان کا سکھاتی ہیں اور بقیہ چار سے قیمت کے اعتبار و بدن اور دوسرے اس کے بدن کو متحرک رکھنے والی روح ہے۔ قدر اس کا

یی اور اصل ہے کیونکہ جب تک جسم کے اندر روح کی کارفرمائی موجود ہے تب روح ہی افضل اعلیی درجہ رکھتا ہے۔ اس تک جسم زندہ اور فعال ہے اس لحاظ سے بدن روح کے تابع ہے اور ادن

یی جزو یی نے پانچ ہزار مصلحتیں اور منفعتیں رکھی ہیں۔ اس بدن میں ادن یعنی بدن میں بھی اللہ تعال اللہ کی قدرت کاملہ نے ایسا مضبوط، پختہ اور مستحکم بنایا جوڑ ہیں اور ہر سے زیادہ جوڑ تین سو

بغیر تیل پانی کے ہے کہ نہ وہ گھستا ہے اور نہ اس کی مرمت کی ضرورت پڑتی ہے عمر بھر یہ جوڑآانکھ، کان، ناک، زبان، دماغ، ہاتھ، پاؤں اور ان کے جزوی حرکت کرتے رہتے ہیں اسی طرح اعضاء کے جتنے بھی اعمال ہیں ان سب میں ایک پورے عالم کی قوتیں اور مصلحتیں پوشیدہ

غریب، چھوٹے بڑے، بچے گدا، امیر بلا امتیاز شاہ و زندہ انسان کو ہر ہیں اور یہ وہ نعمت ہے جو ہیں۔ اسی طرح اللہ کی ہر بڑی نعمت مخلوق کے لئے سے میسر عمومی طور بوڑھے کے سب کو

آاسمان، زمین، ان سے بلا وقف عام ہے اور ہر فرد تفریق نفع حاصل کر سکتا ہے اس کائنات کے آاگ پانی کا کاست پہنچ رہا ہے۔ و کم بلا جاندار کو نفع ہر سورج چاند، ستارے سیارے، ہوا فضا،

قدرت کے مطابق لوگوں کو اس کے بعد اللہ کی وہ خصوصی نعمتیں ہیں جواس کی حکمت و ناموری، آارام، شہرت و حشمت، راحت و بیش میسر ہیں ان میں مال و دولت، عزت و کم و

من الشمس ہے کہ دانش وغیرہ اسی قسم میں داخل ہیں اور یہ بات اظہر اقتدار، علم و حکومت و اس کی عام نعمتیں ان نعمائے خاصہ سے زیادہ اہم، اشرف، قیمتی اور ضروری ہیں لیکن انسان

پر ان عام اور عظیم الشان نعمتوں کی طرف زیادہ التفات نہیں اپنی کج فہمی اور کم علمی کی بنا پیش کی چیزوں کھانا، کپڑا، مکان اور ضروریات زندگی کی فراوانی پرہی اس و کرتا بلکہ اپنے گرد

Page 52: Adab MenHamd o Munajat

وقت حاصل ہیں اور یہ اس بات کی ہر انسان کو ہر کی نظر رک جاتی ہے۔ یہ تمام نعمتیں جو اپنے محسن اور منعم اللہ، الرحمن الرحیم کے احسانات اور متقاضی ہیں کہ انسان اپنے مقدور بھر

گزاری میں اس کی حمد و ثنا بیان کرتا رہے اسی بات کی تعلیم اور ترغیب کے انعامات کی شکریی نے اپنے کلام پاک کو لئے اللہ تبارک و الحمد‘‘ سے شروع کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’لفظ تعال

یلہی کو عبادت میں کلیدی درجہ حاصل ہے۔ حمد و ثنائے ا

یی نے حمد کی حقیقت کچھ اس طرح بیان کی ہے کہ جب کوئی حضرت شفیق ابن ابراہیم بلخ پہچانو پھر جو کچھ تمہیں اپنے مہربان اللہ کو چیز من جناب اللہ تمہیں مل جائے تو پہلے تو

اس نے عطا کیا ہے اس پر راضی اور تابع ہو جاؤ پھر جب تک تمہارے جسم میں اس کی عطایی نے اپنی کتاب کردہ نعمت و قوت موجود ہے اس کی نافرمانی کے قریب بھی نہ جاؤ۔ امام قرطب

نم نے فرمایا ہے کہ جب اللہ یس سے روایت کی ہے کہ رسول کری سلفی ابن ماجہ میں حضرت انیی اپنے کسی بندے کو اللہ کوئی نعمت عطا کریں اور بندہ اس نعمت کے حصول پر الحمد تعال

یہ ایسا ہو گیا جیسے جو کچھ اس نے لیا اس سے افضل چیز دے دی۔ ایک دوسری کہے تو کی نعمتیں مل جائیں اور وہ اس پر صرف ساری دنیا کسی ایک انسان کو حدیث میں ہے کہ اگر

یہ کہنا دنیا کی ساری نعمتوں سے افضل ہے۔ زبان سے الحمد کا اس للہ کہہ دے تو لالحمد ارفع کی ساری نعمتوں سے افضل و بھی ایک نعمت ہی ہے اور یہ دنیا اللہ کہنے کی توفیق ہونا

جاتا ہے۔ کلام اللہ کی پلہ بھر آادھا للہ سے میزان عمل کا ہے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ الحمد بھی ہے جس میں دعا کی ابتدا اس ہستی کی تعریف ابتدائی سورت سورۃ فاتحہ دراصل ایک دعا

سے کی جا رہی ہے جس سے ہم دعا مانگنا چاہتے ہیں کسی کی تعریف دو وجوہات کی بنا پر مرقع ہو اور یہ درجہ کمال رکھتا ہو جمال کا حسن و یہ کہ وہ بجائے خود کی جاتی ہے ایک تو محسن اور مربی ہو اور ہم اعتراف نعمت کے جذبے سے سرشار ہو کراس دوسرے یہ کہ وہ ہمارا

شناسی اور بندگی کی خوبیاں بیان کریں اللہ کی تعریف انہی دو حیثیتوں سے ہے اور ہماری قدر تقاضا بھی ہے کہ ہم اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوں۔ اس لفظ ’’الحمد‘‘ کے شروع میں کا

یی کی حمد ’’ال‘‘ حروف اختصاص اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ صرف یہی نہیں کہ اللہ تعال فرض ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حمد و ثنا صرف اسی کی ذات اقدس کے لئے و ثنا انسان کا

خاص ہے اور صحیح بھی یہی بات ہے کہ تعریف کی مستحق صرف اللہ ہی کی ذات مبارک ہے

Page 53: Adab MenHamd o Munajat

اور یہ بات ایک بڑی حقیقت کو واضح کر دیتی ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ پہلی ہی ضرب میں مخلوق پرستی کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ کیونکہ اس کائنات میں اس ذات باری کے سوا

میں جہاں بھی جس چیز میں بھی اور جس مستحق نہیں ہو سکتا۔ دنیا کوئی بھی حمد و ثنا کا شکل میں بھی کوئی حسن، کوئی خوبی، کوئی کمال ہے تو اس کا سرچشمہ دراصل اللہ ہی کی

کمال اس کا ذات مقدس ہے۔ کسی انسان، فرشتے، دیوتا، ستارے، سیارے غرض کسی مخلوق کا پرستاری، احسان ذاتی کمال نہیں بلکہ اللہ کا عطا کردہ کمال ہے۔ بس اگر کوئی ہماری گرویدگی،

مستحق ہے تو وہ صرف اور صرف خالق کمال مندی اور عبادت گزاری کا گزاری، نیاز مندی، شکر ہے نہ کہ صاحب کمال۔

یی کا اپنی حمد و ثنا کرے۔ اللہ تبارک و نہیں کہ وہ خود کسی انسان کے لئے یہ جائز یہ بے تعال کرم ہے کہ اس نے اپنی حمد و ثنا بیان کر کے انسان کے لئے ایک رہنما اصول کا انتہا احسان و

جلال کی حمد و ثنا و تعین فرما دیا ہے۔ کیونکہ انسان بے چارہ اتنی استعداد نہیں رکھتا کہ بارگاہ عز مجال کہ رب العالمین کے شایان شان طریقہ سے اس کی حمد و کماحقہ بیان کرے اس کی کیا

نپ کی حمد ثنا کر سکے۔ خود آا نل نے فرمایا کہ میں کماحقہ بیان نہیں کر سکتا۔ اس اللہ کے رسوہہ نے اپنی حمد و ثنا فرما کر ایک راہ مبین حمد و ثنا کے بیان کرنے کی انسان پر لئے اللہ جل شان

دی ہے۔ واضح فرما

نام ہے جن کے ذریعہ احسن طریقے سے اللہ رب العزت کی مناجات دراصل ان مجموعہ الفاظ کا طلب کی جائے اور بہتری کی درخواست کی مانگی جائے، مدد اس سے دعا حمد و ثنا کے بعد

تقاضا بھی ہے کہ معبود کی نعمتوں اور اس کے احسانات کے حصول پراس کا جائے۔ عبدیت کاآائی ہے ان کا کیا ادا بھی شکر شکر بھی ادا کیا جائے بلکہ جن واسطوں سے وہ نعمت ہاتھ

بھی شکرگزار نہیں نہ ہو وہ اللہ کا ادا کرنے کا خوگر شکر جائے۔ کیونکہ جو شخص اپنے محسن کا تو مادی اسباب طلب کرنے کا مسئلہ ذرا تشریح طلب ہے کیونکہ ایک مدد مانگنے یا ہو گا۔ مدد

نظام بھی نہیں چل سکتا۔ کا انسان دوسرے انسان سے لیتا ہے اس کے بغیر دنیا کے تحت ہر صنعت کار، دکاندار، مزدور، بڑھئی، لوہار وغیرہ سب مخلوق کی اعانت میں لگے ہوئے ہیں اور ہر

شریعت مجبور ہے اور اس طرح کی امداد و اعانت کسی بھی دین و لینے پر شخص ان سے مددیی کے میں ممنوع نہیں ہے۔ لیکن یہ اس اعانت میں داخل نہیں جو صرف اور صرف ذات باری تعال

Page 54: Adab MenHamd o Munajat

آاتا ہے ساتھ مخصوص ہے۔ وسیلے اور استمداد کے بارے میں اکثر شکوک و شبہات کا اظہار نظراا اولیاء کو وسیلہ بنانا لیکن انبیاء و اا ناجائز۔ کیونکہ کسی کو جائز نہ مطلق مختار ہے اور نہ ہی مطلق

حرام میں داخل ہے اور محض واسطہ اور ذریعہ یہ شرک و جائے تو مطلق سمجھ کر وسیلہ بنایا عمل تفریط کا لوگوں میں افراط و جائز ہے۔ اس بات میں عام طور پر کیا جائے تو سمجھ کر

آاگے ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔ ویسے بندوں کے لئے ضروری ہے کہ صرف مالک حقیقی ہی کے بے بسی کا اقرار کر کے زاری کریں اور اپنی مسکینی و پھیلائیں انھی کے سامنے تضرع و

الوہیت کا دل خضوع کے ساتھ اس کی عبادت کریں اس کی وحدانیت و خلوص نیت اور خشوع و برتر جانیں اور صراط کی گہرائیوں کے ساتھ اقرار کریں اور اسے شریک، نظیر اور مثل سے پاک و

دعا مانگنے سے ثابت قدمی کے لئے اسی سے مدد کے طالب ہوں۔ مناجات کرنے یا مستقیم پر یقین دلائیں کہ ہم تیرے پرستار پہلے اس کی عبادت، اطاعت، بندگی، غلامی اور فرمانبرداری کا

کوئی اور ہمارا غلام بھی۔ ان تمام معنوں میں تیرے سوا بھی نیز بندہ و فرمانبردار بھی ہیں اور مطیع و بھی ہے کیونکہ نہیں بلکہ استقامت کا تعلق محض عبادت ہی کا معبود نہیں۔ تیرے ساتھ ہمارا

ہی ہے ساری طاقتوں اور نعمتوں کاتو واحد مالک ہمیں معلوم ہے کہ ساری کائنات کا اب صرف توآاگے ہاتھ پھیلاتے ہے اسی لئے ہم اپنی تمام حاجتیں تجھ ہی سے طلب کرتے ہیں، تیرے ہی

تیرے حضور ہمارا اعتماد ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی درخواست لے کر پر ہیں اور تیری ہی مدد ہماری رہنمائی فرما۔ ہمیں وہ سیدھا عمل کی سیدھی اور صاف راہ دکھا کر و ہیں۔ ہمیں فکر حاضر

لوگ چلتے رہے، تیرے انعامات کے مستحق ہو کر تیری نعمتوں رستہ دکھا جس پر تیرے منظور نظر سے مالامال ہوئے۔ انعامات سے ہماری مراد وہ حقیقی اور پائیدار انعامات ہیں جو راست روی اور

تیری خوشنودی کے نتیجے میں ملا کرتے ہیں نہ کہ وہ عارضی اور نمائشی انعامات جو پہلے بھیآاج بھی بڑے بڑے ظالموں، بدکاروں، فرعونوں، نمرودوں، قارونوں، شددادوں کو ملتے رہے اور

ملے ہوئے ہیں۔ گمراہوں اور دھوکے بازوں کو

نر کی خدمت میں حاضر بد بن سریع ایک مرتبہ حضو کہ میں نے ذات ہوئے اور عرض کیا حضرت اسویی کی حمد گزاری میں چند اشعار کہے ہیں، اجازت ہو تو نپ نے فرمایا کہ باری تعال آا عرض کروں۔

گزاری کے بہت پسند ہے۔ حمد و مناجات میں چونکہ اللہ رب العالمین کی حمد اللہ کو اپنی حمد صراط مستقیم دکھانے کی درخواست پیش کی جاتی ہے ا سی طالب ہو کر بعد اسی سے مدد کا

Page 55: Adab MenHamd o Munajat

صاحب ایمان و ایقان شاعر کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بارگاہ رب کائنات کی خدمت لئے ہر تسلیم کیا بہترین ذریعہ اظہار میں نذرانۂ حمد پیش کرے اس کے لئے اردو ادب میں فن لطیف کو

گیا ہے کیونکہ شعر ایک ایسا لطیف اور موزوں ذریعہ اظہار ہے جس میں شاعر اپنی قوت متخیلہ کو صداقت کے برملا اظہار کرتا ہے۔ حق و بر روئے کار لا کر اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کا

جائے تو سامعین اور قارئین بھی اپنے دلوں بیان اختیار کیا کن انداز دائرے میں رہتے ہوئے متاثر نصیحت نیز اپنے حکیمانہ مضامین، وعظ و میں ایک خاص اثر محسوس کرتے ہیں بعض اشعار تو

ثواب کے مستحق بھی ہو جاتے و مشتمل ہونے کی وجہ سے خصوصی اجر اطاعت خدواندی پریر نے فرمایا۔ ہیں جیسا بب کی روایت ’’ان من الشعر حکمۃ‘‘ کے متعلق حافظ ابن حج کہ ابی بن کع

یل نے فرمایا کہ جس شعر میں حکمت سے مراد وہ سچی بات ہے جو حق کے مطابق ہو۔ ابن بطا ذکر ہو وہ ذکر اور اسلام سے الفت کا خداوند قدوس کی وحدانیت، کبریائی، اس کی صفات کا

فحش کا بیان ہو وہ مذموم ہے۔ مندرجہ بالا محمود ہے اور جس شعر میں کذب و شعر مرغوب و پیغمبری کی تعریف میں شامل ہے ان ہی رہنما اصولوں صفات سے متصف شاعر ی ہی جزویست از

اا پیش کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں : کی روشنی میں حمد و مناجات پر مشتمل تخلیقات نمونت

محبوب راہی( )ڈاکٹر

ہہ رگ و پے میں میری بسا ہے تو، تری شان جل جلا ل

ہہ مجھے پھر بھی ہے تری جستجو، تری شان جل جلا ل

آا لباس مجاز میں کبھی مجھ کو وقت نماز میں، نظر

ہہ اے خدا، تو جیسا ہے ہو بہو، تری شان جل جلا ل

یی فقیر ہوں ترا ایک بندہ حقیر ہوں، تیرے در کا ادن

ہہ آابرو، تری شان جل جلا ل ترے ہاتھ ہے مری

جو ہو ذہن میں تری فکر ہو جو لبوں پہ ہو ترا ذکر ہو

ہہ شب و روز ہو تری گفتگو، تری شان جل جلا ل

تو کرم سے اپنے نواز دے، مجھے ذوق و شوق نماز دے

Page 56: Adab MenHamd o Munajat

ہہ آانسوؤں سے سدا وضو، تری شان جل جلا ل کروں

ہے اندھیرا حد نگاہ تک، نہ سجھائی دے کوئی راہ تک

ہہ تری روشنی ہے چہار سو، تری شان جل جلا ل

آائے گزر گئے، کئی بگڑے اور سنور گئے کئی موسم

ہہ مرا دامن دل نہ ہوا رفو، تری شان جل جلا ل

وہی دھوپ میں وہی چھاؤں میں وہی شہر میں وہی گاؤں میں

ہہ ترے تذکرے تری گفتگو، تری شان جل جلا ل

کتاب کا، مرے ہر گناہ و ثواب کا ہو جو موقع حساب و

ہہ مجھے رکھیو اس گھڑی سرخرو، تری شان جل جلا ل

آاہٹیں ہیں ڈگر ڈگر، تری رونقیں ہیں نگر نگر تری

ہہ ہیں ترے ہی تذکرے کو بہ کو، تری شان جل جلا ل

لئے وفتر عصیاں تمام تر، دل زخم خوردہ بچشم تر

ہہ ہوں کھڑا ہوا ترے روبرو، تری شان جل جلا ل

:قاضی رؤف انجم

اک تو باقی، فانی سب، میرے اللہ میرے رب

تیری ہر تخلیق عجب،میرے اللہ میرے رب

راز تھا ہر شے پر طاری، جسم سے ہر شے تھی عاری

بس تھی تیری ذات ہی تب،میرے اللہ میرے رب

اللہ، واحد تیری ذات، بے گنتی ہیں تیری صفات

Page 57: Adab MenHamd o Munajat

یلہی تیرا لقب،میرے اللہ میرے رب اور ا

آاخر تو، جزو میں کل میں ظاہر تو از اول تا

ہی تو ہے تب اور اب،میرے اللہ میرے رب تو

یہ جو چاند ستارے ہیں، تیرے صرف اشارے ہیں

حکمت تیری، روز و شب،،میرے اللہ میرے رب

خیر و شر بھی سب تیرے، علم و ہنر بھی سب تیرے

میں کیا کھولوں اپنے لب،میرے اللہ میرے رب

حرف اور الفاظ ترے، قاری اور حفاظ ترے

سب میں ہے ملحوظ ادب،میرے اللہ میرے رب

یم تیرا بندہ ہے، وہ بھی حسرت رکھتا ہے انج

دے عرب،میرے اللہ میرے رب دوبارہ پہنچا

Page 58: Adab MenHamd o Munajat

یی نشیط ڈاکٹرسیدیحیمحل)مہاراشٹر( ایوت ضلع ،۴۴۵۲۰۳! گاؤں کل پوسٹ ’’کاشانہ‘‘

محاسن ی شعر میں ی شاعر حمدیہ قدیم

الارض ہے۔ جس کی کارفرمائی خالق سماوات و ثنائے جمیل ہے ‘‘ اس ذات محمود کی جو ’’حمد ہے۔ پس اس مبدء فیض کی نور کمال کا ظہور اور حسن و فیضان کا کے ہر گوشے میں رحمت و

تمجیدی نغمے و بھی تحمیدی فیضان کے اعتراف میں جو خوبی و کمال اور اس کی بخشش و دراصل خدا کے اوصاف حمیدہ اور میں ہو گا۔ حمد گائے جائیں گے ان سب کا شمار حمد

یی کی تعریف ہے۔ اسمائے حسن

رقم کئے جانے کی روایت رہی ہے۔ کی حمد عربی، فارسی کی طرح اردو شاعر ی میں بھی خدا کر باری ایمان کے گل ہائے معطر حمدیہ اشعار کی لڑیوں میں پرو اردو شعرا نے اپنی عقیدت و

یی کے گیسو یی کے اوصاف حمیدہ اور اسمائے حسن ہائے معتبر سجائے ہیں۔ خدائے عزوجل تعال ائے بے نظیر شعر ییتوصیف کے یہ در و کی تحمید و تمجید کے یہ نقش ہائے دل پذیر اور ثنا

لف سخن کے ساتھ ساتھ پیکر میں ڈھل کر ادبی سرمائے میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔ دیگر اصنا اپنے حمدیہ شاعر ی کے سلسلے میں بھی اردو شعرا نے ایرانی شعرا کے اس قبیل کے نمونوں کو

یہ ہے کہ ان کے خلاق تخیل نے دیگر اصناف کی طرح اس امر سامنے رکھا۔ لیکن قابل غور صنف میں بھی اپنے ہی دلی جذبات کی اپنے مخصوص انداز میں ترجمانی کی ہے، بلکہ جا بجا

بھی کچھ باتیں لکھی ہیں۔ ایرانی مذہبی روایات سے ہٹ کر

Page 59: Adab MenHamd o Munajat

آاغاز پندرہویں صدی عیسوی کے اوائل ہی سے ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اردو شاعر ی کا باقاعدہ پدم راؤ‘‘ کدم راؤ ’’ء کے درمیان لکھی گئی فخرالدین نظامی بیدری کی تصنیف۱۴۳۴ء اور ۱۴۲۱

قدیم ترین مستقل تصنیف تسلیم کیا گیا ہے اورہکو حالیہ تحقیق کے مطابق اردو کی پہلی مصدق ہوتا ہے۔ شمار منقبت کا نعت و و یہی اردو کی اولین مثنوی ہے۔ مثنوی کے عناصر ترکیبی میں حمد

یی کی حمد عقیدت میں ڈوب کر نہایت نظامی نے اپنی مثنوی میں اس کا التزام کیا ہے اور اللہ تعالآایات کو آانی آان والہانہ انداز میں کی ہے۔ شاعر نے جگہ جگہ قر منظوم کیا ہے جس سے اس کی قر

:بھی پتہ چلتا ہے فہمی کا

گسائیں تہیں ایک دنہ جگ ادار

بروبر دنہ جگ تہیں دینہار

اکاش انچہ پاتال دھرتی تہیں

جہاں کچہ نکوئی، تہاں ہے تہیں

آاگلا تجہ کریں سیو کوے کرے

کہ جب نہ کرے سیوتجہ کم نہوے

سپت سمند پانی جو مس کر بھریں

قلم رک رک پان پتر کریں

جمارے لکھیں سب فرشتے کہ جے

نہ پورن لکھن تد توحید تے

نظامی ان اشعار میں کہہ رہا ہے کہ اے خدا اس کائنات میں سہارا صرف تیری ایک ہی ذات ہے،آاسمان، تو دوسری کوئی ہستی نہیں۔ تو یی( اور توثہی پاتال)تحت ال ہی ہی زمین بھی ہے۔ جہاں ر

تو بڑا غیور کوئی تیری سیوا)حمد( کرتا ہے۔ مگر رہتا ہے۔ اس کائنات میں ہر کوئی نہ ہو وہاں بھی تو اور مستغنی ہے کہ کسی کے حمد نہ کرنے سے بھی تیری تعریف میں کوئی کمی واقع نہیں

لیے جائیں اور تمام فرشتے تیری ہوتی۔ ساتوں سمندر کی سیاہی اور سارے نباتات کے قلم بناآاخری دو چاہیں تو بھی وہ ایسا کر قدرت کاملہ کو تحریر میں لانا شعر وں میں نہیں سکتے۔ یہاں

Page 60: Adab MenHamd o Munajat

آایت ’’ ئر مانفدتۃسبعولوان مافی الارض من شجرۃ اقلام والبحریمدہ من بعدہ سورۃ لقمان کی ابحآایت: ہلکلمت ال شاعر نے منظوم کر دیا ہے۔ ( کو۲۷‘‘ )

آایات کو آانی حمدیہ شاعر ی میں سجانے کے جتن کئے گئے یا ان کے ترجمے کو جس طرح قر معنوی کا برقرار رکھنے کے لیے صنائع لفظی و ہیں اسی طرح حمدیہ شاعر ی میں شعریت کو

یی کیا گیا ہے۔ حمد جیسے نازک موضوع میں بھی شعر ائے اردو نے استعمال بھی بدرجۂ اولآاباد مشاہدہ بھی قاری کو حیرت میں ڈال کئے ہیں کہ ان کا تخیلات کے ایسے روح پرور جہاں

آایات اللہ‘‘ کی منظر کشی میں حسن شعر ی کے تمام رنگوں کو نہایت چابکدستی دیتا ہے۔ ’’ پاتے عمدہ نمونہ قرار سے برتا گیا ہے۔ اردو حمد یہ شاعر ی کے ایسے اشعار محاکاتی شاعر ی کا

آایات فی السماء یی کی سبھی کرتے ہیں کہ یہ نشانیاں خالق اکبر کی نظارہ تو کا ہیں۔ اللہ تعال سرمہ بھی شعریت کا اگر میں عقیدت کی اس نظر قدرت عظیم کی گواہی دیتی ہیں۔ لیکن ایمان و

آاتا ہے۔ پھر ان نظروں سے دیکھے گئے نظاروں میں اور بھی حسن نکھر شامل ہو جائے تو )مشاہدہ کس انداز سے کرتا ہے۔ صنعت تجسیم دیکھئے شاعر اللہ کی کائنات کا

Personification )ہے کی یہ مثال بہت دلکش اور نادر:

کیا دیس مل باپ نس مائی جن

ہوا پونگڑا چاند نرمل رتن

گنوارے گگن باہ کرتس جھلا

پکڑڈوری کہکش سوتس کوہلا

آانجھواں ڈال کر پڑیا رو وتا

پڑے بوند بوند ہو ستارے بکھر

یل:ابراہیم نامہ،مرتبہ مسعود حسن خان:علی گڑھ (۱ء، ص:۱۹۶۹)عبد

توصیف کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ دن )باپ( اور رات )ماں ( کے اختلاط سے شاعر اللہ کی ثنا وآاسمان کے گہوارے میں جھولا جھلانے کے لیے کہکشاں کی )پونگڑا چاند =لڑکا( ہوا۔ جسے

آانسو گرتے ہیں۔ ڈوری لگی ہے۔ جب چاند رونے لگتا ہے تو ستاروں کی صورت میں اس کے

Page 61: Adab MenHamd o Munajat

یل نے اپنے حمدیہ اشعار میں گردش لیل و عمیق جائزہ لیا ہے۔ دن رات کے بدلتے نہار کا عبدیل اللہ کی یلہیہ کی جھلک دیکھی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عبد کوائف میں اس نے قدرت ا

عادی تھا۔ کائنات کے مشاہدات کی شعر ذات میں نہیں اس کی کائنات میں غور و فکر کرنے کا میں استعمال کیا ہے۔ بھونڈی اور غیر ی صورت گری لیے اس نے استعاراتی زبان کی فنکارانہ انداز

کیا ہے۔ اوپر کی مثال میں چاند، دن،ر ات اور کہکشاں دلچسپ تشبیہات سے اس نے اکثر گریز و ستاروں کے تعلق سے ہم دیکھ چکے ہیں کہ صنعت تجسیم کا اس نے کتنی خوبصورتی سے

سیاہی، ستاروں کو حروف اور استعمال کیا ہے۔ ایک جگہ اس نے چاند کو دوات، چاندنی کو کہکشاں کو قلم سے تشبیہہ دی ہے۔

آایات سے بھی استنباط کیا ہے۔ چنانچہ سورہ لقمان کی آانی عبدل نے اپنے حمدیہ اشعار میں قریی اجل آایت ’’الم تران اللہ یولج الیل فی النھار ویولج النھار فی الیل وسخرالشمس والقمر کل یجری ال

آایت: میں کی گئی ہے۔ جو ذوق سلیم اور ذہن و قلب کو ( کی توضیح بڑے موثر انداز۲۹مسمی‘‘ ) :اپیل کرتی ہے

دھریا رات پردا دیوا دیس لائے

آائے بھریا گنج قدرت پٹارا پھر

پکڑرات دن ہاتھ دونوں پھرائے

سرج چاند کانسے امرت بس ملائے

کدھیں چاند کانسے تھے بس نس جھڑے

سو اس پیوکر سب جگت تو مرے

کدھیں سورج کانسے تھے امرت پیوے

موا دور عالم سو پھر کر جیوے

یی اپنی قدرت کاملہ سے رات کے پردے سے دن نکالتا ہے۔ دن اور رات کو اپنے دست اللہ تعال زہر جھلکتا ہے، اسے پی کر تمام قدرت سے گردش کراتا ہے۔ چاند کے پیالے میں سے رات کا

آاغوش میں چلا جاتا ہے اور سورج کے پیالے سے چھلکے ہوئے عالم مر جاتا ہے یعنی نیند کی

Page 62: Adab MenHamd o Munajat

حیات کا استعارہ اور پھر حیات بیداری کے لیے موت و امرت کو پی کر وہ پھر جی اٹھتا ہے۔ نیند وآاخری شعر میں بعد الموت کا اسلامی تصور کس خوبی سے شاعر نے ان اشعار میں پیش کیا ہے

آایت ،جعلنا الیل لیسکنوافیہ۸۶’’النوم اخت الموت‘‘ والی حدیث کی طرف اشارہ ہے اور سورہ النمل روشن کیا تھا( والنھار مبصرا )یعنی رات ان کے لیے سکون حاصل کرنے کی بنائی تھی اور دن کو

کی تشریح بھی ان مذکورہ اشعار میں کی گئی ہے۔

( نے اپنی تصانیف میںء۱۶۱۴، ھ۱۰۲۳چشتی )م گجرات کے مشہور صوفی شاعر خوب محمد یی کی حمد و ثنا کے اشعار میں تصوف و آامیزش نہایت خوبی سے کی ہے۔ ان اللہ تعال فلسفہ کی

کی حمدوں اور روحانیت اور علمیت یکجا ہو گئے ہیں۔ البتہ روحانیت کی علمی پیچیدگیوں کیآاسان اور قریب الفہم بنانے کے جتن کئے گئے ہیں۔ خوب محمد وضاحت کر کے انھیں

مشتمل ہے لیکن شاعر چشتی کی ’’خوب ترنگ‘‘ نہایت مشہور کتاب ہے۔ یہ اگر چہ ادق مسائل پریی کی حمد و ثنا کے موضوع میں انھوں نے اللہ آاسان بنایا ہے۔ اللہ تعال نے مثالوں کے ذریعہ اسے

یی کی صفت ’’لطیف‘‘ کو آایت ان اللہ لطیف ضیبر کی تعال آانی بڑے موثر انداز میں سمجھایا ہے۔ قر:توضیح ذیل کے اشعار میں ملاحظہ ہو

بھری طشت میں ماٹی جب

دوجی ماٹی مائے نہ تب

پانی جب ریڑو اوس مانہ

پچھیں سماوی پانیں تانہ

جس بائیں پانی سوس جائے

پانی منہ ہو باد سمائے

آاگ بسیکہ پچھیں سماوے

آاگ تتا کر دیکہ پانی

جے کو ہو وی بہت لطیف

مائی لطیف سو مانجہ کشیف

Page 63: Adab MenHamd o Munajat

خدا لطیف سو جس کا نانوں

ا ہے محیط سو وے ہر ٹھانوں

(۱۴۰چشتی، خوب ترنگ، مطبع نورانی، پیران پٹن، ص: )خوب محمد

نہیں سکتی۔ لیکن پانی اس مٹی میں جذب ہو یعنی مٹی سے بھرے طشت میں دوسری مٹی سما بھی اس مٹی میں داخل ہو جاتی لیتا ہے۔ پانی کے ساتھ ہوا جاتا ہے اور مٹی میں اپنی جگہ بنا

یفثآاگ بھی اس مٹی میں داخل ہو جائے گی۔ اس طرح ک جائے تو طشت گرم کر لیا ہے۔ اگر محیط ہے۔ چیز پر چونکہ ’’لطیف‘‘ ہے اس لیے وہ ہر شئے میں لطیف شئے سما جاتی ہے۔ خدا

عربی ادب میں ایک قول ’’لاتتحرک ذرۃ الاباذن اللہ‘‘ )یعنی کوئی ذرہ حکم خداوندی کے بغیریی کے فاعل حقیقی اور قادر مطلق ہونے کی حرکت نہیں کر سکتا( بہت معروف ہے۔ جواللہ تعال

یی وماتشاؤن الا ان یشا آان میں کہا گیا ہے ’’ومارمیت ولکن اللہ رم ‘‘ خوب محمدءشہادت دیتا ہے۔ قریی کے فاعل مطلق ہونے کی وضاحت ذیل کے اشعار میں فنی محاسن کے چشتی نے اللہ تعال

نہایت چست استعمال ان اشعار میں ملاحظہ کیجئے جس کی وجہ ساتھ کی ہے۔ صنعت تشبیہ کاآاسان ہو گیا ہے :سے ایک ادق موضوع

عالم جیوں شطرنج کا کھیل

بازی مات کرے اس میل

اک پیادہ اک شاہ سوکیں

الکی چال سبھوں کوں دیں

فرزی گھوڑا پیل چلائے

رخ پیادہ چل شہ کہہ جائے

فعل حقیقی کرے خداج

ہم باج جگ منہ سکے نہ کر

Page 64: Adab MenHamd o Munajat

یی چشتی کی علمیت کے ساتھ حضوری کا درج بالا اشعار میں خوب محمد جذبہ اور اللہ تعال کھیل‘‘ رہا ہے۔ شاعر نے ’’عالم جیوں شطرنج کا سے رکھی جانے والی والہانہ عقیدت کا اظہار ہو

بحسن و خوبی بیان کر دیا ہے۔ اس پر طرفہ کہہ کر بندوں کی مجبوری اور خدا کی مختاری کو حسن شعر ی کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔

خاص التزام کر کے اپنے حمدیہ اشعار کو نگار شعرا نے صنعتوں کا قدیم اردو کے حمد خوبصورت پیکر عطا کئے ہیں، لیکن بعض ایسے شعرا بھی پائے جاتے ہیں جن کے یہاں

آامد آامد ہے صنعتوں کا استعمال تو ہوا ہے لیکن ان میں نام و نشان نہیں ملتا۔ فرط کا وردآاہی صنعات عقیدت میں شاعر نے ایک شعر کہہ دیا لیکن جب اس میں شعر ی حسن تلاش کیا گیا تو

آایا۔ شاہ برہان الدین جانم کے حمدیہ اشعار میں اکثر جگہوں پر لغوی و معنوی سے وہ معمور نظر اا آاتا ہے۔ مثل :ہمیں تجنیس ’’سیاق الاعداد‘‘ کا استعمال نظر

دو ہوں جگ سمریں اللہ ایک نام

کہ مخلص و عابد جپی ہیں مدام

اللہ واحد سر جن ہار

دو جگ رچنا رچی اپار

ہہ کی صفت بیانی میں شعر میں اعداد کے بالالتزام لانے کو ’’سیاق الاعداد‘‘ کہتے ہیں۔ اللہ وحد برملا استعمال کیا ہے اور شعر میں خوبی پیدا کی ہے۔ ایک حمدیہ شعر شاعر نے اس تجنیس کا

:میں استعمال ہوا ہے بہترین انداز میں ’’تجنیس ترصیع‘‘ کا

وہی اسم قاضی ہے حاجات ہے

وہی اسم رافع ہے درجات ہے

یہاں شعر کے دونوں مصرعوں کے الفاظ ہم وزن ہیں۔ شاعر جہاں ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے وجہی کی تخلیقات میں اس صنعت کی وافر مثالیں مل جاتی اسے ’’ترصیع‘‘ کہتے ہیں۔ ملا

:متواتر اسی صنعت میں مل جاتے ہیں ہیں، بلکہ بعض اشعار تو

آاخر توں قادر ا ہے توں اول توں

Page 65: Adab MenHamd o Munajat

توں مالک توں باطن توں ظاہر ا ہے

ایک ہی شعر میں کئی صنعات برتی گئی ہیں۔ تجنیس زائد، الکلام شعرا کے یہاں تو بعض قادریی کے اس شعر میں ملاحظہ کیجئے :ایہام تناسب اور صنعت تضاد کا ایک ساتھ استعمال غواص

حمد وفا کے کروں اس پر جواہر نثار

جس سے ہویدا ہوئے نار و نر و نور و نار

خزانہ ہے۔ بیش بہا معنوی کا صنعات لفظی و پھول بن‘‘ تو ’’ کا ابن نشاطی

مثنویاں ہیں۔ پہلی الکلام شاعر ہے ’’گلشن عشق‘‘ اور ’’علی نامہ‘‘ اس کی دو قادر نصرتی دکن کا دوسری میں رزمیہ واقعات قلمبند ہوئے ہیں۔ شاعر نے دونوں مثنویوں مثنوی عشقیہ داستان ہے تو

خیال رکھتے ہوئے حمدیہ اشعار میں الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ’’گلشن کے نفس مضمون کا عشق‘‘ کے حمدیہ اشعار میں نرمی، نازکی اور شیفتگی پائی جاتی ہے جبکہ ’’علی نامہ‘‘ میں

آاتے ہیں۔ ایک سختی نمایاں ہے۔ شاعر کے تیور دونوں جگہ الگ الگ نوعیت کے نظر صلابت و دوسری جگہ جنگی واقعات دل کی جگہ عشق کی کیفیات دل میں گدگدی پیدا کرتی ہے تو

دیتے ہیں اور ان ہی انسانی جذبات کے سہارے شاعر نے حمدیہ اشعار قلمبند بڑھا دھڑکن کو کئے ہیں۔

ان کے اذہان و کلام خود ان کا تعلق ہے تو جہاں تک دکنی حکمرانوں کی حمدیہ شاعر ی کاآاگے طبائع کو منکشف کرتا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کے حمدیہ اشعار میں اللہ کی بڑائی کے

یلہی میں ثنا آاتا ہے۔ وہ بندۂ عاجز بن کر بارگاہ ا توصیف کے گلہائے و بندے کا عجز نمایاں نظر معطر پیش کرتے ہیں تو نہایت انکساری کے ساتھ اپنی حاجت روائی کے لیے دست سوال دراز

بھی کرتے ہیں۔ ان کی حمدوں میں رقت اور تضرع کی کیفیت پائی جاتی ہے اور محاسن شعر ی:جا بجا استعمال بھی کا

چندر سور تیرے نور تھے، نس دن کوں نورانی کیا

آاپی میرا ہے جیا تیری صفت کن کر سکے، تو

آارام ہے، مج جیو سو تج کام ہے تج نام مج

Page 66: Adab MenHamd o Munajat

سب جگ توں تجہ سوں کام ہے تج نام جب مالا ہوا

یی نے صنائع لفظی و شعر ی حسن کو بہت زیادہ معنی کا بڑھانے کے لیے قلی قطب شاہ معان :استعمال کیا ہے۔ صنعت ردالعجز کا استعمال دیکھئے شاعر نے کس خوبصورتی سے کیا ہے

کیا موجود اپنے جمود تھے منج جان غم خوار کوں

دیا ہے جوت اپنے نور تھے، مو طبع انوار کوں

منصف ابراہیم عادل شاہ ثانی اپنی ہندی روایات میں ہی مگن رہا البتہ اس کے پوتے ’’نورس‘‘ کایی کے کلیات میں ہمیں ایک حمدیہ غزل ملتی ہے اور اس کی مثنوی علی عادل شاہ ثانی شاہ

ملتے ہیں لیکن موثر ’’خیبرنامہ‘‘ میں بھی حمدیہ اشعار مل جاتے ہیں ان میں شعر ی محاسن تو قلی میں اور فنکارانہ طریقہ پران کا استعمال دکھائی نہیں دیتا۔ عبداللہ قطب شاہ بھی محمد انداز

یی، غواصی اور ابن نشاطی جیسے طرز قطب شاہ کی طرح صاحب دیوان حکمراں شاعر تھا۔ وجہ بھی کہنہ مشق شاعر تھا۔ اس کے دیوان میں حمد ہ تھے۔ وہ خودتشعرا اس کے دربار سے وابس

قلی قطب شاہ نعت، مناقب، غزلیں، گیت اور راگ راگنیوں والی نظمیں بھی ملتی ہیں۔ محمد و تعلق کے دیوان کے بالمقابل عبداللہ قطب شاہ کا دیوان مختصر ہے۔ جہاں تک حمدیہ شاعر ی کا

شاہان دکن کی حمدیہ شاعر ی میں جتنی روانی قلی قطب شاہ کے یہاں پائی جاتی ہے ہے تو آاہنگ ایسی اور کسی شاہ دکن کے کلام میں نہیں پائی جاتی۔ الفاظ کی پچی کاری اور لے و

کے مطابق ان کے استعمال میں قلی قطب شاہ کے یہاں فنکارانہ انداز ملتا ہے۔ محاسن شعر ی لحاظ اس کے یہاں بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ روزمرہ اور ضرب الامثال کے استعمال میں بھی اسے کایی حاصل تھا۔ ید طول

یی ادبی معیار عبداللہ قطب شاہ کے زمانے میں لکھی گئی ’’پھول بن‘‘ )ابن نشاطی( دکنی میں اعلیی کا آاخری مثنوی ہے۔ اس کے بعد دکن میں ول شہرہ ہو جاتا ہے اردو شاعر ی کو نئی سمت کی

یی تک کا یی سے ول دکنی ادب ایک علاحدہ پہچان رکھتا ہے اس لیے اس عطا ہوتی ہے۔ نظامیی کے زمانے تک کی حمدیہ)دکنی( شاعر ی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مضمون میں ول

Page 67: Adab MenHamd o Munajat

بیدار مجید ڈاکٹرآاندھر جامعہ ، اردو شعبہ آاباد) پردیش( عثمانیہ،حیدر

روایت کی مناجات میں مثنویوں دکنی

آا چکے ہیں اور مسائل زیر مثنوی کی صنف میں شامل خارجی عوامل اور ان کے بے شمار بحث آاج تک بھی ان ہی خارجی ان پر تحقیق کا کام جاری ہے۔ اردو کے بے شمار نقاد اور محققین

معاملات کو اہمیت کے حامل سمجھتے ہیں یعنی اردو کے اکثر دانشوروں نے سطح سمندر اور کیا ہے جبکہ سمندر کے اندر موجود کائنات اور انقلابات پر اس کی خاموش لہروں کا مطالعہ ضرور

وسائل رکھتے ہیں بے شمار ہنوز کوئی توجہ نہیں دی۔ مثنویوں کے داخلی عوامل جہاں اپنے اندر وہیں فن مثنوی کے ذریعے دور قدیم کی شاعر ی میں تمام اصناف کی نمائندگی کے ابواب بھی

نامہ کے علاوہ نیچرل شاعر ی کی عمدہ مثالیں مثنویوں میں کھولتے ہیں۔ مرثیہ، قصیدہ، غزل، شہرآاداب معاشرت، رہن سہن اور روزمرہ زندگی کی نمائندگی بھی مثنویوں موجود ہیں۔ جس کے ساتھ ہی

کے ذریعے ممکن ہو چکی ہے۔ اخلاقی، سوانحی، داستانوی، متصوفیانہ اساطیری اور عشقیہ مثنویاں اردو کے شعرا نے اس صنف کی ہمہ گیری کی جانب اشارہ کیا۔ دکنی میں لکھے ہوئے لکھ کر

نامے اور ولادت نامے مثنوی کے توسط سے قصیدہ کی صنف کو نامے، معراج نامے، مولود نور بن جاتے ہیں۔ وفات نامے اور شہادت نامے کے ذریعے مرثیہ کی صنف فروغ دینے کے علمبردار

علی نامہ‘‘ ہمارے درمیان موجود ’’کی نمائندگی ہو جاتی ہے۔ رزم نامہ کی حیثیت سے نصرتی کاآابادی نے ’’چوک‘‘ کی تعریف کے ہے۔ نصرتی نے اپنی مثنوی میں ’’بیجا پور‘‘ اور سراج اور نگ

آاگے بڑھایا ہے۔ ان تمام مثنویوں کا ذریعے شہر تعلق دکن سے ہے اور دکنی نامہ کی روایت کو پیش کیا۔ یہ پر فن کے نمونے کے طور شعرا نے اپنی مثنویوں کے ذریعے جدتوں اور ندرتوں کو

تمام موضوعات دکنی مثنویوں کے داخلی عوامل ہیں۔ جن پر طویل بحث اور مقالہ نویسی کی

Page 68: Adab MenHamd o Munajat

ہے۔ ادب دوستوں کی دلچسپی اور دکنی مثنویوں کے داخلی اوصاف کی نمائندگی گنجائش موجود جا رہا ہے کیا پیش کی غرض سے یہاں دکنی مثنویوں میں شامل ہونے والی مناجاتی کیفیت کو

اس صنف کے لازمہ کی حیثیت سے قبول تاکہ دکن کی مطبوعہ مثنویوں میں ’’مناجات‘‘ کو نجف علی خاں کرنے کے وصف کی نمائندگی ہو سکے۔ ’’احسن القواعد‘‘ کے مؤلف محمد

:نے مثنوی کے اقسام، اشعار اور اوزان سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے

سلسلہ واجب اور مثنوی کے دیباچہ میں ’’داستان مثنوی کے لیے تمہید شرط ہے اور ربط کلام کا کئی چیزیں لازم ہیں توحید، مناجات، نعت، مدح سلطان زماں، تعریف کے دیباچہ میں ان سب

فقط قصے سے شروع کیا باتوں کے موجد حضرت نظامی گنجوی ہیں۔ ان سے پہلے مثنوی کو‘‘ کرتے تھے۔

لز مثنوی کا ’’احسن القواعد‘‘ کے مؤلف نے مناجات کو سے لازمہ قرار دیا ہے اور اس اعتبار آاغا میں جگہ دی ہے جسے پورے اہتمام کے ساتھ دکنی کے مثنوی کے بنیادی اجزا مناجات کو

بیشتر مثنوی نگار شعرا نے استعمال کیا۔ دکن میں مثنوی مافوق الفطرت عناصر کے ذکر اور محیر العقول کارناموں کے بیان کے لیے استعمال کی گئی لیکن اس صنف میں تقدس اور احترام کے

کی بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ حمد، نعت، مناجات اور منقبت ان ہی جذبات کے اظہار کو ذکر شاعر ایک ذی روح کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تعریف خدواندی اور دعائیہ کلمات کے ساتھ اگر

ایسا شعر ی رویہ ’’مناجات‘‘ کہلاتا ہے۔ دکن حیثیت سے اپنی لاچاری اور مجبوری ظاہر کرے تو رواج دیا جاتا رہا۔ ’’مناجات‘‘ ایک ایسی میں عرصہ دراز تک مثنویوں میں اس شعر ی رویے کو

سے نجات عاجزی، خدا شاعر ی ہے جس میں تعریف خداوندی، انسانی بیکسی، انکساری و طرز طلبی، حمدیہ استدلال کے علاوہ دعائیہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مناجات میں

بیان اور التجا کی خصوصیت کی وجہ کا ایک حسین مرقع بن جاتی ہے۔ شاعر کے زور دعا و حمد سے مناجات میں ہمہ گیری پیدا ہوتی ہے اردو کی بیشتر مناجاتوں میں یہ تاثیر دکھائی دیتی ہے۔

آاصفیہ، جامع اللغات، نور اللغات اور دوسری لغت کی کتابوں میں ’’مناجات‘‘ کے لغوی اور فرہنگ یا پھر طلب بھید کہنا فنی معنی بیان کیے گئے ہیں چنانچہ مناجات کے معنی کسی سے اپنا

نجات کے لئے خدا کی بارگاہ میں دعا کرنا کے لئے واضح کئے گئے ہیں۔ منت اور سماجتآادمی کے ساتھ خدا کے حضور میں گڑگڑانے کا عمل ’’مناجات‘‘ کی دلیل ہے۔ جس طرح ایک

Page 69: Adab MenHamd o Munajat

سے درخواست کرتا حال بیان کر کے تمام حالات حسب منشا ہونے کے لئے خدا اپنے دل کا ہے اسی طرح کسی شاعر ی یا نظم میں خدا کی تعریف اور اپنی عاجزی کا اظہار کر کے دعا اور

دیتے ہیں۔ اردو کتب میں اسے جامع اللغات کے مؤلف ’’مناجات‘‘ قرار جائے تو رکھا التجا کو روا ’’مناجات‘‘ کے معنی اور توضیحات تو ضرور دیئے گئے ہیں لیکن اس طرز شاعر ی کے اجزائے

سے مناجات کے نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کے اصول مدون کیے گئے۔ فنی اعتبار غور ترکیبی پر :اجزائے ترکیبی حسب ذیل ہیں

تعریف خداوندی (۱)

عاجزی انسانی بے کسی و (۲)

نجات طلبی (۳)

حمدیہ استدلال (۴)

دعائیہ (۵)

شعرا کی مناجاتوں میں ان عوامل کی موجودگی نمایاں ہے ایک محتاط دکن کے مثنوی نگار دکنی مثنویاں وقیع مقدموں کے ساتھ شائع ہو چکی ہیں جن میں ۳۳اندازے کے مطابق اب تک

بیشتر مثنویاں ’’مناجات‘‘ کے وصف سے مالامال ہیں۔ جن کا مختصر تعارف پیش ہے۔

اللہ قطب شاہ عبد کیے جانے والا (مناجات غواصی:دبستان دکن کے تین بڑے شعرا میں شمار۱) (، ’’سیف الملک بدیع۱۶۱۲ملک الشعرا تھا۔ اس کی تین مثنویاں ’’مینا وست ونتی‘‘ ) کے عہد کا ( کی تصانیف ہیں۔ غواصی نے ’’سیف الملک بدیع۱۶۳۹( اور ’’طوطی نامہ‘‘ )۱۶۲۵الجمال‘‘ )

:مناجاتی رویہ اختیار کیا ہے وہ ملاحظہ ہو الجمال‘‘ میں جو

رحیما سچا توں غنی ہو رے

غنی تج بغیر نیں کوئی رے

تو مقبول ہے مقبلاں کا سچیں

نہیں نور روشن دلاں کا سچیں

جو کئی زندہ دل ہے توں ان کا حیات

Page 70: Adab MenHamd o Munajat

جو کئی ہورہے تج سات توں ان کے سات

یلہی ترا داس میں جو ہوں میں ا

آاس میں کیا ہوں بہت ایک تری

توں مجھ داس پر کھول در فیض کا

میرے من میں بھر، اثر فیض کا

آاس کے باغ کوں طراوت دے مج

دوا بخش منج درد کے داغ کوں

وفا میں بڑا کر جواں مرد منج

ترے باٹ کا کر کے رکھ گر دمنج

عطا کر منجے کچ ترے نانوں سوں

دے پرواز مجکوں بلند دہانوں سوں

ترے نور کی راہ دکھانا منجے

دلا عاقیت کا بچھانا منجے

آاگ کوں جلا دے مرے جیو کی

دے رنگ باس منج دمکی پھل پھانگ کوں

سدا کسب میرا سو اخلاص کر

ترے خاص بندوں میں منج خاص کر

جگا جوت تج دھیان کیرا رتن

مرے من کے صندوق میں اک جتن

ہماں کر منجے باٹ کے اوج کا

شہنشاہ کر گیان کی فوج کا

Page 71: Adab MenHamd o Munajat

یی نے اس مناجات میں فن کے تمام تقاضوں کی تکمیل کی ہے مناجات کے لیے درکار غواص ہے۔ معروضہ، مدح اور التجا جیسے لوازمات کی بہترین پذیرائی غواصی کی اس مناجات میں موجود

مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس کی ابتدا میں حمد اگر غواصی کی دوسری مثنوی ’’مینا وست ونتی‘‘ کا ء مرتبہ ڈاکٹر۱۹۶۵رکھتا ہے۔ قدیم اردو ’’جلد اول کے دوران بھی غواصی مناجاتی رویہ کی بنیاد

مسعود حسین خان کا پہلا مقالہ ڈاکٹر غلام عمر خاں نے ’’میناستونتی‘‘ کے تعارف اور اس کی قلمی نسخہ ادبی عظمت پر تحریر کیا ہے جس میں تحقیقی جواز کے ساتھ ’’مینا ستونتی‘‘ کا

مرتب کیا گیا ہے ذیل میں ’’مینا ستونتی‘‘ کے حمدیہ اشعار سے منتخب مناجات پیش کی جا :رہی ہے

یلہی شرم دھرم تج پاس ہے ا

آاس ہے ہمن کو ترے کرم کی

تو ستار ہے عیب داراں ہمیں

تو کرتار ہے خوار زاراں ہمیں

گنہ میں نپٹ چور، ہیں اے قوی

دلاں پر دکھا تازگی نت نوی

غواصی کی مناجاتوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے عہد کے تقاضے کے پرستی اور خدا جگہ دے کر نعت اور منقبت کے علاوہ مناجات کو مطابق مثنوی میں حمد و

ثبوت دیا ہے جس سے اس کی مذہب دوستی اور بارگاہ خداوندی میں مودبانہ معروضہ پیش بندگی کا کی برتری اور اپنی بے بسی کو پیش کرنے کی خصلت کا علم ہوتا ہے۔ مناجات کے دوران خدا

آاتا نظر رکھنا ’’فن‘‘ کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور اس مرحلہ میں بھی غواصی ثابت قدم نظر بے جا نہ ہو گا۔ جائے تو دکن کا ایک کامیاب ’’مناجات نویس‘‘ کہا ہے اسی لیے غواصی کو

ء سے۱۶۸۵ء تا ۱۴۹۰پوری کی عادل شاہی سلطنت محمد مقیم بیجا (مناجات مقیمی:مرزا۲) تا ھ۱۰۳۵وابستہ ایک مشہور مثنوی نگار شاعر ہے اس کی مثنوی ’’چندربدن ومہیار‘‘ کی سنہ تالیف

برقرار رکھا ہے۔ ھ سمجھی جاتی ہے۔ اسی مثنوی میں مقیمی نے مناجات کی روایت کو۱۰۵۰

Page 72: Adab MenHamd o Munajat

سید محی الدین قادری زور ’’ تذکرے اردو مقیمی کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر :لکھتے ہیں پر۳۷مخطوطات‘‘ جلد اول،ص:

آاباد مقیم تھا۔ جو محمد نام مرزا ’’مقیمی کا فرد تھا۔ باپ کے خاندان کا ایران کے ایک سید استر شیراز میں مقیم ہو گیا اور ساتھ مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے وطن سے نکلا۔ واپسی پر

آاباد آایا تھا۔ یہاں اس کا چلا پور سرپرستی کی خاطر بیجا تھا اور تاریخ موجود ہم وطن فروتنی استر کام انجام دے رہا تھا چنانچہ اس تاریخ )فتوحات عادل شاہی( میں اس کے حالات کے نگاری کا

ابراہیم بن میر حسن نے بھی میر کیا ہے اور اس کے بعد بیان ہم وطن شاعر کی حیثیت سے ذکر‘‘ تذکرہ کیا ہے۔ پور‘‘ میں اس کے فارسی دیوان اور اردو کلام کا ’’احوال بادشاہان بیجا

نے اردو ’’شہ پارے ‘‘ اور نسخہ برٹش میوزیم کے حوالے سے اپنی تحقیق کی تصدیق ڈاکٹر زور مرزا پر۲۳۷ اور ۲۳۵کی ہے جبکہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’تاریخ ادب اردو جلد اول‘‘ کے صفحہ

ثبوت پیش کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے الگ اشخاص کے نام ہونے کا مقیم اور مقیمی دو محمد :ہیں

کے درمیان پیدا ہوا اور ء۱۶۰۶۔ ء/۱۶۰۱ ھ۱۰۱۵ھ۔ ۱۰۱۰ ’’مرزا محمد مقیم جو دکن ہی میں ‘‘ ء کے درمیان وفات پائی۔۱۶۶۹ء۔ ۱۶۶۴/ھ م۱۰۸۵ھ۱۰۷۵جس نے

جمیل جالبی نے مقدمہ ’’چندربدن ومہیار‘‘ مرتبہ کبیرالدین صدیقی کے علاوہ ’’دکن میں ڈاکٹر اردو ‘‘ اور ’’اردو شہ پارے ‘‘ کے حوالے سے یہ بات ثابت کی ہے کہ اس مثنوی کے علاوہ مقیمی نے مزید ایک مثنوی ’’فتح نامہ بکھیری‘‘ لکھی جو انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی کے

میں مناجات کے وصف مہیار کتب خانہ میں مخطوطہ کی شکل میں محفوظ ہے۔ مقیمی بدن و :کو نمایاں کیا ہے جس کا نمونہ پیش ہے

مجے فیض کچ بخش تج دھیان کا

یلہی تو حافظ ہے ایمان کا ا

مرا دین ایمان سارا سوں توں

مرے جیو میں کیتا ہے ٹھارا سوتوں

Page 73: Adab MenHamd o Munajat

مجے جگ میں یارب پر امید کر

اتن کے بچن کوں توں جاوید کر

خدایا تو داناں ہے مجہ حال پر

کہ چوکیاں ہوں یا چوک افعال پر

نہیں مجہ عقل نیک افعال سوں

ڈھلیاں نفس غفلت میں بدحال سوں

نہ طاقت کدھیں کچ عبادت کیا

نہ تیرے امر کی اطاعت کیا

کیا نفس سرکش سو اس دھات کے

سکیانیں پکڑنے اپر ہات کے

کہ غالب ہو مچ پرا ہے نفس یوں

ترنگ کوں چلا دے چڑنہاں جوں

آاس ہو شرم سار کہ پکڑیا ہوں یاں

کہ اپنے کرم سوں بخش منج غفار

ء میں محمد اکبر الدین صدیقی نے مرتب کیا، جس کے۱۹۵۶ بدن ومہیار‘‘ کو ’’مثنوی چندر پر پیش کئے گئے ہیں مقیمی اگرچہ ایک مقدمہ میں مثنوی اور مقیمی کی تفصیلات تحقیقی طور

جمیل جالبی اس کی مثنوی میں تسلسل اور ترتیب کے دوران مثنوی نگار شاعر ہے اور بقول ڈاکٹر کن ہے بلکہ متاثر درجہ جھول پایا جاتا ہے تاہم اس کی مناجات نگاری نہ صرف دل پذیر اور حد

ذکر لوازمات مناجات کی پوری طرح نمائندگی بھی اس کے فن کی زینت ہے۔ خدا کے اوصاف کا جس خوبی اور تسلسل کے ساتھ مقیمی نے نظم کیا ہے وہ اس فن کا اور اپنی بے چارگی کو

شاعر کی حیثیت سے مقیمی کا ادبی مرتبہ نہ پور کے ایک نمائندہ مناجات نگار وصف ہے۔ بیجا بھی سراہا جائے گا۔ بیان کی خوبی کو صرف بلند ہے بلکہ اس کی زبان و

Page 74: Adab MenHamd o Munajat

یز:دکن میں مثنوی نگاری کے دوران ’’مناجات‘‘ کی روایت کو۳) فروغ دینے والے (مناجات عاجیی مجنوں کو عاجز شاعروں میں محمد بن احمد بھی خاص اہمیت حاصل ہے اس کی مثنوی ’’لیل

بھی نمایاں ہے۔ عاجز کے حالات بیان کرتے ہوئے ‘‘ میں کہانی کے علاوہ مناجات کا انداز بیٹا اسے شیخ احمد گجراتی کا پر۲۴۷ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’تاریخ ادب اردو ‘‘ جلد اول، ص:

یی مجنوں ‘‘ )ء/۱۶۳۴ھ۱۰۴۴اور دو مثنویوں ’’یوسف زلیخا‘‘ ) مصنف ( کاء/۱۶۳۶ھ۱۰۴۶(، ’’لیلیی مجنوں ‘‘ سلسلۂ مطبوعات قدیم اردو عثمانیہ بتایا ہے۔ ڈاکٹر غلام عمر خاں نے مثنوی ’’لیل

ء میں شائع کی جس میں عاجز کے۱۹۶۷یونیورسٹی کے توسط سے وقیع مقدمہ کے ذریعے یی مجنوں ‘‘ سے مناجات خاندان اور شاعر ی کی تفصیلات درج ہیں۔ ذیل میں اس کی مثنوی ’’لیل

:کے اشعار پیش کئے جاتے ہیں

فکر میں بہوت ایک نس میں ڈوبیا

مناجات کر حق کنے یوں منگیا

توں ہے قبلہ حاجات مشکل کشا

دے توفیق منج کوں کہوں سب صفا

ہوا دل میں الہام اوہام کوں

رواں ہو چلیا شعرا رقام کوں

مدد کر دے پیر پیران مراد

یادیں جن کے برکت مریداں مداد

محمد ا ہے سیم معشوق اول

دو جا میم جو ہے سو حیراں نسل

کرم رحم منج پر ہوں بندا تمھیں

مریدی میں عاجز ہے ثابت یقیں

Page 75: Adab MenHamd o Munajat

درجہ نمایاں ہے اور مناجات کے دوران وہ خدا کے عاجز کی مثنوی میں ’’مناجاتی عمل‘‘ حد کا طلب گار ہے اور یہ عمل مناجات میں خدا بجائے پیران پیر اور حضرت محمد صلعم سے مدد

رنگ کی جدید سے طلب کے باہر ہے۔ تاہم یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ عاجز کی دکنی زبان پرآاہنگ ہوتا فارسی جا رہا ہے یہ عمل دکنی پر چھاپ ہے اور قدیم انداز رفتہ رفتہ میٹھی زبان سے ہم

کے غلبہ کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے۔

(مناجات ابن نشاطی:مثنوی نگاروں کی فہرست میں شیخ محمد مظہر الدین بن شیخ فخرالدین۴) کیا جاتا ہے ابن نشاطی اپنی مثنوی ’’پھول بن‘‘ کی وجہ سے دکن کے منفرد شاعروں میں شمار

ء کے ساتھ انجمن ترقی اردو ، پاکستان۱۹۵۵یہ مثنوی شیخ چاند مرحوم کے طویل تحقیقی مقدمہ سنہ تصنیف میں لکھی گئی اس کا سے شائع کی گئی۔ ’’پھول بن‘‘ عبداللہ قطب شاہ کے عہد

سے وابستہ نہیں تھا اور اس نے اپنی مثنوی میں عوامی دربار ء ہے ابن نشاطی۱۶۵۵ھ م۱۰۶۶ مثنوی میں کو بدائع پرداز ہونے اور صنائع و ماحول کی ترجمانی کی ہے۔ ابن نشاطی کے انشا

ذکر ڈاکٹر جمیل جالبی نے بطور خاص اپنے تحقیقی مقالوں میں کیا ہے ’’پھول بن‘‘ سمونے کا :میں موجود ’’مناجاتی اشعار ‘‘ پیش ہیں

یلہی غیب کے پردے ستی توں ا

میرے مطلب کے شاہد کا دکھا موں

آائینہ کردار توں کر دل کو میرے

محبت کا جو دیکھوں تس میں دیدار

مجھے توں عشق میں ثابت قدم رکھ

سدا عزت کی صف میں محترم رکھ

آاشنائی محبت سوں تری دے

آاشنائی۔ روشنائی‘‘ کہے میں ’’

تری باتوں کوں سننے گوش دے گوش

سمجھنے راز تیرا ہوش دے ہوش

Page 76: Adab MenHamd o Munajat

مٹھائی دے شکر کی منج زباں کوں

تو چشمہ شہد کا کر مجھ دہاں کوں

اگر دنیاں زیادہ نیں تو نیں غم

ولے توں دین کوں میرے نہ کر کم

شکر کر توں سدا گفتار میرا

ہنر کا گرم کر بازار میرا

دے بخشش مجھ ولایت شاعر ی کا

تو کشور کر عطا مجھ ظاہری کا

میرے خالے کوں دے گوہر فشانی

کبھی نادے نامیکوں خوبی کی نشانی

مطول کرتوں میری زندگانی

توں برخوردار کر میری جوانی

یی کے اعجاز میرے دے ہاتھ میں موس

یی کے اعجاز میری دے بات میں عیس

آائینے کوں دل کے، دے جلا توں مجھ

صدا صحت کی راحت سوں چلا توں

دنیا کی ہیبتاں سوں رکھ توں ایمن

آافت سوں لغس دن نگہ رکھ توں ہر یک

زبونی سوں نگہ رکھ تن کوں میرے

امانت رکھ خزاں سوں بن کوں میرے

نہ رہے تیوں دور کر مجھ دل کی سستی

Page 77: Adab MenHamd o Munajat

ہمیشہ مجھ کوں دے تو تندرستی

وہ کیا رحمت ہے تیرا اللہ اللہ

کیا لا تقنطو من رحمت اللہ

آائیں گی جوش دریا رحمت کی جس دن

نہ کر ابن نشاطی کوں فراموش

گنہ کوں گرچہ میرے نیں ہے غایت

ولے رحمت ہے تیرا بے نہایت

گواہی دیویں گے جس وقت روں روں

ہو مجھ ابن نشاطی کے سکوں توں

کدورت سو صفا کہ راہ میرا

نبی کوں کر، شفاعت خواہ میرا

صفا کا راہ دکھلا مجھ صفا کا

صفا کا راہ جو ہے مصطفی کا

آارسی کوں دلکی چھلگار دیا توں

رکھیا ہے ناتواں غفلت کا توں زنگار

میرے سب تن میں بھر اسرار تیرا

نین دیکھن کوں دے دیدار تیرا

استعمال کیا ہے اس میں ابن نشاطی نے مثنوی ’’پھول بن‘‘ کے ذریعہ جس مناجاتی پیرائے کو ترتیب اور تسلسل کی فراوانی کی وجہ بیانیہ پوری طرح اجاگر ہوتا ہے تاہم تمام تر مناجات شاعر کی

ذات اور اس کے ارتقا کے اطراف گھومتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابن نشاطی نےآارزو میں یہ مناجات تحریر کی ہے اور ابن نشاطی کی شخصی اور ذاتی درجے بلند کرنے کی

شاعر کی توجہ غالب ہے کہ توصیف خداوندی پر مناجات میں انکساری اور مدعا کا انداز اس قدر

Page 78: Adab MenHamd o Munajat

آائینہ دار ہو جاتی منور باطن کو بھی شخصیت کے ظاہر و مرکوز ہونے کے باوجود کرنے کی تمنا سنوارنے کی التجا کرتے ہوئے باطن کو و ہے۔ غرض ابن نشاطی کی مناجات میں شاعر اپنے ظاہر

دکنی شعرا کی مناجات سے طلب گا رہے۔ اس طرح ابن نشاطی کی مناجات دیگر کا خدا سے مدد مختلف انداز کی نمائندہ ہے۔

شاعر گزرا ہے۔ وہ سب سے بڑا نصرتی:محمد نصرت نصرتی ’’عادل شاہی دور‘‘ کا (مناجات ملا۵) ء اور۱۶۵۷علی عادل شاہی کے عہد کا ملک الشعرا بھی تھا۔ اس کی مثنوی ’’گلشن عشق‘‘

ساتھی ہونے کے علاوہ بادشاہ ء کی تصنیف ہے۔ وہ شاہی کے بچپن کا۱۶۶۵مثنوی ’’علی نامہ‘‘ تھا۔ ’’تاریخ سکندری‘‘ اسی تعلق کی یادگار ہے۔ مولوی عبدالحق بھی شریک کار کے رزم اور بزم کا

محاکمہ کرتے ہوئے اسے اردو کا ایک بہترین نے ’’نصرتی‘‘ نامی کتاب میں اس کے فن کا درجہ رکھتی ہے۔ کا نصرتی کی مثنوی ’’علی نامہ‘‘ اور رزمیہ کی بنیاد دیا ہے۔ ملا ’’رزمیہ شاعر ‘‘ قرار

’’علی نامہ‘‘ میں نصرتی نے ایک طویل ’’مناجات‘‘ لکھی ہے جس میں اس کے فن کی جولانی :دکھائی دیتی ہے۔ جو قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے

یلہی ترا مہر، عالم نواز ا

کر نہار دریاں کو نت سرفراز

تو دانا و بینا قدیم و حکیم

تو عارف ہے کامل سمجھ تجھ عظیم

تو بولیا سو حق ہے ہمن شان میں

آان میں اا جہولا جو قر ظلموم

ہمن کل جو پنچے سو دن پانچ کے

ممیز تو نیں جھوٹ ہور ساتھ کے

ہمیں کیا ہیں ہور کیا ہمارا سمج

آانہارے سے نویک بے وجہے زکام

نکل جہل تے نا ہو عالم ہمے

Page 79: Adab MenHamd o Munajat

ہمن نفس پر نت ظام ہمے

رکھے روشنی سٹ اندھا رے میں موں

کریا کیا نفا چاند شب کور کوں

آاہ ہوئے خوب دسنے سے معذور

آاہ بسر راج ما رگ پڑے دور

توں او باٹ دکھلا مجے کر کرم

آاخر قدم کہ منزل کوں اپڑوں شب

غنی توں خزینے میں تجھ کم ہے کیا

ہمن بندگی بن توں پر کم ہے کیا

بدھا نے کوں واں دشمناں میں رواج

آاج آاریا ہے عبادت ہمن یاں توں

مرکب ہے پن جہل ہمناں میں او

آائے یک پل بی ہو نہ کچھ خوب کام

لن حق آاخر جو پاکا آاویں گے لے

عبادت کے تحفیاں کوں بھر بھر طبق

کیا ہوں گنہ سو عبادت کے ٹھانوں

دریغا کے میں اس گھڑی کیا لیجاؤں

گنہ پر میرے عجزیاں کوں ڈھانک

نہوے بست کچھ دیکھنے میں تو جھانک

نہ کاڑاس قے سرپوش دانائے غیب

کہ ہے دشمناں میں تو ستار عیب

Page 80: Adab MenHamd o Munajat

لت خاک پنجہ میں تو عاجز ہوں یک مش

لح پاک توں حاکم ہے تیرا رکھیا رو

اچھے ہات عاجز کے تدبیر کیا

لر کل، مجھ پہ تقصیر کیا توں مختا

مجے خوب کاماں کی توفیق دے

اچھے حق سو کر مجھ پہ تحقیق دے

طمع کوں نکو ہونے دے بدکی کال

میری دین دنیا میں عزت سنبھال

قناعت کا دنیا میں دے گنج مجھ

صبوری میں دل کا کر گہر سنج مجھ

تگ و دو کی دنیا تے سب جھاڑدھول

میرے دل کے دامن کوں کر پاک پھول

مجھے حرص کے سوس لاؤں نکوں

آابرو مجھ پلاؤں نکوں میرا

نہ خواری سوکر کر پھرا حسن مجے

توں حاجت روا ہوا چھے بس مجے

یلہی تیرا مجھ کو یہ دین بھائے ا

آائے دو عالم میں تیرا دیا کام

دہے باجہ یچ پر تم جہاں

آاسماں سکھے تجھ کرم تے زمیں

مرے دل کوں سب گل تے کر بے نیاز

Page 81: Adab MenHamd o Munajat

عنایت سوں تیریچ رکھ سرفراز

مجھے عشق دنیائے مردار کا

نجاست میں پاڑیا ہے یکبار کا

آاخرت اسی میں ہلاک نکو کر ہو

کہ جیو پاک ہے، رکھ نجاست سے پاک

مرے نین کوں دے تو اس دھات نور

کہ تا تجھ تجلی کا دیکھوں ظہور

کر ایسے سنن ہار مجھ دل کے گوش

آاکہ انپڑائیں ہوش جو اوبالے بال

ترے دھیان کا جم ا ہے شہد مل

محبت میں تجھ، کر مرا موم دل

مری طبع کے گل میں ہو رنگ رس

گپت اور پرگٹ سدا تونچھ بس

نپا چک میں مجھ مغفرت کا انجن

آائے توں ہے سودھن کہ ہر شہ میں دس

پلا مجھ محبت کا ایسا شراب

کہ ہو مست بسروں و جگ کا حساب

مرے مکھ سے کاڑاس اثر کا کلام

کہ ہر بول ہوئے، مئے پرستاں کو جام

دھر تہا اثر حال کا قال دے

دلاں کو جم، اس قال تے حال دے

Page 82: Adab MenHamd o Munajat

بھریا اک مرے دم میں افسوں سدا

کہ جگ میں ہو مسخریوں سن کر خدا

مرے شعر سوں زندہ کر ہر شعور

سمجھ مجھ بچن تے توں کر جگ میں پور

مری بات انگے بحث کر سب کی رد

سخن کر مرا عارفاں میں سند

سیاہی کوں کر میری ظمات دھات

قلم میں مرے خضر کی دے صفات

کہ ظلمات میں اس، جو یو خضر جائے

آائے برسنے کو امرت، یہاں ہوکے

گلستاں میں ہر انجمن کی دھرا

مرے خوش سفینے کا بستاں سرا

آا کے باریک بیں جو اٹکے نظر

تو ہر بیت کے خوش محل میں یقیں

لر سکوں دکھاوے میرے پر، وہ فک

ہر ایک تازہ مضموں کے بکر موں

آاب مرے فن کے پن کو عطا کر وہ

ھپر گلاب کہ ہر پھول ہوئے چشمۂ

ہر اک پھول کو دے تو اس دھات رنگ

کہ ہوئے صبا دیکھ خورشید دنگ

حروفاں میں بھر یوں معانی کا رس

Page 83: Adab MenHamd o Munajat

کہ ہوئے منے کو امرت اوپنے کی ہوس

اپن شعر مجھ جگ پہ نت نقش ہو

سورج کے نگینے پہ سکہ کرو

مرے مس کوں کر تجھ کرم سے طلا

ہریک نگ کو خورشید تے دے جلا

خیالاں کو مجھ باو کے اوج دے

طبیعت کو دریا کے نت موج دے

آابدار میرے جیب کو سلف کر

عنایت کی اک دم سونت تیز دھار

آابہے او زباں کہ ٹک جس طرف

آائے گر موشگافی وہاں گزر

ترے فن کو قوت سوں مجھ مست کر

ہنر سب میں میرا، زبردست کر

کھڑا جاں ہو رن، کانپ دے مجھ قلم

مرا نام نصرت سوں کرواں علم

کرامت میرے فن میں رکھ یوں نہاں

کہ سنتے بچن ہوئے تماشا عیاں

مرا شعر کر دے زمانے کو برد

یوں ہر بیت اچھو شیر مرداں کو ورد

معانی تے تس قرب مرداں کو دے

شکست جنگ جوئی کا گرداں کو دے

Page 84: Adab MenHamd o Munajat

کہ کرتیں غزا غازیاں نت نوی

لن محمد قوی سدا ہوئے دی

کہوں، نعت شہ کا اس نامور

نواز یا گیا جس کھرگ کے ظفر

ء میں معہ مقدمہ شائع ہوئی۔۱۹۵۹اہتمام المجید صدیقی کے زیر مثنوی ’’علی نامہ‘‘ پروفیسر عبد رکھا ہے اس کی سب صرتی نے جس مناجاتی عمل کو روان’’علی نامہ‘‘ کے ذریعہ محمد نصرت

سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ نصرتی نے تعریف خداوندی اور اپنی انکساری کے ساتھ جو دعائیہ کلمات ادا کئے ہیں اس میں اپنے کلام اور شاعر ی میں تاثیر پیدا کرنے کی گزارش کے

سے یہ التجا کی گئی ہے کہ وہ شاعر کے شعر میں ایسے اوصاف پیدا کر دے کہ ساتھ خدا معنی میں دل کو گرفت میں فن نمایاں ہو جائے اور اس کے لفظ و جس کی وجہ سے اس کا

یہ دعائیہ استدلال حد مندی حاصل کرنے کی خصوصیت پیدا ہو جائے۔ نصرتی کا لینے اور ظفر درجہ انفرادی ہونے کے علاوہ اپنے سابق اور معاصر شعرا کے مقابلہ میں انتہائی جدید ہے۔ اس

کام انجام دینے کا ذکر کرتے ہوئے مثنوی ’’علی نامہ‘‘ کے علاوہ نصرتی نے قلم سے تلوار کا میں پہلی مرتبہ شعر کے ذریعہ زبان، حروف، معانی، خیالات، فکر اور فن کے علاوہ ادب کی

پرورش کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس نے اپنی ’’مناجات‘‘ میں خدا سے بے مثل تمنائیں وابستہ کی بے سے نصرتی کی مناجات میں جہاں انفرادیت ہے وہیں انسان کی بے بسی و ہیں۔ اس اعتبار

خودی کا خصوصی وصف ہے۔ چنانچہ بھی ملتا ہے جو چارگی کے علاوہ ایسی خواہشات کا اظہار نمایاں کرتے ہوئے یہ لکھتا ہے کہ خدا اسے لالچ سے دور رکھے اور نصرتی اپنی عاجزی کو

خزانہ عطا کرے اور ایسی شراب پلائے کہ وہ دنیاداری سے بے نیاز ہو جائے۔ نصرتی نے قناعت کا دنیا کے استوار ہونے اور نیک انسان بنانے کے علاوہ دین محمد کو اپنی ’’مناجات‘‘ میں دین و

قوت عطا کرنے کی دعا بھی کی ہے۔ اس طویل مناجات میں تمام مناجاتی اوصاف موجود ہیں۔ اس خاص مقام حاصل ہے۔ ’’علی نامہ‘‘ میں لیے اردو مناجات کی تاریخ میں نصرتی کی مناجات کو

سکتا ہے۔ موجود مناجات کو اردو کی چند اہم مناجاتوں میں شمار کیا جا

Page 85: Adab MenHamd o Munajat

الدین (مناجات وجدی:شیخ وجیہ الدین وجدی کی مثنوی ’’پنچھی باچھا‘‘ درحقیقت شیخ فرید۶) قادری یہ لکھتے ہیں کہ وجدی نے دکنی ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر زور عطار کی تصنیف ’’منطق الطیر‘‘ کا

ء میں مثنوی ’’پنچھی باچھا‘‘ قلمبند کی۔ وجدی زوال سلاطین دکن کے بعد کے ایک۱۱۴۶ جاری رکھا۔ یہ ٹھیٹ دکنی طرز کے مشہور صوفی شاعر تھے جنھوں نے قدیم ذوق سخن کو

آاخری شعرا میں سے ہیں۔ منطق الطیر کے ترجمہ کے علاوہ وجدی نے فارسی مثنوی ’’گل و ھ میں ترجمہ کیا۔ دیگر کتابوں میں ’’باغ جاں۱۱۱۵ہرمز‘‘ کا ’’تحفۂ عاشقاں ‘‘ کے نام سے

نسخے ھ اور ایک دکنی عدم دستیاب دیوان بھی شامل ہے۔ ’’پنچھی باچھا‘‘ کے دو۱۱۴۵فزا‘‘ ھ،م۱۲۴۵’’پنچھی نامہ‘‘ کے نام سے مطبع محمد ی بمبئی سے سید غلام حسین شاہ نے

ء میں شائع کروایا۔ پروفیسر سید۱۸۵۷ھ، م۱۲۷۴محمد نے ء اور قاضی ابراہیم بن قاضی نور۱۸۲۹ ء میں سالارجنگ پبلشنگ کمیٹی،۱۹۵۹تحقیقی مقدمہ کے ساتھ محمد نے اس مثنوی کو

آاباد سے شائع کروایا۔ وجدی کی مثنوی ’’پنچھی باچھا‘‘ میں موجود ’’مناجات‘‘ کے مطالعہ حیدر خاکساری لحاظ رکھتے ہوئے خدا کے روبرو سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے ’’مناجاتی عوامل‘‘ کا

:اور فروتنی خلقی دکھائی ہے۔ وجدی کی مناجات کے اشعار پیش ہیں

بول اپنے ہاتھ اوٹھا اے کر دگار

معصیت سے مجھ کو مت رکھ شرمسار

تجھ سوا ہم اے خدا کس پاس جائیں

تو نہیں چاہا تو ہم کس کے کہائیں

اس خودی میں ہے تجھے مستی حلال

لت ذوالجلال جس میں ہیں عکس صفا

بندگی میں حق کی باندھ اپنی کمر

تاکہ ہو فربہ ولے با کروفر

نفس ہے فرعون اسے کر سیر مت

تانہ ہو مغرور وہ کافر صفت

Page 86: Adab MenHamd o Munajat

گرچہ روئے یا پکارے زار زار

آاخر مسلماں ہوشیار وہ نہ ہو

تن کو تو فربہ نہ کر بکرے مثال

تاکہ نہ ہو جاوے خوں تیرا حلال

لب غفلت ہے یہ دنیا سر بسر خوا

اس میں تو غافل نہ ہو اے بے خبر

گر رہا یک شہر میں ساری عمر

آاس کو جاتا بھول کر جو رہے ہر

خواب میں جب شہر دوسرا دیکھتا

بوچھتا شہر قدیمی ہے میرا

شہر کا اپنے نہیں کرتا خیال

خواب میں ایسا ہے ہر ہر کا خیال

روح ایسا ہے مقام اپنے کو بھول

کیا عجب اس خواب میں گر ہو ملول

عنوان دیا ہے جبکہ اس کی مناجات میں تبنیہ نفس خویش‘‘ کا وجدی نے اسے ’’مناجات در بجائی بھی خال خال نظر ’’مناجاتی عناصر‘‘ کی کمی اور اس فن کے لیے درکار لوازمات کی پا

یعنی انسان کے بے رکھا ہے لیکن مناجاتی طرز روا آاتی ہے۔ اگر چہ وجدی نے التجا کے عنصر کو جس کی وجہ سے نہیں دکھاتا ذکر اس مناجات میں اپنا اثر بساطی اور اس کی بے چارگی کا

وجدی کی مناجات اس طرز کا وصف رکھنے کے باوجود بھی فنی اور مناجاتی انداز سے بے نیاز اس لیے لازمی ہے کہ وہ دکن کے ذکر ہوتی ہے اس کے باوجود بھی وجدی کی مناجات کا

مناجات نگار شعرا کی صف میں شامل ہے۔

Page 87: Adab MenHamd o Munajat

ی سہرا کا نما (مناجات سراج:دکن میں اردو غزل کی نشو و۷) ی اور ولی جاتا ہے۔ کے سر سراجآاباد سراج کا مغل شہنشاہ سے تھا۔ وہ ایک ایسے دور کے پروردہ ہیں جبکہ دکن پر تعلق اورنگ

آابادی کے اثرات گہرے ہونے پھر دہلوی یا قبضہ ہو چکا تھا اور دکنی پر اور نگ زیب کا شاہ جہاں لگے تھے اور رفتہ رفتہ دکنی زبان دہلوی محاورہ سے قریب اور دکنی محاورے سے دور ہوتی جا

رہی تھی۔

آابادی۔ شخصیت اور عہد‘‘ کے مصنف سید صفر ۱۳شفقت رضوی کے مطابق ’’سراج اور نگ آاباد کے ایک سادات گھرانے میں پیدا ہونے والے ء بہ روز دو۱۷۱۲م مارچ ھ۱۲۲۴ شنبہ اور نگ

آابادی کے نام سے سید احد‘‘ رکھا گیا جو تاریخی نام ’’ظہور لڑکے کا سراج الدین سراج اور نگ آاٹھ سال کے بعد شاہ عالم کے عہد میں سراج پیدا مشہور ہوا۔ یعنی اور نگ زیب کی رحلت کے

آاصف جاہ اول میر رسوخ بڑھا چکے و الدین علی خان دکن میں اپنا اثر قمر ہوئے جبکہ نظام الملک آابادی نے ء بروز جمعہ بوقت نماز پیشین اس دار۱۷۶۳۔ ۶۴ھ م۱۱۷۷شوال ۴تھے۔ سراج اور نگ

آابادی کا اپنا ہے۔ تاہم سراج اور نگ منفرد انداز فانی سے کوچ کیا۔ اردو غزل میں سراج اور نگ آافاق مثنوی ’’بوستان خیال‘‘ ء میں ان کے مناجاتی رویہ کی۱۷۴۷ھ م۱۱۶۰آابادی کی شہرہ

آابادی نے اپنی مناجات میں عام انداز سے بالکل جداگانہ رویہ نشاندہی ملتی ہے۔ سراج اور نگ ذکر اور اس سے التجا کرتے ہوئے گنا ہوں اور برائیوں سے خدا کی برتری کا کیا ہے۔ وہ اختیار

کرتے اور نور ذکر نجات کے بجائے حسینوں کی اداؤں اور ان کی دلربائیوں سے نجات کاآاخری بند سے ’’مناجاتی قدیمی کی جھلک دکھانے کی التجا کرتے ہیں۔ ’’بوستان خیال‘‘ کے

:اشعار ‘‘ پیش کئے جاتے ہیں

دعا کو یہی ہات اٹھا حق کے پاس

کہ جاوے ترے پاس سے غم کی باس

کسی سے نہ اب غیر حق بات کر

نپٹ التجا سے مناجات کر

یلہی بتوں سے مرا دل پھرا ا

کہ ہرگز نہیں ان میں نام وفا

Page 88: Adab MenHamd o Munajat

مجھے ان کی زلفوں کے خم سے نکال

آاخر و بال آائے گا ایماں پہ کہ

چھڑا دام گیسوئے خوباں سے دل

بچا خنجر نوک مژگاں سے دل

مجھے دور رکھ ان کے ابر وستی

بچا رکھ مجھے چشم جادوستی

مت ان جامہ زیبوں سے اٹکا مجھے

نہ دے ان کے دامن کا جھٹکا مجھے

تبسم انھوں کا مجھے مت دکھا

تکلم انھوں کا مجھے مت سنا

پھر احسن حادث سے دل یک بیک

لر قدیمی کی دیکھوں جھلک کہ نو

آابادی کی بیشتر مثنویوں میں ’’مناجات‘‘ کا جائے تو وصف شامل ہے بلکہ یہ کہا سراج اور نگ آابادی اردو کے واحد شاعر ہیں جنھوں نے اپنی شاعر ی میں بے جا نہ ہو گا کہ سراج اور نگ

فرما رواج دیا ہے۔ ان کے کلام میں تمام مناجاتی خصوصیات کار سب سے زیادہ ’’مناجات‘‘ کوآابادی نے ’’مناجات‘‘ تحریر ہیں۔ دوسری مثنوی کا کیا ہے۔ جس سے اندازہ عنوان ہی سراج اور نگ

آابادی اردو کے پہلے با جنھوں نے ’’مناجات‘‘ کو اپنیںشعور شاعر ہی ہوتا ہے کہ سراج اور نگ آاہنگی کے ساتھ ’’مناجات‘‘ کا شاعر ی میں بطور خاص اور بالارادہ جگہ دی اور پوری جذباتی ہم

حق ادا کرنے کی کوشش کی۔ مثنوی کے ساتھ ساتھ غزل کے دوران بھی ان کی ’’مناجاتی فکر‘‘ مثنویوں سے منتخب مناجات بھی متاثر کرتی ہے۔ ذیل میں ان کی دو نہ صرف ابھرتی بلکہ قاری کو

پیش ہیں۔

Page 89: Adab MenHamd o Munajat

آابادی نے ’’مناجاتی‘‘ خصوصیات کو لن خیال‘‘ میں سراج اور نگ رکھا ہے۔ مثنوی روا مثنوی ’’بوستا ختم بوستان خیال‘‘ کے عنوان سے ظاہر کیا گیا کا اختتامیہ خود ’’مناجات بہ حضرت ذوالجلال و

آاغاز رکھا روا اشعار تک ’’مناجاتی لہجہ‘‘ کو ۱۱۲۵ویں شعر سے ہوتا ہے اور ۱۱۱۲ہے جس کا شاعر مختلف وسیلوں سے ’’مناجات‘‘ کے ہو چکا ہے جس کے بعد گیا ہے جس کا ذکر اوپر

:ایک نئے انداز سے وابستہ کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو رویہ کو

لق جناب رسول کریم بح

کہ برحق ہے محبوب تیرا قدیم

بحق علی شاہ دلدل سوار

وصی نبی صاحب ذوالفقار

بحق حسن سر و سر سبز دیں

کہ ہے نونہال بہشت بریں

بحق حسین شہ کربلا

شہید سر خنجر اشقیا

بحق دل پاک زین العباد

کہ نیں ماسوا جس کو اللہ کے یاد

بحق سر سرور خاص و عام

کہ حق پاس سے جس کو باقر ہے نام

بحق بہار گل جعفری

کہ ہے گلبن گلشن سروری

بحق شہ کاظم با صفا

جماعت میں ایماں کی ہے مقتدا

بحق رضا شاہ محشر پناہ

Page 90: Adab MenHamd o Munajat

خراسان قدرت کا ہے کج کلاہ

بحق تقی، اختر برج دیں

آافتاب سپہر یقیں کہ ہے

بحق نقی، کان برج کمال

نمایاں نبی کا ہے جس میں جمال

بحق امام حسن عسکری

چراغ شبستان نیک اختری

بحق شہ مہدی نیک نام

آال محمد سدام کہ قائم ہے

آابادی نے بارہ اماموں کے واسطوں سے ’’مناجات‘‘ میں شجرہ عالیہ کی سراج اور نگ کہ مناجات میں ان عوامل کی پذیرائی یہ فیصلہ کرے گا نقاد خصوصیات شامل کی ہے۔ مستقبل کا

آال محمد کے وسیلہ کے ذکر کے توسط سے کس حد تک ممکن ہے۔ غرض سراج نے آاگے اس طرح جاری رکھا ہے چنانچہ مثنوی ’’بوستان خیال‘‘ کا مناجات کے اوصاف کو تسلسل

:رواں ہوتا ہے

کہ منج کو تری دولت خاص دے

اسی چاردہ تن سے اخلاص دے

یہی ورد میرا رہے صبح و شام

غلامی میں اون کی رہوں میں مدام

پھرا دل مرا، صحبت غیر سے

مدیر سے کہ کعبے طرف جاؤں اب

میں لایا ہوں تیری طرف التجا

لق ہدایت مجھے اب بتا طری

Page 91: Adab MenHamd o Munajat

تغافل نہ کر ورنہ ابتر ہے کام

توجہ سے مقصود برلاتمام

کہ میں سب طرف سے ہوا ہوں نراس

آایا ہوں روئے سیہ تیرے پاس لے

کہ تو اس مری رو سیاہی کو دھو

زلال عنایت سے دے شست و شو

گئی مری بت پرستی میں عمر گزر

کٹی غفلت و جہل و مستی میں عمر

میں اب چاہتا ہوں کہ ہوشیار ہوں

اب اس خواب غفلت سے بیدار ہوں

ولیکن ترا فضل درکار ہے

وگرنہ مرے پر تو دشوار ہے

میں ہر چند رحمت کے قابل نہیں

عنایت کے نزدیک مشکل نہیں

کہ مجہ سا گنہگار پاوے نجات

نہ زنگار ہوئے قابل عکس ذات

مرا عکس وہمی ہے دشمن مرا

کیا ہے سیہ دل کا درپن مرا

اگر ہوے نوازش کی صیقل گری

آائینے کی ہے نیک اختری تو اس

دے مجھے چشم پندار سے گرا

Page 92: Adab MenHamd o Munajat

سب کہ تا صاف ہو جاوے یہ زنگ ابھی نور

سراج اب طلب مدعا کی نہ کر

کہ خاصوں میں یہ بات نیں معتبر

اسی بیت کو ورد کر صبح و شام

یلہی میں کہہ توں مدام جناب ا

سپر دم بتو مایۂ خویش را

تو دانی حساب کم و بیش را

کیا میں جب اس مثنوی کا خیال

تھے ہجری ہزار و صد شست سال

شمار اس کی ابیات کا جب کیا

تو ہجری کے سن سے موافق ہوا

زبس اس میں ہے سیر گلشن مدام

رکھا بوستان خیال اوسکا نام

آائے بات عدو جب کہ اس نام کے

مطابق ہوئے سال و ابیات سات

یہ دو دن کی تصنیف ہے حسب حال

ھابال آایا دل کا زباں پر نکل

نظر میں نہ لاؤ تم اس کا قصور

کہ ہے درد مندی سے یہ بات دور

آابادی کی مثنویات میں ’’بوستان خیال‘‘ کا اختتام جہاں ’’مناجات‘‘ پر ہوتا ہے۔ وہیں سراج اور نگ مثنویوں کی حیثیت ’’مناجات‘‘ کی ہے۔ ’’کلیات سراج‘‘ مرتبہ پروفیسر ان کے کلیات میں مزید دو

Page 93: Adab MenHamd o Munajat

نظم پیش کی گئی ہے، وہ پیش عنوان جو پر ’’مناجات‘‘ کے زیر ۲۵۳عبدالقادر سروری کے صفحہ :ہے

لد لا دوا دے یلہی مجہ کوں در ا

مجھے توفیق عشق بے ریا دے

آاتش عطا کر یلہی شوق کی ا

جلا کر خاک کر لا کر فنا کر

یلہی عشق کی مے کا پلا جام ا

مجھے بے ہوش رکھ ہر صبح و ہر شام

یلہی دے جگر پر عشق کا گل ا

مجھے کر شوق کے گلشن کا بلبل

آاتش فشاں کر آاہ کوں یلہی ا

آانسو کی پانی کوں رواں کر مرے

یلہی مجلس کثرت میں رکھ دور ا

مئے وحدت پلا مانند منصور

یلہی کر مجھے تو خسرو غم ا

آانکھوں میں ہر دم رواں کر جوئے شیر

یلہی شربت شیرین غم دے ا

طپش دے، داغ دے، درد و الم دے

یلہی کر مجھے فرہاد جاں کاہ ا

آاہ لگا میرے جگر پر تیشئر

یلہی توں مجھے مانند مجنوں ا

Page 94: Adab MenHamd o Munajat

یی کا مفتوں کر اپنے حسن کی لیل

یلہی جلوۂ دیدار دکھلا ا

جمال مطلع الا انوار دکھلا

یلہی دل کوں ہے میرے تمنا ا

جمال یوسفی پر کر زلیخا

یلہی دے لبالب جام الفت ا

دشت وحشتلمجھے کر وحشی

یلہی عشق میں رکھ مجھ کوں بے تاب ا

آاتش میں سیماب مجھے کر عشق کی

آانسو کو جاری یلہی کر مرے ا

آاہ و زاری مجھے دے بے قراری

یلہی لخت دل کا دے مجھے قوت ا

آانسو مرا کر لعل و یاقوت ہر اک

یلہی کر دعا میری کوں مقبول ا

کہ میں سائل ہوں تیرا اور تو مسؤل

یلہی دے مرا مقصود دل خواہ ا

کہ ہے لا تقنطو من رحمت اللہ

یلہی مدعا میرے کوں برلا ا

دکھا مجھ کوں حقیقت کا تماشا

یلہی چشم دل پر کھول یک بار ا

جلی، روحی، خفی، سری کے گلزار

Page 95: Adab MenHamd o Munajat

یلہی کر لبالب جام خالی ا

دکھا مجھ کوں جمال لا یزالی

آاشنا کر یلہی بحر غم میں ا

آانسو کوں در بے بہا کر مرے

یلہی چاہتا ہوں چہرۂ زرد ا

بہار غم، دل گرم و دم سرد

یلہی لذت درد ویلا دے ا

مرے پر عشق کو نوبت بجا دے

یلہی سوز عشق بے کراں دے ا

آاہ و فغاں دے بہار گلشن

یلہی بے خود بزم جنوں کر ا

مرا دل گوہر دریائے خوں کر

یلہی دے مجھے رنگیں خیالی ا

سخن کے باغ کا کرمجہ کوں مالی

یلہی شعر میرا درفشاں کر ا

آاب رواں کر لو سے صافی میں جیوں

یلہی تجھ ثنا میں ہوں غزل خواں ا

ہر اک مصرع کوں کر لعل بدخشاں

یلہی کر عطا روشن بیانی ا

مرے اشعار کوں توں سے روانی

یلہی دے سخن کی پادشاہی ا

Page 96: Adab MenHamd o Munajat

آاباد کی دے کج کلاہی خیال

یلہی مجہ کوں توں فکر رسا دے ا

آائینہ دل کوں جلادے میرے

یلہی بخش مجہ کوں نکتہ دانی ا

توں کر غواص دریائے معانی

یلہی مجہ سخن میں دے لطافت ا

گل معنی میں دے رنگ نزاکت

یلہی حمد تیری کا ہے مذکور ا

مری ہر بیت کر عالم میں مشہور

یلہی شعر میرا دل نشیں ہوئے ا

آافریں ہوئے نہال بوستان

یلہی ہر غزل مقبول جاں ہوئے ا

وظیفہ دل کا اور ورد زباں ہوئے

یلہی کر مرے دیوان کو مشہور ا

ہر اک صاحب نظر کا ہوئے منظور

یلہی سوز دل کا تشنہ لب ہوں ا

جناب کبریا میں بے ادب ہوں

یلہی من عرف، کے باب سب کھول ا

آاداب سب کھول مرے پر عشق کے

یلہی پردۂ کثرت اوٹھا دے ا

دے شراب ساغر وحدت پلا

Page 97: Adab MenHamd o Munajat

یلہی لطف کر مت در بدر کر ا

کتا ہوں پر مرے مت در بدر کر

یلہی بھیج توں بار ان رحمت ا

گنہ گاروں پر اپنی کر شفقت

یلہی مجہ کوں ہے امید واری ا

کہ بخشے گا مجھے غفار باری

یلہی عجز پر میرے کرم کر ا

نگاہ لطف مجھ پر دم بہ دم کر

یلہی طالب حسن ازل ہوں ا

طلب گار جمال بے بدل ہوں

یلہی غرق دریائے بقا کر ا

صفائے سینۂ روشن عطا کر

یلہی مجہ کوں دکھلا جلوۂ نور ا

مرا دل کر بہار شعلۂ طور

آاج یلہی غم میں جلتا ہے سراج ا

زلال وصل کا ہے تیرے محتاج

آابادی کو ’’مناجاتی طرز‘‘ سے بے انتہا لگاؤ صوفیانہ دکھائی دیتا ہے وہ بذات خود سراج اور نگ یلہی کے علاوہ خدا ہ تھے۔ یاددمشرب کے دلدا طلب کرنے کا ان کا اپنا جداگانہ انداز سے مدد ا

ایک مناجات تحریر ہے ’’بوستان خیال‘‘ کے اختتامیہ میں مناجاتی عوامل کے علاوہ سراج مزید پیدا کرنے کے دعائیہ کے گداز اور تاثیر و سے اپنے کلام میں سوز کرتے ہیں جس میں خدا

درج مناجات کے پر۲۷۴مزید ایک مناجات تحریر کرتے ہیں۔ ’’کلیات سراج‘‘ کے صفحہ بعد :اشعار پیش ہیں

Page 98: Adab MenHamd o Munajat

لد بے داغ دے یلہی مجھے در ا

میرے چشم میں کحل مازاغ دے

صف عاشقاں میں نہ کر منفعل

رواں کر مرے چشم سیں خون دل

آاہ سرد عطا کر مجھے اشک گرم

غم عشق میں مجہ کوں دے رنگ زرد

آاشنا توہی ہے مرے درد کا

اپس مرہم لطف سیں کر دوا

مرے دل کو امید برلا شتاب

آافتاب کہ ذرے کا ہے مدعا

شراب محبت سیں سر شار کر

آاپس درد کا مجہ کوں بیمار کر

مجھے شمع مانند غم میں گلا

آاگ میں جیوں سمندر جلا پرت

آاپس درد کی چکھا مجہ کوں لذت

دے نعمت مجھے چہرۂ زرد کی

محبت میں اپنی مرے دل کوں کھینچ

اپس عشق کے جام میں مجہ کوں انیچ

ہمیشہ مری چشم خوں بار رکھ

لگن میں اپس کی سدا زار رکھ

اپس دوستی میں جلا خاک کر

Page 99: Adab MenHamd o Munajat

آالودگی سیں مجھے پاک کر یہ

اگرچہ گناہ گار ہوں رحم کر

گنا ہوں پہ میرے نکر توں نظر

آاپ لا تقنطو کہ بولا ہے توں

آارزو بجز وصل تیرے نہیں

میرے دل پو ہے زنگ غفلت کا کال

آارسی کا مثال اسے صاف کر

یلہی مجھے محرم راز کر ا

خزانے حقیقت کے سب باز کر

عطا کر مجھے قفل دل کی کلید

جتے گنج مخفی ہیں سب کر پدید

شریعت کے مذہب کی منزل دیکھا

طریقت کے مشرب کی محفل دیکھا

حقیقت کے دریا میں غواص کر

آاپس معرفت میں مجھے خاص کر

تماشا دکھا باغ عرفان کا

کروں سیر وحدت کے میدان کا

آاگاہ کر اپس راہ وحدت سیں

مجھے کشور عشق کا شاہ کر

یی ہے تجہ نور کی طلب مثل موس

تجلی دکھا شعلۂ طور کی

Page 100: Adab MenHamd o Munajat

آارزو میں تیری ہے سدا یج سرا

دکھا خلوت معنے بے فنا

جمال حقیقی دکھا یک بیک

کہ یکبارگی دل سیں اٹھ جائے شک

قیامت کا وعدہ مجھے دور ہے

مرا دل ترے غم سیں رنجور ہے

مجھے یہانچ دکھاوے تو خوب

یہ بے تاب دیدار پاوے تو خوب

دیکھا مجہ کو دیدار بے ہوش کر

یہ بے ہودہ گوئی سیں خاموش کر

تمنا میں اپنی مجھے رکھ مدام

بحق محمد علیہ السلام

آابادی نے اپنی شاعر ی میں ’’مناجاتوں ‘‘ کے سلسلہ کو جاری رکھا ہے لیکن سراج اور نگ مناجات موجود معاملہ ہے ’’بوستان خیال‘‘ کے اختتامیہ پر جہاں تک سراج کی مناجاتی شاعر ی کا

بیان اور ثابت کرتی ہے جبکہ ان کی دیگر مناجاتیں زبان و ہی انھیں ایک کامیاب مناجات نگار کی نمائندگی قوت اظہار کی تمام تاثیر رکھنے کے باوجود مخصوص انداز، صوفیانہ طرز اور ترک دنیا

دیتی ہیں چنانچہ ان کی دیگر مناجاتیں کرنے کی وجہ سے اپنی ہمہ گیریت اور جامعیت کھوآافاقی عوامی انداز کے بجائے ان کے ذاتی کرب کی نمائندہ ہو کر رہ جاتی ہیں اور مناجات میں

سبب محدود کر دینے کا تصور کے بجائے ذاتی تصور کارفرما ہو جانا اس صنف کی معنویت کو بنتا ہے۔ غرض اپنے عہد کے ایک اہم مناجاتی شاعر کی حیثیت سے شاہ سراج کے کلام کوکسی

سکتا۔ وہ اپنی مناجاتوں میں صوفیانہ مدارج طے کرنے کی جا لحاظ سے بھی نظرانداز نہیں کیا خواہش رکھتے ہیں۔

Page 101: Adab MenHamd o Munajat

بدن ومہیار، الجمال، چندر بدیع دکن کی مطبوعہ مثنویوں جیسے ’’مینا وستونتی، سیف الملوک ویی مجنوں، علی نامہ، پنچھی باچھا اور بوستان خیال میں بھرپور سے ’’مناجات‘‘ انداز پھول بن، لیل

غیر مطبوعہ آاتی ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار نظر فرما کی روایت تمام ادبی وسائل کے ساتھ کار کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ جس کا انداز مثنویوں میں بھی ’’مناجات‘‘ اس روکی نمائندہ طرز

آابادی اور دیگر لاتعداد دکنی شعرا کے کلام مثنوی جیسا ہے محمد قلی قطب شاہ، ولی اور نگ ’’غزل‘‘ کی ہیئت میں موجود ہے اس طرح دکن میں ’’مناجات‘‘ کے اظہار کے میں مناجات

شاعر نے اپنی مثنوی کے دوران ’’مناجات‘‘ کو لئے سب کے پسندیدہ صنف مثنوی رہی اور ہر شامل کر کے خیال اور فن کی باریک بینی کو پیش کیا۔ دکنی مثنویوں میں ’’مناجات‘‘ کی

آاج کی شاعر ی جیسے لفظیات اگرچہ انتہائی قدیم ہے لیکن اکثر مثنویوں کے بیشتر مصرعوں کوآاہنگ کیا سکتا ہے۔ غرض دکنی مثنویوں میں موجود ’’مناجات‘‘ اپنے فکر جا رنگ اور تاثیر سے ہم

آائینہ دار ہے اور یہ ثبوت ملتا ہے کہ دکنی مثنوی نگار خیال اور اظہار کے اعتبار و سے جدت کی آاج شعرا نے اپنی مناجاتوں میں جس گہرائی اور گیرائی کو شامل کیا ہے۔ اس کی مثال اردو کے

مشکل ہے۔ کے ذخیرے میں دستیاب ہونا

Page 102: Adab MenHamd o Munajat

فراغ روہوی)انڈیا(۷۰۰۰۷۳ کولکتہ اسٹریٹ، علی شوکت مولانا ۶۷

ی شاعر حمدیہ کی شعرا گو غزل

اردو شاعر ی میں دوسری اصناف سخن کی طرح حمد کی روایت بھی پائی جاتی ہے۔ حیرت اس چاہئے تھا، وہاں تک یہ نہیں آاج ہونا مقام پر بالا و جس بلند بات پر ہے کہ اس صنف سخن کو

دکھائی دے رہی مقبولیت کے بام عروج پر پہنچ سکی ہے۔ اس کے برعکس نعت گوئی شہرت و کے ساتھ نعتیہ کلام اور نعتیہ مضامین کی اشاعت جاری ہے۔ موقعے ہے۔ اخبارات و رسائل میں تواتر

سال دس بیس نعتیہ موقعے سے بڑے اہتمام کے ساتھ نعتیہ محفلیں بھی سجائی جاتی ہیں اور ہرآاراستہ ہو کر شائع ہوا کرتے ہیں۔ نعتیہ ادب کی جہت میں یہ پیش مجموعے بھی زیور طباعت سے

اا رسول مقبول سے بے انتہا عقیدت و بین ثبوت ہے۔ اس میں کوئی محبت کا ملسو هيلع هللا ىلصرفت یقینیی ولشک نہیں نبی محترم ارفع ہے اور منفرد و ملسو هيلع هللا ىلص کریم کی ذات گرامی تمام نبیوں میں اعل

نی ہیں۔ حور آاپ خدا کے محبوب نب آاٹھوں پہردرودوسلام کا و بھی۔ کیوں کہ نذرانہ ملائک بھی تک دراز بھیجتے رہتے ہیں۔ درودوسلام کے نذرانے کا یہ سلسلہ ازل سے جاری وساری ہے اور ابد

رہے گا۔

چاہئے کہ تمام جہانوں میں سب سے عظیم اور برتر اس حقیقت کے باوجود ہمیں یہ نہیں بھولنایی کی ذات اقدس ہے۔ وہی تمام تعریفوں اور تعظیم کے قابل ہے۔ کیوں کہ وہ صرف اللہ تبارک و تعال

ہہ لاشریک کی تمام صفات کا مالک ہے جن کا شمار ہمارے بس میں ہے نہ احاطہ! خدائے وحد بڑائی میں ہم چاہے جتنا کچھ لکھ لیں کم ہو گا۔ دراصل ذات باری محیط کل ہے اور محیط کل

آایا ہے کہ ’’اگر دنیا آان حکیم میں کے تمام کی توصیف ایک بشر سے ممکن نہیں۔ اسی لیے قر

Page 103: Adab MenHamd o Munajat

بھی ذات باری کی مدح روشنائی، پھر دئیے جائیں اور سمندر کے پانی کو درختوں کے قلم بنا‘‘ نہیں ہو گا۔ حق ادا سرائی کا

پڑتا ہے شرط کاسامنا کرنا گوئی کی راہ میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ نہ کسی بندش یا حمدآاتی ہے اور نہ بہکنے کا آاڑے کوئی خدشہ لاحق رہتا ہے۔ یہ راہ تمام حدود قیود سے نہ کوئی مشکل

آارائی تو آازاد فضاؤں میں مبالغہ غلو بھی ناقابل گرفت ہوا کرتا ہے۔ تعجب ہے کہ کیا آازاد ہے اور چھوٹ حاصل ہونے کے باوجود اس سمت میں وہ پیش قدمی اور دلچسپی گوئی میں اس قدر حمد

آاتی ہے جب کہ نعت گوئی میں دکھائی نہیں دیتی جو نعت گوئی کی جانب دیکھنے میں ہے۔ اسی احترام اور احتیاط کی شرط مقرر پڑتا ہے۔ اس راہ میں بڑے ادب و مشکل مراحل سے گزرنا

!دھاری تلوار سے مثال دی گئی ہے۔ یہاں ذرا بھی پاؤں پھسلاکہ گئے کام سے لیے نعت کودو

خیالات بھی نظم کیے جا رہے ہیں جن کو مقام یہ ہے کہ نعت گوئی میں وہ لفظیات و افسوس کا بھی حمد اور مناجات کے فرق کا چاہئے۔ بعض حضرات تو صرف حمد کے لیے مخصوص ہونا

بالکل نامناسب لحاظ نہیں رکھ پاتے ہیں۔ حمدیہ کلام میں بھی دست سوال دراز کر دیتے ہیں جو خوانی مقصود ہوتی ہے۔ جب کہ مناجات میں ہم اپنی عمل ہے۔ حمد میں صرف خالق اکبر کی ثنا

بھی بیان کر سکتے ہیں اور رب ذوالجلال کی بزرگی اور قدرت کا اعتراف بھی!حمد طلب اور مدعا کہتے وقت ان باریکیوں کو پیش نظر رکھنا اشد ضروری ہے۔ تاکہ حمد کی عظمت برقرار رہے۔ ہمیں

یہ ہے کہ برتر کی ثنا خوانی میں قطعی بخالت سے کام لینا نہیں چاہئے۔ حق تو خدائے بزرگ و چاہئے۔ فریضہ ادا کرنا اپنی بساط سے بڑھ چڑھ کر اس کی مدح سرائی کا

ترقی کے لیے اس بات کی ضرورت ہے آاگے بڑھانے اور اس کی ترویج و گوئی کی روایت کو حمد احتشام کے ساتھ حمدیہ محفلیں منعقد کی جائیں تخلیق کی جائے، تزک و کہ کثرت سے حمد

مقالے بھی لکھوائیں نیز اور اخبارات و رسائل کے مدیران معتبر قلم کاروں سے حمدیہ مضامین و گاہے گاہے حمد نمبر بھی شائع کریں۔ جس طرح پاکستان میں اس کے فروغ کے لیے کوششیں

دکھائی دے۔ پرا جاری ہیں۔ تاکہ ہمارا حمدیہ ادب بھی دوسرے ادب پاروں کے بالمقابل بھرا

پیمانہ ہے۔ لیکن عقیدے اس حقیقت سے کسے انکار ہے کہ تنقید ادب کے معیار کی تفہیم کا دیگر اصناف شاعر ی کے لیے چاہئے جو وہ زاویہ نگاہ نہیں ہونا کی شاعر ی میں اس پیمانے کا

Page 104: Adab MenHamd o Munajat

تعلق چوں کہ نعت، منقبت، قصیدہ اور مرثیے کا و خیال ہے کہ حمد متعین ہے۔ ہمارے ناقدین کایہذا وہ تمام اصناف شاعر گزر عقیدے سے ہے اس لیے ایسی شاعر ی میں تغزل کا ممکن نہیں۔ ل

ہو گئیں۔ ہمارے خیال شکار ٹوک فیصلے کا ی جن کا تعلق عقیدے سے ہے ناقدین کے دو جائے تو اس میں بھی وجدان کی موجیں ٹھاٹھیں کھنگالا ادب عقیدت کے سمندر کو میں اگر

ممکن ہے۔ عقیدے کی شاعر نا بہاؤ تغزل کے بغیر مارتی ہوئی دکھائی دیں گی اور اس وجدان کا ی پرہی کیا موقوف! جہاں تک ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی صنف شاعر ی میں تغزل کے

موضوعات جائے تو دنیا کے تمام معاملات و پیدا ہونا ناممکن ہے۔ دیکھا وجدانی کیفیت کا بغیر بھی کی توصیف بلکہ بیان، حق کی صفات کاہی بیان ہے۔ اس لیے صنف حمد کی وسعت کا

دانائی پر یہ منحصر ہوا کرتا ہے کہ وہ کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اب شاعر کی تخیل کی پرواز اور فراست و ذات باری ہے اور محیط کل بھی۔ اس کے پایا ہے اور محبوب جو عشق میں کس قدر غرق ہو

لفظوں کے جامے میں کس حد پایا ہے اور اپنی محسوسات کو کس کس پہلو کو محسوس کر جتنی گہری اور صادق ہو گی جذبے کی فضا تک ظاہر کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ تعلق خاطر یا

انگیز ہو گی۔ اثر اور فکر حمد بھی اتنی ہی بلیغ، کامیاب، پر

حصہ بھی کا حمد غزل کی صنف سے زیادہ بلاغت ہے۔ تغزل تو کی صنف میں دیکھئے تو حمد خدا مبالغے کے ساتھ صنم یا میں محبوب کو ہے اور وصف خاص بھی۔ اس لیے کہ غزل کی دنیا

اس حسن کے حسن ازل ہے تو منبع ہے۔ وہی تو موضوع ہی جمالیات کا پڑتا ہے لیکن حمد کا بناناآائے تو جمالیات آائے۔ شاعر کے سامنے تو کیا بیان، اور اس کی صفات کے اظہار میں تغزل نہ

منحصر ہے کہ وہ اپنے دامن فن کے دامن پر و نور سمندر رواں ہے اب اس کے فکر کا ایک پر لیتا ہے۔ البتہ عقیدے کی شاعر ی کے مرکزی خیالات میں یکسانیت اور ٹکراؤ نا میں کتنا بھر

ہے۔ ایسی شاعر ی میں بڑی شاعر ی کی تلاش کی بجائے افکار، احساسات، جذبات، گزیر وجدان، پیرایۂ اظہار اور نئے اسالیب کی دریافت کی جائے۔

کبھی قابل رشک فقیر بن جانا لکیر کا ہو کر روایت کی پاسداری مستحسن سہی، لیکن روایت کاسیر رہنے سے شاعر ی میں تازگی کے میں مقید کے حصار نہیں ہوتا۔ کیوں کہ عقیدے اور تقلید

امکانات کم ہو جاتے ہیں اس حقیقت کو روشن خیال شعرا نے شدت سے محسوس کرتے ہوئےآاراستہ کیا ہے اور اپنے پیرایۂ اظہار کو ندرت بھی عطا حمدیہ شاعر ی کو بھی نئے اسالیب سے

Page 105: Adab MenHamd o Munajat

کیفیت پائی جاتی ہے وہ حمدیہ کی ہے۔ ان کی نظمیہ اور غزلیہ شاعر ی میں تازہ کاری کی جو گوئی سے متعلق اتنی لمبی چوڑی تمہید سکتی ہے۔ حمد شاعر ی میں بھی محسوس کی جا

آاج کی حمدیہ شاعر ی کا آائی ہے کہ جائے اور یہ جائزہ لیا باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش ہے۔ یہ دیکھنے کے لئے سب سے پہلے مزاج کیا ہے اور کس نہج پر جائے کہ اس کا دیکھا

:مطالعہ کرتے چلیں مغربی بنگال کی حمدیہ شاعر ی کا

جہان خاک زا میں ایک ذرہ ہے وجود اپنا

مگر ذرے میں ذوق جستجو کس کی عنایت ہے

)سالک لکھنوی(

ایک ذرے سے زیادہ نہیں۔ اس کے باوجود وہ بچپن سے وجود میں انسان کا جہان خاک زا ستاروں کو چھونے کی نہیں نکلتا۔ کبھی چاند سے باہر جستجو کے حصار بڑھاپے تک تلاش و

ایک یہ خدا نہیں ہے تو تمنا کرتا ہے تو کبھی سمندر کھنگالنے کی۔ شاعر حیرتی ہے کہ اگر ذرے میں یہ ذوق جستجو کس کی دین ہے۔

ہوا کے شانے پہ جو بشر کو اڑا رہا ہے

سمندروں میں جو کشتیوں کو ترا رہا ہے

جو ہو کے اوجھل نظر سے، جلوے دکھا رہا ہے

اندھیری شب میں بھی راستہ جو بتا رہا ہے

وہی خدا ہے، وہی خدا ہے،

)علقمہ شبلی(

دیا ہے، کہ اب وہ بھی فراست اور قدرت سے نواز بھی کس قدر فکر و قادر مطلق نے انسان کو ہے۔ شب تاریک میں قادر پر رانی جہاز کر چیر آاسمان پر سفر کر رہا ہے۔ سمندروں کے سینے کو

بھی دیکھ رہا ہے۔ ان سب کے پیچھے سے اوجھل نظاروں کو بھی سفر طے کر رہا ہے اور نظر میں شاعر نے کیا ہے۔ کے۔ اسی کا اعتراف اس بند کس کی کارفرمائی شامل ہے سوائے خدا

صبح تیری عطا، شام تیری عطا

Page 106: Adab MenHamd o Munajat

آارام تیری عطا کام کے بعد

شمیم( )قیصر

آائی ہے۔ شام و کائنات میں کوئی چیز بے وجہ وجود سحر اس لیے خلق کی گئی ہیں میں نہیں بھی کہ مخلوق تلاش رزق میں صبح سے شام تک مصروف رہے۔ تلاش رزق میں اس کا تھک جانا

آارام اور سکون کے واسطے رات بھی وجود میں لائی گئی ہے فطری بات ہے۔ اس لیے اس کے آارام اسے نصیب ہوتا ہے جسے وہ توفیق دیتا ہے۔ درج بالا آارام کر سکے۔ لیکن تاکہ اس وقت وہ

ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ شعر میں شاعر نے اسی مفہوم کو

ترا جو ہو گیا دن اس کا، رات اس کی ہے

حیات اس کی ہے، یہ کائنات اس کی ہے

آاروی( )حلیم ثمر

کی جستجو کرتا ہے اور اس جستجو میں راہ عشق سے گزرنا پڑتا ہے۔ خدا خدا اسے ملتا ہے جو لیتا ہے اسے سب کچھ مل جاتا ہے۔ یہ دن، یہ رات، یہ کائنات کیا اس کی حیات خدا کو پا جو بھی دوام حاصل ہو جاتا ہے۔ کو

شعلوں میں کون، کون ہے مچھلی کے پیٹ میں

عالم ہے تو، علیم ہے تو، رب ذوالجلال

رئیس( )احمد

عالم بھی ہے، علیم بھی اور کرشمہ ساز بھی۔ اس نے حضرت ابراہیم یہ شعر تلمیحی شعر ہے۔ خدا سلامت رکھا اور حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے شعلوں میں بھی محفوظ و علیہ السلام کو

پیٹ میں۔ شاعر نے اس شعر میں رب ذوالجلال کی انھی کرشمہ سازیوں کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

کوئی معبود نہیں تیرے سوا اے اللہ

سر بہ سجدہ ہے ترے سامنے بندہ تیرا

Page 107: Adab MenHamd o Munajat

)علیم الدین علیم(

شعر میں ذات باری کی وحدانیت کا اعتراف کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ شاعر نے درج بالا بہ کوئی معبود نہیں۔ وہی مسجود بھی ہے، اسی کے سامنے تمام مخلوق سر بے شک اللہ کے سوا

سجدہ ہوا کرتی ہے۔

گلوں کو رنگ، بہاروں کو تازگی دی ہے

کلی کو حسن، نظاروں کو دل کشی دی ہے

)محسن باعشن حسرت(

موضوع سخن بنایا ہے۔ گلوں کے رنگ، بہاروں کی تازگی، کلی شاعر نے یہاں مناظر فطرت کو کے حسن اور کائنات کے نظاروں سے نہ صرف حظ اٹھانے کی کوشش کی ہے بلکہ عقیدت

ہہ کی عنایات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ کے ساتھ اللہ جل جلال

آاسماں ہے میں خطا ہوں، تو عطا ہے، میں زمیں تو

مری حیثیت ہے کتنی، ترا مرتبہ کہاں ہے

یوسف( )ضمیر

آاقا اور غلام کے درمیانی فاصلے کو شعر میں نظم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ نہ شاعر نے آاقا کے بلند و مرتبے سے بھی کماحقہ واقف ہے۔ بالا صرف اپنی حیثیت پہچانتا ہے بلکہ اپنے

جس میں کوئی شک نہیں وہ حق ہے تو

سچ تو یہ ہے قادر مطلق ہے تو

ذات لا محدود تیری، لازوال

تو ہے بے شک بے عدیل و بے مثال

آارزو( )ارشاد

Page 108: Adab MenHamd o Munajat

ذات باری کی کئی صفات کا احاطہ کرنے کی پر مصرعوں میں شاعر نے فنکارانہ طور ان چاراا خداوند کریم برحق بھی ہے اور قادر مطلق بھی، اس کی ذات لامحدود سعادت حاصل کی ہے۔ یقین

بھی ہے اور بے مثال بھی۔ بھی ہے اور لازوال بھی۔ بے شک وہ بے نظیر

کیا حقیقت مری، میں فنا ہی فنا

تو بقا ہی بقا، تو کہاں، میں کہاں

)فراغ روہوی(

کے دشت میں بکھر جانا ہے۔ بڑے بڑے فنا شے کو ہر اللہ کی ذات لازوال ہے۔ اس کے سوا ایک دن ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ مشت خاک کی حقیقت ہی کیا۔ شاعر اپنی اوقات اور بھی پہاڑ

آاشنا ہے۔ اللہ و اسے یقین کامل بھی ہے اور مکمل ایمان باقی من کل فانی پر حقیقت سے بخوبی بھی۔

آاپ نے محسوس کیا ہو درج بالا اشعار مغربی بنگال کے نمائندہ شعرا کرام کے حمدیہ اشعار تھے۔ آائیے ہندوستان کے بہاؤ ہے اور جذبات کا گا کہ ان اشعار میں عشق کا الاؤ بھی تیز بھی۔ اب

:کچھ نمائندہ شعرا کرام کے حمدیہ اشعار مطالعہ کرتے چلیں

مجھے تو نذر بھی کرنے کو کچھ نہیں اپنا

آاستاں بھی تیرا ہے جبیں کی خاک تری،

امام( )مظہر

کی عطا کردہ ہیں۔ انسان کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے رب تمام نعمتیں خدا کر سکے۔ نہ جبیں اس کی ہے، نہ جبیں کی خاک اس کی، نہ وہ عظیم کی بارگاہ میں کچھ نذر شدت سے احساس ہے۔ اپنی تہی دستی کا جھکاتا ہے۔ شاعر کو آاستاں اس کا ہے جہاں وہ سر

اسی احساس کو اس شعر میں اجاگر کیا گیا ہے۔

پیڑوں کی صفیں، پاک فرشتوں کی قطاریں

خاموش پہاڑوں کی ندا اللہ ہی اللہ

بدر( ری)بش

Page 109: Adab MenHamd o Munajat

کہ بے جان، شے خواہ وہ جاندار ہو جس دن کائنات تخلیق ہوئی ہے، اسی دن سے کائنات کی ہر میں یوں نظم شاعر نے شاعرانہ انداز خوانی میں مصروف ہے۔ اسی بات کو خالق حقیقی کی ثنا

خاموش پہاڑیاں کرنے کی کوشش کی ہے کہ پیڑوں کی صفیں ہوں کہ فرشتوں کی قطاریں یا سب کی زباں پر ایک ہی رٹ ہے۔ اللہ ہی اللہ، اللہ ہی اللہ کے ورد کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے

گا۔

ہاتھوں میں سجتے ہیں چھالے، جیسی تیری مرضی

سکھ داتا، دکھ دینے والے، جیسی تیری مرضی

حنفی( )مظفر

آاگے بے شک رب قدیر کے فیصلوں کے سامنے بشر بے بس اور لاچار ہے۔ اس کی مرضی کے آاسائشیں عطا کرنے والا سکھ کی بجائے اگر پڑتا ہے۔ عیش و سر تسلیم خم کرنا دکھ سے آارام اور

چاہئے، شکوہ نہیں کرنا دے تو صرف چھالے ہی سجا دے یا صلے کی جگہ ہتھیلی پر دامن بھر چاہئے۔ شاعر نے اسی خیال کا اظہار اس گوارا کر لینا کر بھی مسکرا بلکہ محبوب کی اس ادا کو

شعر میں کیا ہے۔

منزلیں اس کی، مرادوں کا نگر اس کا ہے

پاؤں میرے ہیں، تقاضائے سفر اس کا ہے

)مغنی تبسم(

مسافر خانہ یعنی ایک اور سفر درپیش ہے۔ حیات اس سفر کا ایک پڑاؤ ہے۔ ہے اور دنیا انسان مسافر ہم اپنی مرضی سے اس سفر پر روانہ نہیں ہوئے ہیں۔ نہ کوئی منزل ہماری ہے نہ مرادوں کا نگر ہمارا

جس سمت چلا رہا ہے ہم چل رہے ہیں۔ شاعر نے صرف حکم کے بندے ہیں۔ خدا ہے۔ ہم تو اس شعر میں نظم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی بات کو

سارے نغمے، ساری صدائیں تیری ہیں

پاؤں میرے ہیں، تقاضائے سفر اس کا ہے

راشد( )ممتاز

Page 110: Adab MenHamd o Munajat

آابشار کی سرگم، برسات کا راگ ہو کی لہروں کا کہ چڑیوں کی چہکار، دریا کوئل کی کوک ہو کہ سر ہو کہ ہواؤں کے گیت یا انساں کے لبوں کی دعائیں، سب ایک ہی کرشمہ ساز کی کرشمہ

شعر میں اسی مفہوم کو خلق کیا ہے۔ درج بالا سازیاں ہیں جس نے ایک اشارے میں سب کو کیا گیا ہے۔ ادا

سنگ در بھی ترا، شہر جاں بھی ترا

لب پہ اعجاز لفظ و بیاں بھی ترا

غازی پوری( )ظہیر

انسان کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس کا اپنا کچھ نہیں ہے۔ ساری عطائیں اللہ جلہہ کی ہیں۔ وہ سنگ در بسجدہ ہوا کرتے ہیں۔ وہ شہر جاں بھی جس پر ہمارا بھی جہاں ہم سر جلال

رہتا ہے۔ شاعر نے اس مچلتا ہمارے لبوں پر وہ اعجاز بھی جو اں کایب کوئی اختیار نہیں۔ لفظ و شعر میں اسی حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔

آاتا کوئی مقام اللہ سمجھ میں کچھ نہیں

عجیب ہے تری قدرت، ترا نظام اللہ

)رؤف خیر(

پہچان سکے۔ وہ عظیم ہے، بڑی کو مرتبے بشر کے اختیار میں نہیں کہ وہ ذات باری کے مقام یا مقام، اس کی قدرت، اس کہ اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ اس کا عظمت والا ہے۔ اتنی عظمت والا

اس شعر میں ہے۔ اسی خیال کو فہم سے بالاتر و فکر حل بشر کی نظام ایک معمہ ہے جس کا کا پرونے کی کوشش کی گئی ہے۔

ہے لامکاں تمہارا سارے مکاں سے اونچا

آاسماں تمہارا یہ سر زمیں تمہاری، یہ

ہرگانوی( عاشق )مناظر

یی تمام جہانوں کا اللہ تبارک و ہے۔ یہ زمیں، جگہ قیام پذیر خالق بھی ہے اور مالک بھی۔ وہ ہر تعالآاگے لامکاں تک اسی کا آاسماں سے قیام ہے۔ وہ لامکاں جس کی وسعت اور بلندی کا تصور یہ

Page 111: Adab MenHamd o Munajat

سکتا۔ وہ تمام مکانات سے وسیع اور بلند و بالا ہے۔ اسی مفہوم کا اظہار اس شعر جا بھی نہیں کیا میں کیا گیا ہے۔

نجات ہے حیات ہے، ترے بس میں قید و ترے ہاتھ موت و

ہہ تجھے ذرے ذرے کی ہے خبر، تری شان جل جلال

نویدی( )علیم صبا

حیات بھی اسی کے ہاتھ رب ذوالجلال کے دست قدرت میں کیا نہیں ہے۔ انسان کی موت و نجات بھی۔ وہ بڑی شان والا ہے اور عالم الغیب بھی۔ وہ ذرے ذرے کی خبر و میں ہے اور قید

رکھتا ہے۔ شاعر نے اس شعر میں شان کریمی کا اقرار اور اس کے قادرانہ وصف کا اعتراف بھی کیا ہے۔

کہ بالا صفات ہے تری ذات جس کو ثبات ہے، وہی جو

ہہ نہ شریک ہے، نہ سہیم ہے، تری شان جل جلا ل

ٹونکی( )مختار

ہہ کی صفات میں ایک بہت بڑی صفت یہ بھی ہے کہ وہ لاشریک ہے یعنی یکہ و تنہا اللہ جل جلال ہے نہ ساتھی وہ لازوال ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ شاعر نے اس شعر نہ کوئی ہم سر ہے۔ اس کا

شرف حاصل کیا ہے۔ میں ذات باری کی یکتائی کی قصیدہ خوانی کا

خیرو شر تیری پنا ہوں میں خدا

آاہوں میں خدا تو ہی نغموں، تو ہی

اکبر( )خورشید

مرقع ہے۔ وہ وحدت الوجود بھی ہے اور وحدت صفات کا رب کریم کی ذات اقدس بے شمار ہو دکھائی دیتا ہے۔ خیر پرتو شے میں اسی کا ہے۔ ہر شے میں موجود کی ہر الشہود بھی۔ وہ دنیا

آاہوں میں بھی۔ اسے دیکھنے اسی کی پنا ہوں میں ہے۔ وہ نغموں میں بھی نظر کہ شر آاتا ہے اور ہے۔ درکار اور محسوس کرنے کے لیے چشم بینا

Page 112: Adab MenHamd o Munajat

ازل، ابد ہیں سرود تیرے

نظام ہست اور بود تیرے

عابدی( )عطا

کا موضوعات ذات باری سے ہی منسوب ہیں۔ ازل کی گفتگو ہو کہ ابد کے تمام معاملات و دنیا محور ایک خدا کی ذات ہی توہے۔ و مرکز تذکرہ سب کا ذکر ہو کہ وجودیت کا بیان، نظام ہستی کا

اسی مفہوم کو شاعر نے اس شعر میں نظم کرنے کی کوشش کی ہے۔

آاپ نے ہندوستان کے نمائندہ شعرا کے حمدیہ اشعار کے نمونے ملاحظہ فرمائے۔ ان اشعار میںآاپ نے عشق کی تیز آائے اب دیکھیں بھی آانچ محسوس کی ہو گی اور جذبات کی حرارت بھی۔

ہے، کی اڑان کس سطح پر جا رہا ہے وہاں فکر کہ پاکستان میں حمدیہ شاعر ی کوکس طرح برتاآافرینی، اثر عشق کی لو کس قدر تیز کی گئی ہے ، انگیزی اور انفرادیت پیدا ہے، کس درجہ معنی

:اشعار ملاحظہ فرمائیں

ممنون مرا دیدۂ بینا ہے کہ تو نے

دنیا کو دیا حسن تو مجھ کو بھی نظر دی

)قتیل شفائی(

ادا کرتے رہنا چاہیے۔ کیوں کہ اس نے ہمیں ہر شے نوازشات کا ہر وقت شکریم کیرب عظ سے مستفیض ہونے کی صلاحیت بخشی ہے۔ اس نے دنیا کو جہاں حسن و جمال سے نوازا ہے وہیں اس سے خط اٹھانے کے لیے ہمیں اس نے نظر بھی عنایت کی ہے۔ وہ نظر جسے چشم

بینا کہتے ہیں۔ شاعر نے اسی خیال کو اپنے شعر میں لفظی جامہ پہنانے کی سعادت حاصل کی ہے۔

رزق پہنچاتا ہے پتھر میں چھپے کیڑے کو

ہی سوکھی ہوئی شاخوں کو ہرا کرتا ہے تو

وارثی( )مظفر

Page 113: Adab MenHamd o Munajat

دیکھئے کہ وہ کہاں کہاں اپنے رزاق ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ وہ رب کریم کی شان کریمی تو سے پھر بھی رزق فراہم کرتا ہے۔ وہی سوکھی ہوئی ٹہنیوں کو پتھروں میں چھپے ہوئے کیڑوں کو

ہے۔ شاعر نے اس شعر میں قادر پر گزرنے ہرا بھرا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ وہ سب کچھ کر ذات باری کی انہی اوصاف کا اعتراف کیا ہے۔

یہ ارض و سما، یہ شمس و قمر، سب تیرے ہیں، ہم تیرے ہیں

ہے نور کا عالم شام و سحر، سب تیرے ہیں، ہم تیرے ہیں

)عشرت رومانی(

آاسماں تک، چاند سے سورج تک، دن سے رات تک اور نور سے خاک تک سب کے زمیں سے نے کائنات کوپر رونق مصروف کا رہیں۔ خدا کے غلام ہیں۔ سب اسی کے اشارے پر سب خدا

قمر کی وقت منور رہے۔ شمس و بنانے کے لیے ایک ایسا نظام قائم کر رکھا ہے کہ یہ کائنات ہر تخلیق کے پیچھے یہی خیال کارفرما رہا ہو گا کہ اس خوبصورت کائنات میں کسی بھی لمحہ

غلبہ نہ رہے۔ ظلمت کا

گلشن عالم کی زینت کارفرمائی تری

آارائی تری کتنی دلکش ہے فلک پر بزم

اجمل شاہین( )افتخار

آائینے ہی تو یہ زمین و آائینوں میں خدا آاسماں اور تمام موجودات جمال جلوہ کا ہیں۔ بے شک ان آائینہ محبوب حقیقی کا آائینہ در آانکھ والے ہی دیکھ پاتے ہیں۔ شاعر بھی فگن ہے جنھیں صرف

جلوہ دیکھ رہا ہے اور اپنے دل میں اس کی شان یکتائی بھی محسوس کر رہا ہے۔

دریا پہ جب بھی چاہے وہ صحرا اتار دے

صحرا کو وہ نہ چاہے تو دریا بنائے کون

)سہیل غازی پوری(

Page 114: Adab MenHamd o Munajat

صورت بدل کر دم بھر میں سب کی شکل و رب قدیر کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں۔ وہ چاہے تو دریا بھی کر سکتا ہے۔ یہ قدرت سکتا ہے اور صحرا کو صحرا بنا رکھ دے۔ وہ جب چاہے دریا کو

اس کے سوا کسی میں بھی نہیں۔ کیوں کہ وہ قادر مطلق ہے۔

آاغاز تیری خلاقی ازل کی صبح کا

ابد کی شام جہاں ہے وہاں کا مالک تو

)غالب عرفان(

بے نظیر ہی نہیں، ایک کرشمہ بھی ہے۔ وہ نہ صرف صبح خالق کل جہاں کی خلاقی بے مثال و تک کا کی تخلیق بھی اسی کی کرشمہ سازی ہے۔ وہ ازل سے ابد ازل کا خالق ہے بلکہ شام ابد

کیا فریضہ ادا شاعر نے نظم کرنے کا خالق بھی ہے اور مالک بھی۔ ذات باری کے اسی وصف کو ہے۔

وہ بھی تیرے ہیں کہ جو عیش و طرب میں گم ہیں

اور جتنے بھی ہیں شائستہ غم تیرے ہیں

)سیدمعراج جامی(

یی کی میں دو دنیا سےطو نشا دنیاوی عیش ےفکر نطرح کے بندے ہیں۔ ایک وہ جنھیں عقب نہ پرواہ۔ اس بےےفکر ہدور مگر خدا کے قریب کر رکھا ہے۔ دوسرے وہ جنھیں عاقبت کی

ہو گئے ہیں۔ ہے کہ وہ خدا سے دوراالجھا رکھ میں اس طرح بو طرپروائی نے انھیں عیش ہے۔ تضاد کے بندے ہیں لیکن ان میں کس قدر اس بات پر ہے کہ تمام بندے خدا حیرت تو

شہ رگ سے بھی قریب ہے سوچیں تجھے اگر

دیکھیں تجھے تو دور ہے، پانا محال ہے

)شاعر علی شاعر (

رسائی ممکن نہیں۔ کیوں کہ وہ ہمارے توںپانا چاہی، ہم اسے دور بھیپاس بھی ہے اور خدا تو وہ شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔ےکیا جائ اور محسوس رمگر تصوگماں سے پرے ہے۔

:ربشیر بدبقول

Page 115: Adab MenHamd o Munajat

خدا ایسے احساس کا نام ہے

رہے سامنے اور دکھائی نہ دے

خدا ترے کلام پر نہیں کوئی کلام

بڑا کلیم تو تجھے جچے کلیم لفظ

اللہ ساگر( )عبید

بھی ہے۔ کلام پاک اس کا روشنمبڑا کلیخدائے کثیر الصفات کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ بے مثال و لازوال ہے جس پرمکا کلا کلام نہیں۔ اس کر کوئیثبوت ہے۔ اس کے کلام سے بڑھ

دیتا ہے۔بکو زیبشر سے کوئی کلام ممکن نہیں۔ لفظ کلیم اسی کی شایان شان ہے اور اسی اس شعر میں اسی خیال کا اظہار کیا گیا ہے۔

کھلتے کہیں ہیں پھول، کہیں تپتی ریت ہے

تیرا کہیں جمال ہے، تیرا کہیں جلال

)ساحل سلطان پوری(

رحم وفپر صر۔ وہ اپنے بندوں جبار بھیرب العالمین رحیم بھی ہے اور کریم بھی، قہار بھی اور سےلروز از میں بھی ڈال دیتا ہے۔ ںکو مصیبتوبندوں جائے تو آا کرم ہی نہیں کرتا۔ وہ جلال پر

وادیوں اور خوش رنگ سلسلہ جاری ہے۔ یہ سلسلہ کہیں سرسبز کرم اور جلال کا اس کے لطف وآاتنظاروں کی صورت میں آاتش فشاں اور سلگتے ہوئے صحراؤں کی شکل ہے توانظر کہیں

اس شعر میں پرویا ہے۔ میں۔ شاعر نے اسی خیال کو

جب تک کہ تو زباں کو نہ طاقت عطا کرے

بندے کی کیا مجال کہ تیری ثنا کرے

(منظر ایوبی)

Page 116: Adab MenHamd o Munajat

سے ممکن نہیں، دوسرے یہ کہ جب تک رب عظیم زباں کو ذات باری کی توصیف بشر ایک تو ادا کر سکے۔ کیوںقکا ح ثنا خوانیطاقت گفتار نہ عطا کرے بندے کی کیا اوقات کہ اس کی

۔ اس شعر میں اسی حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔قاصر بھیکہ بندہ عاجز بھی ہے اور

پیش کیے گئے ہیں۔ مختصر سے مضمون میں تمامرطور پمذکورہ اشعار نمونے اور مثال کے اکرام کے حمدیہ اشعار کا احاطہ ممکن نہیں۔ سینکڑوں شاعر ہیں جنھوں نے تبرکا شعرا غزل گو

شرف اور سعادت حاصل کی ہے۔ حمدیہ شاعر ی کے لیے کاثنا خوانیہی سہی ذات باری کی محبوب کے عشق میں ڈوبنے اور سرشار ہونے کی ضرورت ہے تبھی یہ صنف اپنے درجہ کمال

اس کے فیض سے کسی حوالے سے ہو ذکر یا اس کی یاد سکتی ہے۔ ذات باری کاچکو پہنیی ہم سب کو اس کے ذکر گوشہ منور ہر انسان کے قلب کا عطاکی توفیق ہو جاتا ہے۔ خداوند تعال

آامین(ےفرمائ ۔ )

***

Page 117: Adab MenHamd o Munajat

غیاث الرحمن آاغا ڈاکٹر)مہاراشٹر(۴۴۰۰۱۸ ناگپور نگر، جعفر گارڈن، پانڈے نزد کالونی، گلستان

مناجات و حمد

ادب میں ’’حمد و مناجات‘‘ شاعر ی کی ایک صنف ہے۔ جس طرح شاعر ی میں نعت کا موضوعہہ کیفو توصیملسو هيلع هللا ىلصنبی کریم کی ذات مبارکہ کی مدح ہے اسی طرح ’’حمد‘‘ اللہ جل شان

گزاری ہے۔ یہ اصطلاح شاعر ی ہی کے ذات کی مدح و توصیف، ستائش، تحسین، تمجید اور شکر بیان ہوتی ہے ثنا و میں بھی حمد کہی جاتی ہے۔ زبان سے بھی حمد لئے مخصوص نہیں ہے نثر

یی کو اور دل ہی دل میں اللہ تبارک و کرنا بھی ’’حمد‘‘ ہے۔ یاد تعال

یی سے مشتق ہے جس کی معنی سرگوشی کے ہیں۔ مناجات مکا مفہومناجات عربی لفظ نجوآارزو سرگوشی میں اللہ سے دعا کرنا۔ اپنے دل کا حال بیان کرنا، اپنی ضرورت کے پورا ہونے کی

کا ہے۔ شاعر ی میں مناجات اکا چاہنآاخرت کی کامیابی و کرنا اور اپنے لئے نجات اور دنیایی سے اپنی حاجات اور ضروریات کا ذکرممفہو کر کے ’’دعائیہ نظم‘‘ ہے۔ جس میں بندہ اللہ تعال

یی نے دعاؤں کی بجو کتااس کے پورا ہونے کی التجا کرتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویی نے ایک بیوہ کی منظوم مرتب کی ہے اس کا نام ’’مناجات مقبول‘‘ رکھا ہے۔ الطاف حسین حال

نام ’’مناجات بیوہ‘‘ رکھا ہے۔ فریاد لکھی ہے اس کا

اردو شاعر ی میں نعت گوئی کے مقابلے میں حمد و مناجات کا رواج کم رہا ہے۔ اردو ادب میں نعتیہ شاعر ی کے بے شمار مجموعے دستیاب ہیں۔ نعت گوئی کی وجہ سے بعض شعرا مستقل

جدید نعتیہ شاعر ی کے مجموعے گلدستے اردو کے طور پر نعت گو شعرا کہلاتے ہیں۔ قدیم و علاوہ عربی اور فارسی کے منتخبات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں مراٹھی شاعر سریش

Page 118: Adab MenHamd o Munajat

تجزیاتی مضامین بھی بھٹ کی مراٹھی نعت کے نہ صرف اردو منظوم تراجم شائع ہوئے بلکہ اس پر لکھے گئے۔ فن نعت گوئی پر کئی کتابیں شائع ہوئیں۔ اس کی ابتدا، ارتقا، تعریف، موضوع،

ہر ہے۔ ایک بہت بڑا اور کافی مواد موجود فضیلت، لوازمات اور شرائط وغیرہ کے تحت نعت گوئی پرآاواز میں نعت خوانی کا آان کے بعد مترنم عام رواج ہے۔ عربی مدارس کے تقریب میں تلاوت قر

اجلاس میں بھی تلاوت کے بعد بچوں سے نعت خوانی کروائی جاتی ہے۔ حمد کے لئے تلاوتآان ہی کو کہی گئیں۔ اس کافی سمجھا جاتا ہے۔ نعت کی بہ نسبت حمد و مناجات کم تو قر بھی گیا۔ بہت کم لکھا موضوع پر

آازاد کی ہے۔ ڈاکٹر نعت گوئی پر ڈاکٹرسیدرفیع الدین اشفاق نے ایک کتاب تحریر محمد اسماعیل فتح پوری نے ’’اردو شاعر ی میں نعت گوئی‘‘ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی

یی نشیط کی ایک ہے اور مقالے کو دو جلدوں میں شائع بھی کیا ہے۔ نعت گوئی پر ڈاکٹرسید یحی کتاب پاکستان سے شائع ہے۔ انھوں نے حمد و مناجات پربھی بہت وقیع کام کیا ہے۔ جامعہ

‘‘ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد ملسو هيلع هللا ىلصآاباد کے دینی اور اصلاحی رسالہ کا بہت ضخیم ’’نعت النبی صفحات مختص کئے گئے ہیں۔ نمبر شائع ہوا۔ اس میں حمد و مناجات پر بھی چند

تقابل نہیں ہے صرف یہ واضح کرنا ہے کہ نعتوں کی بہ یہاں حمد و مناجات اور نعت گوئی کا ملسو هيلع هللا ىلصا کرم کی ذات مبارکہ نسبت شعرا نے حمدیں اور مناجاتیں کم کہی ہیں۔ دراصل حضور

مجبور اور بے قرار کر دیتا ہے اور وہ سے شاعر کی عقیدت اور والہانہ جذبۂ محبت اس بات پر میدان بہت ملسو هيلع هللا ىلصحضور کی شان میں کچھ کہے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ نعت کا

نکلتے وسیع ہے نعت کہنے میں بہت گنجائشیں ہیں اس میں کئی طرح کے عنوانات اور پہلو رہتے ہیں۔

ہہ کا موضوع شاعر ی سے زیادہ مذہبی موضوع ہے۔ حمد ’’حمد و مناجات‘‘ کا تعلق اللہ جل شان کہ حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا بندوں کو کی ذات سے ہے اور اللہ نے اپنی حمد و ثنا کرنے کا

آاپ سے قبل جتنے ذکر ’’اے ایمان والو کثرت سے اللہ کا ملسو هيلع هللا ىلصکرو۔ ‘‘ حضور ا کرم اور یہی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت مقصد امیں تشریف لائے ان سب کی بعثت کا بھی انبیاء اس دنی

آاپ اللہ کی بندگی اور اس کی حمد پیغام بندوں تک پہنچائیں۔ فرمایا اور اس کی حمد و ثنا کا کہ ’’آاپ نے یہ پیغام بخوبی بندوں تک پہنچا و ثنا کا دیا اور ملسو هيلع هللا ىلصپیغام بندوں تک پہنچائیں۔ ‘‘

Page 119: Adab MenHamd o Munajat

کہ انسان کی زندگی کا مقصد خدا کی عبادت ہے اور خدا کی عبادت اس کی حمد و ثنا فرمایا فعل ملسو هيلع هللا ىلصآاپ کی زندگی سراپا ’’حمد ‘‘ ہے۔ زندگی کا ایک ایک عمل، قول و ہے۔ خود

آان کا آاغاز بھی ’’حمد‘‘ ہے۔ اس کا اختتام بھی ’’حمد‘‘ ہے۔ ’’حمد‘‘ ہے۔ اللہ کی مقدس کتاب قر لا الہ الا اللہ جس کے پڑھے بغیر اور جس کا اقرار کئے بغیر اور اس پر ایمان لائے بغیر کلمۂ طیبہ

یہ اقرار کرنا کہ خدا کے کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا یہ کلمہ بھی ’’حمد‘‘ ہے۔ اس میں بندہ کا نہیں۔ وہی قدرت والا ہے، قوی ہے نہیں، کوئی پالنے والا، جلانے والا اور مارنے والا سواکوئی معبود

کی بڑائی اور اس کی حمد و ثنا ہے۔ مالک ہے۔ یہ اقرار بھی خدا قادر ہے ہر چیز کا پر چیز اور ہر عبادت ہے اس سے بندوں کو مفر نہیں۔ ’’حمد‘‘ اسلام کی روح ہے۔ عبادت کی روح ہے حمد

عبادت مردہ اور بے جان ہے۔ ’’حمد‘‘ بندوں کی نجات کاسبب ہے اللہ کی ہر اس کے بغیر آاخرت کی و رحمت کے دروازے اسی سے کھلتے ہیں۔ بندوں کی نجات کاوسیلہ ہے اور دنیا

کامیابی کا انحصار اسی پر ہے۔

آان، کھانا، انسان کی زندگی کا کوئی عمل اور کوئی لمحہ حمد سے خالی نہیں۔ نماز، تلاوت قر للہ، لپینا، سونا، جاگنا اگرسنت طریقے کے مطابق ہیں تو سب ’’حمد‘‘ ہے۔ سبحان اللہ، الحمد

ماشاء اللہ، اللہ اکبر اور اس طرح کے کلمات جوہرمسلمان کی زبان پر رہتے ہیں ’’حمد‘‘ ہی ہیں۔ بندے کاکسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتے وقت انشاء اللہ کہنا ’’حمد‘‘ ہے۔ بندہ اس وقت یہ

یہ کام اقرار کرتا ہے کہ میرے ارادہ سے کچھ نہیں ہو گا۔ اللہ قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے گا تو ہو جائے گا۔

کر دئیے ہیں۔ انہی اوقات میں ان عبادات کو کیا جاسکتا اللہ نے عبادات کے لئے اوقات مقرر اللہ کے لئے کوئی وقت مقرر مکروہ ہے۔ لیکن حمد و ثنا اور ذکر ممنوع اوقات میں کرنا ہے۔ ان کو

پاکی کی حالت میں بھی دل ہی دل میں نہیں کوئی پابندی نہیں، نہ وضو کی نہ پاکی کی۔ نا بندۂ مومن دن رات اللہ کی یاد کر کے اس کی حمد و ثنا کی جاسکتی ہے۔ اس طرح ہر اللہ کو

حمد و ثنا میں کسی نہ کسی طرح رطب اللسان رہتا ہے۔

آاہ و مناجات میں بندہ کا زاری کرنا، پچھتانا اور معافی مانگنا اللہ کو تعلق اللہ سے ہوتا ہے۔ مانگنا، معافی مانگنے کے لئے کہا ہے۔ اپنے جلال اور عزت کی قسم بہت پسندہے۔ اللہ نے بندوں کو

میں معاف میں عطا کروں گا۔ مجھ سے معافی چا ہو کھا کر کہا ہے کہ تم مجھ سے مانگو

Page 120: Adab MenHamd o Munajat

آانسو بہاؤ معاف کر دوں گا میں ستاری کروں گا اور گناہوں کو کروں گا۔ گنا ہوں پر ندامت کے بہترین گنہگار کہا ہے جو بلکہ انھیں نیکیوں سے مبدل کر دوں گا۔ اللہ نے اس گنہگار بندہ کو

پچھتائے اور معافی مانگے۔ اپنے گناہ پر

آاہنگ مقرر نہیں۔ غزل، نظم، شاعر ی میں حمد و مناجات کے لئے کوئی مخصوص اسلوب اور یت میں کہی جاتی ہے صرف جذبہ کیئمثلث، مسدس، ترجیع بند، ترکیب بند کسی بھی ہ

کی بڑائی اور کبریائی خدا دل پاک اور ذہن صاف ہو ضرورت ہے۔ حمد و ثنا لکھتے وقت شاعر کا وہ جذبۂ ایمانی سے سرشار ہو۔ نعت کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے اور کا اسے احساس ہو

خالق کائنات کی تو گویا تلوار کی دھار پر چلنے سے بھی زیادہ نازک ہے۔ حمد کہ نعت کا کہنا بیان کرنے میں یہ دھار اور تیز ہو جاتی ہے۔ اللہ سے محبت کا حمد و ثنا بیان کرنا ہے اس کو

یی ہواس کی حمد و ثنا بھی بیان کی جا رہی ہو اور ساتھ ہی اس کی نافرمانی بھی جاری ہو تو دعویی جھوٹا اور کسی کام کا یی کے ساتھ جذبۂ اطاعت و فرمانبرداری کا ہونا دعو بھی ضروری نہیں۔ دعو

ہے۔

جذبہ کارفرما رہے۔ دل میں اللہ مناجات نظم کرتے وقت عاجزی، انکساری، خاکساری اور تضرع کا خوف ہو۔ اسلوب بیان اور الفاظ سے مسکینی اور بے کسی کا اظہار جلال اور اس کا کی ہیبت و

آان شریف میں وارد بھی ملحوظ رکھا ہو۔ شاعرانہ فنی خوبیوں کو ہے کہ ’’اپنے رب کو جائے۔ قر رب میری بات کوسن رہا ہے۔ وہ میرے عاجزی اور زاری سے پکارو‘‘ اس بات کا استحضار ہو کہ میرا

محروم رکھتا ہے۔ نہیں اور نہ کسی کو دھتکارتا سامنے ہے۔ وہ بہت سخی ہے۔ اپنے بھکاریوں کو دل تصنع اور ظاہرداری سے پاک ہو اور اخلاص، خشوع و حمد و مناجات لکھتے وقت شاعر کا

محبت کے بے پناہ جذبات میں ڈوب کر خضوع اور دل سوزی سے سرشارہو۔ اللہ سے عشق وآاتش شوق دل کی گہرائیوں کے ساتھ حمد و مناجات لکھی جائیں کہ سننے اور پڑھنے والوں کی

بھی بھڑک اٹھے۔

شعرا کے منتخب اشعار مناجاتی کلام سے چند جدید شعرا کے حمدیہ و اردو شاعر ی میں قدیم وآان مجید کی پہلی سورۃ سورۂ فاتحہ جسے سورۂ الحمد بھی کہا جاتا یہاں درج کئے جاتے ہیں۔ قر

ہے۔ اس سورۃ میں اللہ کی حمد و ثنا بیان ہوئی ہے۔ کئی شعرا نے اس کے منظوم تراجم کئے ہیں ان میں ایک ترجمہ کافی معروف اور مقبول ہوا ہے۔ ایک زمانے میں سرکاری اور غیرسرکاری مدارس

Page 121: Adab MenHamd o Munajat

میں اسکول شروع ہونے سے قبل یہ ’’حمد یہ نظم‘‘ سبھی بچے خوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے :اس کا پہلا شعر ہے

آاغاز ہمارے کاموں کا ہے نام سے جگداتا

تو رحم و کرم کا سرچشمہ ہے فیض ترا ہی لہراتا

۔۔۔

سب مراتب ہیں تیری ذات مقدس سے ورے

یی تیرا کس زباں سے کہوں ہے مرتبہ اعل

)مولانامحمودحسن دیوبندی(

خدایا میں تجھے اپنا خدا تسلیم کرتا ہوں

تہہ دل سے تجھے سب سے بڑا تسلیم کرتا ہوں

صابری( )انور

آاں کے سپاروں میں قر

احساں کے اشاروں میں

ایماں کے سنواروں میں

معصوم پیاروں میں

میں نے تمہیں دیکھا ہے

میں نے تمہیں دیکھا ہے

)مفتی محمودالحسن گنگوہی(

یہ شمس و قمر یہ ارض و سما

سبحان اللہ سبحان اللہ

ہر رنگ میں تیرا ہے جلوہ

Page 122: Adab MenHamd o Munajat

سبحان اللہ سبحان اللہ

آابادی( )سیماب اکبر

یاد کرنا ہر گھڑی تجھ یار کا

ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا

)ولی دکنی(

مقدور ہمیں کیا ترے وصفوں کے رقم کا

حقا کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا

ید( )در

ہے اور ہائی اسکول کے طلباء کے نصاب میں داخل ہے بھی بہت مشہور میرحسن کی یہ حمد :کا شعر ملاحظہ فرمائیں حمد

کروں پہلے توحید یزداں رقم

جھکا جس کے سجدے کو اول قلم

رب ہے تیری ذات کو دونوں جہاں میں برتری یا

ہے یاد تیرے فضل کو رسم خلائق پروری

آابادی( اکبر )نظیر

یلہی ہیں سب اسم اعظم یق اسماء ا ذو

اس کے ہر نام میں عظمت ہے نہ اک نام میں خاص

)ذوق(

اے خداوند مہ و مہر و ثریا و شفق

لمعۂ نور سے ہے تیرے جہاں کو رونق

(ء)انشا

Page 123: Adab MenHamd o Munajat

عاجز نواز دوسرا تجھ سا نہیں کوئی

رنجور کا انیس ہے ہمدم علیل کا

آاتش( (

ہر چند ہر اک شے میں تو ہے

پر تجھ سی کوئی بھی شے نہیں ہے

)غالب(

آاتش سے خس کو بچائے وہ حافظ کہ

تپ عشق سے بوالہوس کو بچائے

)مومن(

پتلی کی طرح نظر سے مستور ہے تو

آانکھیں جسے ڈھونڈتی ہیں وہ نور ہے تو

اقرب ہے رگ جاں سے اور اس پر یہ بعد

اللہ اللہ کس قدر دور ہے تو

)انیس(

آابرو دیتا ہے قطرے کو گہر کی

قد سرو کو گل کو رنگ و بو دیتا ہے

بیکار تشخص ہے، تصنع بے سود

عزت وہی عزت ہے جسے تو دیتا ہے

)دبیر(

یر ملتی ہیں بے مانگے نعمتیں کیا کیا امی

بڑا کریم ہے جس کا امیدوار ہوں میں

Page 124: Adab MenHamd o Munajat

مینائی( )امیر

یغ کونین جس کے ناز سے چکرا رہے ہیں دا

میں ہوں نیاز مند اسی بے نیاز کا

یغ( )دا

آاتی یاں عظمت تری مانے بن کچھ بن نہیں

ہیں خیرہ و سرکش بھی دم بھرتے سدا تیرا

)حالی(

لن عالمگیر کا لا حس ¸ل آائینہ ہے لا و ا

ایک ہے دیکھو پلٹ کر دونوں رخ تصویر کا

آابادی( )شاد عظیم

آارزو کریں ہم کیا کریں اگر نہ تیری

دنیا میں اور بھی کوئی تیرے سوا ہے کیا

)حسرت موہانی(

پردہ نہ تھا وہ صرف نظر کا قصور تھا

دیکھا تو ذرے ذرے میں اس کا ظہور تھا

)جلیل مانک پوری(

تیری خبر نہیں ہے پر اتنی خبر تو ہے

تو ابتدا سے پہلے ہے تو انتہا کے بعد

آابادی( مراد )جگر

خدایا نہیں کوئی تیرے سوا

اگر تو نہ ہوتا تو ہوتا ہی کیا

Page 125: Adab MenHamd o Munajat

یمعیل میرٹھی( )اس

مالک مرے بے نیاز ہے تو

مالک مرے کارساز ہے تو

آابادی( )ریاض خیر

آاستاں پہ جو سر جھک گیا تیرے

آاستاں پہ خم نہ ہوا پھر کسی

)فانی بدایونی(

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ

)اقبال(

دعائے شام و سحر لا الہ الا اللہ

یہی ہے زاد سفر لا الہ الا اللہ

)ماہر القادری(

اے مالک ہر دو جہاں

ہم پر ہے کتنا مہرباں

یی ساحل تسلیمی( )مرتض

تو خدا ہے تیرے لائق کس طرح ہو تیری حمد

لم کل تیری ذات لک کل حاک لق کل مال خال

)عروج قادری(

لن کرم مری زباں سے ہے ارفع ترا بیا

مری نگاہ سے اونچی ہے تیری شان کرم

Page 126: Adab MenHamd o Munajat

)حافظ امام الدین(

میرے اللہ تو یکتا ہے تری ذات قدیم

نہ تیرا کوئی مقابل نہ شریک اور سہیم

)ثاقب عباسی(

اہل عجم کی بات نہ اہل عرب کی بات

اے دوست ہے پسند مجھے اپنے رب کی بات

)شہود الحق روشن(

خدا ایک ہے سب کا خالق وہی ہے

وہی رزق دیتا ہے رازق وہی ہے

بڑائی تو ہے بس اسی کی بڑائی

سن اے میرے بھائی سن اے میرے بھائی

لمجاہد زاہد( ا)ابو

اے خدا اے خدا شکر و احساں ترا

ہم کو پیدا کیا اور کھانا دیا

اے خدا اے خدا شکر و احساں ترا

بادی( )مائل خیر

یں۔ شاہ غلام حسین علاقۂ ودربھ کے شعرا کے کلام میں بھی حمد و مناجات کی مثالیں موجود ء( ودربھ کے ایک صوفی شاعر گزرے ہیں ان کے کلام میں دکنی کا اثر۱۷۹۵ایلچپوری )المتوفی

:مایاں ہے۔ ان کی حمد کا ایک شعر ملاحظہ ہون

سدا ذات اللہ کوں ہے بقا

دسے ماسوی اللہ مطلق فنا

Page 127: Adab MenHamd o Munajat

:ہنہ مشق شعرا کے منتخب اشعار دیکھئے کاب ودربھ کے چند

ظاہر و پوشیدہ است ہر چہ اے خورشید زار

مظہر ذات خدا معرفت کردگار

آاراء بیگم( )خورشید

ازل سے ابد تک زمانے ترے

مکاں لا مکاں ہے ٹھکانے ترے

(ءمنشا )ڈاکٹر

آاہنگ ساز کا تو ہے لئے ہوئے ہر اک

جو گونجتی ہے تخیل میں وہ صدا تو ہے

)شارق جمال(

نام اسلام پسند شاعر کی حیثیت سے نمایاں ہے۔ شرف الدین ساحل کا شعرائے ودربھ میں ڈاکٹر کی روشنی‘‘ میں اخلاقی، اسلامی اور تعمیری نظریات ان کی شاعر ی کے خاص عنصر ہیں۔ ’’حرا

تک منظوم تاریخ بیان کی ہے۔ ڈاکٹر ساحل کے ملسو هيلع هللا ىلصانھوں نے ایام جاہلیت سے وفات نبیآائینہ سیما‘‘ ، شعر ی مجموعوں میں ’’دست کوہکن‘‘ ، ’’شرارجستہ‘‘ ، ’’حرا کی روشنی‘‘ ،

آائینہ سیما اور تازگی میں حمدیہ و مناجاتی ’’تازگی‘‘ اور ’’مقدس نعتیں ‘‘ شامل ہیں۔ شرارجستہ،آائینہ دار مجموعہ ہیں۔ عنقریب حمد و مناجات کا نظمیں ملتی ہیں جو ان کے مذہبی جذبات کی

آا رہا ہے۔ ان کے چند حمدیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں بھی منظر :عام

وجود اس کا ہے مشک و گلاب سے ظاہر

یہ جگمگاتے ہوئے ماہتاب سے ظاہر

ایک قطرے کو صدف میں زندگی دیتا ہے کون

بن گیا موتی اسے تابندگی دیتا ہے کون

لت شب پل میں پھاڑ نے کر تو ردائے ظلم

Page 128: Adab MenHamd o Munajat

لش ایام کی سحر تو نے نکالی گرد

آال ہے واحد ہے، بے نیاز و بے اولاد و

لب کائنات ہے اور ذوالجلال ہے تو ر

محبوب راہی کا شمار ودربھ کے ایسے شعرا میں ہے جن کی شاعر ی کی بنیاد اسلامی، ڈاکٹر آاگہی اور ایمان کی حرارت ان کے کلام میں اخلاقی اور صالح اقدار پر قائم ہے۔ مذہبی شعور و

موجود ہے۔ انھوں نے حمد و مناجات پر خاص توجہ کی ہے۔ حمدوں،مناجاتوں، نعتوں، سلاموں،آاواز مکے اور مدینے ‘‘ اور اصلاحی نظموں کے ان کے دو منقبتوں اور اسلامی و مجموعے ’’تری

مناجاتیں ہیں۔ بچوں کے تین۳۱حمدیں اور ۳۸’’سرمایۂ نجات‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ ان میں آاسان اور سہل زبان میں شعر ی مجموعے ’’رنگارنگ‘‘ ، ’’گل بوٹے ‘‘ اور ’’پھلواری‘‘ میں بھی

:حمد و مناجات شامل ہیں۔ ان کا اس انداز کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں

جا بجا سوبہ سو تو ہی تو چار سو

پھول سی مدھ بھری تیری بو چار سو

:اشعار بھی دیکھئے ودربھ کے موجودہ شعرا کے یہ چند

آانکھوں سے نظر تو آاتا ہے ہر چند نہیں

انسانوں کی شہ رگ سے ہے نزدیک مگر تو

)لطیف یاور(

یر ہے انگبیں کا مزہ اس کے ورد میں جوہ

کہیں نہ کس لئے ہم لا الہ الا اللہ

اللہ خاں جوہر( )راشد

خالق دو جہاں پاک پروردگار

ہم گنہ گار دل کی تو سن لے پکار

)جملوا انصاری(

Page 129: Adab MenHamd o Munajat

پیکر پیکر ترا ربی

عرفاں گھر گھر تیرا ربی

)عاجز ہنگن گھاٹی(

چل رہا ہوں خود کو اندھا جان کر

خدا روشن کوئی امکان کر یا

)شکیب غوثی(

تیری تلاش ہر سو، ہر سو ترے نظارے

ہر دل میں تیرا مسکن ہر دل تجھے پکارے

)فصیح اللہ نقیب(

اے خدا قابل تعریف ہے بیشک تری ذات

حاکموں کا ہے تو حاکم تیرے لمبے ہیں ہاتھ

)خلش تسکینی(

اٹھائے کب سے ہوں دست سوال دے اللہ

مجھے بھی اپنے ہنر میں کمال دے اللہ

)امین ببودوی(

نہ رنگ روپ نہ ظاہر جمال تیرا ہے

مگر سجود میں حسن خیال تیرا ہے

خلیقی( اللہ عنبر )امیر

کریم ہے تو، رحیم ہے تو، مرے جہاں پر تری حکومت

لز محشر کا تو ہی منصف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے رو

عجاز( ا)منصور

Page 130: Adab MenHamd o Munajat

حمد و ثنا اسی کی،جس نے جہاں بنایا

آارام جاں بنایا مٹی میں جان ڈالی

)ڈاکٹراسداللہ(

آازمائی کی ہے۔ یہاں شعرائے اردو کے مناجاتی منتخب اشعار شعرا نے مناجات میں بھی طبع درج کئے جاتے ہیں۔ شیخ سعدی کی فارسی کی ایک مناجات بہت مقبول ہے۔ اکثر ائمہ حضرات

:آاواز سے پڑھتے ہیں بلند فرض نماز کے بعد اس مناجات کو

بہ بخشائے بر حال ما کریما

کہ ہستم اسیر کمند ھوا

العلی عادل نے اس کا اردو منظوم ترجمہ کیا ہے۔ مولانا محمد ثانی ناگپور کے ایک قدیم شاعر عبد:ملاحظہ ہو تضمین لکھی ہے۔ ایک بند حسنی نے بھی اس مناجات پر

یلہی ہمارا تو ہی ہے خدا ا

تو حاجت روا اور مشکل کشا

نہیں کوئی معبود تیرے سوا

تو داتا ہے دیتا ہے صبح و مسا

کریما بہ بخشائے بر حال ما

وامہکہ ہستم اسیر کمند

کاشمیری کی یہ مناجات بھی بہت مقبول اور معروف ہے اور اکثر مسلمانوں کے اور دینی حشر آاغا :مدارس کے اجلاس میں خوش الحافی سے پڑھی جاتی ہے

آاہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے

بادلو! بٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے

اللہ مہاجر مکی نے بھی ایک مناجات ’’شوق بے نوا‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے حاجی امداد :ایک بند دیکھئے

Page 131: Adab MenHamd o Munajat

آاپ کے دیدار سے شوق ہے اس بے نوا کو

آاپ کی سرکار سے ہو عنایت کیا عجب ہے

کچھ نہیں مطلب دو عالم کے گل و گلزار سے

کر مشرف مجھ کو تو دیدار پر انوار سے

سرور عالم محمد مصطفی کے واسطے

یی کی مناجات کا ایک شعر دیکھئے عارف باللہ حضرت مولانا :قاری صدیق احمدصاحب ثاقب باندو

آائے ہیں سب اہل جفا اب با وفا ہو کر امڈ

آاقا تیرے در پر بے نوا ہو کر آائے ہیں غلام

یی کی مناجات ’’الھی لاتعذنبی‘‘ کا ایک بند ملاحظہ کیجئے :مولانا محمد ثانی حسن

خداوندا میں سرتاپا خطا ہوں

اسیر پنجۂ حرص و ہوا ہوں

فقیر و خاکسار و بے نوا ہوں

برا ہوں پر ترے در کا گدا ہوں

یلہی لا تعذنبی فانی ا

مقر بالذی قدکاں منی

:ملاحظہ کریں سیدناظرحسین کی مناجات ’’اے مرے پروردگار ‘‘ کا ایک بند

اے مرے معبود برحق اے مرے پروردگار

تیری عظمت کے تصدق تیری رحمت کے نثار

ہی ہے دانا و بینا کار ساز روز گار تو

آاشکار میری جہالت جو بھی ہے وہ سب ہے تجھ پر

حال زارم از طفیل مصطفی رحم کن بر

Page 132: Adab MenHamd o Munajat

ئª حاکم ارض و سماء اے قدیر کل شی

:کی مناجات کا ایک ایک شعر دیکھئے جلیل راغبی اور ڈاکٹر منشاء الرحمن خاں منشا

یی جادواں کر دے میرے ذوق طلب کو میرے مول

میری چشم طلب پر میرے جلوں کو عیاں کر دے

کر عطا مجھ کو فقیرانہ وسیع القلبی

تنگ دل تنگ نظر مرد تونگر نہ بنا

(ءمنشا )ڈاکٹر

:چند شعر ملاحظہ فرمائیں محبوب راہی کی مناجات کا

نگاہ لطف و کرم ہو مجھ پر خدائے برتر خدائے برتر

کہ میں سراپا گناہ پیکر خدائے برتر خدائے برتر

مری نمازیں مری دعائیں دل شکستہ کی التجائی

خدائے برتر خدائے برتر قبولیت کا شرف عطا کر

متاع عقل و شعور دیدے مرے اندھیروں کو نور دیدے

مذاق فکرو نظر عطا کر خدائے برتر خدائے برتر

معاف کر دے گناہ اس کے نہیں ہے پیروں میں راہ اس کے

دے راہی کو راہ حق پر خدائے برتر خدائے برتر لگا

:ختم کرتا ہوں ڈاکٹر ساحل کی مناجات کے ان اشعار پر اپنی بات کو

تو میری سوچ کے پودے کو اک شجر کر دے

دعا یہ ہے مرے لہجے کو معتبر کر دے

صدف میں فکر و تخیل کے میں مقید ہوں

لل قطرہ ہوں برسوں سے اب گہر کر دے مثا

Page 133: Adab MenHamd o Munajat

بچا لے شر کی تباہی سے تو مجھے یا پھر

میری حیات کے عرصے کو مختصر کر دے

میں پھنس سکوں نہ کبھی دام شر میں دنیا کے

لد ہستی سے باخبر کر دے مجھے مقاص

آارزو ہی نہیں سوائے اس کے میرے دل میں

یہی کہ مرکز اخلاص میرا گھر کر دے

دے چادر رحمت عیوب ساحل پر اڑا

ہے بے اثر یہ نوا اس کو با اثر کر دے

***

Page 134: Adab MenHamd o Munajat

محمد بدیع الزماں۸۰۱۵۰۵ پٹنہ۔ شریف، پھلواری سیکٹر، فرسٹ نگر، ہارون

کا غزل پہلی کی جبریل‘‘ ’’بال میں باب کے ثنا و حمد مطلع

﴾ جائزہ۔۔۔ تبصراتی یک۔۔۔ ا﴿

یی کی ذات و ثنا‘‘ اس صنف کو و اردو ادب میں ’’حمد صفات کہتے ہیں جس میں خدائے تعالآایت ’’الحمدللہ رب کی تعریف کی جائے۔ ’’حمد‘‘ عربی لفظ ہے اس لئے سورۃ الفاتحہ کی

:ہے یہ مصرعہ بھی حمد العلمین‘‘ بھی حمد ہے اور کسی کا

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا

ایک حمد اور ایک نعت شامل کرنے پرا اردو شاعر نے اپنے مجموعہ کلام کے شروع میں تبرکا ہر لکھی اور نہ ایک نعت اکتفا کیا ہے مگر اقبال واحد اردو کے شاعر ہیں جنھوں نے نہ ایک حمد

اا اور نہ اپنے اردو کے چار ان کے بھی حمد اور نعت شامل کیا۔ مگر مجموعہ کلام میں تبرک مجموعہ کلام ’’بال جبریل‘‘ کی پہلی سولہ غزلوں پرسینکڑوں حمد و ثنا ہیں اور دوسرے انھوں نے

دیا۔ بنا نعتیہ اپنے سارے کلام کو

اقبال نے اردو شاعر ی میں ہیئت کے بہت سے تجربات کئے اور انداز بیان کا ایک ایسا انوکھا اورآازاد بہتوں نے اس کی نقل کی مگر سب نا کیا نرالا طریقہ اختیار کہ بقول پروفیسر جگن ناتھ

Page 135: Adab MenHamd o Munajat

تجزیہ پہلی غزل غزلیں ہیں جن میں زیر ۷۷کامیاب رہے۔ ایسی ہی تجربات میں ’’بال جبریل‘‘ کی مطلع موضوع گفتگو ہے۔ بھی شامل ہے۔ جس کا

نظم وہ براہ راست کسی یا بیان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ غزل ہو اقبال کے انداز:قول تھا پیش نہیں کرتے کیونکہ ان کا موضوع کو

برہنہ شعر نہ گفتن کمال گویائی است

آاتے۔ اقبال کے شعر کو گرفت اور یہی وجہ ہے کہ اقبال کے اکثر اشعار جلدی گرفت میں نہیں یعنی بین السطور پڑھنا ضروری ہے۔ in between the lines میں لانے کے لئے

:درج ذیل مطلع موضوع گفتگو ہے مضمون میں طوالت کی وجہ سے ’’بال جبریل‘‘ کا اس

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں

غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں

اس شعر کے پہلے مصرعہ میں اقبال کہتے ہیں کہ ’’نوائے شوق‘‘ سے ’’حریم ذات‘‘ میں ایک شور برپا ہو گیا ہے۔ اقبال کے اس ’’نوائے شوق‘‘ کی تاثیر دیدنی اور شنیدنی ہے کہ ’’حریم ذات‘‘

بالفاظ عاشق ’’حریم ذات‘‘ میں داخل ہو گیا، یا تک میں شور برپا ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ اگرآاشکار اا فنا ہو جائے یہ کائنات جو ہو گئی تو دیگر ذات تجلی صفات کی بدولت پیدا ہوئی ہے، یقین

جلوہ کسے دکھائے گی؟ معشوق پھر ’’ذات‘‘ اپنا گی اور جب یہ کائنات ہی فنا ہو جائے گی تو کے لئے عاشق کا وجود لازمی ہے۔

’’شوق‘‘ اقبال کے کلام میں، الفاظ سے مشتق، ایک اصطلاح ہے جس سے بہت سارے اشعار اللہ کرتے کرتے جب محبت کے ہیں۔ ذکر اور نظمیں ہیں۔ ’’شوق‘‘ کے لغوی معنی عشق و

تصرف کی اصطلاح میں ’’شوق‘‘ سے تعبیر سالک پر محویت طاری ہو جاتی ہے تواس کیفیت کو میں اقبال کا کرتے ہیں۔ اس ’’شوق‘‘ پر ’’بال جبریل‘‘ کی نظم ’’مسجدقرطبہ‘‘ کے تیسرے بند

:یہ شعر ہے

شوق مری لے میں ہے، شوق مری نے میں ہے

نغمۂ اللہ ھو میرے رگ و پے میں ہے

Page 136: Adab MenHamd o Munajat

تجزیہ شعر کے پہلے مصرعہ میں اقبال نے ’’ذات‘‘ اور دوسرے میں ’’صفات‘‘ استعمال کیا زیر لفظ لائے ہیں اور حق یہ ہے کہ اس کی موزونیت کا اظہار ہے اور ’’ذات‘‘ کے لئے ’’حریم‘‘ کا

ہے لفظوں کے ذریعہ ناممکن ہے۔ ’’حریم‘‘ سے شاعر ی کی اصطلاح میں وہ محفوظ مقام مراد جہاں کسی کی رسائی نہ ہو سکے۔ پس اس جگہ ’’حریم‘‘ کنایہ ہے اس حقیقت سے کہ ذات

اپنے اس مصرعہ والوں کو ہے۔ اقبال دنیا تر الورا ہے اور انسانی فہم کی دسترس سے بالا باری وراء عاشق ’’ذات‘‘ تو برپا ہو گیا سے مغالطہ میں رکھنا نہیں چاہتے کہ جب ’’حریم ذات‘‘ میں شور

پیدا ہو گا۔ اسی کم وصال کا امکان ضرور از کم یعنی معشوق حقیقی سے حاصل ہو جائے گایا لفظ استعمال کیا ہے تاکہ قاری پریہ حقیقت واضح امکان کی نفی کے لئے اقبال نے ’’حریم‘‘ کا

ہو جائے کہ اگرچہ اس میں شک نہیں کہ میرے ’’نوائے شوق‘‘ سے ’’حریم ذات‘‘ میں شور کیا علاج کہ ’’ذات‘‘ حریم میں پوشیدہ ہے اور اس یقین سے معمور برپا ہو گیا ہے لیکن اس کا

ہے کہ ہم تک کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ الغرض اس حقیقت نے ’’حریم‘‘ کو ’’حریم ناز‘‘ ہی نہیں سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب حریم ناز ہو گزر یعنی ایسی بارگاہ بنادیاجس میں غیر کا

نکلا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عاشق کا نتیجہ کیا ہی نہیں سکتاتو ’’نوائے شوق‘‘ کا ہو میں گزرآامد کام تو نہ ہو۔ اس معنی میں اسی لئے انگریزی میں اسی یا ہو کوشش کرنا ہے خواہ نتیجہ بر

Forbidden place for "ہے جس کی معنی ہیں Harem ’’حریم‘‘ سے لفظ

Mussalmans"۔

یہ ناکامی بھی عین کرم ہے کیونکہ اگر غور سے بین السطور پڑھیں تو تجزیہ شعر کو زیر ہم اگرفیی عاشق حریم ذات میں داخل ہو جائے تواس کا فنا ہو جانا یقینی ہے کیونکہ جب حضرت موس

ذات کی تجلی کی تاب ( توایساکون ہے جو۱۷تجلی کی تاب نہ لاسکے )سورۃ الاعراف، رکوع: لاسکے۔

تجزیہ شعر میں خطاب معشوق حقیقی سے ہے مگر خطاب کا انداز یہ ہے کہ اس شعر گرچہ زیر تذکرہ ہے لیکن بہ باطن یہ اسی کی حمد و ثنا ہے کیونکہ یہ اپنا میں تذکرہ اپنا ہی ہے۔ بظاہر تو

ہوں، میری حقیقت اور ماہیت تو چیز مقصود اپنے تذکرہ سے یہ ہے کہ اے خدا!میں ایک بندۂ نا محض اس سبب سے کہ تیری صفت تخلیق اس کائنات میں ’’عدم‘‘ ہے۔ میں اگر موجود ہوں تو

اور میری ذات میں کارفرما ہے۔

Page 137: Adab MenHamd o Munajat

لفظ استعمال کیا ہے۔ ایسے تو تجزیہ شعر میں اقبال نے ’’صفات‘‘ کے لئے ’’بتکدہ‘‘ کا زیر کہتے ہیں جس میں بت رکھے ہوئے ہوں۔ مگراس شعر میں یہ ’’بتکدہ‘‘ اس مکان کو

جو انسان کواس کے مقصد ہے وہ چیز اصطلاحی معنی میں مستعمل ہے۔ یعنی بت سے مراد مقصود ’’صفات‘‘ نہیں بلکہ حقیقی سے غافل کر دے۔ اقبال کی رائے میں مومن کا مطلوب و

یلہیہ( کے مشاہدہ میں ایسا ’’ذات‘‘ ہے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سالک ’’صفات‘‘ )اسماء ا مستغرق ہو جاتا ہے کہ ’’ذات‘‘ کا تصور اس کی نگاہ سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اس لئے اقبال کی نگاہ میں یہ ’’صفات‘‘ مجازی رنگ میں وہ ’’بت‘‘ نہیں جو ان کی روحانی ترقی میں حائل ہو

جاتے ہیں اور اسی لئے انھوں نے ان صفات کو ’’بتکدہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔

یہذا اس نقشہ کھینچا انگیز کی شدت اور لطافت کا تجزیہ مطلع میں عشق شور اقبال نے زیر ہے۔ ل چاہئے۔ مراداس سے یہ ہے کہ عاشق ذات ہوں اور گرچہ نہیں پرکھنا شعر کو منطق کی کسوٹی پر

کیا کروں کہ میری عالی ہمتی مجھے معلوم ہے کہ ذات تک رسائی ناممکن ہے لیکن اس کو :کہتے ہیں ’’ذات‘‘ سے کمتر کسی چیز سے ممکن نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ خود

در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے

آادر اے ہمت مردانہ یزداں بہ سمند

Page 138: Adab MenHamd o Munajat

شرف الدین ساحل ڈاکٹر)مہاراشٹر(۴۴۰۰۱۸ ناگپور پورہ، مومن روڈ، حیدری

روایت کی مناجات و حمد میں ناگپور

تعلق مذہبی جذبات واحساسات سے ہے۔ جس شاعر کے دل میں یہ جذبہ و حمد و مناجات کا احساس جاگزیں ہوتا ہے وہی اللہ کی حمد و ثنا کرتا ہے۔ اس کے سامنے دست سوال دراز کر کے

آاگے اپنی پریشان حالی کا کرم کی تذکرہ کر کے اس سے رحم و دعا مانگتا ہے۔ اسی کے درخواست کرتا ہے۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ ہمارے بیشتر شعرا کے دل اس جذبے سے لبریز

دور کے ہے۔ ہر ذخیرہ موجود بڑا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری شاعر ی میں حمد و مناجات کا کی خداشناس شعرا نے دل کی گہرائیوں سے حمد و مناجات کہی ہیں۔ انھوں نے ان میں خدا

اپنے دل کی بات توحید کوبڑی خوبی سے ظاہر کیا ہے اور اس کے حضور دونوں ہاتھ پھیلا کر عاجزی وانکساری سے کہی ہے۔ اس صف میں ناگپور کے شعرا بھی شامل ہیں۔

پانچ سال کی ہیں جنھوں نے فردوسی کے شاہنامے کا ناگپور کے پہلے شاعر لالہ پیم چند ء( میں اردو میں منظوم ترجمہ مکمل کیا تھا۔ اس کتاب کا ایک۱۷۹۲ھ)۱۲۰۷مشقت کے بعد

آاباد میں محفوظ ہے۔ انھوں نے کتاب کی ابتدا جن حمدیہ اشعار قلمی نسخہ سنٹرل لائبریری، حیدر ہیں۔ یہ خدا کی توحید اور اس کی قدرت کاملہ کو خوبصورتی سے سے کی ہے وہ بہت معنی خیز

:واضح کرتے ہیں۔ چند شعر دیکھئے

خدا تجھ کو شاہی سزا وار ہے

آاکار ہے صفت کو تری کچھ نہ

ترا نام روشن زباں پر دھرے

Page 139: Adab MenHamd o Munajat

تو باہر و بھیتر اجالا کرے

جو صادق ترے نام پر ہے مدام

تو ہے اس کنے رات دن، صبح و شام

مقرر ہے درپن کا خاصہ تجھے

جو جس طور دیکھے اسے تیوں سجھے

نے جگ دکھایا، بے تونا دکھے تو

آانکھوں سے سب دکھ، نہ انکھی دکھے جیوں

تو ہے مشک نافہ، مثل تن منے

ہرن جھول کر کھوجتی بن منے

آاساں سبھی کرے تو مدد تو ہے

دہی کو متھے پر نکلتا ہے گھی

ہہ لاشریک ہے۔ جو دل کی گہرائیوں سے اس پر یقین کامل بے شک اللہ ہی مالک الملک اور وحدآاسان ہوتا ہے۔ شام اس کے قریب ہوتا ہے۔ اسی کی مددسے ہر رکھتا ہے وہ رات دن اور صبح و کام

یی کی مہربانیوں کا اس حمدوستائش کے بعد پیم چند نے اپنی ذات پر کیا ہے۔ شکم ذکر اللہ تعال تذکرہ کیا ہے۔ اس کے بعداس کی صناعی کو مادر میں پرورش پانے سے لے کر ایام پیری تک کا

:اس طرح نمایاں کیا ہے

یہ دریا کو تو اپنی قدرت سے کر

ھاپر زمیں کو بچھایا ہے پانی

بنا کر رکھا اس پہ قدرت کا بھار

سما کو کیا بے ستوں استوار

ھتہیں چراغاں اسی میں لگایا

ھتہیں چندر اور سورج بنایا

Page 140: Adab MenHamd o Munajat

کی حمد و ثنا بیان کرتے چلے گئے ہیں۔ ان کی حمد صاف ستھری اور پیم چند اسی طرح خدا ناگپور کے راجہ بہرام شاہ مبنی ہے۔ ان کے معاصرین میں ایک شاعر عاصی بھی تھے جو حقائق پر

آاباد کے دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی ایک ضخیم مثنوی صفات الانبیا کا قلمی نسخہ احمد ء( میں۱۷۹۷ھ)۱۲۱۲محمد شاہ کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ یہ کی درگاہ حضرت پیر

یلہی سے کی ہے اور اس کے تحت بیس مکمل ہوئی ہے۔ عاصی نے بھی اس کی ابتدا حمد ا چیز کا ممکن نہیں ہے۔ وہی ہر اشعار کہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی صفات کو بیان کرنا

خالق ہے۔ اسی نے سورج، چاند اور ستارے بنائے۔ عرش، کرسی، صانع ہے۔ وہی جن وانس کا غالب کیا۔ اس کے بعد وہ اپنے عجز کا اس طرح اعتراف جنت اور دوزخ بنائی اور دن کورات پر

:کرتے ہیں

ویں گر قلم سب درختوں کی بنا

وصف پورا ہو سکے نہ یک رقم

لب ذوالجلال جب کریں تعریف ر

ہوتی تا دریا میں یک قطرہ مثال

:آاخر میں خدا سے یہ درخواست بھی کرتے ہیں اور

شاعر ی کرنے کا مجھ کو دے کے ذوق

رکھ مرے دل میں تری الفت کا شوق

بخش دے سارے گنہ میرے رحیم

فضل کر دکھلا صراط المستقیم

دل سے تجھ در کی نگہبانی کروں

عاجزی سوں خاک پیشانی کروں

بس یہی عاصی کو ہے تجھ سے امید

کر سیاہ نامہ مرا دھوکر سفید

Page 141: Adab MenHamd o Munajat

لالہ پیم چند اور عاصی فکری اعتبارسے اٹھارویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتے ہیں۔ انیسویں غلام رسول غمگین، فیض محمد فیض، شعرا تھے ان میں مولانا صدی میں ناگپور میں جو

سیدعباس علی شہرت اور سید محمد عبدالعلی عادل نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بنیادی طورپرفارسی کے شاعر تھے لیکن ان میں عادل نے اردو میں بھی اپنی جولانی طبع کے خوب

مجموعہ کلام:خزائن الاشعار اور جیش المضامین دکھائے ہیں اور اس میں ایک دیوان اور دو جوہراا دوسوصفحات پر مشتمل اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ راقم الحروف نے ان سب کی مددسے تقریب

حمد باری شائع ہو چکا ہے۔ عادل نے اپنے دیوان کی ابتدا کا ایک کلیات ترتیب دیا ہے جویعادلیی سے کی ہے۔ جو آافرینی سے پر ہے۔ وہ اپنے عجز کا اعتراف کرنے تعال آافرینی اور معنی مضمون

لن بوستاں کو پند کے بعد کہتے ہیں کہ خدا منبر نصیحت کرنے کے لیے بلبل کو و نے حسینا بخشنے والا اور راستے کی دشواریوں خطیب کا منصب عطا کیا ہے۔ وہی گنا ہوں کا پر گل

آاسان کرنے والا ہے۔ دیکھئے :کو

کیا مجھ سے وصف ہو وے جناب رقیب کا

برہاں ہے اس پہ عجز خود اس کے حبیب کا

لن بوستاں لد حسینا لر پن بلبل کو بہ

لر گل پر خطیب کا بخشا ہے رتبہ منب

ہے پا فتادگوں کو کرم اس کا دستگیر

لہ پر معیب کا غفار ہی وہی گن

جائے اس کا قلزم رحمت جو جوش پر آا

مخطی کو ہو حصول مراتب مصیب کا

ہے نغمہ سنج حمد میں اس کی ہی ہر سحر

بے وجہ گل پہ شور نہیں عندلیب کا

میں یہ کے حضور مناجاتی اشعار بھی کہے ہیں جن میں خدا میں چند عادل نے اس حمد :التماس کی ہے

Page 142: Adab MenHamd o Munajat

یلہی جھکا ہے سر لر گنہ سے میرا ا با

جز تیرے سر فراز نہ مجھ سے کبیب کا

یات ¸ی شیطان کھینچتا ہے مجھے سوئے س

لس رغیب کا اور یونہی حال ہے میرے نف

لہ دل میرے رکھ مدام لق نیک ہمر توفی

لازم ہے جیسے طفل پہ رہنا ادیب کا

لہ پگاہی سے مرے باطن کو دے جگا آا

اس فوج کو وہ گویا ہے نعرہ نقیب کا

مجھ روسیہ کے شعر مبیض پہ رحم کر

لم شاب گزرے اب عالم ہے شیب کا ایا

لش دوئی سے لوحۂ خاطر کو صاف رکھ نق

لل حبیب کا یل کو عشق دے تو رسو عاد

عادل نے اپنے مجموعہ کلام خزائن الاشعار کے منظوم دیباچہ میں بھی حمد و مناجات لکھی ہے کی روانی، گہرائی اور گیرائی ہے۔ خدا کی قدرت، جو مثنوی کے فارم میں ہے۔ اس میں بلا

مثالیں دی گئی ہیں وہ جامع اور دل کو متاثر حکمت اور صناعی کو ظاہر کرنے کے لیے جو:شعر کرنے والی ہیں۔ چند

لت د اور ہے لائق حمد ذا

جس کی توصیف میں زباں تر ہے

بادشاہی جملہ کون و مکاں

ہے اسی ذات پاک کو شایاں

فیضیاب اس سے جزو تاکل ہے

Page 143: Adab MenHamd o Munajat

حسن گل ہے، تو عشق بلبل ہے

لج ادا و ناز دیا اس کو گن

اس کو سرمایۂ نیاز دیا

فیض سے اس کے بہرور ہے تمام

کیا گدا، کیا امیر اوج مقام

آابروئے بہیں یم کو بخشی جو

لر ثمیں تو صدف کو دیا ہے د

چرخ کو رتبہ رتبہ اوج دیا

ارض کو بحر بحر موج دیا

اس کو زینت دیا ستاروں سے

اس کو محبوب گل عذاروں سے

سب پہ انساں کو اس نے فضل دیا

اشرف الخلق نام اس کا کیا

لت صغیر ہے یہ ظاہرا صور

باطنا عالم کبیر ہے یہ

پہلی مناجات میں ہیں۔ عادل کی یہ دونوں مناجات ہے۔ اس میں وہی مضامین ہیں جو اس کے بعدیلہی بخش کی نمایاں کرتی ہے۔ عادل کے بعد علمی کو حمد و مناجات ان کے تبحر حاجی ا

مناجاتیں توجہ کے دامن کو الجھاتی ہیں۔ موصوف نے پچاس سال سے زائد جامع مسجد ناگپور پا کر رحلت فرمائی۔ سال کی عمر۱۰۳ء کو ۱۹۵۳دسمبر ۲۴میں امامت کا فریضہ انجام دیا اور مطبوعہ کتابوں مناجاتیں ان کی غیر عالم تھے۔ ہمیں ان کی جو اپنے وقت کے مشہور فقیہ اور جید

ایمانی میں ملی ہیں انھیں وہ اکثر فرض نماز کے بعد دعا میں پڑھا کرتے تھے۔ ان میں جو

Page 144: Adab MenHamd o Munajat

کے سامنے کس اخلاص کیفیت ہے وہ دلوں کو متاثر کرنے والی ہے۔ دیکھئے وہ خدا حرارت و :التجا کر رہے ہیں سے ہاتھ پھیلا کر

یلہی، یا کریم و یا رحیم یا ا

التجا کرتا ہوں تجھ سے یا علیم

یلہی ہاتھ میں کر کے دراز یا ا

یہ دعا کرتا ہو تجھ سے کارساز

یلہی دل مرا ناشاد ہے یا ا

شاد کر اس کو یہی فریاد ہے

یلہی سر پہ ہے بار خطا یا ا

بخش دے تو واسطے خیرالورا

لر بندگی یلہی دے شعو یا ا

ذکر میں تیرے بسر ہو زندگی

آائے قریب یلہی موت جب یا ا

کلمۂ طیب زباں کو ہو نصیب

یلہی جب کہ ہو محشر بپا یا ا

نی رکھ مجھے زیر لوائے مصطف

یلہی جب کہ میزاں پر مرا یا ا

نامۂ اعمال ہو مجھ کو بچا

یلہی تیرا دیدار حسیں یا ا

واں کرا ہے یہ تمنا دل نشیں

یلہی تو ہے رحمن و رحیم یا ا

Page 145: Adab MenHamd o Munajat

بخش دے میرے گنا ہوں کو کریم

یلہی بخش دے استاد کو یا ا

والدہ، والد، مرے اجداد کو

ہے یہی حاجی کی تجھ سے التجا

اپنی رحمت سے تو کر جنت عطا

تمنائیں ہوتی ہیں وہ اس مناجات کے لفظ لفظ ایمان اور اس کے دل میں جو جو ایک مومن کالر شعر مانگی جاتی ہے وہ اس کے ہر خطا سے گھبرا کرجس اندازسے دعا سے ٹپک رہی ہے۔ با

شعر دیکھئے اپنے گنا ہوں کا اعتراف کر کے کس سے ظاہر ہے۔ ایک اور مناجات کے یہ چار :عاجزی سے کہہ رہے ہیں

بندہ یہ خاکسار ہے اور ننگ و خوار ہے

غافل ہے بندگی سے خطا بے شمار ہے

آارزو ہے اسے بخش دے کریم بخشش کی

اس فیصلے کا تجھ کو فقط اختیار ہے

فضل و کرم سے اس کے گنا ہوں کو ڈھانپ دے

وار ہے اور بخش دے اسے کہ یہ تقصیر

یی کی التجا سن لے مرے کریم یہ حاج

اپنی خطا پہ عرصے سے یہ بے قرار ہے

آارزو ان کی اس مناجات میں بھی ہے :یہی حسرت، تڑپ، بے چینی اور

¸نا، ستار تو، غفار تو ¸نا، یا رب یا رب

رحمن ہے، رحیم ہے، پروردگار ہے

چاہے جسے عزت تو دے، چاہے جسے تو ذلت

Page 146: Adab MenHamd o Munajat

¸نار ہے چاہے بہشت دے اسے جو لق فی ال لائ

امت محمد مصطفی کی بخش دے، تو بخش دے

¸نا، یہ عرض تجھ دربار ہے ¸نا، یا رب یا رب

یہ ہے گنا ہوں میں گھرا، کرتا ہے تجھ سے التجا

حاجی کو بھی تو بخش دے، رحمت تری بسیار ہے

آاخر، ظاہر، باطن، قادر، عادل، رحمن، رحیم، جبار، رزاق، خالق اور رب العالمین وغیرہ خدا کو اول، ہی اصل ایمان ہے۔ وہی حاجت روا، مشکل کشا، عالم الغیب والشھادہ اور مالک الملک تسلیم کرنا

آاواز سے بھی با ہے۔ خبر ہے۔ وہ سب کی سنتا ہے۔ زمیں پر چلنے والی چیونٹی کے پیروں کی یہذا دست سوال اسی کے وہی ہے جو پتھر میں رہنے والے کیڑوں کو بھی رزق عطا کرتا ہے ل

چاہئے۔ یہ بزرگ شعرا اس حقیقت سے پوری طرح آاگے دراز ہونا چاہئے۔ اسی سے التجا والتماس کرنا لہجہ ملتا ہے۔ ان میں وہ سوزدروں یقین کا باخبر تھے اس لیے ان کی حمد و مناجات میں اعتماد و

یلہی سے پیدا ہوتا ہے اور صراط مستقیم پر گامزن کرتا ہے۔ بھی ہے جو محبت ا

ناگپوری، حکیم واقف ناطق، نواب غازی، حمید بیسویں صدی کے بزرگ اور استاد شعرا میں مولانا برہانپوری اور طرفہ قریشی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں ناطق نے اپنے دیوان اور حمید نے اپنے

:مجموعہ کلام حرف خاموش میں اپنے عجز کا اس طرح اعتراف کیا ہے

آاگاہ کا اعتراف نارسائی ہے مقام

حمد باری لکھنے والے نام لے اللہ کا

یق ۔۔۔ ناط

آا نہیں سکتی تری حمد و ثنا لفظ و بیاں میں

لل عجز ہے یا رب جو ساکت ہے زباں میری کما

ید ۔۔۔ حمی

Page 147: Adab MenHamd o Munajat

لس حرم اور شہید اکبر حمد و مناجات طرفہ قریشی کے مجموعۂ کلام:پہلی کرن، نصف النہار، فانو سے خالی ہیں۔ نواب غازی کی دعائیہ نظموں کا ایک مختصر ساکتابچہ نوائے نیم شب شائع ہوا

موت کی حقیقت لافانی دنیا کے فرق اور زندگی و ہے۔ اس میں جو دعائیں شامل ہیں وہ فانی و :دیکھئے کو واضح کرتی ہیں۔ ایک دعائیہ نظم ترانۂ حق کے یہ تین بند

ایمان صافی، داروئے شافی

دم ساز وافی، شبلی نہ حافی

اللہ کافی، ہر شے اضافی

آاخر یہ ہونا کیا زر کا رونا،

مٹی میں سونا، کنکر بچھونا

اللہ کافی، ہر شے اضافی

درویش غازی، کیا خانہ سازی

دنیا مجازی، دو دن کی بازی

اللہ کافی، ہر شے اضافی

مکتبوں کے طلبہ پڑھتے رہے ہیں بہت مقبول ہے اس نواب غازی کی ایک مناجات جسے اکثر :کے تین شعر ملاحظہ کیجئے

پھر شان مسلماں کو اے خالق اکبر دے

لت سکندر دے لت سلیماں دے، پھر بخ پھر تخ

لد مسلماں کو بوبکر و عبیدہ کر پھر مر

لب پیمبر دے بھٹکی ہوئی امت کو پھر ح

لل پر خوں تا عرش پہنچ جائے لز د آاوا

غازی کی دعاؤں کو جبریل کا شہپر دے

Page 148: Adab MenHamd o Munajat

کی خدائی کی عکاسی عالمانہ انداز اب حمد رب کائنات دیکھئے۔ اس میں نواب غازی نے خداہہ لاشریک، حکمران کائنات اور خالق سے کی ہے۔ خداپاسبان زماں و مکاں، مالک دوجہاں، وحد

کے ساتھ ثنا و دل معمور ہے اور وہ خدا کی حمد انس و جاں ہے۔ اس یقین کامل سے شاعر کا :ساتھ اس سے التجا بھی کر رہا ہے

لن زمان و ہہ لاشریک اے خدا پاسبا لک دوجہاں، وحد مکاں، مال

ہہ لاشریک آاسماں، ایک تو حکمراں، وحد آاسماں ارض تا کہکشاں،

قبضۂ سلطنت، فرش سے عرش تک، سطوت و مقدرت ازسماتا سمک

ہہ لاشریک ہی لاریب و تو ہہ فلک، خالق انس و جاں وحد شک، فاطرن

آاشام خوش کام ہے لن انعام ہے، محفل جام کس قدر عام فیضا

ہہ لاشریک اژدہام امم صبح تا شام ہے، ساقی تشنہ گاں وحد

لی بانگ زن لب چمن، قمر صوفی و برہمن، پارسا پاک تن، عندلی

ہہ لاشریک لت ہر زباں،وحد لر سمن، ذا کر ذوالمنن، لذ برگ و با

لن فلک برملا، صف بصف ہر طرف لشکر کربلا ناوک افگن کما

ہہ لاشریک لر مہرباں وحد فضل سے، عدل سے، ٹال دے ہر بلا، داو

لن قوی ہوں کمیں در کمیں، دشنۂ بغض و آاستیں دشمنا آاستیں کیں

ہہ لاشریک لن دوستاں،وحد لن متیں غم نہیں غم نہیں، مام اے معی

لر خم بپائے صنم آادم س لگ لت محتشم، نن لہ عجم، لعب کجکلا

ہہ لاشریک لش جم، قبلۂ عاشقاں وحد یی کم خدم، کیوں جھکے پی غاز

تھے۔ وہ کامیابی سے مطب چلاتے تھے۔ اپنے اسی حکیم واقف حکمت کے فن میں بھی ماہر :کہی ہے وہ ایک نئے اسلوب کی غمازی کرتی ہے حمد پیشے کی رعایت سے انھوں نے جو

عالم میں اے خدا ہے تو ہی عام کا حکیم

تیرے سوا نہیں کوئی بیدام کا حکیم

Page 149: Adab MenHamd o Munajat

دی تو نے مہر و ماہ کو حکمت کی روشنی

اک صبح کا حکیم ہے، اک شام کا حکیم

میری طرف علاج ہے، تیری طرف شفا

میں نام کا حکیم ہوں، تو کام کا حکیم

ملتی ہے تجھ سے نبض کی تشخیص میں مدد

محتاج ہے ہر اک ترے الہام کا حکیم

یف ہے مجھ سے تو تشخیص دے، شفا بھی دے، واق

رب بنا بھی دے مجھے کچھ کام کا حکیم یا

مطبوعہ شکل میں ملتی ہے ان میں محمد حسن ندیم، منشاء ان کے بعد جن شعرا کی حمد کے اسمائے تنویر، شارق جمال اور خضر الرحمن منشاء، مولانا اکبر علی اکبر، جلیل ساز، فرید

لس سخن میں چار حمدیہ قطعات حمد اور چار گرامی قابل احترام ہیں۔ ندیم کے مجموعۂ کلام قو :ایمان ہے یہ عقیدہ و ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا

آانکھ، تری حمد پاک سے تر ہے سدا جو

وہ تیرے فضل سے ایمان کا سمندر ہے

نہ ہو زبان کو جنبش کبھی جو حمد کے ساتھ

صدف میں رہ کے وہ گویا حقیر پتھر ہے

لر فکر کاسہارا ثنا و ندیم نے اپنی حمد میں خدا کی قدرت کاملہ کو واضح کرنے کے لیے جس زو :لیا ہے وہ حقائق پر مبنی ہیں۔ اس کا اندازہ ان اشعار سے لگایاجاسکتا ہے

سراپا عیب ہوں میں لائق ثنا تو ہے

یی تو ہے خود اپنی حمد مقدس کا منتہ

ازل سے تابہ ابد اپنی کبریائی کی

صدائے کن سے حقیقت سنا رہا تو ہے

Page 150: Adab MenHamd o Munajat

لن بحر پہ تسبیح حباب کی رکھ دی زبا

طواف کرتے بگولے اڑا رہا تو ہے

جلال مہر و جمال مہ و نجوم کے ساتھ

لج خلدو جہنم بتا رہا تو ہے مزا

زبان جہل کہاں اور حمد پاک کہاں

یم اپنی حقیقت بھی جانتا تو ہے ندی

حمد و مناجات ملتی ہیں وہ فکری لحاظ سے بالکل سہل اور عام فہم منشاء کے یہاں جو ڈاکٹراا :ہیں۔ ان میں شاعرانہ فنکاری معدوم ہے۔ مثل

یلہی تو مختار کون و مکاں ہے ا

یلہی تو ہی مالک دو جہاں ہے ا

آاخر بیاں ہو تو کیسے تری حمد

یلہی ہماری زباں ناتواں ہے ا

بظاہر تجھے ہم نے دیکھا نہیں ہے

یلہی آانکھوں سے یوں تو نہاں ہے ا تو

آاسماں کی ہر اک شے سے لیکن زمیں

یلہی ترا حسن قدرت عیاں ہے ا

نی‘‘ میں دو مولانا اکبر ثنا)غزل کے فارم میں ( اور و حمد علی اکبر کے مجموعۂ نعت ’’نعت النب مجموعۂ منقبت ’’زمزمۂ مدحت‘‘ میں ایک حمد یہ مسدس شامل ہے۔ اپنے حمدیہ کلام کو مولانا

:دیکھئے یہ بند اکبر نے علمیت و ذکاوت سے مزین کیا ہے۔ حمدیہ مسدس کا

وہ خواہ عرض ہو، یا جوہر

مرجان ہو، یا لعل و گوہر

Page 151: Adab MenHamd o Munajat

ہر برگ و ثمر، ہر شاخ و شجر

ہر غنچہ و گل، ہر شام و سحر

پڑھتے ہیں سبھی تیرا کلمہ

سبحان اللہ، سبحان اللہ

منطق سے کس طرح فائدہ اٹھایا ہیں۔ دیکھئے فلسفہ و یہ حمدیہ اشعار بھی اس حقیقت کے شاہد :ہے

یکتا ہے، کوئی ضد ہے نہ ند، خلق و امر میں

طاعت کا اپنی اس لیے حقدار ہے خدا

ہے، نہ عرض ہے، نہ ہے جسم اور نہ شے جوہر

اا حلول اس لیے دشوار ہے خدا عقل

بے حاسہ کے کرتا ہے ادراک رنگ و بو

ہر رفع صوت سمع کا اقرار ہے خدا

حمد ہے وہ فکری لحاظ سے منفرد رنگ میں ڈوبی جلیل ساز کے مجموعہ کلام نگاہ میں جو ثابت کرتے ہیں۔ ملاحظہ کے وجود کو ہوئی ہے۔ انھوں نے جوسوالات قائم کیے ہیں وہی خدا

:کیجئے

مفہوم کو الفاظ سے جوڑا کس نے ؟

دھرتی کی کہانی کو جھنجھوڑا کس نے ؟

آاکاش پہ ناہید کے نغمے جاگے

ظلمات کے سناٹے کو توڑا کس نے ؟

ذہنوں میں جما تھا جو لہو برسوں سے

حدت کو فزوں کر کے نچوڑا کس نے ؟

Page 152: Adab MenHamd o Munajat

یز گہر تھا جو صدف میں پنہاں اے سا

گہرائی میں جا کر اسے توڑا کس نے ؟

ہے۔ ان میں حمد نقش میں ایک ایک شارق جمال کے مجموعۂ کلام عکس برعکس اور نقش در :توصیف شاعر نے اپنی ذات کے حوالے سے نئے انداز سے کی گئی ہے کی تعریف و خدا

آاہنگ ساز کا تو ہے لیے ہوئے ہر اک

جو گونجتی ہے تخیل میں وہ صدا تو ہے

الگ نہیں تو مرے جسم سے کسی بھی طرح

رگوں میں خون کے ہمراہ دوڑتا تو ہے

شعور ذہن میں پیکر بنائے کیسے ترا

نہ خاک کا ہے ترا تن، نہ کانچ کا تو ہے

سوچئے مجھ سے کب جدا وہ ہے

مجھ میں اب بھی چھپا ہوا وہ ہے

اب بھی شامل ہے میرے نغموں میں

ہے زباں میری اور صدا وہ ہے

ایک پل بھی جدا نہیں ہوتا

دیکھئے سامنے کھڑا وہ ہے

آاسماں، مطبوعہ حمد فرید تنویر کی جو ملی ہے وہ مخمس کی صورت میں ہے۔ ا س میں زمین و حجر، توریت و خورشید، شجر دانش، ماہ و حکمت، عقل و عرش، علم و صحرا، فرش و گلستاں و

آان کے حوالے سے خدا کی قدرت و زبور اور انجیل و و کیا گیا ہے۔ ایک بند ظاہر حکمت کو قر :دیکھئے

یہ شجر، یہ حجر، یہ گل بوٹے

ماہ و خورشید، نور کے چشمے

Page 153: Adab MenHamd o Munajat

تیری صنعت ہے، کام ہے تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

سب سے اعلا مقام ہے تیرا

حمد ہے اس میں بھی اسی قسم کے حیات میں جو ناگپوری کے مجموعۂ کلام راز خضر جذبات واحساسات ملتے ہیں۔ وہ گنگناتی ہوا، مسکراتی فضا، جگمگاتی ضیا اور دل لبھاتی ادا میں

یاقوت انجم میں اسی کی چمک، لعل و جلوۂ قدرت کی تلاش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ماہ و گل میں اسی کی مہک ہے۔ یہی میں اسی کی دمک، شاخ نازک میں اسی کی لچک اور غنچہ و

:یوں بھی نمایاں کرتے ہیں نہیں بلکہ وہ خدا کی قدرت کو

آائینہ خانۂ حیات میں تو

لمحہ لمحہ مشاہدات میں تو

سچ تو یہ ہے کہ کائنات میں تو

پھر بھی تنہا ہے اپنی ذات میں تو

یعنی کوئی نہیں ہے تیرے سوا

یہ الا اللہ اے زہے لا ال

لد عرفاں، لطیف ی اور کے مجموعۂ کلام گریۂ سنگ، امیراللہ عرفان قنوجی کے مجموعہ کلام سرحلن نور و عنبر خلیقی کے مجموعۂ کلام احساس کاسفر، رحمت اللہ راشد کے مجموعہ کلام مخز

لد مسلسل کا لر نور اور کلیم یزدانی کے مجموعۂ کلام جہ آاغاز بھی حمدسے ہوا ہے۔ ان شعرا کے شج :شعر دیکھئے یہ چند

لب ذوالجلال لق کونین ر خال

تو خدائے لم یزل ہے لا یزال

قبضۂ قدرت میں ہے سب کچھ ترے

لر مطلق ہے تو بے قیل و قال قاد

Page 154: Adab MenHamd o Munajat

)عرفان قنوجی(

آانکھوں سے نظر تو آاتا ہے ہر چند نہیں

انسانوں کی شہ رگ سے ہے نزدیک مگر تو

لہ دو عالم سے ہے ثابت لج شہنشا معرا

لمحوں میں سمو سکتا ہے صدیوں کا سفر تو

)لطیف یاور(

لت کونین یہ کائنات کی وسعت، یہ رفع

سبھی بنائے ہوئے کارخانے تیرے ہیں

آابرو دیدے ذلیل کر یا جسے چاہے

لم عروج و زوال تیرا ہے یہ انتظا

خلیقی( اللہ عنبر )امیر

نہیں ہے راز کسی کا بھی تجھ سے پوشیدہ

ہر ایک شخص کے حالات جانتا تو ہے

ہہ لل جلا ل نہیں کوئی اور ترے سوا تری شان ج

ہہ لل جلا ل تو ہی ابتدا تو ہی انتہا تری شان ج

)کلیم یزدانی(

کبیر، پروفیسر یونس، شریف شعرا ہوئے ہیں ان میں شاہد لہجے کے جو لب و میں جدید ناگپورآاراستہ ہو چکے کلیم اور شکیب غوثی کے کلام کے مجموعے زیور احمد شریف، ظفر طبع سے

احترام سے کبیر نے رب العزت کی بارگاہ میں ادب و ہیں۔ ان سب میں مناجات شامل ہے۔ شاہد :مانگی ہے یہ دعا

کیے ہیں اتنے جہاں ایک اور کرم کر دے

Page 155: Adab MenHamd o Munajat

مرے خدا تو مری خواہشوں کو کم کر دے

میں ہر کسی کا طبیعت سے احترام کروں

مری نظر میں مجھے اتنا محترم کر دے

رب شکست میرا مقدر ہے تو مجھے یا

مری شکست کے اسباب ہی بہم کر دے

ستم رقم سے سوا، غم بیان سے باہر

زبان کاٹ دے، ان ہاتھوں کو قلم کر دے

کی حمد و ثنا کا مصرعے کہے ہیں ان میں خدا چار نے انتقال سے ایک دن پہلے جو شاہد :منفرد انداز ملتا ہے

ایک اللہ ثباتی ہے

باقی سب لمحاتی ہے

ڈال پہ بیٹھی ہر چڑیا

حمد اسی کی گاتی ہے

:پروفیسریونس عاجزی وانکساری سے اپنی مناجات میں یہ التماس کرتے ہیں

کوئی تعویذ بھیج، ہیکل بھیج

روح کی مشکلات کا حل بھیج

رب ھاف زمیں کے تنازعے یا

آاسمانوں سے قول فیصل بھیج

میں نے کاٹی ہے جبر کی اک عمر

کوئی تو اختیار کا پل بھیج

آانسو ہیں آانکھوں میں سرخ میری

Page 156: Adab MenHamd o Munajat

آانچل بھیج اپنی رحمت کا سبز

لہجہ باغیانہ ہے۔ وہ بڑی بے باکی سے خداسے اس طرح شکایت کرتے ہیں شریف کا شریف احمد:

بتا کہ تجھ سے مناجات کیوں کرے کوئی

رہے خموش جو تو، بات کیوں کرے کوئی

ہمارے حال کی جب ہے تجھے خبر داتا

تجھی سے شکوۂ حالات کیوں کرے کوئی

تجھے یہ ضد کہ غریبوں کو کچھ نہیں دے گا

تو پھر دراز یہاں ہات کیوں کرے کوئی

لت سوال دراز کرتے ہیں ظفر :کلیم اپنے گنا ہوں کا اعتراف کر کے یوں دس

خدا تو مقدس، گنہگار میں

تری ذات بے عیب ہے، خوار میں

تری رحمتوں کا تجھے واسطہ

تری بخششوں کا طلب گار میں

مرا ہر نفس تیرا ممنون ہے

تری دین کا، فرد اقرار میں

شہنشاہ سارے جہانوں کا تو

اے معبود تیرا نمک خوار میں

لہجہ نرم، تاثیر ہیں۔ ان کی سوچ کاکینواس وسیع ہے۔ ان کا شکیب غوثی کی مناجاتیں بڑی پر :ہیں شعر حاضر شائستہ اور مہذب ہے۔ ثبوت میں یہ چند

چل رہا ہوں خود کو اندھا جان کر

Page 157: Adab MenHamd o Munajat

یا خدا روشن کوئی امکان کر

سب کو یکساں ہے ترا دست سخا

ہم گنہگاروں کا بھی نروان کر

سخت ہے بے سمت را ہوں کا سفر

آاسان کر تو ہماری منزلیں

سوکھے پیڑوں کو دوبارہ کر ہرا

دیدۂ مایوس کو حیران کر

یی اتار پھر زمینوں پر من و سلو

خشک میدانوں کو دستر خوان کر

سفر تمام بھی ہو ابتدائے روشن دے

مسافر شب غم ہوں دعائے روشن دے

بہت نہیں کہ چمک جائے کوئی اک لمحہ

نواح عمر میں تھوڑی سی جائے روشن دے

کھڑا ہے چاروں طرف ایک لشکر جرار

مقابلہ ہے بلا کا عصائے روشن دے

پر حمد و مناجات میں ناگپور شاعر ہیں۔ انھی کی فکر حاضر کے جواں فکر شکیب غوثی عہد کے شعرا کا فکری سفرتمام ہوتا ہے۔

***

Page 158: Adab MenHamd o Munajat

اشفاق احمد ڈاکٹر)مہاراشٹر(۴۴۰۰۱۳ ناگپور نگر، جعفر کالونی، ٹیچرس اے، ۴۱

ی شاعر مناجاتی و حمدیہ کی آاکولہ ضلع

علاقہ برار کی سرزمین بہت ہی زرخیز اور مردم خیز واقع ہوئی ہے یہاں بیسویں صدی کے اوائل ہی ہو چکا تھا خطہ برار کے بزرگان دین، علما آاغاز ادبی تحریکوں کا سے علمی، تہذیبی، سماجی و

شعبے صلحا، ادبا و شعرا اور سیاسی رہنماؤں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر زندگی کے ہر و قوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ علاقہ برار کا میں کا رہائے نمایاں انجام دیئے ہیں اور ملک و

تعلیمی اداروں کا اہم ادب کے فروغ میں جہاں ماہرین تعلیم و بھی نام روشن کیا ہے۔ اردو زبان و اشاعت میں اہم ادب کی ترویج و شعرا نے بھی اردو زبان و و رول رہا ہے وہیں یہاں کے ادبا

خاں ببر، حضرت شائق کھام گاونوی، حسین شور، گل شیر کردار ادا کیا ہے۔ یہاں پروفیسر منظور بسمل ناندوروی، حکیم شیخ محبوب جراح، عبدالرحمن خاں، حضرت عبدالرؤف شاہ عاصی، حضرت حبیب الرحمن صدیقی، منشی حیات مظہر، حسام الدین کاکوروی، ارمان بالاپوری،

براری، بالاپوری، رشید کیفی، شارق نیازی، مصور کارنجوی، صابر بشیراحمد شہید ملکاپوری، اثرییسین، عبدالکریم شائق، حافظ محمد مشکل افکاری، ماسٹر حمزہ خاں جذبی ناندوروی، غلام

ولایت اللہ خاں حافظ، قیصر بدنیروی، حفیظ اللہ خاں بدر، بسم اللہ بیرنگ، مردان علی خاں نشاط طبع کی تابانیوں اور قدرت ناظم جیسے بزرگ اور کہنہ مشق شعرا ہوئے ہیں جنھوں نے اپنے جوہر

روشن اور تابناک بنایا اور ان میں بعض شعرا ایسے بھی گزرے ادب کو سے برار کی فضائے شعر و صاحب دیوان بھی تھے۔ ہیں جو

Page 159: Adab MenHamd o Munajat

آابادی کے اعتبار علاقہ برار کا ایک ضلع اکولہ بھی ہے جو ہے یہاں تعلیمی سے گنجان شہر اردو ادبی روایات بڑی قدیم ہیں اداروں کا بھی ایک جال ساپھیلا ہوا ہے ضلع اکولہ کی بھی شعر ی و

اشاعت میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ و ادب کے فروغ اور نشر یہاں کے شعرا و ادبا بھی اردو زبان و موجودہ شعرا میں حضرت رازبالاپوری، محبوب راہی، فصیح اللہ نقیب، غنی اعجاز، مصطفی جمیل

نشتر، بالاپوری، منظور ندیم، قاضی رؤف انجم، جہانگیر خاں جوہر، رفیق شا کر، ضمیر ساجد، انوارآاکوٹوی، عظیم وقار، خان حسنین احمد نور نورپاتوروی، افسوس اکولوی، حسین احمد واصف، شفق

وغیرہ ہیں جنھوں نے ایاز اور حمید خاں اثر عاقب، رفیق سراجی، انیس انور، رفیق عثمان، قدیر آاسمان ادب میں ستارے ٹانکے ہیں شعرائے اکولہ نے جہاں متنوع اصناف میں خامہ فرسائی

یی کی شان کبریائی بیان کی فرمائی ہے وہیں حمدیہ نظمیں و مناجات بھی تخلیق کر کے اللہ تعال شعرائے ضلع اکولہ کی حمدیہ اور مناجاتی شاعر ی کاسرسری جائزہ پیش کرنے کی ہے یہاں چند

سعادت حاصل کر رہا ہوں۔

انصاری، مومن پورہ، اکولہ کے بزرگ اور کہنہ مشق انصاری)مرحوم(:اصل نام عبدالرؤف شاہد شاہدآاپ کی دو کتابیں اردو رسم الخط میں اور تین کتابیں دیوناگری رسم الخط میں شائع شاعر تھے۔

نل میں مقبول ہو آاپ کی نعتوں کا ایک مجموعہ طیبات بھی شائع ہو کر عاشقان رسو ہو چکی ہیں۔ یی علیہم اجمعین سے خاص شغف رہا چکا ہے موصوف کو آاپ نے رب اہل بیت رضوان اللہ تعال

:میں اس طرح رقم کئے ہیں کریم کی بارگاہ میں اپنے خیالات شعر ی پیکر

خداوند دو عالم لائق حمد و ثنا تو ہے

اس عالم کا خدا تو ہے اس عالم کا خدا تو ہے

گلوں کے رنگ و بو میں تو ہے موجوں کی ادا تو ہے

ستاروں کی چمک تو چاند سورج کی ضیا تو ہے

خدائے لم یزل ہر ایک کا حاجت روا تو ہے

آاسرا تو ہے سہارا بے کسوں کا غمزدوں کا

تیرے بندے کہاں جائیں کہیں کیا ہاتھ پھیلائیں

Page 160: Adab MenHamd o Munajat

آاسان کر مشکل کشا تو ہے ہماری مشکلیں

آاپ بالاپوری:غلام حسین راز غلام حسین راز علاقہ ودربھ کے بزرگ اور کہنہ مشق استاد شاعر ہیں آا چکے ہیں۔ بارہا کے تین شعر ی مجموعے :متاع احساس، دامن شب اور جام سفال منظر عام پر

آاپ کے کلام۸۲آال انڈیا مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں۔ اب عمر کی ویں منزل میں ہیں۔ آاپ نے بھی بطور سعادت و میں روایت پسندی کے ساتھ ساتھ جدت طرازی بھی پائی جاتی ہے۔

آاپ کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہو چکی ہے۔ اس لبرکت حمدیں کہی ہیں۔ الحمد للہ :حمدیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں موقع پر کہے گئے چند

میں تجھ سے ہدایت کی دولت کی طلب لے کر

آایا ہوں عزت کی طلب لے کر نادان ہوں

ہے کتنی امنگوں سے سرگرم سفر یارب

آائینہ دل میرا حسرت کی طلب لے کر

اخلاص کا مارا ہوں دل کھینچ کے لایا ہے

آاقا شہرت کی طلب لے کر آایا نہیں میں

یی ترا اک بندہ کوتاہ نظر دل تنگ مول

ہے تیرے در تک وسعت کی طلب لے کر پہنچا

را ہوں کی فضاؤں کو دے اذن مسیحائی

آاتا ہے صحت کی طلب لے کر بیمار اک

اا غزل گو آاپ مشاعروں غنی اعجاز:غنی اعجاز اکولہ کے بزرگ اور کہنہ مشق شاعر ہیں اصل ہیں آاپ کے دو آارزو اور گرد کے اسٹیج اور رسائل دونوں کی زینت بنتے ہیں۔ شعر ی مجموعے : دشت

سفر شائع ہو کر داد وتحسین حاصل کر چکے ہیں۔ معروف شاعر وپرنسپل فصیح اللہ نقیب نے اپنی فن اور شخصیت کے و تصنیف ایک شخص ایک شاعر غنی اعجاز شائع کر کے موصوف کے فکر

کیا ہے۔ حضرت غنی اعجاز نے اللہ رب العزت کی عطا کردہ عنایات کو مختلف پہلوؤں کو اجاگر :بڑے ہی دل پذیر انداز میں بیان کیا ہے

Page 161: Adab MenHamd o Munajat

شمس و بدر و ہلال سب تیرے

یہ جلال و جمال سب تیرے

ہو رہی ہے زمین تہ و بالا

یہ عروج و زوال سب تیرے

نے بخشا ہے جذبۂ تحقیق تو

ہیں جواب و سوال سب تیرے

ایک پل بھی نہیں میرا اپنا

روز و شب ماہ و سال سب تیرے

میرا ہر شعر ہے تیرا اعجاز

یہ ہنر یہ کمال سب تیرے

معروف شاعر ہیں۔ متنوع اصناف میں محبوب راہی مشہور و ٹاکلی(:ڈاکٹر محبوب راہی)بارسی ڈاکٹرآازاد آازمائی کرتے ہیں۔ غلام نبی آاپ کو طبع کئی کالج میں بحیثیت پرنسپل سبکدوش ہو چکے ہیں

آاپ کی غزلوں کے اعزازات سے بھی نوازا انعامات و جا چکا ہے۔ ثبات، تردید، بازیافت، پیش رفت مجموعے ہیں بچوں کے لئے گل بوٹے اور رنگارنگ نظموں کے مجموعے پیش کر چکے ہیں۔

آاواز مکے اور مدینے اور سرمایۂ نجات نعتوں کے مجموعے ہیں۔ مظفر حنفی حیات و میری حمدیں اور اتنی ۲۰تحقیقی کارنامہ ہے۔ سرمایہ نجات میں نعتوں کے علاوہ شخصیت موصوف کا

آاپ کے حمدیہ دوہے، حمدیہ رباعیات اور دعائیہ اشعار بھی اسی مناجات شامل ہیں۔ ان کے علاوہ آاپ کی تخلیقات کثرت سے ہندوستان کے مختلف رسائل و مجموعے میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔

آاپ کو نظم کے ساتھ نثرنگاری پربھی عبور حاصل ہے۔ موصوف جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ آائے دن مختلف رسائل میں شائع علاقہ ودربھ کے واحد شاعر ہیں جن کی حمدیں و مناجات

حمدیں کہی ہیں ان میں سے چند کے متفرق اشعار حاضر کر رہا ہوں ہوتی ہیں۔ موصوف نے جو:

ہر دن ہے تیرا ہر رات تیری

Page 162: Adab MenHamd o Munajat

بخشی ہوئی ہر سوغات تیری

خدایا تو ہی خالق بحر و بر ہے

ہی مالک خشک و تر ہے تو خدایا

شہر میں گاؤں میں دھوپ میں چھاؤں میں

تیرے چرچے تیری گفتگو چار سو

روشنی تیری ترے جلوے افق تابہ افق

گفتگو تیری ترے چرچے افق تابہ افق

ایک ہی رشتہ ہے بس خالق و مخلوق کے بیچ

تو سبھی کا ہے سبھی تیرے افق تابہ افق

ستاروں میں گلوں میں کہکشاں میں

ہی جلوہ بہ جلوہ عکس در عکس تو

غم باعث طرب تو ہےلہوج

سب کے ہونے کا اک سبب تو ہے

ہو لبوں پہ صرف نام اللہ کا

ذکر ہو ہر صبح و شام اللہ کا

اے جہاں بھر کے پالنے والے

جان مٹی میں ڈالنے والے

تازگی ہے تیری بہاروں میں

تیرے جلوے حسین قطاروں میں

:متفرق اشعار پیش خدمت ہے موصوف کی مناجات کے چند

ساری محفلوں کو کن کہہ کے بنانے والے

Page 163: Adab MenHamd o Munajat

اے خدا تیرے ہیں محتاج زمانے والے

نگاہ لطف و کرم ہو مجھ پر خدائے برتر خدائے برتر

کہ میں سراپا گناہ پیکر خدائے برتر خدائے برتر

دے مولا شمع ایماں کی ہر اک دل میں جلا

کفر و بدعت کے اندھیروں کو مٹانے والے

آاتے ہیں ہم خدا تیرے در پہ

تمنائیں کچھ ساتھ لاتے ہیں ہم

میں ظلمتوں میں بھٹک رہا ہوں میرے خدا مجھ کو نور دیدے

بصیرت زندگی عطا کر کچھ عاقبت کا شعور دیدے

:حمدیہ رباعیات میں سے ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں

احسان بھی کس درجہ ہیں ہم پر تیرے

محتاج ہیں ہر اک قدم پر تیرے

ہر پل ہے تیرا تابع فرماں یارب

ہم جیتے ہیں بس رحم و کرم پر تیرے

:یہ انداز بھی دیکھئے کا ےہمحبوب راہی کے حمدیہ دو

داتاؤں کے داتا سارے جگ کے پالن ہار

ذات تو تیری ایک ہے لیکن روپ ہزار

جیون کیا ہے جیون داتا کے ہاتھوں کا کھیل

موت کہ جیسے اسٹیشن پہ رک جاتی ہو ریل

آاپ کا لب و ندیم)بالاپور(:منظور ندیم جدید منظور کلام معیاری ادبی لہجہ کے معروف شاعر ہیں۔ رہتا ہے ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بھی مدعو کئے جاتے ہیں۔ رسائل میں مسلسل شائع ہوتا

Page 164: Adab MenHamd o Munajat

میں ایڈیشنل سیشن جج کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اپنی ان دنوں ناگپور مصروفیات کے باوجود ناگپور کی ادبی محفلوں میں شرکت فرماتے ہیں اور اپنے کلام سے تمام تر

آاپ نے ماہ رمضان کے موقع پر ایک حمدیہ نظم التجا کے عنوان سے تحریر کی تھی نوازتے ہیں :اشعار یہاں پیش کئے جا رہے ہیں اسی کے چند

خیال و فکر کو اونچا مقام دے اللہ

قلم کو میرے نیا اہتمام دے اللہ

دل و نگاہ کو پاکیزگی عطا کر دے

زبان کو شوق درود و سلام دے اللہ

میرے بھی نام لکھی جائے صبح مکہ کی

کبھی مجھے بھی مدینہ کی شام دے اللہ

گداز قلب جو حاصل ہے ماہ رمضاں میں

بقاء نصیب کر اس کو دوام دے اللہ

بڑے دکھوں سے ہے دوچار مسلماں امت

تو اس کو عید کی خوشیاں تمام دے اللہ

آافیسر وظیفہ یاب ہوئے۔ طنز رفیق شا کر:اصل نام مرزا رفیق تخلص شا کر، محکمہ تعلیم سے بحیثیت مزاحیہ مضامین پر جھنجھٹ کی شادی طنزیہ و دھنیا ا ور ہینڈ، بنئے کا ہیں۔ سیکنڈ مزاح نگار و

کھتے ہیں۔ اس ضمن آا چکے ہیں۔ برار کے ادب پر خصوصی نظر عام پر مشتمل مجموعے منظر میں تذکرہ شعرائے بلڈانہ تصنیف بھی شائع ہو چکی ہے۔ شاعر ی بھی کرتے ہیں مگر اسے بڑیآاپ نے حمدیہ اشعار بھی کہے ہیں۔ درج ذیل اشعار سورۃ فاتحہ کے سنجیدگی سے برتتے ہیں۔

:ترجمے کی ترجمانی کرتے ہیں

ابتدا تیرے نام سے ہے کریم

تو خدا ہے بڑا غفور الرحیم

Page 165: Adab MenHamd o Munajat

روز محشر کا مالک و مختار

ہم گناہ گار اور تو غفار

رات دن تیری ہی عبادت ہے

مانگتے ہیں تجھی سے ہر اک شئے

سیدھا راستہ ہمیں دکھا یارب

کج روی سے ہمیں بچا یارب

جس پہ نازل تیرا غضب ہو گا

ایسے رستے سے تو بچا یارب

آازاد جونیئر کالج میں درس وتدریس کے مقدس پیشے سے فصیح اللہ نقیب:فصیح اللہ نقیب عثمان ازاں اس کالج میں پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ معروف شاعر منسلک تھے بعد

آاپ کی غزلیں موقر ہیں اور نظامت کے فرائض بھی بڑی حسن و خوبی کے ساتھ نبھاتے ہیں۔ آاپ کا شعر ی مجموعہ ’’سیپیاں ‘‘ منظر آا چکا ہے۔ اس کے جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ عام پر

آا چکی ہیں۔ علاوہ ایک شخص ایک شاعر غنی اعجاز اور شخص وعکس تصانیف بھی منظر عام پر کچھ اس محبت کا اظہار میں خالق کائنات سے اپنی عقیدت و فصیح اللہ نقیب نے اپنی حمد

:طرح کیا ہے

تیری تلاش ہر سو ہر سو تیرے نظارے

ہر دل ہے تیرا مسکن ہر لب تجھے پکارے

تو ماں کی مامتا بھی تو باپ کی دعا بھی

تو جسم کا عصا بھی تو جاں کا مدعا بھی

تیری عنایتیں ہیں رشتے جہاں کے سارے

تیری تلاش ہر سو ہر سو تیرے نظارے

یی بھی تو سنوارے دنیا بھی تو سنوارے عقب

Page 166: Adab MenHamd o Munajat

تیری تلاش ہر سو ہر سو تیرے نظارے

صاف ستھرا ذوق رکھتے ہیں۔ ادبی تقریبات میں بڑھ شاعر ی کا نشتر قریشی شعر و نشتر:انوار انوار حصہ لیتے ہیں۔ گاہے بہ گاہے نظامت بھی کر لیتے ہیں۔ مشاعروں میں اپنا کلام ترنم چڑھ کر

آا چکا ہے۔ عام پر لی جائے ‘‘ منظر سے سناتے ہیں۔ موصوف کا ایک شعر ی مجموعہ ’’ زنجیر بجا :یوں بیان کیا ہے آاپ نے اللہ رب العزت کی عظمت اور اس کی شان کبریائی کو

کیا ہو بیاں کسی سے تیری صفات ربی

ادراک سے پرے ہے جب تیری ذات ربی

سب کچھ زوال پیکر ہر چیز کو فنا ہے

ایک تیری ذات کو ہے زیبا ثبات ربی

تو ہے علیم یارب تو ہے نصیر بے شک

تیری نگاہ میں ہے شش جہات ربی

انسان کی عقل میں کیا قدرت تیری سمائے

ایک لفظ کن کا حاصل یہ کائنات ربی

پاتور کے کہنہ مشق اور معروف شاعر صدر مدرس کے عہدے سے جہانگیر خان جوہر)پاتور(:شہرآاپ کا منظومات ’’حسن تخیل‘‘ کے عنوان سے شائع مجموعہ غزلیات و سبکدوش ہو چکے ہیں۔

اا غزل کے شاعر ہیں اور کلاسیکی انداز یی ہو چکا ہے۔ اصل میں شعر کہتے ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعال کرنا ایک انسان کے بس کی بات نہیں ذکر کی حمد و ثنا بیان کرنا اور اس کے احسانات کا

ہماری زبان اور قلم اس کے کمال صنعت گری اور کرشمات بے مثال کو بیان کرنے سے قاصر ہیں :جہانگیر خاں جوہر اسی خیال کی ترجمانی اپنے اشعار میں اس طرح کرتے ہیں

تیری حمد و ثنا کرنے سے ہے سارا جہاں قاصر

جہاں کیا چیز ہے بلکہ ہے یہ کون و مکان قاصر

آاج تک بھی ذات کا عرفان کرنے سے ازل سے

Page 167: Adab MenHamd o Munajat

خرد قاصر، جنون قاصر یقین قاصر گماں قاصر

عروج علم و فن دانش کدے بے بس ہے عالم کے

سمندر کوہ کیا شجر و حجر ہیں ناتواں قاصر

ہوائیں کیا فضائیں کیا کہ موجودات عالم میں

علوم ارض بے بس میں حدود کہکشاں قاصر

عام ہو کر )مقبول خاص و اقبال خلش:اقبال حسین تخلص خلش، مجموعہ اثاثہ)غزلیات( اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔ غزل کے شاعر ہیں اور ترنم سے پڑھتے ہیں۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں

آال انڈیا مشاعروں میں مدعو آاپ منعقدہ کئے جاتے ہیں۔ مختلف رسائل میں بھی گاہے بہ گاہے آاپ کی زبان سادہ سلیس اور انداز کا آاپ نے بھی مٹھی بیاں بڑا کلام شائع ہوتا ہے۔ موثر ہوتا ہے۔ :متفرق اشعار ملاحظہ فرمائیں حمدیں تخلیق کی ہیں جن کے چند بھر

آانکھ دی ہے نگاہ دینا خدائے برتر جب

تمیز خیر و گناہ دینا خدائے برتر

چلا ہے منافقت کا چلن یہاں عام ہو

خلوص دل بے پناہ دینا خدائے برتر

کلی میں گل میں خوشبو میں میرا معبود رہتا ہے

جہاں محسوس کرتا ہوں وہیں موجود رہتا ہے

خدا سے سرکشی کا مرتکب ابلیس کہلائے

جسے اللہ رد کر دے سدا مردود رہتا ہے

بس اتنا کرم اتنی عنایت مرے مولا

مقبول ہو میری عبادت میرے مولا

توفیق ہو بچوں کو مرے حسن عمل کی

بیکار نہ جائے میری محنت مرے مولا

Page 168: Adab MenHamd o Munajat

یی جمیل بالاپوری:غلام مصطفی تخلص جمیل، تاریخی شہربالاپور میں درس و تدریس کے مصطف مدرس وظیفہ یاب ہوئے عرصہ دراز سے اردو اخبارات ازاں بحیثیت صدر پیشے سے وابستہ رہے بعد

آاپ کا کلام باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ مشاعروں میں بھی مدعو کئے جاتے ورسائل میں آاپ کو آاپ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی کے اعزازات سے نوازا مختلف انعامات و ہیں۔ جا چکا ہے۔

آاپ نے حمدیہ اشعار آازمائی فرماتے ہیں۔ بھی رکن رہ چکے ہیں۔ مختلف اصناف سخن میں طبع :کچھ اس طرح کیا ہے ذکر توصیف کا میں خالق دوجہاں کی تعریف و

میرے اشعار میں چھپا تو ہے

میری غزلوں میں بولتا تو ہے

خوف طوفاں مجھے بھلا کیوں ہو

میری کشتی کا ناخدا تو ہے

صورتیں دونوں ایک جیسی ہیں

آائینہ تو ہے چہرہ میرا ہے

خود کو تجھ سے جدا کروں کیسے

میری رگ رگ میں بس گیا تو ہے

قاضی رؤف انجم)بارسی ٹاکلی(:نام عبدالرؤف خاں تخلص انجم محکمہ تعلیمات سے منسلک رہ کر نگراں نائب افسر کے عہدے سے وظیفہ یاب ہوئے ہیں۔ ایک کامیاب اور معتبر معروف شاعر

آاپ کاقلم آاپ کی بڑا ہیں۔ آاپ کا کلام شائع ہوتا ہے جاندار ہے۔ ہندوستان کے مختلف رسائل میں رنگ بھی پایا جاتا لہجہ کا لب و شاعر ی میں جہاں روایت کی پاسداری ملتی ہے وہیں جدید

آاپ نے بھی چند :اشعار ملاحظہ فرمائیں کے چند حمدیہ نظمیں کہی ہیں ایک طویل حمد ہے۔

سارے جہاں کے داتا

آاقا کون و مکاں کے

حور و ملک کے والی

Page 169: Adab MenHamd o Munajat

جن و بشر کے مولا

پروردگار سب کے

یی سب کے خدا تعال

نے دنیا بنائی تو

نے دنیا سجائی تو

تو نے کھلائے گلشن

نے ندیاں بہائی تو

دانا حکیم تو ہے

رب کریم تو ہے

آاپ کا نور قادر احمد نور)پاتوری(:نور احمد نور مجموعہ کلام ’’امانت‘‘ کے عنوان الکلام شاعر ہیں۔ فائز ہیں۔ علاوہ ازیں نورانی پرنٹنگ پریس اکولہ سے شائع ہو چکا ہے۔ صدرمدرس کے عہدے پر

آاپ کی شاعر ی میں اسلامی شعار آاتا ہے۔ خالق دوجہاں کی تعریف و کا پرتو کے مالک ہیں۔ نظر :توصیف میں موصوف کے خیالات کی رفعت ملاحظہ فرمائیں

رقم کیسے کروں تعریف کے کلمات یا اللہ

زباں پر عیاں ہے تیری ہر ہر بات یا اللہ

صداقت نظم عالم سے ہے ظاہر تیرے ہونے کی

مہ دن رات یا اللہ و شہادت دے رہے ہیں مہر

تیری تسبیح کے دانے میں بکھرے شبنمی قطرے

ہواؤں میں تیرے پیغام کے ذرات یا اللہ

کرم عفو و عنایت مہربانی اور غفاری

کئی ماؤں کا جس میں پیار تو وہ ذات یا اللہ

Page 170: Adab MenHamd o Munajat

پریشد اردو پرائمری اسکول قیصر:اصل نام عبدالصمد خان تخلص قیصر، ابتدائی تعلیم نگر الصمد عبدیی تعلیم کے لئے مارس کالج ناگپور میں داخلہ لیا۔ جولائی ء۱۹۷۰گھائنجی ضلع ایوت محل، اعل

آازاد ہائی اسکول اکولہ میں مدرس رہے بعد۱۹۹۷سے آازاد ہائی ء تک عثمان ازاں مولانا ابوالکلام ء کو وظیفہ یاب ہوئے۔ یوں۲۰۰۳مارچ ۳ہوا اور یہیں سے اسکول ناگپور میں بحیثیت مدرس تقرر

آاپ کا ذریعہ تعلیم مراٹھی رہا لیکن اردو فارسی زبانوں پربھی دسترس حاصل ہے۔ غزلیں اردو مراٹھی تو دونوں زبانوں میں کہتے ہیں۔ پانچویں جماعت میں بال جبرئیل پڑھی تب ہی سے شاعر ی کا

بعد کو اکولہ کی ادبی ماحول، ماہانہ نشستیں، پروفیسر منشاء الرحمن خان منشاء اور پروفیسر شوق ہوا سید رفیع الدین صاحبان کی رہنمائی علاوہ ازیں ڈاکٹر شیخ زینت اللہ جاوید، عبدالرحیم نشتر، انوار

دیا۔ موصوف ناگپور نشتر، فصیح اللہ نقیب اور انیس الدین انور کی صحبتوں نے انھیں شاعر بناآاپ کوپاکستان میں امراؤتی میں منعقد ہونے والی ادبی محفلوں میں اپنے کلام سے نوازتے ہیں۔

آازادی کے مشاعرہ میں مہمان شاعر کی حیثیت سے کلام پڑھنے کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔ یوم کچھ اس طرح کیا ہے ذکر کمالات کا اشعار میں رب کائنات کی صفات و آاپ نے حمد کے چند

:

اے بحر و بر کے مالک عوارض و سماں کے مالک

ہے تیری ذات اقدس حمد و ثنا کے لائق

کل کائنات تیری سب میں صفات تیری

فانی جہاں کی ہر شئے باقی ہے ذات تیری

انسان کو بنایا جینے کا گہر سکھایا

جنت کی منزلوں کا رستہ ہمیں دکھایا

دکھ درد بھی دیا ہے یوں امتحان لیا ہے

اعمال کی بناء پر سب کو صلہ دیا ہے

یر:الحاج عبدالحمید خاں اثر الحمید عبد کئے جاتے ہیں۔ اکولہ کے بزرگ شعرا میں شمار خاں اث آاپ کا ایک شعر ی مجموعہ ’’اشک وتبسم‘‘ شائع ہو کر دادوتحسین حاصل کر چکا ہے۔ موصوف

Page 171: Adab MenHamd o Munajat

ء سے ہی درس وتدریس کے مبارک پیشے سے منسلک ہو گئے تھے۔ ضلع پریشد میں ہونے۱۹۵۵آاکولہ ضلع کے مختلف تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیں اور ء۱۹۹۵کی وجہ سے

میں چالیس سالہ تدریسی تجربہ حاصل کر کے ضلع پریشد اردو جونیئر کالج سے بحیثیت پرنسپلآاپ کی شخصیت سے متعارف وظیفہ یاب ہوئے۔ علاقہ ودربھ کی ٹیچرس برادری کا ایک بڑا حلقہ

ہے۔

محترم بھی اسی پیشے سے وابستہ رہے اب موصوف کے بچے بھی صاحب کے دادا اور والد اثرآاپ نے میٹرک کے بعد ملازمت کرتے ہوئے اپنی تعلیمی کار تدریس انجام دے رہے ہیں۔

پر بی اے، ایم اے اردو ، ایم اے فارسی اور بی ایڈ خانگی طور بھی جاری رکھا اور سرگرمیوں کوآاپ نے اپنی زندگی میں بڑی تکالیف کاسامناکیا ہے۔ مختلف مسائل سے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ دوچار ہوئے لیکن ہمت نہ ہاری اور اپنی ذاتی محنتوں اور مسلسل کوششوں کی بنا پر زندگی کے ہر

مرحلہ پر کامیابی حاصل کی۔ بلاشبہ تعلیم کے حصول کے لئے محنتیں، ملازمت اور گھریلو ذمہ متحرک جاری رکھنا یہ سب ایک سرگرم فعال و داریوں کو نبھاتے ہوئے اپنی ادبی خدمات کو

حمدیہ نظمیں کہی ہیں۔ چند برکت چند شخص ہی کر سکتا ہے۔ موصوف نے بھی بطور سعادت و :اشعار ملاحظہ فرمائیں

عالم عالم ظہور تیرا ہے

ذرے ذرے میں نور تیرا ہے

کر حفاظت کہ خاک کر دے تو

جلوہ تیرا ہے طور تیرا ہے

خوبیاں سب تری عطا کردہ

عقل تیری شعور تیرا ہے

غنچہ و گل میں ہے تیری خوشبو

چاند تاروں میں نور تیرا ہے

لطف تیرا ہے سب دماغوں پر

Page 172: Adab MenHamd o Munajat

سب دلوں میں سرور تیرا ہے

یر کی بخشش کر یلہی اث یا ا

نام رب غفور تیرا ہے

قریشی ہے۔ لیکن اشفاق کارنجوی کے نام سے اشفاق کارنجوی)پاڑے گاؤں (:اصل نام اشفاق احمدآاپ ادبی دنیا آازاد اردو ہائی اسکول، باڑے گاؤں میں مدرس ہیں۔ آاپ غلام نبی میں معروف ہیں۔

آاپ کی پسندیدہ صنف ہے۔ مگر حمد، نعت، نظم و ء میں شاعر ی کا۱۹۹۴نے آاغاز کیا۔ غزل آازمائی فرماتے ہیں۔ ماہنامہ ’’گونج‘‘ ، ’’اردو میلہ‘‘ ، ’’قرطاس‘‘ ، ’’بزم اطفال‘‘ گیت میں بھی طبع

آاپ کی تخلیقات میری نظر سے گزری ہیں۔ نومبر ء میں۲۰۰۰ا ور ’’نئی دنیا‘‘ وغیرہ رسائل میں آاپ نے جو کا مجموعہ ’’کاغذ موصوف کا نعتیہ کلام کا حمدیہ نظمیں مقدر‘‘ شائع ہو چکا ہے۔

:کہی ہیں ان کے چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمائیں

یہ جہاں تیرا ہے وہ جہاں تیرا ہے

آاسماں تیرا ہے یہ زمیں تیری ہے

ہر مکاں لامکاں تجھی سے ہے

آاسماں تجھی سے ہے ہر زمیں

ذرے ذرے میں نور ہر پل ہے

قطرے قطرے میں تیری ہلچل ہے

ڈھیل دینا بھی تنگ کرنا بھی

تیری قدرت کا ایک پہلو ہے

آازمانا بھی اپنے بندوں کو

تیری حکمت کا ایک پہلو ہے

ساری مخلوق کا تو خالق ہے

ن بھی تیری تخلیق ہے محمد

Page 173: Adab MenHamd o Munajat

تیری تخلیق سنگ اسود ہے

یی تیرے دم سے ہے مسجد اقص

Page 174: Adab MenHamd o Munajat

( شاغل ادیب)ایم اے آاباد! آاباد، مشیر منزل، زیب آاندھراپردیش(۴۸حیدر (

آاباد کے صدی بیسویں ی شاعر مناجاتی و حمدیہ میں حیدر میں نصف دوسرے

آاباد کو کے لئے شہر ادب کی ابتدا اردو شعر و بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس ایک تاریخی و حیدر اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر تھے ( بارگاہ خداوندی کے بانی محمد قلی قطب نے )جو

:میں دعا کی تھی

مرا شہر لو گاں سوں معمور کر

رکھیا جوں تو دریا میں من یا سمیع

آاباد اللہ تبارک و یی نے محمد قلی کی دعا قبول کر لی اور اس نے حیدر صرف لوگوں سے کو تعالآاباد فرخندہ بنیاد ہی نہیں بلکہ ان میں قطب شاہ معانی کی طرح شاعر بھی پیدا میں کئے۔ حیدر

آاباد آاج حیدر آاج تک ان گنت شاعر پیدا ہوئے۔ چار صدیوں کے قیام کو محمد قلی قطب شاہ سے تعداد میں کثرت میں رہی ہے۔ یہاں صدی میں شاعروں کو سے زیادہ عرصہ گزر گیا اور یہاں ہر

جائزہ لیتے ء(میں اردو شاعر ی کا۱۹۵۱ء۔ ۲۰۰۰ )یجب ہم بیسویں صدی دوسرے نصف یعنآاباد تعداد ہمیں اس عرصہ میں بھی شاعروں کو ہیں تو آائیے ہم حیدر میں کوئی کمی نہیں ملتی۔

جائزہ لینے سے پہلے حمد و مناجات کے مفہوم و میں اس دور کی حمدیہ و مناجاتی شاعر ی کایی پر ایک نظر ڈالیں۔ معن

Page 175: Adab MenHamd o Munajat

یی کی تعریف و حمد یی کی کے لغوی معنی اللہ تعال توصیف ہے اور مناجات کے معنی ہیں اللہ تعالیی کی ہر و مانگتا۔ دنیا تعریف کرتے ہوئے دعا توصیف بس اسی ایک و تعریف ثنا، ہر و حمد عقب

آاقائے انس و جاں کے لئے مختص ہے۔ مالک کون و مکاں، اسی ایک خالق دوجہاں اور اس ایک ہہ ہے اور ہر حمد ہر توصیف کی انتہا بحق وہی تعریف و کی ابتدا بھی وہی ذات پاک لاشریک ل

یہذا جس شعر میں جس کلام میں اللہ تبارک و ہہ ہے۔ ل یی کی برتری و خدائے جل جلال توصیف تعالیی کی برتری و شامل ہو وہ حمد کہلاتا ہے اور جس شعر میں جس کلام میں اللہ تبارک و تعال

حمد کی نعمت اور مناجات کی عظمت کے ساتھ دعائیہ انداز ہوتا ہے وہ مناجات کہلاتا ہے۔ مگرآائی۔ اس لئے حیدر رحمت ہر میں بیسویں صدی کے دوسرے آاباد شاعر کے حصے میں نہیں

ملتی ہے اور نہ ہی نصف میں پائے جانے والے بیشتر ترقی پسند شعرا کے یہاں نہ ہی کوئی حمد کوئی مناجات۔ اسی طرح جدیدیوں کے ہاں بھی حمدیہ و مناجاتی کلام کم ہی ملتا ہے۔ علاوہ

آاباد میں اس نصف میں موجود چنداساتذہ کے ہاں بھی نعتیں اور منقبتیں تو ملتی ہیں ازیں حیدر مناجاتیں نہیں ملتیں۔ لیکن حمدیں و

آاباد میں بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں جن شعرائے کرام کے ہاں حمدیں حیدر تمکنت، صفی اور حسین امجد، شاذ مناجاتیں ملتی ہیں ان کے اسمائے گرامی یوں ہیں۔ امجد

آابادی، طالب رزاقی، ڈاکٹر علی احمد جلیلی، خواجہ شوق، رحمن جامی، صلاح الدین نیر، نگ الدین خان صاحب، محمد علی اثر، مظفر رئیس اختر، ڈاکٹر عقیل ہاشمی، داؤد نقیب، ڈاکٹر

غوری، علی الدین نوید، خلیل، اثر ابوالفضل سیدمحمد ، نصیرالدین بسمل، ڈاکٹر غیاث عارف، وقار رؤف خیر، محسن جلگانوی، شاغل ادیب، ریاست علی تاج، ڈاکٹر راہی، مومن خان شوق، جوہر

ہاشمی، یوسف یکتا، دلاورحزیں، مسرور عابدی، قوی سیت، خورشید جنیدی، اطیب اعجاز، انجم عارفی، شوکت علی درد، رشید جلیلی، مسعود جاوید ہاشمی، معلم عبیدی،معین فیاضی، صادق نوید،

آابادی، عزیز الدین رضواں، عزم منوہر لعل بہار، بے ہوش نگری، ڈاکٹر طیب پاشا قادری، رحمت سکندر رحمانی، ستارصدیقی، عباس متقی، شمیم نصرتی، فریدسحر، شکیل مظہر، اسحاق ملک، یوسف

افضل اور شاعر ات میں م محترمہ تہنیت النساء زور، اشرف رفیع، الدین یوسف، باسط نقوی، بصیرآائیے ان میں سے زبیدہ تحسین اور بانو طاہرہ سعیدکے ہاں بھی حمدیں و مناجاتیں ملتی ہیں۔

:منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیے گا چند شعرائے کرام کے سوانحی کوائف و

Page 176: Adab MenHamd o Munajat

آاباد کے ایک عظیم صوفی شاعر تھے۔ ء(:امجدحسین امجد۱۸۸۸ء۔ ۱۹۶۵امجدحسین امجد) حیدر آاپ صنعت رباعی کی جانب شدت سے متوجہ رہے اور اپنی رباعی گوئی میں کمال و مہارت کے

دکنی اور سرحدثانی کے خطابات سےلسبب شہنشاہ رباعی کہلائے۔ اہل نقد ونظرنے انہیں سعدی :حمدیہ رباعیات ملاحظہ فرمائیے بھی نوازا۔ دو

واجب ہی کو ہے دوام باقی فانی

قیوم کو ہے قیام، باقی فانی

آاسمان سب کچھ ہے کہنے کو زمین و

باقی ہے اسی کا نام باقی فانی

٭

ہر ذرہ پہ فضل کبریا ہوتا ہے

اک چشم زدن میں کیا سے کیا ہوتا ہے

اصنام دبی زباں سے یہ کہتے ہیں

وہ چاہے تو پتھر بھی خدا ہوتا ہے

آاباد میں نظم کے اہم شاعر رہے ہیں۔ذ شا آاپ بیسویں صدی کے چھٹے دہے میں حیدر تمکنت: ساحری اور پروفیسر اختر، قمر یب، وحیدرآاپ نمائندہ ترقی پسند شعرا مخدوم محی الدین، سلیمان ا

آاپ کی ایک مناجات جسے پدم شری عزیز احمد وارثی نےمغن ی تبسم کے ہم عصر رہے ہیں۔ :ملاحظہ ہوں بند ہے۔ چند اثر گایا ہے، واقعی جادو

اک حرف تمنا ہوں، بڑی دیر سے چپ ہوں۔۔۔ کب تک مرے مولا

اے دل کے مکیں دیکھ یہ دل ٹوٹ نہ جائے

داتا مرے ہاتھوں سے کہیں چھوٹ نہ جائے

آاس کا بندہ ہوں۔ بڑی دیر سے چپ ہوں۔۔۔ کب تک مرے مولا میں

Page 177: Adab MenHamd o Munajat

یہ اشک کہاں جائیں گے دامن مجھے دے دے

اے باد بہاری مرا گلشن مجھے دے دے

میں راندۂ صحرا ہوں۔ بڑی دیر سے چپ ہوں۔۔۔ کب تک مرے مولا

اے کاشف اسرار نہانی ترے صدقے

اب شاذ کو دے حکم روانی ترے صدقے

ٹھہرا ہوا دریا ہوں۔ بڑی دیر سے چپ ہوں۔۔۔ کب تک مرے مولا

)ریاض شام(

آابادی)پ: ء(:غزل کے نمائندہ استاد شاعر تھے۔ زبان کی سادگی،۱۹۵۱ء۔ م:۱۸۱۱صفی اور نگ جواب نہیں تھا۔ شاگردوں کا ایک وسیع لفظیات کے کمال اور محاوروں کے استعمال میں ان کا:حلقہ رکھتے تھے۔ ان کی حمد کا ایک شعر دیکھئے گا

تو وہ ہے جو ہر ایک کی بگڑی سنواردے

میری مراد بھی مرے پروردگار دے

آاپ ایک پختہ مشق و قادر الکلام۱۹۲۰طالب رزاقی:طالب رزاقی آاباد میں پیدا ہوئے۔ ء میں حیدرآاپ کے ترنم سے سامعین پر آاپ مولانا وجد شاعر تھے۔ ا لماجد عبد کی کیفیت طاری ہوتی تھی۔

آاپ کی شاعر ی کا آاندھراپردیش اردو اکاڈمی دریابادی کے بھتیجے تھے۔ مجموعہ ’’نوائے طالب‘‘ آاپ کی وفات کے بعد آاپ کی حمد کے دوشعر ملاحظہ ہوں۱۹۷۹نے :ء میں شائع کیا ہے۔

ا تو ہےزگلستان دو عالم کی بہار جانف

ترا کیا پوچھنا صورت گر ارض و سما تو ہے

مری منزل ہے تیری جستجو کی انتہا یارب

طلب کی راہ میں طالب کا واحد رہنما تو ہے

ء(:فصاحت جنگ جلیل استاد شاہ۲۰۰۵!اپریل۱۲ء۔ م:۱۹۲۱!جون ۲۲)پ:یجلیل علی احمد ڈاکٹر نثر دونوں میں کمال رکھتے تھے۔ ہمیشہ درس و تدریس سے چراغ تھے۔ نظم و کے روشن چشم و

Page 178: Adab MenHamd o Munajat

اپنے والد مرحوم ہی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر جامعہ عثمانیہ سے جڑے رہے اور وظیفہ کے بعدآاپ کی تصانیف نظم و نثر کی تعداد پندرہ ہے۔ جنھیں بیشتر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

کے چند پردیشوں کی اردو اکادمیوں اور سرکاری اداروں نے انعامات سے نوازا ہے۔ ان کی حمد:شعر دیکھئے گا

خاکی مدح خواں جس کے نوری و

جس کے حور و ملک تمنائی

یاد جس کی سکون ہے دل کا

آاباد میری تنہائی جس سے

جس سے قربت سلام و رحمت ہے

جس سے دوری تمام رسوائی

ہے وظیفہ مرا ثنا اس کی

وہ جور رکھتا ہے شان یکتائی

)ذکرحبیب(

بہ سلسلہ ملازمت پیدا ہوئے۔ تکمیل تعلیم کے بعد کو ء ۱۹۲۵ جولائی ۱۸خواجہ شوق:خواجہ شوق نظام اسٹیشن سے جڑے رہے اور بعد ازاں روزنامہ رہنمائے دکن کے ادبی صفحہ کے ایڈیٹر بنآاپ ہی نے کی تھی۔ آاباد میں شعرا کے کلام کے ساتھ تصاویر کی اشاعت کی پہل گئے۔ حیدر

آابادی کے شاگرد ارشد رہے ہیں۔ تصانیف دو ہیں۔ چشم نگراں )شعر ی مجموعہ( اور صفی اور نگ یی)نعتیہ، منقبتوں اور سلاموں کا آاندھرپردیش اردو اکادمی نے۲۰۰۰مجموعہ(۔ اگست صل عل ء میں

:ایک لاکھ روپیوں کے مخدوم ادبی ایوارڈ سے سرفراز فرمایا۔ موصوف کے چند شعر ملاحظہ ہوں

شہود کس کو کہیں اور نجیب کس کو کہیں

یہاں تو سب ہیں بہم لا الہ الا اللہ

زبان بن نہیں سکتی نظر کی کیفیت

Page 179: Adab MenHamd o Munajat

تجلیات حرم لا الہ الا اللہ

جلے جو دامن دل شوق شعلہ غم سے

کہو بہ دیدہ نم لا الہ الا اللہ

( )چشم نگراں

آاپ کہنہ مشق استاد شاعر ہیں۔ ء میں محبوب نگر میں پیدا ہوئے۔ تکمیل تعلیم۱۹۳۴رحمن جامی:آاباد منتقل ہو گئے اور یہیں مستقل طور کے بعد آاپ غزل، نظم، حمد، نعت، قیام پذیر پر حیدر ہیں۔

آازمائی کا ہائیکو، سانیٹ، ماہیے اور شاعر ی کی بیشتر قدیم و کمال رکھتے جدید اصناف میں طبع ادھر خطاط اور دیگر کئی مجموعے ایک ساتھ شائع ہیں۔ پہلا شعر ی مجموعہ ’’جام انا‘‘ ہے۔ ادھر

آاپ کا عام پر ہو کر منظر یی و آائے ہیں۔ معیاری رسائل کی زینت بنتا ہے۔ کلام اردو کے ان گنت اعل:ان کی مناجات سے چند شعر سنئے گا

گناہ گار ہوں دوزخ میں مجھ کو ڈال نہ دے

مرے کریم سزا، میرے حسب حال نہ دے

آاگے نہ کر مجھ کو اور شرمندہ جہاں کے

برا ہوں میں تو بہت، تو مری مثال نہ دے

یی کھڑا ہے تیرے کرم کی امید میں جام

ترے کرم کی قسم اب تو اس کو ٹال نہ دے

)خطاط(

آاپ اردو دنیا آاپ ایک فعال، سرگرم و صلاح الدین نیر: میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آاپ کی تصانیف نظم و رک شاعر وحمت آاپ گذشتہ ادیب ہیں۔ نثر کی تعداد تیس سے زائد ہے۔

آاپ کی دس سالوں سے ماہنامہ خوشبوکاسفر کے توسط سے ادبی صحافت سے جڑے ہوئے ہیں۔ آاپ کے نثر تو بیشتر تصانیف نظم و ان گنت اکاڈمی ایوارڈز سے نوازی ہی جا چکی ہیں لیکن ادبی صحافت کی مہارت کا اعتراف ارباب شمال نے بھی کیا ہے۔ چندسال کمال اداریہ نگاری و

آاپ کو صنم کمیونیکیشن، نئی دہلی نے سرسیدصحافتی ایوارڈ سے نوازا تھا اور ابھی چند ماہ پہلے

Page 180: Adab MenHamd o Munajat

آاندھرپردیش نے ریاستی ادبی ایوارڈ سے سرفراز فرمایا ہے۔ ان کی شعر ی مطبوعات پہلے حکومت میں غزلوں اور نظموں کے مجموعوں کے ساتھ ایک مجموعہ ان کی حمدوں، نعتوں اور منقبتوں

نام ’’میں کب سے مدینے کی طرف دیکھ رہا ہوں ‘‘ ہے۔ لیجئے پربھی مشتمل ملتا ہے۔ جس کا :کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے اس مجموعے سے جناب نیر

قدم قدم پہ کیوں ہے میرا امتحاں یارب

آاسماں یارب زمین ہوں تو بنا مجھ کو

جہاں کہیں بھی ہو، اپنی پناہ میں رکھنا

بھٹکتا رہتا ہے انساں کہاں کہاں یارب

یہ روشنی مرے پرکھوں کا اک تسلسل ہے

آاباد یہ مکاں یارب اسی طرح رہے

آاپ اردو کے ممتاز شاعر و ڈاکٹر پایہ معتبر ادیب ہی نہیں بلکہ ایک موقر نقاد و بلند محمد علی اثر:آاپ بہ اعتبار تدریس سے جڑے ہوئے ہیں اور فی الحال ملازمت شعبہ درس و محقق بھی ہیں۔

آاپ کی تصانیف ویمنس کالج جامعہ عثمانیہ کوٹھی میں پروفیسر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آاپ کی حمدوں و نظم و خط نعتوں کا ایک مجموعہ ’’انوار نثر کی تعداد تیس سے زائد ہے۔

روشن‘‘ چند سال پہلے شائع ہو کر بے حد پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ لیجئے ’’انوار خط روشن‘‘:اشعار دیکھئے گا ہی کی ایک حمد سے چند

زمیں سے تابہ فلک ہیں عنایتیں کیا کیا

محیط کون و مکاں پر ہیں نعمتیں کیا کیا

شجر حجر بھی ہیں محو ثنائے رب کریم

آائینہ صورتیں کیا کیا دکھا رہا ہے وہ

اثر اسی سے منور ہیں جسم و جاں میرے

بصیرتیں بھی ہیں کیا کیا، بصارتیں کیا کیا

Page 181: Adab MenHamd o Munajat

آاپ علامہ قدر عریض کے شاگردوں میں شامل ہیں۔ گذشتہ چالیس پینتالیس سالوں نصیرالدین بسمل:آاپ کی مطبوعات میں نعتوں کا آازمائی کر رہے ہیں۔ مجموعہ ’’ پلکوں کی دستک‘‘ سے طبع

آاواز کے بوسے ‘‘ ، غزلوں کا کا منقبتون مجموعہ ’’کشکول میں سورج‘‘ ، رباعیات و مجموعہ ’’ مجموعہ ’’اجالوں کا قطعات کا مجموعہ ’’بوند بوند سمندر‘‘ اور حمدوں، نعتوں اور منقبتوں کا

:اشعار ملاحظہ فرمائیے سفر‘‘ سے ان کی حمد کے چند سفر‘‘ شامل ہیں۔ لیجئے ’’اجالوں کا

آاخر بھی تو ظاہر بھی تو باطن بھی تو اول بھی تو

پایہ نہ کسی نے پایا ترا سبحان اللہ سبحان اللہ

یی ہے تو خالق ہے تو رازق ہے تو صلحا ہے تو ماو

جو کچھ بھی کہوں ہے تجھ کو روا، سبحان اللہ سبحان اللہ

تو یکتا ہے تو تنہا ہے تو زندہ ہے تو گویا ہے

تو دانا ہے تو ہے بینا سبحان اللہ سبحان اللہ

آاپ حضرت نذیر علی عدیل مرحوم کے شاگرد ڈاکٹر رشید ہیں اور انہی کے غیاث الدین عارف:آاپ کا آابادی سے جا وسیلے سے آاپ نے غزلیں سلسلہ شاعر ی دبستان صفی اور نگ ملتا ہے۔

ادبی شاعر ی سے بہت سرمایہ ان کی سنجیدہ و بھی کہی ہیں لیکن ان کی مذہبی شاعر ی کاآابشار نعتوں کے دو خیال‘‘ کے ساتھ حمدوں و زیادہ ہے۔ ان مطبوعات میں شعر ی مجموعہ ’’

نل‘‘ اور ’’سبز اجالا‘‘ شامل ہیں۔ لیجئے ان کی حمد کے چند شعر ملاحظہ مجموعے ’’فیضان رسو:فرمائیے گا

نظر تیری قطرے پہ ہو گر خدایا

تو بن جائے وہ اک سمندر خدایا

ہے گر کوئی تیرا گداگر خدایا

مقدر کا وہ ہے سکندر خدایا

آاپ جدید لب و اثر آاباد کے مشاعروں میں اپنیںلہجہ کے جانے پہچانے شاعر ہی غوری: ۔ حیدر ء( کے بعد دوسرا شعر ی۱۹۸۳خاص شناخت رکھتے ہیں۔ شعر ی مجموعہ ’’بوند بوند روشنی‘‘ )

Page 182: Adab MenHamd o Munajat

آایا ہے۔ لیجئے اس شعر ی مجموعہ ’’لہو لہو سائبان‘‘ اس سال ماہ جون میں شائع ہو کرمنظر عام پر :شعر ملاحظہ فرمائیے غوری صاحب کی حمد کے چند مجموعے سے اثر

فشاں تو ہے عرش اعظم پہ ضو

کیا بتاؤں کہاں کہاں تو ہے

مجھ میں کعبہ بھی ہے مدینہ بھی

ذات میں میری بیکراں تو ہے

آاپ جدیدیت کے نمائندہ شاعر تھے اور جدیدیت سے۲۰۰۴ء۔ م:۱۹۴۴علی الدین نوید)پ: ء(: وابستہ ادبی انجمن ’’حلف‘‘ کے بنیادی رکن بھی۔ انھوں نے بچپن میں پولیس ایکشن میں اپنے

آانکھوں سے دیکھا تھا۔ اس اندوہناک حادثے خاندان کا والدہ، چچا اور دیگر افراد قتل اپنی معصوم میں یہ حادثہ ایک زخمی پرندے حیات ان کے شعور کہ تا دماغ پر ایسا اثر ہوا کا ان کے دل و

بڑے فنکارانہ انداز میں اپنی شاعر انفرادی کرب کو مرحوم نے اپنے ذاتی و کی طرح پھڑپھڑاتا رہا نوید شعر ی مجموعے ’’صدف تمام ریت ریت‘‘ اور ’’دھواں دھواں ی میں پیش کیا ہے۔ ان کے دو

چراغ‘‘ شائع ہو کر بے حد مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ لیجئے ان کے موخر الذکر مجموعے:سے ان کی مناجات کے چند شعر سنئے گا

دے مری رگ رگ میں اپنا نور بھر

آائینہ کر دے میں پتھر ہوں مجھے

نے دیا ہے قلم جب ہاتھ میں تو

تو کاغذ پر بھی چلنے کا ہنر دے

دے نوید جانفزا پھر سے سنا

مرے مولا مدینے کا سفر دے

آاپ اردو کے شعر ی و ادبی حلقوں میں اپنی ایک خاص شناخت رکھتے ہیں۔ نظم و نثر رؤف خیر:یی و دونوں کی جانب متوجہ ہیں۔ ان کی تخلیقات نظم و جرائد میں معیاری ادبی رسائل و نثر تمام اعل

آاپ حمد، نعت، غزل، نظم، ماہئے، ہائیکو، یک مصرعی نظمیں اور دیگر پابندی سے چھپتی ہیں۔

Page 183: Adab MenHamd o Munajat

آاپ تنقید و آازمائی کرتے ہیں۔ تحقیق میں بھی کئی اصناف شعر ی میں اچھی اور سچی طبع آاپ کی تصانیف نظم و شعر ی مجموعے ’’اقرا‘‘ ، ’’ایلاف‘‘ ، نثر میں چار دلچسپی رکھتے ہیں۔

منظوم اردو ترجمہ‘‘ ، تحقیقی ’’شہداب ‘‘ اور ’’سخن ملتوی‘‘ ، ’’ علامہ اقبال کے لالہ طور کاآاباد کی خانقاہیں ‘‘ اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’قنطار‘‘ شامل ہیں۔ لیجئے ان کے مقالہ ’’ حیدر

:کے چند شعر ملاحظہ فرمائیے شعر ی مجموعہ ’’سخن ملتوی‘‘ سے ان کی حمد

سننے کا ہے کس کو کہاں اختیار سن

تیرے سوائے کون ہے پروردگار سن

سیکھا نہیں ہے میں نے کسی کو پکارنا

تجھ کو پکارتا ہوں تو میری پکار سن

آاپ ایک فعال،سرگرم و آاباد کے جدید شعرا میں اپنی محسن جلگانوی: متحرک اہل قلم ہیں۔ حیدرآاپ جدیدیت کے تمام اپنے فکر پاروں کا کو تقاضات تر لوازمات و ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔

آاپ نے شکار معنویت کا حصہ ضرور بناتے ہیں لیکن انہیں لا ہونے سے بچاتے بھی ہیں۔ آاباد میں جب ریلوے جوائن کی تو اس وقت معمولی میٹرکیولیٹ تھے لیکن اپنی دفتری و سکندر

گھریلو ذمہ داریوں کو سنبھالتے ہوئے جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا اور بعد ازاں ایم اے کییی ڈگریاں بھی آاباد سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اعل آاباد یونیورسٹی حیدر تکمیل کے بعد حیدر

آاپ کو یی تعلیم کی تحصیل کے لئے خیرباد کہنا پڑا۔ اب ریلوے کی ملازمت کو حاصل کیں۔ اعلآاپ روزنامہ اعتماد سے منسوب ہو گئے ہیں اور اس کا ادبی صفحہ پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد

دقت نظری سے ترتیب دے رہے ہیں۔ جسے بے حد پسند ’’اوراق ادب‘‘ نہایت ہی عرق ریزی و تالیفات میں تین شعر ی مجموعے ’’انصاف‘‘ ، جا رہا ہے۔ محسن جلگانوی کی تصانیف و کیا

آانکھ سچ بولتی ہے ‘‘ ، ایک تالیف ’’پس مرگ‘‘ اور ایک تحقیقی آاسمان زمین پر‘‘ اور ’’ ’’تھوڑا سا آاباد کی ادبی دستاویز‘‘ شامل ہیں۔ ان کی حمد کے یہ شعر دیکھئے گا :تصنیف ’’سکندر

نادانستہ منصوبوں کا خالق میں

دانستہ تقدیر بنانے والا تو

آافاق سمجھنے والا میں خود کو شہ

Page 184: Adab MenHamd o Munajat

مجھ کو مری اوقات بتانے والا تو

میری ذات کی قیمت مٹی سے بدتر

میرے نام میں وقعت لانے ولا تو

آاپ گذشتہ چالیس سالوں سے شعر و ادب سے جڑے ہوئے ہیں۔ تعلیم کے اعتبار مسرور عابدی:آاپ سائنس کے گریجویٹ ہیں۔ لیکن شعر و ادب سے گہرے لگاؤ نے انہیں شعر ی تخلیق سے

آابادی حضرت نذیر لیا۔ ابتدا افروزیوں کی جانب موڑ علی عدیل سے میں جانشین صفی اور نگ بعد ازاں پروفیسر عنوان چشتی سے بھی منسوب رہے۔ جس کی تفصیل شرف تلمذ حاصل رہا

ء( میں بھی درج ہے۔ مسرور۱۹۹۷اول، مطبوعہ : پروفیسر عنوان چشتی کی کتاب اصلاح نامہ )جلد شاعر ہو گئے ہیں۔ لیجئے ان کے تازہ ترین شعر ی مجموعہ ’’دل برابر صاحب خود ایک استاد

:شعر سنئے گا روشنی‘‘ سے ان کی حمد کے دو

آاگ کو پھول بنانے کی جو تدبیریں ہیں

وہ فقط ایک ترے حکم کی تاثیریں ہیں

صورت نور مری روح کی دیواروں پر

تری تعریف میں لکھی ہوئی تحریریں ہیں

آاپ حمد آاپ نے اپنی ساری زندگی و بے ہوش محبوب نگری: نعت کے کہنہ مشق بزرگ شاعر ہیں۔ آاپ کو الدین ملتانی سے شرف تلمذ حاصل رہا۔ معز مولانا مذہبی شاعر ی کے لئے وقف کر دی۔ آاپ کے سحر دخل رہا ہے۔ ان کی حمد کے بھی بڑا آاگیں ترنم کا آاپ کی شعر ی کامیابیوں میں

:شعر ملاحظہ کیجئے گا دو

ہہ تو دلیل رحمت بیکراں تری شان جل جلال

ہہ آاں تری شان جل جلال تو ثبوت حق کی ہے ایں و

ہہ تری حمد اور مری زباں تری شان جل جلال

ہہ ہے عطائے نطق کا امتحاں، تری شان جل جلال

Page 185: Adab MenHamd o Munajat

آاباد کے استاد شاعر تھے۔ فرزندان جامعہ عثمانیہ۱۹۹۰ء۔ م:۱۹۲۴جنیدی)پ: خورشید آاپ حیدر ء(: میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ان کے رفقائے جامعہ میں مخدوم محی الدین، سکندر علی وجد،

آاپ کو اپنے دور کے خسرو کے اسمائے گرامی قابل ذکر آابادی اور امیر احمد میکش حیدر ہیں۔ آافندی اور حضرت امجد سے فیض رحمت و حسین امجد اساتذہ حضرات علی منظور، علامہ نجم

آاپ کا آاتش گفتار‘‘ شرف مشاورت حاصل رہا ہے۔ ء میں شائع ہو کر بے حد مقبول ہوا۱۹۸۲دیوان ’’ :شعر ملاحظہ فرمائیے ہے۔ لیجئے اس دیوان سے ان کی حمد کے چند

بنام گنج مخفی تو عدم ہے

ازل تیرا ظہور محترم ہے

ترے جلوؤں کا پر تو قصہ طور

ترا دیدار معراج اتم ہے

جہاں تک ہے گداز دل کی رونق

وہاں تک وسعت دیر و حرم ہے

آاپ آاباد میں پیدا ہوئے۔ مدرسہ چار محل و ء کو۱۹۱۳مئی ۳۱منوہر لعل بہار: حسینی علم حیدرآاصفیہ سے منسوب ہوئے اورٹس ی کالج میں تعلیم کی تکمیل کے محکمہ زراعت حکومت

منتظم نظامت زراعت کے عہدہ پر وظیفہ یاب ہوئے۔ حضرت فصاحت جنگ جلیل سے شرف تلمذآاپ بنیادی طور سلسلہ سخن حضرت امیر حاصل رہا۔ اس طرح ان کا پر غزل مینائی سے جاملتا ہے۔

منقبت سے بھی شغف رکھتے تھے۔ حضرت صوفی اعظم و نعت و کے شاعر تھے۔ لیکن حمدآاپ کے شعر ی ورثہ کے سالانہ نعتیہ مشاعرہ کی نظامت کا اعزاز تا آاپ ہی کو حاصل رہا۔ حیات

نورانی‘‘ ، ’’فردوس بہار‘‘ ، ’’لہریں ‘‘ تمنا‘‘ ، ’’افکار میں چھ مجموعے ’’بہارستان‘‘ ، ’’تکرارآاندھراپردیش اردو اکاڈمی نے ایوارڈ اور ’’ سخن در سخن‘‘ شامل ہیں۔ مجموعی خدمات کے لیے

:سے بھی سرفراز فرمایا تھا۔ حمد کے چند شعر ملاحظہ ہوں

اے دو جہاں کے مالک، خالق ہے نام تیرا

ثانی ترا نہ ہم سر ہے وہ مقام تیرا

Page 186: Adab MenHamd o Munajat

ہندو ہوں یا مسلماں، سکھ ہوں یا کہ ہوں مسیحی

الفاظ گو جدا ہوں لیتے ہیں نام تیرا

اک روز ہو شگفتہ اس کا چمن بھی یارب

یی غلام تیرا جو ہے بہار غم میں ادن

یی تعلیم یافتہ خاندان کی بیٹی تھیں اور۱۹۵۲ء۔ م:۱۹۰۰زور)پ: بیگم تہنیت النسا آاپ ایک اعل ء(:آاپ اپنے شوہر کی ہم ڈاکٹر ماہر دکنیات ممتاز سید محی الدین قادری زور کی شریک حیات تھیں۔ آاج میں بھی ان کا ادبی سفر حیات ہی نہیں رہیں بلکہ ان کے علمی و سفر قدم قدم پر ساتھ دیا۔

آاباد میں جہاں ادارۂ ادبیات کی عمارت کھڑی ہے جہاں عظیم الشان ایوان اردو ای ادہ ہےستحیدر انھوں نے بطور عطیہ زور صاحب کودی کی ذاتی ملکیت تھی جو وہ زمین بیگم تہنیت النساء زورآاخر تھی۔ بیگم تہنیت النسا زور تا نعت، حمد اور منقبت ہی لکھتی رہیں۔ ان کی نعتوں کے تین دم

رضا‘‘ ۔ جن میں نعتوں کے علاوہ شکر‘‘ اور ’’تسلیم و و فکر‘‘ ، ’’صبر و مجموعے ’’ذکر رضا‘‘ سے حمد، سلام اور منقبت بھی شامل ہیں۔ لیجئے ان کے تیسرے مجموعہ نعت ’’تسلیم و

:ان کی حمد کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے

عرش پر دیکھ رہا ہے ترا جلوہ کوئی

لف تقاضا کوئی برسر طور ہے مصرو

تیرے دینے کے ہیں انداز نرالے سب سے

تو جو دیتا ہے تو ہوتا نہیں چرچا کوئی

لیتا ہے تجھ کو یہیں شہ رگ کے قریب کوئی پا

اور ڈھونڈ رہے سر عرش معلی کوئی

میں دی ہے ( چون شعرا اور چار میں نے اس کی ابتدا میرے اس مضمون کی فہرست میں )جو شاعر ات کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ لیکن ان سب کے سوانحی کوائف پیش کرنے کئے

لے گا۔ اس لئے معذرت کے ساتھ میں باقی شعرا شاعر ات کے جائیں تو مضمون طول پکڑ کا ہی پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔ البتہ اشعار کے اختتام پر ان کے ماخذ صرف منتخب اشعار

Page 187: Adab MenHamd o Munajat

شاعر ات کی حمدوں اور مناجاتوں کے حوالہ ضرور شامل رہے گا۔ لیجئے ذیل میں باقی شعرا و :اشعار ملاحظہ فرمائیے

:رئیس اختر

ہے فیض مسلسل ترا پیغام خدایا

آان ہے خود اک کرم عام خدایا قر

الفاظ تیری حمد کو لاؤں میں کہاں سے

ہے سوچ یہی بس سحر و شام خدایا

)روح دل(

:ڈاکٹرعقیل ہاشمی

’‘سمیع’‘ بصیر’‘ قدیر’‘ عظیم

یی و اکبر خدایا تو ارفع و اعل

تری عظمتیں رفعتیں کیا بیاں ہوں

قلم ناتواں نطق کمتر خدایا

)بیاض نور(

:داؤد نصیب

رب مطلق ہے کبریا تو ہے

صرف اک قابل ثنا تو ہے

آاشکار عالم میں ہوکے تو

ذرہ ذرہ میں بھی چھپا تو ہے

)راستہ(

Page 188: Adab MenHamd o Munajat

:مظفرالدین خاں صاحب

)رباعی(

یارب مرے عصیاں کی سیاہی توبہ

اعمال کا یہ رنگ تباہی توبہ

ن کے مجھے تو بخش دے صدقے میں محمد

یلہی توبہ توبہ ہے گنا ہوں کی ا

)سخن در سخن(

:محمود ابوالفضل سید

یلہی کام لے ظلمت میں مجھ سے ماہ و انجم کا ا

مرے اس داغ دل کو شمع راہ گمرہاں کر دے

دل فطرت شناس و دیدۂ خود بیں عطا فرما

مجھے بھی واقف راز جہان کن فکاں کر دے

)دعائے نیم شبی(

:خلیل وقار

نوائے بربط ناہید و نغمہ زہرہ

آاں تجھ سے حدیث کن فیکون، حسن ایں و

خطا معاف کہ مقطع میں سر جھکاتا ہوں

آاستاں تجھ سے وقار سجدہ ہے تو اور

)شاعر ی(

:ریاست علی تاج

اے خدائے لم یزل خالق کرو بیاں

Page 189: Adab MenHamd o Munajat

آاگے سرنگوں ہر رفعت کون و مکاں تیرے

عزت و ناموس کا میری فقط حافظ ہے تو

’’دولت ایماں ‘‘ کا مری صرف تو ہے پاسباں

)نقوش حیات(

:ڈاکٹر راہی

مرا ہر اک نفس وقف سبحان اللہ بحمدی ہے

آاپ کی حمد و ثنا یارب مری ہر سانس میں ہے

ترے بندے ہیں تجھ سے ہی طلب کرتے رہیں گے ہم

ہمارا کون ہے تیرے سوا حاجت روا یارب

)دھنک(

:مومن خان شوق

غموں کی دھوپ میں دل کو قرار دے یارب

خزاں کی رت میں بھی ابر بہار دے یارب

تری ہی حمد کریں اور سیدھی راہ چلیں

ہماری زیست کو ایسا نکھار دے یارب

)یہ موسم گل(

:ہاشمی جوہر

ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا تیرے بغیر

کچھ نہیں ہے مالک ارض و سما تیرے بغیر

فضل ہے تیرا یہ جوہر ہاشمی کی زندگی

سانس تلک وہ لے نہیں سکتا خدا تیرے بغیر

Page 190: Adab MenHamd o Munajat

سحر( )نگار

:یوسف یکتا

دین و دنیا میں سرخرو کر دے

اے مرے دو جہان کے مالک

تو ہی حمد و ثنا کے ہے لائق

آاسماں کے مالک اے زمین و

)غنچۂ عطر بیز(

:دل اور حزیں

ہی بے سہاروں کا سہارا ہے ہر اک منزل پہ تو

یی ہے یی ہے تو بے شک حق تعال تو بے شک حق تعال

آاغوش رحمت میں تری رحمت میں بڑھ کر لے لیا

مصیبت میں تڑپ کر اے خدا جس نے پکارا ہے

خیال( )شہر

:قوی سیف

ہمارا ذوق نظر لا الہ الا اللہ

ہمارا حسن بیاں لا الہ الا اللہ

ہیں تیری خوشبو سے تمام روح و بدن تر

مشام نطق و دہاں لا الہ الا اللہ

آاگ( )اک چٹکی

:اطیب اعجاز

ذکر یہ صبح و شام کس کا ہے

Page 191: Adab MenHamd o Munajat

ذرہ ذرہ پہ نام کس کا ہے

یب آاپ اپنے پہ ہے یقیں اطی

عقل کل میں وہ نام کس کا ہے

)لمس کی خوشبو(

:انجم عارفی

آانکھوں کو میری نور بصیرت دے دے

گمراہ ہوں میں مجھ کو ہدایت دے دے

کونین کی دولت کی نہیں مجھ کو ہوس

یارب مجھے سرکار کی الفت دے دے

)انجم زار(

:شوکت علی درد

آاقا تو ہی ماوا تو ہی ملجا تو ہی مولا تو ہی

آاسرا یارب سوا تیرے نہیں کوئی ہمارا

بشر کا ذکر کیا پیغمبروں تک نے کہا یارب

کس سے ہو سکے گی کیا تری حمد و ثنا یارب

)متاع درد(

:رشید جلیلی

دل سے سب غم نکال دے یارب

چھاؤں رحمت کی ڈال دے یارب

نی کے صدقے میں اپنے پیارے نب

ہر بلا سر سے ٹال دے یارب

Page 192: Adab MenHamd o Munajat

آارزو کے چراغ( )

:ہاشمی مسعود جاوید

رکھا تھا ذات کے پردے میں کل نہاں مجھ کو

تو قسط قسط میں کرتا رہا عیاں مجھ کو

ہزار ذروں کی پیوند کاریاں کر کے

ترا کرم کہ بنایا ہے اک جہاں مجھ کو

)دسترس(

:معلم عبیدی

نکلنا ہے جو گرفت لا الہ باطل سے

آاٹھوں پہر لا الہ الا اللہ تو پڑھئے

ہمارا مقصد ہستی سپردگی اپنی

لد سفر لا الہ الا اللہ بہار زا

نظر( )پرواز

:معین فیاضی

یارب تو اپنی راہ میں یوں کر فنا مجھے

مل جائے اس فنا ہی میں راہ بقا مجھے

( سے پہلے )سحر

:صادق نوید

ماورائے خرد ہیں ترے کام سب

تیرے قبضے میں ہے نظم کون و مکاں

اے خدا سب کو معبود واحد ہے تو

Page 193: Adab MenHamd o Munajat

کوئی تجھ سا نہیں، سب کا تو پاسباں

خال( و )خد

:باسط نقوی

دن نکلتا رات سے مٹی سے اگنا بیج کا

ہے حیات و موت کا کتنا عجب یہ فلسفہ

بے سہارا یہ فلک ہے کتنی صدیوں سے کھڑا

تیری دانائی و حکمت تو ہی جانے اے خدا

سب عیاں تیرے نشاں ہیں

اور تو ہے بے نشاں

)تازہ ہوا کا جھونکا(

:قادری طیب پاشا ڈاکٹر

جب سے رواں دواں ہے زمانے کا کارواں

خلقت کے سر پہ ہے تری رحمت کا سائباں

سب ہیں ترے ظہور کی زندہ نشانیاں

بیابان و گلستاںتکھی دریا پہاڑ

آابادی :رحمت سکندر

گنا ہوں کے دریا میں ڈوبا ہے لیکن

یہ ہے تیرا بندہ ترے سامنے ہے

یہ سر کیا بھلا اس کی قیمت ہی کیا ہے

مرا دل خمیدہ ترے سامنے ہے

)سوغات رحمت(

Page 194: Adab MenHamd o Munajat

:الدین رضواں عزیز

زمین روح پر دیکھو رقم اللہ ہی اللہ ہے

زبان دم پہ یارو دم بہ دم اللہ ہی اللہ ہے

آاسماں کیا عرش کیا جنت و دوزخ کیا زمیں کیا

قسم اللہ کی لوح و قلم اللہ ہی اللہ ہے

)نظارۂ نور(

:عزم رحمانی

تیرے تابع چاند سورج، تیرے تابع رات دن

نے بنائی کائنات تو ہے رب العالمیں تو

بارگاہ ایزدی میں عزم پہنچوں تو ذرا

وہ ہے رحمن الرحیم اور کرتا ہے التفات

)نوائے عزم(

:ستارصدیقی

آاسماں کو بنایا بے ستوں اس

ہے بے شک لائق حمد و ثنا تو

ہے نور و نار تیرے استعارے

حقیقت میں ہے سب سے ماورا تو

)حرف خط کشیدہ(

:عباس متقی

کیا ذکر مرے دل کا

رگ رگ میں تو مکیں ہے

Page 195: Adab MenHamd o Munajat

ہر شعر متقی کا

تسبیح دل نشیں ہے

( )تنہائیاں

:شمیم نصرتی

دے کے دنیا میں عزت و توقیر

جس کو چاہا نوازتا ہے کوئی

اپنی رحمت کے کھارے پانی سے

میٹھے چشمے نکالتا ہے کوئی

:فرید سحر

ترے ہی ہاتھ میں دنیا کی ہے زمام اللہ

ہر ایک شخص یہاں ہے ترا غلام اللہ

غذا بھی دیتا ہے پتھر کے ایک کیڑے کو

ہے کتنا پیارا یہ ترا نظام اللہ

:شکیل مظہر

اے خدا بندہ ہوں تیرا میں رہا عاصی سدا

سایہ رحمت کا مگر سر پر مرے پیہم رہا

مجھ کو مخلوقات کل پر تو نے بخشا ہے شرف

ہے بہت احسان مجھ پر اے خدا تیرا بڑا

گھر( )کانچ کا

( اسحاق ملک:)ماہیے

یزداں کے غضب سے ڈر/خوف گنہ کیسا/سرتوڑکے سجدے کر

Page 196: Adab MenHamd o Munajat

دے گا)نگینۂ سخن( اللہ ہی مدد دے گا/کیا طاقت انسانی/ وہ تابہ عدد

:یوسف الدین یوسف

مالک بحر و بر خالق جز و کل

ابتدا تجھ سے ہے انتہا تجھ سے ہے

)پیکر کردار(

:بصیر افضل

تا عمر مجھ کو رکھنا سرشار مرے مولا

کشتی مری لگانا اس پار مرے مولا

تیرے سوا نہیں ہے کوئی جہاں میں میرا

میں دل سے کر رہا ہوں اقرار مرے مولا

آائینہ بولتا ہے ( )

:اشرف رفیع

آاخر تو ہے ظاہر تو ہے باطن تو ہے اول تو ہے

داں تو ہے خود اپنی ہستی ذات قدم کا راز

ظہور جزو کل تفصیل تیرے علم مطلق کی

بصیر انس و جاں تو ہے قدیر کن فکاں تو ہے

غزل( )عود

:زبیدہ تحسین

آادم کی عظمت کو نئی پرواز دی تو نے کہیں

آائین فطرت کو کلید راز دی تو نے کہیں

نے سکھلایا بیاں ہونا کہیں خاموشیوں کو تو

Page 197: Adab MenHamd o Munajat

شکستہ دل کے تاروں کو صدائے ساز دی تو نے

)دشت تمنا(

:طاہرہ سعید بانو

جو خبر میں نے سنی ہے نہ سنائے اللہ

کیسے بچ سکتا ہے جس کو نہ بچائے اللہ

ظلمتیں، بے بسی، تنہائیاں، دشت و دقت

آائے اللہ دستگیری کے لئے کوئی تو

آاخر آان گواہ‘‘ ملاحظہ کیجئے جو اب میں راقم الحروف شاغل ادیب کی ایک حمدیہ نظم ہے ’’قر :آایات کی ترجمانی لئے ہوئے ہے سورۂ لقمان کی چند

لے لے قلم اک/کوئی جل سے /سب ساگروں کے بنا سارے جہاں کے /بنا کوئی کاٹ کر/پیڑ اس سے / ممکن نہیں ہے مرے رب/ کہ لکھے تعریف تیری/مگر و حمد و /سیاہی/کہ لکھے ثنا

تعریف تیری/ہے لا انتہا/اے مرے حمد و و تعریف تیری/ مکمل/مرے رب/ ثنا و حمد و ثناآاں گواہ رب/تری خوبیوں کی/ ستائش کی تیری/کوئی حد نہ سرحد/ہے قر

Page 198: Adab MenHamd o Munajat

رفیق شاہین)یوپی(۲۰۲۰۰۲ روڈ، علی گڑھستعلیم منزل، مار

حامدی فراز ڈاکٹر اور ی شاعر حمدیہ کی راجستھان

ستائش کی توصیف و سے خدا حمد کی لغوی معنی تعریف کے ہیں جبکہ لفظ حمد معنوی اعتبارآاسمان کی جانب نظر مرتکز سے مختص ہے۔ بابا کر کے لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ پڑھا آادم

اللہ کرتے تھے۔ کلمہ طیبہ کی روسے سوائے اللہ کے باقی سارے معبودوں کی نفی بذات خودآائی کی حمد ہے۔ بابا آادم روئے زمین پر جبکہ تن تنہا تھے اور تحریری زبان عالم وجود میں نہیں

کلمہ طیبہ پڑھنا جو عربی زبان میں ہے سوال پیدا کرتا ہے کہ عربی زبان کیا تھی ایسے میں ان کاآادم علیہ السلام اپنے ساتھ زمین پر لائے تھے۔ یہ ایک الگ ہی آاسمانی زبان ہے جسے جنت کی

کام ہے۔ ہم تو یہاں صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ کی نکتہ ہے جس پر غور و فکر علما کاآادم نے کی تھی وہی پہلے حامد تخلیق کردہ اس وسیع ترین کائنات میں اللہ کی پہلی تعریف بابا

سے وہ خالق کائنات کی موقع بہ موقع جب جب جس طور ہیں۔ کرہ ارض پر اور پہلے حمد گو میں اسے باقاعدہ ضبط تحریر ستائش بیان کرتے اور اس کا شکرانہ ادا کرتے تھے اگر توصیف و

آامد ہوتا۔ کم وہ نثری یا کم از تو لایا گیا ہوتا یی حمد کی شکل میں ضرور بر معر

آاغاز ہوا۔ ملسو هيلع هللا ىلصرسول مقبول کی حیات طیبہ میں نعت گوئی کے ساتھ ہی حمد کا باقاعدہ جواب خلفائے راشدین اور بدخواہ مشرکین رسول مقبول صلعم کی ہجو کیا کرتے تھے جس کا

صحابہ کرام نے نعت کہہ کر دیا اور نعت کہنے والوں نے اس کے ساتھ ہی اللہ کی تعریف بھی نظم کرنی شروع کر دی۔ جو تحریری سطح پر حمد کہلائی۔

Page 199: Adab MenHamd o Munajat

مشتمل نعت پر اور شمار مقبول ترین اصناف میں ہوتا ہے۔ حمد نعت کا و حاضر میں حمد عصراا سبھی شعرا کی یہ روایت بن مجموعہ کلام کا خاصہ ذخیرہ موجود ہے۔ ان کے علاوہ بھی تقریب

آاغاز حمد اور نعت سے کرتے ہیں۔ حمد نعت کوتو پاکستان اور چکی ہے کہ وہ اپنی شعر کتب کا آابادیوں میں دہ اصناف تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ملک کی نوعمیں ادب کی باقا

نعت کی مقبولیت اور تخلیقی عمل شدت اختیار کر چکا ہے۔ و بھی حمد

آاگے ہے۔ اس مردم خیز سرزمین ہندوستان میں حمد اور نعت کے حوالے سے راجستھان سب سے آامد ہوئے ہیں جن سے افق ادب جگمگا اٹھا ہے۔ ڈاکٹر فراز کی کوکھ سے بڑے بڑے ہیرے بر

آابائی وطن حامدی بھی معروف شاعر رومان اختر آاپ کا شیرانی کی اسی سرزمین کے نونہال ہیں اور آاپ کا آا کر۱۹۶۷مدینہ‘‘ مشترکہ مجموعہ ’’دیار نعت کا حمد و ٹونک ہے۔ ء میں منصہ شہود پر

یہ مجموعہ راجستھان کے باقی سبھی شعرا کا فراز حامدی مقبول عام ہوا تھا۔ تقسیم ملک کے بعد اولیت حاصل رہی ان کے اس مجموعے کو سبقت لے گیا ہے کیونکہ تقسیم ملک کے بعد پر

مدینہ‘‘ کے بعد حامدی کے مجموعہ کلام ’’دیار نعت کے باقی سبھی مجموعے فراز و ہے۔ حمدآائے ہیں۔ ان کے بعد اسی سال کے اواخر میں نواب محمد اسماعیل علی خاں ہی عالم ظہور میں

ء میں۱۹۸۰ مجموعہ ’’تاجدار مدینہ‘‘ شائع ہوا تھا۔ دل ایوبی کا ’’نذر رسالت‘‘ طلوع ہوا ا ور تاج کاآایا تھا۔ سیف ٹونکی کا حمدیہ و امداد علی خاں شمیم کا ’’مخزن نعت‘‘ منظر نعتیہ مجموعہ عام پر

حمدیہ و نعتیہ مجموعہ کلام اپنے وقت بھی کافی مقبول ہوا تقسیم ملک سے پہلے کیف ٹونکی کاآاج بھی ہے۔ لیکن ڈاکٹر مقبول تھا اتنا میں جتنا جو مدینہ‘‘ کو حامدی کے ’’دیار فراز ہی مقبول

آاپ کا حمدیہ و آائی۔ نعتیہ کلام ’’میوزک انڈیا‘‘ مقبولیت ملی وہ کسی کے حصے میں بھی نہیں اسلام‘‘ ، ’’یارب‘‘ اور ’’چلو مدینے نامی گراموفون رکارڈ کمپنی کے بینر تلے تیار کئے گئے ’’نور

ہیں۔ چلیں ‘‘ نام کے گراموفون رکارڈز میں نغمہ بند

آا رہی ہیں۔ خوش پارٹیاں لگاتار نعتیہ کلام تیس پینتیس سال سے میلاد آاپ کا حمدیہ و پڑھتی چلی ترنم سے ادا کر کے سماں نعت کو و آاواز موسیقار اور گائک محمد طاہر محفل محفل ان کی حمد

نعتیہ کلام پیش کرنے کی فرمائش حامدی کے حمد یہ و باندھتا رہا ہے اور اس سے ہمیشہ ہی فراز منزلت کی نگاہ سے و مدینہ‘‘ کو راجستھان بھرمیں قدر کی جاتی رہی ہیں اور ان کے ’’دیار

عام مدینہ‘‘ منظر ستائش میں کوئی کمی باقی نہیں رکھی جاتی۔ ’’دیار و دیکھا جاتا ہے اور داد

Page 200: Adab MenHamd o Munajat

حاصل ہوئی وہ کسی کے بھی حامدی کو عزت شہرت راجستھان بھر میں ڈاکٹر فراز پرلا کر جوآائی۔ حصے میں نہیں

معمولی دلچسپی اور اس راجستھان میں حمد اور نعت گوئی سے والہانہ عشق، اس صنف میں غیر درجہ حاصل رہا ہے۔ بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ٹونک کو اسلامی ریاست کا کے احیا و ترویج کا

عبادت اور محمد صلعم سے و یہاں کے مسلمان اسلامی جذبے سے سرشار اللہ کی حمد حصہ لیتے رہے ہیں۔ نعت کے حوالے سے بڑھ چڑھ کر و میں حمد محبت کے اظہار عقیدت و

اور رؤسا بھیءانھوں نے وسیع پیمانے پر حمد و نعت تخلیق کی ہیں۔ یہاں کے نوابین اور امرا نواب حافظ محمد بھی برابر شریک رہتے تھے۔ اس موقع پر اگر حمد اور نعت کی تخلیق میں خود جائے تو مضمون تشنہ ہی رہ جائے گا۔ خانصاحب نہ کیا ذکر ابراہیم علی خانصاحب )ٹونک( کا

آاپ کے مرتب کردہ سالانہ میلاد تخلیق کیا تو نعت اور حمد ہی کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی بھی یہاں زبردست اہمیت و مقبولیت حاصل رہی ہے۔ یہ محفل میلاد خلیل‘‘ کو النبی بعنوان ’’میلاد

نواب صاحب کے شاہی محل میں منعقد ہوتی تھی اور لگاتار سات دن تک جاری رہتی تھی۔ جلسہ شریک ہوتے ہی تھے ساتھ ہی اس میں شرکت کے لئے توء اور رؤساءمیلاد میں نوابین اور امرا

دور سے النبی میں مقامی اور دور رعایا پربھی شاہی محل کے دروازے کھلے رہتے تھے۔ بزم میلاد مہمان شعرا حمد اور نعتیں پڑھا کرتے تھے اور ساتوں دن ایک پاؤ بوندی تشریف لائے ہوئے معزز

اا تقسیم ٹونک کی روایت بن گئی تھی۔ ں کی فرداؤکے لڈو افرد

مقام حاصل رہا۔ یہاں ادب میں ہمیشہ بلند ٹونک:راجستھان کی اسلامک اسٹیٹ ٹونک کاشعر و دکھاتے رہے ہیں۔ جن میں ذیل کے شعرا شعرا اپنا کمال ہنر بڑے بڑے بانکے حمد اور نعت گو

ہیں۔ کے نام قابل ذکر

آابرو جام ٹونکی، احمد خاں ساحل ٹونکی، محمد صدیق صاحب، سیف ٹونکی، کیف سعید استاد اعجازی، دل ایوبی، ابن احسن بزمی، بسمل ٹونکی، نواب محمد اسماعیل خاں تاج ٹونکی، فاخر

حمد اور نعت بھی رضا خاں صاحب وغیرہ۔ ٹونک کے موجودہ شعرا کرام میں جو سعیدی، احمد علی خاں شمیم اور ڈاکٹر فراز ٹونکی، امداد کہتے ہیں وہ ہیں جناب سید مختار ٹونکی، صفدر

حامدی۔

Page 201: Adab MenHamd o Munajat

شعرا جنھوں نے حمد اور نعت میں بھی اپنے جوہر دکھائے ہیں ان جے پور:جے پور کے نامور واحدی، حسین کوثری، عثمانی، قمر نارائن ٹکومہر، اثر میں جناب چاندبہاری لعل صائب، چاند

مونس، چراغ جے پوری اور رفیق جے پوری خصوصی اہمیت داد راہی شہابی، فضا جے پوری، خدا کے شعرا ہیں۔

نعت گوئی میں بھی اپنی فنی اور مقتدر شعرا میں جنھوں نے حمد و اجمیر:اجمیر کے ممتاز ثبوت پیش کیا جناب عرشی اجمیری، رئیس اجمیری، نسیم اجمیری، فضل متین، بصیرت و مہارت کا

سکتے ہیں۔ کے نام گنوائے جا ممتاز راشد اور احتشام اختر

الحفیظ بیکس، پارس رومانی، عبد جودھپوری، عبد جودھپور:جودھ پور میں کالے خاں ابر، امجد رحمانی نے بھی حمد اور نعتوں کی تخلیق میں اپنا کردار نبھایا۔ الغفور راز، الہ دین راہی اور وفا

نعت نگاری میں نام کمایا ان میں حکیم اور شیخاوٹی:شیخاوٹی کے نمائندہ شاعر جنھوں نے حمد یوسف، سالک عزیزی، منصور چودھری، غلام محمد کلیم اور نذیر فتح پوری کے نام نامی پیش کر

دینا کافی ہو گا۔

میں خلیل تنویر، شاہد عزیز اور عابد ادیب نے حمد اور نعت کی تخلیق میں اودے پور:ادے پور سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا۔

بھی ادب کی تخلیق میں ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔ یہاں جہاں کوٹہ:راجستھان میں کوٹہ کو دیگر اصناف میں شعر ی اور نثری ادب تخلیق ہوا ہے وہیں حمد و نعت میں بھی یہاں کے شعرا

ثانی نہیں رکھتے۔ وہ ہیں نعت کے حوالے سے ذیل کے شعرا اپنا اور منوایا ہے۔ حمد لوہا نے اپنا محمد توفیق برق۔ اور صابر علی غوری، عقیل شاداب، امیر مفتوں کوئٹوی، ظفر

آاپ واضح ہو جاتی ہے کہ حمد اور نعت گوئی کے تعلق سے مندرجہ بالا شواہد سے یہ بات اپنے ادب کی تخلیق میں کچھ سے ہی شعر و صوبوں کے بہ مقابلے راجستھان ابتدا ملک کے دیگر

ممکن نہیں کہ نعت کے جوش اور فعال رہا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے مفر عمل پر زیادہ ہی با ہی ذخیرہ کمتر درجے کا ہے۔ ایسے مجموعہ کلام جن میں کہ صرف حمد کا مقابلے میں حمد تعداد ہونگے بھی تو کم راقم الحروف کی نظر سے تو گزرے نہیں اور وہ اگر شامل ہوں کم از

میں زیادہ نہیں ہونگے۔

Page 202: Adab MenHamd o Munajat

نگار اور حامدی کی شناخت حلقہ ادب میں محض اس لئے نہیں ہے کہ وہ اچھے حمد فراز ڈاکٹر راجستھان میں ان اصناف مدینہ‘‘ کو نعتیہ مجموعہ ’’دیار آازادی ان کا حمدیہ و نعت گو ہیں اور بعد

و دار مقبولیت کا میں پہلا مجموعہ قرار دیا گیا ہے۔ درحقیقت ان کی ادب میں شناخت اور شہرت و ہے۔ ان کا یہ کارنامہ کہ انھوں نے جاپانی اصناف مدار ادب میں انجام دہے ان کے کارناموں پر

اردو ادب میں متعارف کرایا ادب کی تاریخ بن چکا سخن ’’تنکا‘‘ ، ’’رنیگا‘‘ اور ’’سیڈوکا‘‘ کو انھوں نے جم کرکام کیا ہے۔ وہ نصف درجن کتابوں ہے۔ تحقیق، تنقید اور تخلیق تینوں سطح پر

اا اتنی ہی کتب تالیف کر چکے ہیں۔ ان کی مزید چھ کتابیں دو ماہ کے دو کے خالق ہیں اور تقریب سے ہی ان کی ترجیحات میں آانے والی ہیں۔ گیت اور دوہا نگاری ابتدا وقفے سے منصہ شہود پر کیا ہے۔ دوہا ادب کو نشاۃ ثانیہ سے انھوں نے اردو کا لباس فاخرہ عطا شامل رہے ہیں گیت کو

دوہا، مثلث ہمکنار کر کے اس اوج ثریا پر پہنچانا انہیں کا کام ہے۔ اردو دوہا، مردف دوہا، معرا ترائیلہ اور دوہا سانیٹ بھی قطعہ، دوہا نظم، دوہا گیت، دوہا غزل، دوہا دوہا، دوہا دوہا، مثلث معرا

انہیں کی ایجادات میں شامل ہیں۔ انہیں فخر حاصل ہے کہ ان اصناف میں ادب تخلیق کرنے ان کا شرمندہ احسان کہلانے سے بچ نہیں پائیں گے اور اس ادب کو والے شعرا ان کے مقلد

آاج ان کا ہونا آاسمان ادب پر پڑے گا۔ ان کے انہی زبردست کارناموں کی بدولت مہر نام نامی ہے وہاں وہاں جہاں جہاں گزر نصف النہار کی طرح تاباں و درخشاں ہے۔ سورج کی کرنوں کا

شکوہ ادب کی فلک بوس عمارات کے پر عالمی سطح پر ہیں ا ور ان کے چاہنے والے موجود ہے۔ نام سنائی دینے لگا کا حامدی ایوانوں میں بھی فراز

میں بیان کی گئی ہیں ویسے ہمارا اصل مقصد ہے حامدی کے ادبی پس منظر یہ تمام باتیں فراز جائزہ لینا۔ کسی بھی صنف کی شاعر ی کیوں نہ ہو اس میں گو بحیثیت حمد کا فراز حامدی

فن کے ساتھ زبان اور اسلوب پربھی خاصی و حامدی فکر دخل ہوتا ہے۔ فراز زبان اور اسلوب کا بڑا گہری ہے اور زبان سادہ، لہجے کی کھنک اور چست بندش توجہ دیتے ہیں۔ ان کے یہاں فکر

کے سبب کسے تاروں والے ستار کی سی جھنکار ان کی شاعر ی میں ترنم کی چاشنی گھولآاسانی دیکھا سکتا ہے۔ ان کے مجموعہ جا دیتی ہے۔ اس بات کو ان کے حمدیہ اشعار میں بھی ب

یہ مقولہ بے ساختہ دیکھ کر ورڈس ورتھ کا مدینہ‘‘ میں موجود ان کے حمدیہ اشعار کو کلام ’’دیار

Page 203: Adab MenHamd o Munajat

آا جاتا ہے : ’’شعر ایک لا ابالی جذبہ ہے جو دل سے پھوٹ کر دلوں میں پیوست ہو جاتا ہے۔ یاد ‘‘

لاکھوں احسانات اور اس کی عطا کردہ طرح طرح کی خالق کائنات کے اشرف المخلوقات پر شعر بن کر ان کے دل سے پر جذبہ تشکر لا ابالی طور کا حامدی نعمتوں کے تصور سے فراز

پھوٹتا ہے اور دلوں میں پیوست ہو جاتا ہے۔ ایک طرح سے اسے ورڈس ورتھ کی تائید بھی حاصل :ہو جاتی ہے۔ ملاحظہ کیجئے

آارزو ہے تہی دل کا مدعا ہے تہی دل کی

آاسرا ہے اسے کیا کمی ہے یارب جسے تیرا

فیض بے بہا ہے ترا لطف بیکراں ہے ترا

میں تجھی سے کیوں نہ مانگوں مجھے جو بھی مانگنا ہے

:غنائیت، موسیقیت اور ترنم کی چاشنی کے لحاظ سے بھی ملاحظہ ہو

لئے تری صدا ہے مرے نغمہ طرب میں تر

یہ تری عنایتیں ہیں مجھے جو بھی کچھ ملا ہے

متصوفانہ انداز بھی ان کی حمد کا ایک رنگ، ایک رویہ، ایک زاویہ، کثرت میں تلاشنے کا واحد کو :ایک اسلوب اور ایک ادائے دلبرانہ ہے

تہی چاند میں نہاں ہے تہی پھول میں بسا ہے

ترے حسن کے ہیں جلوے ترے نور کی ضیا ہے

رموز سے واقفیت کی خواہش کسے نہیں ہوتی لیکن یہ خدا عالم الغیب ہے۔ غیب کے اسرار وآاگے بڑھنے کی بندے کے بس کی بات نہیں۔ فراز حامدی بندہ اور بندہ نواز کے رشتے سے اپنی کج فہمی تسلیم کر لیتے رموز میں ہاتھ لگی ناکامی کو و ہمت نہیں کرتے اور انکشاف اسرار

:ہیں۔ جوان کے معصوم اور سیدھے سچے انسان ہونے کا عندیہ بھی ہے۔ ملاحظہ ہو

ترے راز تو ہی جانے مری فہم سے سوا ہے

Page 204: Adab MenHamd o Munajat

مجھے صرف یہ خبر ہے میں ہوں بندہ تو خدا ہے

ہے ترا کرم سبھی پر تری شان ہی جدا ہے

تو رفیق ہر سخی ہے تو انیس ہر گدا ہے

تجاہل عارفانہ اردو شاعر ی کی ایک مقبول صنعت ہے جس کا مطلب جان کر انجان بننا ہے۔ مظاہر بھی جنم دیتی ہے۔ کچھ فطرت کی بوالعجبی اپنی تمام تر سحرطرازیوں کے ساتھ کچھ سوالات کو

حامدی کے دل میں پیدا ہونے والے مگر فراز جواب معلوم نہ ہو سوال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا بھی فطرت کی نیرنگیوں سوال ایسے نہیں ہیں جن کے جوابات سے وہ انجان ہوں مگر وہ پھر

سوال کرتے چلے جاتے ہیں اور سوالات ان کا اسلوب بن جاتے ہیں۔ اس سے متاثر ہو کر سوال پر کی پیکر بن جاتا ہے۔ ان کی اس انداز طرح ان کا ہر سوال اپنے خاموش جواب میں حمدیہ اشعار کا

:بند ملاحظہ کیجئے تکنیک پر استوار کئے گئے ان کی حمد کے دو

چاند سورج کو کس نے یہ دی روشنی

آاخر ضیا کس کی ہے اور ستاروں میں

یز رنگ و بو کس نے پھولوں کو بخشا فرا

لب پہ غنچوں کے حمد و ثنا کس کی ہے

کس نے دریا کو کی ہے روانی عطا

یز کوہساروں کو بخشا ہے کس نے فرا

کس نے کی ہیں شفق کو عطا سرخیاں

لت حسیں میں ادا کس کی ہے کائنا

دو بھی تخلیق کئے ہیں۔ دوہا حامدی نے حمدیہ دوہے ، حمدیہ ماہئے اور حمدیہ ہائیکوز فراز ڈاکٹر مصرعے کے درمیان وقفہ برابر کے ہم وزن مصرعوں کے اتصال سے تشکیل پاتا ہے جس کے ہر

دشم چرن کہلاتا ہے جس میں تیرہ ماترائیں ہوتی ہیں اور وقفے ٹکڑا ہوتا ہے۔ وقفے سے قبل کاآاپ میں گیارہ ماتراؤں حصہ سم چرن کہلاتا ہے جو کے بعد کا ہوتا ہے۔ اس طرح پابند کا اپنے

اڑتالیس ماتراؤں کے مشتمل ہوتا ہے اور اس طرح دوہے کو پر مع وقفہ ایک مصرعہ چوبیس ماتراؤں

Page 205: Adab MenHamd o Munajat

تسلیم کرنے سے ماتراؤں کی کمی بیشی کو ہے۔ دوہا چھند لازمی امر اہتمام کے ساتھ تخلیق کرنا میں نظم کی چھند کی تعریف بڑے جامع اور بلیغ انداز ہے۔ ڈاکٹر فراز حامدی نے دوہا یکسر قاصر

:ہے

تیرہ گیارہ ماترا بیچ بیچ وشرام

دو مصرعوں کی شاعر ی دوہا جس کا نام

فن ہے جسے ماتراؤں کے التزام کے ساتھ نظم کرنا نگاری قدرے مشکل اور باریک بینی کا دوہا ہوتی ہے کہ یہ اپنی سادگی کے کار دارد ہے کسی طرح کم نہیں ہے جبکہ حیرت اس بات پر

آاسان سا دکھائی پڑتا ہے۔ دوہے میں ہندی کے الفاظ پھر آاسانی شامل بحر سبب پڑھنے میں بڑا بھی ب ہو جاتے ہیں جبکہ اردو کے الفاظ اس کی ٹیڑھی بحرسے ایسے بدکتے ہیں جیسے زخم پر

اس میں کر توڑ مکھی بیٹھ جائے پر گھوڑا بدک اٹھتا ہے۔ دوہے میں ہندی الفاظ کی روایت کو بھی مل چکی ہے۔ بھی فراز حامدی کی اختراع ہے جسے مقبولیت کی سند اردو الفاظ داخل کرنا

احساسات کی دیکھئے اردو دوہے میں انھوں نے اللہ کی حمد و ثنا سے متعلق اپنے جذبات وآاویز لب و ترجمانی کیسے دلکش و آاہنگ اور لئے رس کی لہجے میں کی ہے۔ دوہے کا دل

:رہے ہیں پچکاریاں چھوڑ

تیرا نام رحیم ہے تو ہی ہے رحمان

آاسان میری بھی بگڑی بنا مشکل کر

٭

تیری ذات عظیم ہے تیرا نام قدیر

بیشک تیرا نام ہی اول اور اخیر

٭

تیرے نافرمان بھی کرتے ہیں تسلیم

آاکاش تک تیری ہی تنظیم دھرتی سے

٭

Page 206: Adab MenHamd o Munajat

میرے مالک دے مجھے ایک الگ پہچان

چٹانوں میں پھول ہوں پھولوں میں چٹان

نگاری پنجاب سے مستعار لی گئی ہے۔ اردو ماہیا کے بانی ہمت رائے شرما ہیں۔ حیدر اردو ماہیا اردو ماہیا تحریک کے سرخیل اور قافلہ سالا رہیں انھوں نے اردو ماہیا عالمگیر سطح پر قریشی جو

آافرین کردار نبھایا ہے۔ فراز کی جڑیں جمانے اور اسے استحکام عطا کرنے میں قابل تحسین و سب سے زیادہ پچاس مضمون لکھ کر اور شائع کرا کر اس کی بنیاد پر حامدی نے بھی اردو ماہیا

آاج یہ صنف سخن سب سے زیادہ مقبول صنف کا میں فولاد تمغہ حاصل کر نصب کیا ہے اور نگاری میں بھی حمد حامدی نے اردو ماہیا فراز چکی ہے اور تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ ڈاکٹر

+۷جو دکھائے ہیں۔ اگرچہ مفعول مفاعیلن /فعلن فعلن فع/مفعول مفاعیلن جیسی بحر کے جوہر مشتمل ہے اور مختصر بھی ہے اس میں محدود ہو کر حمدیہ مضامین باندھنا ارکان پر۷ + ۵

حامدی کے پھولوں کی طرح مہکتے مسکراتے ماہیوں کو بھی سخت مشکل کام ہے۔ لیکن فرازآائی ہو گی۔ انھوں دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ انہیں نظم کرتے ہوئے انہیں کسی طرح کی دقت پیش

یی، خالق، رازق، غالب، قادر، غائب اور حاضر وغیرہ کوءنے اللہ کے اسما اپنے حمدیہ اشعار اتحسن پہنچایا ہے۔ انھوں نے اپنے ماہیوں میں اللہ کی وحدت و معراج پر اردو ماہیا کو میں ڈھال کر

بھی بطور عقیدہ پیش کیا ہے ساتھ ہی اعتراف گناہ اور بخشش طلبی کے مضامین کو عظمت کو :لباس عطا کر دیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے حمدیہ ماہیوں کا

خالق ہے خدایا تو

رزق بڑھا میرا

رازق ہے خدایا تو

غالب بھی ہے قادر بھی

واہ تری قدرت

بھی غائب بھی ہے حاضر

Page 207: Adab MenHamd o Munajat

ہر شے میں تری خوشبو

وقت ترا تابع

ہی تو دن رات میں تو

میں عیش نہ غم چا ہوں

عرض فقط یہ ہے

بس تیرا کرم چا ہوں

بھارت کا نواسی ہوں

فضل ترا چا ہوں

میں بندہ عاصی ہوں

یارب تیرا مجرم ہوں

اپنے گنا ہوں پر

میں واقعی نادم ہوں

ارکان۵۔ ۵ماہیا کی طرح ہائیکو بھی اختصار سے متصف ہیئت ہے۔ اس میں پہلا اور تیسرا مصرعہ ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔ اس ہیئت میں کا پابند ہوتا ہے جبکہ وسطی مصرعے میں سات ارکان کو

یہذا فراز بھی حمدیہ مضامین باندھنے کے لئے قادر الکلام ہونا حامدی کے لئے یہ شرط اول ہے۔ ل کام بھی مشکل نہیں ہے۔ انھوں نے ہائیکوز میں بھی حمد کے گل بوٹے خوب کھلائے ہیں۔

انھوں نے بڑے دلکش اور مؤثر پیرائے میں فضیلت کو اللہ کی قدرت کاملہ اور اس کی عظمت وآان کی تقدیس، ظہور روز میں اللہ شب و بیان کیا ہے۔ اللہ کی وحدت بسم اللہ کی برکت، الوحی قر

کمال کے ساتھ پیش کر کے اپنی انھوں نے ہائیکوز میں جمال و کے دخل جیسے مضامین کو:لیا ہے۔ ملاحظہ ہو منوا لوہا فنکارانہ عظمت کا

Page 208: Adab MenHamd o Munajat

اللہ اکبر

نام بس اللہ کا

سب سے بالاتر

بسم اللہ پڑھو

اس کی راہ نمائی میں

کام کرو اپنا

ذرے ذرے میں

جلوہ ہے موجود تیرا

آائینے میں ہر

اے سب کے معبود

سب تیرے سجدہ گزار

تو سب کا مسجود

آایات آانی قر

وہی جانتا ان کے بھید

جو پڑھتا دن رات

دل کے گوشے میں

ہی رہتا ہے یارب تو

Page 209: Adab MenHamd o Munajat

آائینے میں ہر

کیا ہے وہ اس کی بالائی منزل پر پہنچے ہیں۔ بھی شعار حامدی نے جس صنف کو غرض کہ فراز تاریخ ادب میں انھوں نے اپنے بے مثل اور ناقابل فراموش کارناموں سے اپنا اپنے خاندان کا اپنے

میں جہاں جہاں بھر میں نام روشن کیا ہے۔ دنیا بھر دنیا شہر کا اپنے صوبے کا اور اپنے ملک کا نام گلاب گلاب خوشبو بن کر کا حامدی اردو کے گلشن کھلے ہوئے ہیں وہاں وہاں ڈاکٹر فراز

مہک رہا ہے۔

Page 210: Adab MenHamd o Munajat

شمع ناسمین نازاںآارہ)بہار( یونیورسٹی، سنگھ کنور ویر اسکالر، ریسرچ

ی شاعر حمدیہ کی آارا شہر

حمد کے لغوی معنی تعریف و توصیف کے ہیں۔ یہ تعریف و توصیف اللہ رب العزت کے لئے نہیں کہا جاتا۔ شاعر ی کی اصطلاح میں حمد اس حمد مخصوص ہے۔ ماسوا اللہ کی تعریف کو

کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے مالک سے کہا جاتا ہے جس میں شاعر اپنے عجز تخلیق پارہ کوآاتی ہے۔ یعنی ان مغفرت واستعانت کا طالب ہوتا ہے۔ حمد و مناجات موضوعی صنفوں کی ذیل میں

یا مناجات شاعر ی کی ہو نہیں۔ چنانچہ حمد کے موضوعات متعین ہیں۔ البتہ ہیئت کی کوئی قید مختلف ہیئتوں میں دستیاب ہیں۔

تعلق انسان کی داخلی کیفیات حمد و مناجات داخلی شاعر ی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا تجربہ کرتا کبریائی کا واحساسات سے ہے۔ ایک فنکار اپنے باطن میں خدائے پاک کی عظمت و

ہے اور ذات باری کے مقابلے پر اپنے عجز کا ادراک کرتا ہے۔ اس طرح حمد و مناجات ایک فن تجربی شاعر ی ہے۔ یہ تجربہ انفرادی بھی ہوتا ہے اور اجتماعی بھی۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہر

یی کی ذات والا صفات کا کار یکساں پھر اس تجربہ کو تجربہ یکساں طور پر کرے یا خدائے تعال سے اس میں فرق ہو سکتا ہے۔ ایک فنکار شدت کے اعتبار شدت کے ساتھ پیش کرے۔ کیفیت و

جب اسباب عالم پر غور و فکر کرتا ہے تواس کے دل میں احسان تشکر کے بے پناہ جذبات پیدا جب وہ اس عالم اسباب میں اپنی جامہ پہناتا ہے۔ پھر ہوتے ہیں۔ وہ انہی جذبات کو الفاظ کا

خود کو مجبور، محتاج اور عاجز پاتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اسے کرتا ہے تو غور حیثیت پر سکے۔ اپنی لگا کسی پناہ کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی ہستی کی ضرورت ہے جس سے وہ لو

Page 211: Adab MenHamd o Munajat

سکے اور اس اس کے سامنے پیش کر سکے۔ اس کے سامنے گڑگڑا حاجتوں اور ضرورتوں کو حمد و طالب ہو، یوں اس کی زبان پر مناجات کے کلمے جاری ہوتے ہیں۔ گویا سے استعانت کا

ہے۔ اظہار فنکارانہ عجز کا مناجات خدائے رب العزت کی ذات بے ہمتا اور انسان کی عبودیت و

یہ ہے کہ ایک فنکار ذات محال بلکہ ناممکن ہے حق تو خالق حقیقی کے اوصاف کا احاطہ کرنایی کی انہی صفتوں کو گرفت میں لیتا ہے یا لے سکتا ہے جواس کے تجرباتی معمل میں باری تعال

ادراک محدود۔ انسانی عقل میں خدا محدود ہے اور انسان کی عقل و لا جلوہ گر ہوتی ہیں۔ خدا تصور بھی محدود ہوتا ہے۔ وہ خدا کی لامحدود صفتوں کا احاطہ کی ذات سے متعلق اوصاف کا

آان پاک میں اس طرح پیش کیا گیا ہے :نہیں کر سکتی۔ اس حقیقت کو قر

دئے لکھنے کے لئے سیاہی بنا ’’کہہ دیجئے کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کو ہم ایسا ختم ہو جائے گا اگر جائیں تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں، سمندر

آایت:۱۱پائے گا۔ ‘‘ )سورۂ کہف،رکوع: بھی ممکن نہ ہو ہی اور سمندر بھی مدد کو لائیں تو ،۱۰۸)

بدرجہ کمال احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ تاہم بندوں کو یہ صحیح ہے کہ پروردگار کی ذات صفات کایی کی تسبیح و اس کے طریقے بھی تحمید کریں۔ نیز یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدائے تعال

پر ہر بندگی کے طور و بنائے گئے ہیں۔ اسی احکام ربانی کے پیش نظر فنکاروں نے اظہار تشکر حسب استطاعت عہد میں حمد و مناجات کی ڈالیاں سجائی ہیں۔ مگر حسب توفیق و زبان اور ہر

اا حمدیہ کلمات کہے ہیں۔اا بعض فنکاروں نے عقیدت اور بعض نے تبرک

میں شاعروں اور ادیبوں کی رہا ہے۔ یہاں ہر عہد ادبی مرکز قدیم علمی و صوبہ بہار کا آارہ شہر موجود رہی ہے۔ ان شعرائے کرام میں ایسے شاعروں کی تعداد بھی کم نہیں اچھی خاصی تعداد

آازمائی کی ہے۔ ان کا جنھوں نے حمدیہ اشعار کہے۔ جن حضرات نے اس صنف سخن میں طبع ذیل ہیں۔ یہ تعارف مکمل نہیں۔ اس کی حیثیت مشتے نمونہجمختصر تعارف اور نمونہ کلام درآارہ شہر کے شعرا نے بھی جہاں شاعر ی ازخروارے کی ہے۔ دراصل میرا مقصد یہ دکھانا ہے کہ

آازمائی کی وہیں حمد و مناجات کے اشعار بھی کہے۔ فی الوقت یہ کی دوسری صنفوں میں طبع کام اجمالی طور پرہی ممکن ہے۔ تفصیلی جائزہ تحقیق طلب بھی ہے اور دقت طلب بھی۔ امید ہے

Page 212: Adab MenHamd o Munajat

موضوع بنائیں گے تاکہ متعلقہ فنکاروں کہ محققین شاعر ی کے اس گوشے کو اپنی تحقیق کا سکے۔ کی فنکارانہ کاوشوں کے ساتھ انصاف کیا جا

اس کی حمدیہ اشعار کہنے والے شعرا کے کچھ نام اس میں شامل ہونے سے رہ جاتے ہیں تو پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ انہیں نظرانداز کیا گیا ہے یا ان کی محنت پر

موقع نہ مل سکا۔ ان حضرات میں شیخ کلام مجھے دیکھنے کا بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کاآاروی، سید نصرت انور آاروی، علی یاس آاروی، مانوس سہسرامی، بے باک امیر حسین نصرت

بھوجپوری اور پروفیسر انیس امام بطور خاص شامل ہیں۔ کلام کی عدم فراہمی میری کوتاہ نظری کی ذکر کیا شعرا کا نہیں۔ بہرکیف ذیل میں چند ہو سکتی ہے میری متعصبانہ ذہنیت کی ہرگز دلیل تو :جاتا ہے

بلگرام میں پیدا ہوئے۔ پھر صغر کو ء ۱۸۳۴اپریل ۸بلگرامی صفیر بلگرامی:سید فرزند احمد صفیرآا گئے۔ سحر آارہ رہے۔ عظیم شاعر لکھنوی، ضمیر لکھنوی اور غالب دہلوی کے شاگرد سنی میں

صحافی، نقاد، ناول نویس اور قواعد داں تھے۔ کئی اخباروں کے علاوہ بے شمار کے علاوہ ماہرآاپ کے والد کا آاپ کی یادگار ہیں۔ آاپ کی وفات تصنیفات ء۱۸۹۰مئی ۱۲نام سید عبدالحق تھا۔

:ہوئی۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہوں کو

جوانان مضامین پر ہے سایہ رب سبحاں کا

بسم اللہ سے تاج اپنے دیواں کاۓبنا طغرا

دنیا کے قیل و قال سے کیا کام ہے صفیر

میں بندۂ خدا ہوں اسی کے پناہ کا

آاپ کی ولادت آاپ کے والد کا۱۸۳۹جولائی ۱۰خواجہ فخرالدین حسین سخن: نام ء کو ہوئی۔ خواجہ محمد جلال الدین حسین المعروف بہ حضرت مصب تھا۔ صرف ایک سال کی عمر میں

قلعہ معلی میں استانی تھیں نے اپنے ان کی نانی جو والدہ کا انتقال ہو جانے کے سبب سخن کوآارہ میں وکالت۱۸۶۷ء سے ۱۸۶۲غالب سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ پاس رکھ لیا۔ سخن کو ء تک

ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ ’’دیوان۱۸۹۴پروان چڑھایا۔ سب جج کے عہدہ سے سخن کو و کی اور شعر :سخن‘‘ کلام کا مجموعہ ہے۔ کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو

Page 213: Adab MenHamd o Munajat

کلیم و خرقہ ہو جب تک فقیروں کی پوشش

زبانوں پر ہو روا جب تلک کہ نام خدا

مرتے دم تک مجھ کو فراموش ہو سب کچھ لیکن

نام محبوب خدا، نام خدا یاد رہے

آاپ مولوی نبی بخش کے فرزند آاروی: آاپ کی ولادت ضمیر الحق قیس ۲۹ء میں ہوئی۔ ۱۸۷۴تھے۔ آاپ کے۱۹۳۵ستمبر ء میں رحلت فرما گئے۔ حضرت شمشاد لکھنوی کے ارشد تلامذہ میں تھے

کلام کا مجموعہ ’’بہارستان خلد،معروف بہ جذبات قیس‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ حمد :کے اشعار ملاحظہ ہوں

اے مالک ملک کبریائی

زیبا ہے تجھے تیری خدائی

تو ذات و صفات میں ہے یکتا

تجھ سا کوئی تھا نہ ہے نہ ہو گا

آاپ کی ولادت آاروی سید حسن بدر آاروی:مولوی امیر بدر محمد ہاشم کے فرزند ارجمند تھے۔ آاپ صفیر۱۸۷۵ آاواز اور خوش ء میں ہوئی۔ بلگرامی کے ارشد تلامذہ میں تھے۔ نہایت خو ش

آاپ کا شعر ملاحظہ کا ہے۔ حمد دیوان ’’خمخانۂ بدر‘‘ کے نام سے مشہور الحسان شاعر تھے۔ :ہو

بندہ ازل سے ہوں میں خدائے کریم کا

ن کے میم کا حلقہ ہے گوش دل میں محمد

عاشق دہان و زلف و قد مستقیم کا

کرتا ہے حل عقدہ الف لام میم کا

آاروی کے قتیل دانا آاپ بدر آاپ کا اصل نام محمد قائم رضوی اور تخلص قتیل داناپوری تھا۔ پوری:آاپ کی پیدائش آاپ بڑے عالم اور خوش کو ء ۱۸۹۴ نومبر ۱۸جانشیں اور شاگرد تھے۔ ہوئی۔

Page 214: Adab MenHamd o Munajat

آاپ کی وفات ۲۵الحان شاعر تھے۔ کئی مجموعے اردو اور فارسی غزلوں کے شائع ہو چکے ہیں۔

آاپ کا ہوئی۔ بنیادی طور ء کو۱۹۸۵جولائی شعرا میں ہوتا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ شمار نعت گو پر :ہو

آاخر نشان منزل اول سراغ مقصد

ہے سنگ شاہراہ عشق الف اللہ اکبر کا

کر قد دلبر کا بجا یکتا ہے دل پر نقش اتر

قلم ہے دست قدرت میں الف اللہ اکبر کا

آاپ کاپورا آاروی: آاپ کی ولادت نام سید واقف ء۱۹۱۶مارچ ۱۸شاہ فضل امام اور تخلص واقف تھا۔ آاپ کے والد شاہ منظر امام ارول کے رئیس و آاپ نے اپنے ننہال محلہ میں ہوئی۔ زمیندار تھے۔

عمادی سے اصلاح سخن لیا۔ بڑے زود رکھا تھا۔ شاعر ی میں تمنا مکان بنا چودھرانہ میں ہی اپناآاواز شاعر تھے۔ اور گو خوش

آائے بتائیں ہم کہ اس دنیا میں کیا لیتے ہوئے

آائے خدا کا ذکر نام مصطفی لیتے ہوئے

آاپ کا آاپ حفیظ بنارسی: ء سے۱۹۶۷ء میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۲۳نام ایم اے حفیظ ہے۔ آارہ میں بحیثیت انگریزی پروفیسر درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ریٹائرمنٹ تک مہاراجہ کالج

آاپ کی کئی کتابیں منظر آاپ کے یہاں شیرینی، سادگی اور عام رہے۔ اردو میں آا چکی ہیں۔ پر :صفائی خوب ہے

جنت الفردوس کے وارث وہی ہوں گے حفیظ

ہیں جو دل سے تابع فرمان رب العالمین

آاپ کا ماہر آارہ میں اکتوبر پورا آاروی: آاپ موضع برہ بترہ نام شیخ محمد عارف اور ماہر تخلص ہے۔ آازاد۱۹۲۶ آازمائی کی ہے۔ اردو شاعر ی میں آاپ نے تمام اصناف سخن پر طبع ء میں پیدا ہوئے۔

آاپ بڑے کہنہ مشق اور عظیم شاعر نظم میں سب سے پہلی نعت ماہر آاروی نے ہی کہی ہے۔

Page 215: Adab MenHamd o Munajat

آاپ کی کئی کتابیں منظر عام ہیں۔ بڑھتی عمر کے باوجود لکھنے پڑھنے کا حوصلہ برقرار رکھا ہے۔ آا چکی ہیں :پر

ظاہر و باطن اس دنیا میں ہر اک جلوہ تیرا ہے

باطن میں جو پوشیدہ ہے وہ بھی مولا تیرا ہے

رکھتا ہے امید کرم کی تیرے وہ

ماہر تیرا فاسق و فاجر یا اللہ

آاپ کا ء کو جگدیش پور۱۹۴۰جنوری ۲۵خاں اور تاج تخلص ہے۔ نام تاج الدین احمد تاج پیامی:آاپ کے والد عبد میں تولد آاپ نے عطا کاکوری اور قتیل الحامد خاں حامد ہوئے۔ بھی شاعر تھے۔

آازمائی کی ہے۔ کئی کتابیں منظر داناپوری سے اصلاح سخن لیا۔ مختلف اصناف پر آاپ نے طبع آا چکی ہیں۔ شاعر ی کے علاوہ افسانہ نگاری اور تنقید لوہا منوا چکے نگاری میں بھی اپنا عام پر

:ہیں

حیراں ہے اپنی عقل کہ تعریف کیا کروں

آائے تو حمد و ثنا کروں کچھ بھی سمجھ میں

آائینہ اب تک خدا معلوم کس کو ڈھونڈتا ہے

ہزاروں جلوے اس کے سامنے ہیں پھر بھی حیراں ہے

یی پایہ شاعر قتیل آاپ اعل یق:اصل نام سیدشاہ محمد طلحہ رضوی اور برق تخلص ہے۔ طلحہ رضوی برآاپ کی پیدائش آارہ میں بحیثیت لکچر ر۱۹۴۰داناپوری کے فرزند ہیں ء میں ہوئی۔ جین کالج

آاپ نے نمایاں مقام بنا آارہ کے شعرا و بحال ہونے کے بعد شہر لیا۔ ’’شایگاں ‘‘ اور ادبا میں :’’شمعاب سخن‘‘ مشہور کتابیں ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہوں

ہے چہرہ چشم عقل و دل جدھر ہے اور جہاں تک ہے

آاسماں تک ہے یہ کس کے حس کا جلوہ زمیں سے

Page 216: Adab MenHamd o Munajat

اپنی پہچان قائم کرنے والے چند اہم شاعروں ء کے بعد۱۹۶۰سلطان اختر:اردو کے شعر ی افق پر آاپ کی پیدائش شمار میں سلطان اختر کا سہسرام میں ہوئی۔ کافی کو ء ۱۹۴۰ستمبر ۱۶ہوتا ہے۔

آارہ میں قیام رہا ہے۔ مانوس سہسرای سے مشورہ سخن کیا۔ والد کا نام الحاج شرف الدین دنوں تک آاپ کا اہم مقام ہے۔ کے محکمہ جیل میں ملازم ہیں۔ اردو کے جدید ہے۔ حکومت بہار شعرا میں

:نمونہ کلام ملاحظہ ہو

کوئی نہیں ہے تیرا ثانی یا اللہ

ہر شئے فانی تو لافانی یا اللہ

آائینوں کو بھی حیرانی یا اللہ

کہاں گئے چہرہ نورانی یا اللہ

آارہ میں۱۹۵۱جنوری ۱۲کلیم کلیم:محمد کلیم الدین خاں عرف شاہد شاہد ء میں دودھ کٹورہ الخالق خاں ہے۔ علیم اللہ حالی سے شرف تلمذ رہا۔ کئی تصانیف کے نام عبد تولد ہوئے۔ والد کا

انعامات سے نوازے گئے ہیں۔ اس وقت سپرنٹنڈنٹ کسٹم مالک ہیں اور بہت سارے اعزازات و ہیں۔ غزل کے علاوہ نظم، رباعی اور نعت بھی خوب کہتے ہیں۔ نمونہ کلام مامور کے عہدہ پر :ملاحظہ ہوں

آاب بقا بھی ہے زہر تیرا پلا کے

ترا کرم ہے مجھے یاد قہر بھی تیرا

آاپ کا نام جمیل اختر اور محبی تخلص ہے۔ جائے پیدائش شیام نگر پنماں، شیر گھاٹی، جمیل اختر: نام حاجی محب الرحمن مرحوم ہے۔ ملازمت لیکچر ر ایچ کا ء ہے۔ والد۱۹۵۹گیا اور سال پیدائش

آارہ اور مشغلہ درس و تالیف ہے۔ اردو ، فارسی اور انگریزی زبان پر تدریس و تصنیف و ڈی جین کالج :گہری دسترس حاصل ہے۔ بڑے ذہین اور وسیع خیال شخصیت کے مالک ہیں

گناہ گار ہیں ہم پھر بھی تیرے بندے ہیں

آاستاں دیکھیں سوائے در کے ترے کس کا

آازاد ہو جاتا میں سارے بندھنوں کو توڑ کر

Page 217: Adab MenHamd o Munajat

مگر دل میں کسی کا خوف رہ رہ کر چمکتا ہے

آاپ کے اسلام پور ء کو۱۹۶۳مئی ۱۶حافظ محمد اسرار عالم سیفی: ضلع نالندہ میں تولد ہوئے۔ آاپ کو آادمی تھے۔ علم و ادب سے والد مولوی محفوظ عالم مرحوم صوفی منش اور مذہبی خیال

ادب کی خدمت میں گہری دلچسپی تھی۔ سیفی صاحب ہائی اسکول میں معلم ہیں اور علم و بھی ذوق آاپ غزل کے شاعر ہیں، لیکن مرثیہ، حمد، نعت کا پر یوں تو مصروف ہیں۔ بنیادی طور

ہیں۔ نمونہ کلام رکھتے ہیں۔ پروفیسر کلیم عاجز کے ارشد تلامذہ میں ہیں اور ان سے کافی متاثر:ملاحظہ ہو

ہے منور نور بھی اور نور کا محور بھی تو

تو ہی ہے تحسین فطرت اور مہ و اختر بھی تو

بخش دے سیفی کو مولا ہے کرم تیرا بڑا

بندۂ ناچیز یہ ہے بحر عصیاں میں پڑا

Page 218: Adab MenHamd o Munajat

الدین خاں وارثی کبیر ڈاکٹربھوجپور)بہار( پور، جگدیش

میں آائینے کے مناجات و وارثی:حمد جامی حکیم

الدین جامی وارثی جگدیش پوری)مرحوم( کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ حکیم فرید ۲۹موت نے انہیں ہم سے آاپ اردو ادب میں درخشاں ستارے کی طرح جگمگاتے رہے۔ مگر

تک زندۂ ان کی شاعر ی انہیں رہتی دنیا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا کر دیا۔ مگر ء کو۱۹۹۴مارچ جاوید بنائے رکھے گی۔

بہ مقام ضلع کے ایک تاریخی قصبہ جگدیش پور بھوجپور ء کو۱۹۱۹فروری ۱۹حکیم جامی وارثی آاپ کے والد کا نام حکیم عبدالمجید وارثی تھا اپنے زمانہ کے ایک نامور جو پٹھان ٹولی پیدا ہوئے۔

یلہی نے انہیں بے پناہ گویائی آاپ بچپن سے ہی نہایت ہی ذہین واقع ہوئے اور قدرت ا طبیب تھے۔ سے بھی نوازا تھا۔

حکیم جامی وارثی نے ابتدائی تعلیم قاری عبدالرزاق صاحب جگدیش پور کے مقامی مدرسہ سے آارا میں حاصل کی اور اس کے بعدعربی، فارسی اور اردو کی مزید تعلیم کے لئے مدرسہ وحیدیہ

آاپ ہمیشہ ہی مدرسہ کے ہونہار طلباء میں داخلہ لیا اور فوقانیہ کی تعلیم حاصل کی۔ دوران تعلیم شمار کئے جاتے رہے اور اپنے اساتذہ کے درمیان بھی ہردل عزیز رہے۔ بعد ازاں اپنے خاندانی روایات کے مطابق حصول علم طب کے لیے پہلے پٹنہ میں داخلہ لیا اور طب کی تعلیم مکمل

یی۱۹۴۱کی اور پھر جامعہ طبیہ کالج دہلی سے بھی مدت تعلیم ختم کر کے ء میں طب کی اعلآاخری ایام تک آائے اور زندگی کے سندحاصل کر کے اپنے وطن جگدیش پور بھوجپور)بہار( چلے

Page 219: Adab MenHamd o Munajat

مشغلہ بھی دامن گیر رہا۔ بقول پروفیسر علیم یہیں مطب کرتے رہے اور ساتھ ہی شعر و شاعر ی کا:رضوی برق کہ

وہ حکیم خوش نوا وہ عامل دست شفا

پیکر اخلاص و یکتائے فن شاعر ی

ہوا۔ فن شاعر ی میں اپنا استاد مولانا جذبہ شعلہ بار دبا ہوا شاعر ی کا دہلی کے دوران قیام شعر و تسلیم کیا اور کچھ عرصہ تک ان سے مشورہ لکھنو کو مانجام جہاں احقر موہانی وارثی مدیر

انجیل خطیب الہند حضرت محمد شاہ قائم چشتی سخن لیتے رہے اس کے علاوہ فاضل توریت و نظامی علامہ قتیل داناپوری )پٹنہ( سے بھی اصلاح سخن لی اس طرح دونوں بزرگ استادوں سے

ریاض فن سے پروان چڑھایا جس کا فیضان سخن حاصل کر کے اپنے فطری شعر ی میلان کو :اظہار انھوں نے اپنے مقطع کے اس شعر میں یوں کیا ہے

یل یر کا اور فیض قتی ہے کرم یہ حضرت افق

یی سخن ور ہو گیا دیکھتے ہی دیکھتے جام

صنف میں طبع سوال ہے انھوں نے شاعر ی کی ہر جہاں تک حکیم جامی وارثی کی شاعر ی کاآاپ کی شاعر ی داخلی اور خارجی کیفیتوں کے اظہار آائینہ ہے۔ یہ کا ایک خوشنما آازمائی کی ہے۔

ایک ایسا گل دستہ ہے جس میں طرح طرح کے پھول چنے گئے ہیں۔ کہیں تصوف کے گہرے محبت کی جھلکیاں ہیں۔ کہیں زندگی کے تجربات نظم کہیں عشق و راز بیان ہوئے ہیں تو

ہے کہ ان کی شاعر ی یہ بات ضرور مطالعہ ہے مگر فسیات انسانی کا گہرانکہیں ہوئے ہیں توآاپ سلسلہ وارثیہ سے منسلک تھے اور جیسا میں تصوف کا کہ معلوم ہے رنگ غالب ہے چونکہ

صوفی شاعر گزرے ہیں جن میں ایک نام جامی کہ اس وسیع وارثی سلسلہ میں بے شمار مشہورآاتا ہے۔ جامی وارثی بھی شمار وارثی کا ء میں انیسویں صدی کے ایک صوفی حضرت۱۹۴۹میں

یی شریف ضلع بارہ بنکی )یوپی( کے ایک فقیر، بلند شاعر ، حاجی حافظ سید وارث علی شاہ، دیوآاباد)یوپی( کے ذریعہ داخل سلسلہ ہوئے۔ مشہور ادیب حضرت اوگھٹ شاہ وارثی بنچھرایوں ضلع مراد

آال انڈیا اا تیس برسوں تک پر وابستہ رہے اور یہاں ریڈیو پٹنہ سے قلمی طور حکیم جامی وارثی تقریب کے اردو پروگرام میں کبھی بحیثیت کلام شاعر کبھی محفل سخن کے تحت اور کبھی نعتیہ کلام

Page 220: Adab MenHamd o Munajat

آاپ کے کلام ہند پاک کے مشہور رسالوں اور اخباروں و میں شرکت فرماتے رہے اس کے علاوہ آارا)بہار( کنور میں بھی اکثر و بیشتر شائع ہوتے رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ویر سنگھ یونیورسٹی

کے زیر اہتمام ان پر تحقیقی کام بھی مکمل ہو چکا ہے اور ڈاکٹر ایس ایس حسین احمد، صدرآارا کی زیر شعبہ اردو و خان ساکن جگدیش پور، نگرانی، نیاز احمد فارسی ویر سنگھ یونیورسٹی،

آارا( نے پی ایچ ڈی کی گراں قدر سند حاصل کی ہے۔ بھوجپور)

آاپ کے کلام کا انتخاب ہے جو حکیم جامی وارثی صاحب دیوان شاعر ہیں۔ افکار زیور طبع جامی آاراستہ ہو کر آانے والا ہے۔ زینت حیات حکیم جامی وارثی کا ایک مختصر جلد سے ہی منظر عام پر

آاپ کے اس مختصر دیوان میں چند منقبت بھی زیر مجموعہ حمد و مناجات، نعت و اشاعت ہے یی کے علاوہ مناجات، نعت پاک اور منقبت شامل ہیں۔ حمد باری تعال

حکیم جامی وارثی نے اصناف حمد، مناجات، نعت، منقبت، غزل، قطعات، رباعیات اور نظم وغیرہیہذا انھوں نے غزل کی ہیئت اا غزل کے شاعر ہیں۔ ل آازمائی کی ہے لیکن وہ فطرت میں کامیاب طبع

غزل کے میں ہی حمد و مناجات بھی کہی ہیں کیونکہ وہی حمد و مناجات مقبول ہوئی ہیں جو اسلوب میں کہی جاتی رہی ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ حمد و مناجات گوئی ایک مشکل فن ہے اور ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ حمد و مناجات صرف وہی شعرا کہہ پائے ہیں جو عشق

یلہی میں سرشار نظر یہذا حکیم جامی وارثی بھی عشق ا یی میں سرشار رہے ہیں۔ ل آاتے خدائے تعالآاداب اور لوازمات کی پابندی بھی کی ہے اور بڑی ہیں اور انھوں نے حمد و مناجات کے تمام

احتیاط سے حمد و مناجات کہی ہیں۔

یی کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ وہ حکیم جامی وارثی کی ایک حمد باری تعالیلہی کے ا تھاہ سمندر میں کس قدر غوطہ زن نظر :آاتے ہیں بذات خود عشق ا

اے خالق دو عالم ہر سمت تو ہی تو ہے

جلوہ ہر ایک شئے میں تیرا ہی چار سو ہے

ہر سمت جا کے ہم نے باغ جہاں میں دیکھا

تجھ سا کوئی حسیں ہے تجھ سا نہ خوبرو ہے

تو رونق چمن ہے، تو زینت گلستاں

Page 221: Adab MenHamd o Munajat

ہر شئے میں تیری رنگت ہر گل میں تیری بو ہے

بلبل ہو یا کہ قمری کویل ہو یا پپیہا

ہر ایک کی زباں پر گلشن میں تو ہی تو ہے

تنہا دل حزیں کو سودا نہیں ہے تیرا

پروانہ اک زمانہ تیرا ہی شمع رو ہے

میں ڈھونڈوں دیر و حرم میں تجھ کو کیوں کر بھلا

آارزو جب قرب رگ گلو ہے تو جان

در پر انہیں کے جامی یہ جان تن سے نکلے

آارزو ہے ارماں یہی اپنا یہ دل کی

مناجات دراصل اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ حکیم جامی وارثی اس میں بھی اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اور خوب خوب مناجات کہی ہیں۔ ایک مناجات کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں اور

دیکھیں کہ دربار رب العزت میں وہ کتنی عجزوانکساری کے ساتھ اس کی حمد و ثنا میں گم نظر :آاتے ہیں

رہے اس کی زباں پر کیوں نہ صدا اللہ ہو

جس کی نظر کے سامنے جب تو ہی تو رہے

پائے گا وہ ضرور تجھے راہ عشق میں

دل سے اگر کسی کو تیری جستجو رہے

مٹ جاؤں تیری یاد میں اسطرح ہم نشیں

آارزو رہے باقی نہ میں رہوں نہ میری

آارزو آارزو ہے تو بس اتنی دل میں کچھ

مہماں ہمارے دل میں فقط ذات ہو رہے

Page 222: Adab MenHamd o Munajat

آاج خانۂ دل ہی میں مل گئے جامی وہ

مدت سے جن کو ڈھونڈھتے ہم کو بکو رہے

آائینہ دا رہیں اور غرضیکہ حکیم جامی وارثی کی تمام کاوشیں اسی معبود حقیقی کی محبت کا زندگی کا طرۂ امتیاز بھی سمجھا ہے۔ دنیویانھوں نے بلاشبہ اسے اپنی دینی و

Page 223: Adab MenHamd o Munajat

یی نشیط ڈاکٹرسید یحیمحل)مہاراشٹر( ایوت ضلع ،۴۴۵۲۰۳ گاؤں کل پوسٹ ’’کاشانہ‘‘

نغمے مناجاتی اور ی شاعر حمدیہ کی ساحل

لت انسانی کا عبودیت کا آاج کے شعور فطر لب اول سے یی ہے۔ انسانیت کی تاریخ کے با مقتض علم الاجسام کے متواتر کوششیں اور حیاتیات و حکمت کی مختلف النوع و تک علم و متمدن دور

آادمی کے ذہن سے یہ شعور مٹا لس عجز حیرتناک تجربے بھی کا نہیں سکے۔ ’’عبودیت‘‘ احسالت متعینہ چونکہ منفعت و آادمی کی حیا مسرت، تکلیف و مضرت سے عبارت ہے۔ رنج و نتیجہ ہے۔

قرار اور سود فراغ، اضطراب و و تونگری، فقر راحت، پریشانی و شادمانی، ناکامی و کامرانی، تنگی ولہ حیات کے ناگزیر مراحل ہیں، جو وحشت ناک بھی ہیں اور فرحت بخش بھی۔ ان و زیاں را

آاپ کو بے بس و آادمی اپنے مجبور سمجھتا ہے تو گھاٹیوں کی دشواریوں کے سامنے جب اعانت کے لیے وہ ایسی ہستی کا وجود ب اور کر لیتا ہے جواس کے لیے معین استعانت و

یی تسلیم کر لیتا ہے اور اپنے ذل ساز اور حاکم و کار ومستعین بن سکے۔ اسی کو وہ وکیل و مول لگائے رکھنے میں اسے لیتا ہے۔ اس سے لو شعار بنا اپنا افتقار کے تحت اس کی بندگی کو

لن قلب نصیب ہوتا ہے اور انبساط وسرور کے کیف سے اس کارواں رواں جھوم اٹھتا ہے۔ اب اطمینالل اعتصام ہے تو وہی ذات، حل المشکلات ہے تو وہی ذات۔ محافظ و مستجیب اس کے لیے قاب

آاگے بھی اسی ذات کو تسلیم کرتے ہوئے وہ اپنے احتیاجات کی رفع رسانی کے لیے اسی کے آاگے جھکتا ہے اور اسی کے قدموں پر لل اپنا سر ہاتھ پھیلاتا ہے، اسی کے ٹیکتا ہے۔ اگرچہ یہ عم

لت نفس کا غایب تذلل کا دستور یہی ہے۔ اسی میں بندے کی معراج ہے۔ اپنے مظہر ہے لیکن عزیی سے اس طرح کی سرگوشی اسے احتیاجات سے مستغنی کر دیتی ہے۔ تفکرات و وساوس سے مول

Page 224: Adab MenHamd o Munajat

آاقا کی معیت و اس کے قلب و لط ذہن خالی ہو جاتے ہیں۔ قربت اسے نہال کر دیتی ہے اور فرلش محبت میں نغمہ ہائے توصیف و عقیدت و تمجید وارفتہ وار اس کی زبان سے نکلنے لگتے جو

اا یہی ثنا آاگے اپنی فروتنی کا لورااخوانی ’’حمد‘‘ کہلاتی ہے اور اس وراء ہیں۔ اصطلاح ذات کے سپردگی کا اعتراف ’’مناجات‘‘ کہلاتا ہے۔ اقرار، عجز اور خود

شخصیت ہے۔ ادب کی خدمت وہ آاور شرف الدین ساحل علاقۂ ودربھ کی اردو ادب میں قد ڈاکٹر خاص میدان رہا ہے اور ابھی تک تنقید کے ذریعہ کرتے رہے ہیں۔ ادب میں تحقیق ان کا تحقیق و

بیسیوں کتابیں لکھ چکے ہیں۔ وہ شاعر ی میں بھی شغف رکھتے ہیں اور اپنے چار مجموعۂ کلام وہ قارئین کودے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی)ملی( اور دینی کام بھی وہ کرتے رہتے

بڑی گہری ہے۔ ان کی حمدوں ا بالیدہ ہے اور دینی کتابوں پران کی نظر ہیں۔ ان کا مذہبی شعور بڑایی ان کی ور مناجاتوں میں جاں سوزی اور اضطراب والی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ رسمیت سے مبر

آافرینی اور قلبی وارفتگی نمایاں ہے۔ حمدوں میں وجد

لد درخشاں کی تعریف کرے۔ قطرۂ شبنم میں وہ طاقت کہاں ذرۂ خاک کی کیابساط کہ وہ خورشی چھو آاسماں کو کر کہ بحر بیکراں کے وصف بیانی میں رطب اللسان رہے۔ خشک تنکا کبھی اڑ

لگ پامال پہاڑوں کی رفعت ریت کے ذرے کیا نہیں سکتا۔ ریگ زاروں کی وسعت بھلا جانے۔ سن کہ یہ اعلان ہے کہ ’’مانفدت کلمت اللہ‘‘ )سورۃ جب کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ اللہ رب العزت کا

ہی نہیں سکتا، ساحل اسی لیے مارے اللہ کی تعریف وہ کر ( تو بندۂ عاجز لاکھ زور۲۷لقمان: :کہتے ہیں

لد خدائے قیوم کس زباں سے میں کروں حم

کام دیتی ہے یہاں پر نہ فراست نہ علوم

آایات و نشانیوں کو لت کاملہ کی یی کی قدر آایات میں اللہ تعال آانی انھوں نے تاریخی واقعات اور قر سجایا ہے۔ ایک حمدیہ نظم میں توہر شعر تلاش کیا ہے اور ان کی مثالوں سے حمدیہ نظموں کو

لت تلمیح کا :برجستہ استعمال کیا ہے میں صنع

نے سینۂ کوہ چیر کر تو

حاملہ اونٹنی کیا پیدا

Page 225: Adab MenHamd o Munajat

لل حق کے لیے لی اہ سرفراز

تیری قدرت سے پھٹ گیا دریا

فم کو لن مری امر سے اپنے اب

کر کے ظاہر، شرف جہاں میں دیا

فیی کے واقعات کی طرف اشارہ فیی اور حضرت عیس فح،حضرت موس مذکورہ بالا اشعار میں حضرت صالبد کی فتوحات کی طرف بھی پلٹا ذہن حضرت خالد پڑھ کر کیا گیا ہے۔ دوسرے شعر کو کھاتا بن ولی

انداز نہایت موثر کے تئیں اپنی دلی کیفیات کو ہے۔ نہایت صاف اور سادہ زبان میں شاعر نے خدا ہیں۔ وصف اس میں شیرینی اور شعریت دونوں موجود میں پیش کر دیا ہے۔ زبان سادہ ہونے کے با

لز عجز نمایاں ہے۔ استقامت و شاعرانہ کے بالمقابل بندے کا ساحل کی حمدیہ شاعر ی میں عج لہجہ ان کے اشعار میں جذب کی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ میں ڈوبا ہوا افتقار استمداد اور ذل و

آاقائی کا احساس ان کے حمدیہ اشعار کا آاقا کی خاص وصف ہے۔ وہ بندے کی مجبوری اور کے جاتے بلکہ قلب کی گہرائیوں میں خدا میں نہیں کھو اوصاف بیانی میں تخیلات کی دنیا

آانی اعلان کے استحضار کو وہ محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’لاتدرک الابصار‘‘ کے قرآاباد :دکھائی دیتی ہے باوجود ساحل کے حمدیہ ترانوں میں محسوسات کی دنیا

تیری قدرت کے شاہکار حسیں

لگ حنا و موج صبا پھول، بر

بحر، دریا، ندی، پہاڑ، دھنک

گلستاں، کھیت، وادی و صحرا

لت نمو دے کر بیج کو قو

لض سخت کا سینا شق کیا ار

حمدیہ نغمات کے لیے نہ افسردگی کی کیفیت اور نہ طمطراق کے رویے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دونوں حالتوں کے بین بین عجزوانکساروالی بندے کی بے خودی زیادہ موزوں ہوتی ہے۔ حمد

لد دینے موثر ہوتی ہے۔ دم گھٹا تیزی غیر و کی خوفناکی کی تند صرصر نگار شاعر کے لہجے میں با

Page 226: Adab MenHamd o Munajat

نگاری کے لیے ناموزوں ہوتی ہے۔ بلکہ یہاں والی خاموش فضا کی سی کیفیت بھی حمدلدنسیم کے جھونکوں سا احساس حمدیہ اشعار میں بندے کی دل بستگی اور شگفتہ سری کے توبا لیے ضروری ہوتا ہے۔ حمدیہ اشعار میں نہ پہاڑی دریاؤں کاساشور چاہئے، نہ خاموش سمندروں کی

لر لب دیجور سی ہیبت ناکی بلکہ جھرنوں کی سی مدھم گنگناہٹ چاہئے۔ مہ نیم روز کی تمازت اور شآاتا۔ وہاں کے مہیب اندھیروں والی کیفیت پیدا کرنے والا لہجہ بھی حمدیہ شاعر ی کو راس نہیں

آاسمانوں میں چٹخی چاندنی کی مدھم لیکن فرحت بخش روشنی کی سی کیفیت چاہئے۔ روح تو مطمئن نہیں قلب کو پرور خنکی سے معمور فضا کی ٹھنڈک چاہئے۔ قلب کو مضطرب کرنے والا

اللہ ہے اور ذکر ذکر لہجہ حمدیہ نغمات کے لیے ضروری ہے۔ کیونکہ حمد اللہ کا کرنے والا باعث ہوتا ہے۔ ’’الابذکراللہ تطمئین القلوب‘‘ میں اس کی شہادت نہیں اطمینان کا اضطراب کا

آانی چاہئیں۔ رنگ و فطرت کی تمام خوبیاں در کہ حمدیہ شاعر ی کے اندر ہے۔ غرض موجودلن حمد مزین ہونا چاہئے۔ ایسی حمدیں کیف پرور اور روح افزا آاویزیوں سے دام نکہت کی تمام دل

یی کے تئیں بندوں کا آافریں ہوتا ہے۔ پر تعبدانہ جذبہ بڑا ہوتی ہیں۔ ان میں اللہ تعال کیف اور وجد لت شان حمد کے ہر شعر سے عیاں ہوتی ہے۔ انابندے کا انتہائی تذلل اور رب الع لمین کی رفع

آاتا ہے۔ جو خوبیوں کی حامل حمدیہ شاعر ی میں پاکیزہ خیالات اور مطہر جذبات کا ایک دریا امڈ عملیوں کی کثافت دور ہو جاتی بد لے جاتا ہے اور بہا خاشاک کو ہمارے گنا ہوں کے خس و

ہے۔ حمدیہ شاعر ی کبھی بھی برائے شعر گفتن نہیں رہی بلکہ بندے کے عبدیت سے معمور بڑا مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے۔ مقصدی پہلو وجود پاتی ہے۔ اس کا کر جذبات سے تحریک پا

یل کی حمدیہ شاعر ی میں یہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ خیالات کی بلند ساح پروازی اور جذبات کی روانی ان کی حمدیہ شاعر ی کا خاص وصف رہے ہیں۔

مشاہدہ کرتے جاتی ہے۔ کہکشاؤں کا وسیع ہوتا ہے۔ اس میں ساری کائنات سما کینواس بڑا کا حمدآا کا وقت خدا یقین اللہ کی قدرت کاملہ کا کرنے کے بعد غور ہے۔ اپنی ذات پر ہی حمد جانا یاد

شمار نشانیوں پر ہے، قدرت کی بے حساب نعمتوں کا اعتراف حمد و حمد ہے۔ اللہ کی بے حد ہے۔ وہاں اللہ کی بے پایاں غور و فکر بھی حمد ہے۔ الفاظ کے ذریعہ جہاں اللہ کی بڑائی حمد

آاگے بندے کی معاجزانہ خاموشی بھی حمد کے دائرے میں شمار ہوتی ہے۔ بقول قدرت کے یی :روم

Page 227: Adab MenHamd o Munajat

خود ثنا گفتن زمن ترک ثناست

لل ہستی و ہستی خطاست کیں دلی

یعنی خدا کی ہستی کے سامنے ہماری ہستی ہی کیا ہے۔ اے خدا!اگر میں تیری تعریف کرتا ہوں ہی تصور بھی وجود ہے۔ لیکن تیری ہستی کے سامنے میری ہستی کا کہ میرا تو اس کا مطلب یہ ہوا

ہو جائے گی۔ یہ بات تعریف کے بالکل صد تیری تعریف کرنے لگوں تو غلط ہے۔ چنانچہ میں اگرآاگے یہ بھی کہتے ہیں کہ تیری تعریف نہ کرنا ہی دراصل تیری تعریف ہے کہ بندے کی یہ رومی

یل نے انفس و اپنی آافاق کو اوقات اور اس کی کیا بساط کہ خدائے برتر کی تعریف کرے۔ ساح :حمدوں میں سمانے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں

آافتاب کا منظر حمد ہے

لش انقلاب کا منظر گرد

بادلوں کے سیاہ جھرمٹ میں

تیز رو ماہتاب کا منظر

تتلیوں کے پروں کی نقاشی

لگ گلاب کا منظر لن رن حس

لش مخمل پہ کروٹیں لیتا فر

زندگی کے عذاب کا منظر

لت بیکسی میں کانٹوں پر حال

لر ثواب کا منظر لق کا شو

لد طفلی سے عہد پیری تک عہ

لت بے حساب کا منظر نعم

لر ساحل کو روک دیتا ہے فک

حیرت و استعجاب کا منظر

Page 228: Adab MenHamd o Munajat

آاتا ہے۔ جو آازاد کا ایک قول یاد آاپ نے فرمایا تھا اس ضمن میں مولانا :کہ بڑا معنی خیز ہے۔

آادمی جو کچھ جانتا ہے اور جان سکتا ہے وہ عقل کے تحیر اور یہ کے بارے میں ’’ذات ال‘‘ ادراک کی درماندگی کے سواکچھ نہیں ہے۔

آازاد کے خیالات کا آاخری شعر میں صاف دکھائی دے رہا ہے۔ پرتو ساحل کی حمد کے مذکورہ :کہ یہ کہنا کا واقعی میر

خرد کنہ میں اس کی حیران ہے

گماں یا پریشاں پشیمان ہے

یلہی میں بندے کی عاجزی کا لت ا :لگائی تھی یہی صدا ہے۔ درد نے بھی تو مظہر معرف

یارب! یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں

آاپ سے باہر نہ جاسکے دوڑے ہزار

بھی استعمال ہوا ہے۔ تشبیہہ واستعاروں کے علاوہ تلمیح، ساحل کی حمدوں میں صنعتوں کاآایات کی پیوند آانی یات النظیر، ابہام وغیرہ صنعتیں ان کے یہاں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ قر مر

آان فہمی پر کاری اور ان کے منظوم ترجمے بھی حمدیہ شاعر ی میں ملتے ہیں۔ جوساحل کی قر دلالت کرتے ہیں۔

لت قلبی اور حزینہ پہلو ساحل نے حمدوں کے ساتھ ساتھ مناجاتیں بھی کہی ہیں۔ ان میں رقلہ ایزدی میں ہاتھ پھیلا کر نہایت بیچارگی کی حالت میں وہ لع احتیاج کے لیے بارگا نمایاں ہے۔ رف

یلہی کی درخواست کرتے ہیں۔ فقر مدد و لت ا ذل کی کیفیتوں سے بھرپور ان کی مناجاتوں و اعان لہجہ نیاز مندانہ و لب غالب ہیں۔ مناجاتوں میں ان کا استغاثہ کے پہلو میں استعانت، استمداد و

یلہی میں دست بہ دعا ہوتے ہیں تو لہ ا آامیز اور تعبدانہ ہے۔ عجزوانکسار کے ساتھ وہ جب بارگا رقت ان کی مناجاتوں میں زبردست طاری ہو جاتے ہیں۔ ان جذبات و کیفیات سے مملو جذبات ان پر

رونا رویا ہے وہاں آافرینی پائی جاتی ہے۔ اپنی مناجاتوں میں جہاں انھوں نے اپنی ذات کا اثر :کائنات )عالم انسانیت( کے لیے بھی گڑگڑایا ہے

کر حفاظت کہ بہت ہی کم ہے

Page 229: Adab MenHamd o Munajat

روشنی میری نگاہوں میں خدا

لن عالم کے لیے انسان اکمل بھیج دے ام

العطش کا شور ہے رحمت کے بادل بھیج دے

رقم شخص ہے۔ لکھنے پڑھنے کے شوق میں انھوں نے اپنی بینائی المطالعہ اور زود ساحل کثیر ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کا انھیں بہت نہایت کمزور کی طرف مطلق توجہ نہیں دی۔ اس لیے نظر

قلق ہے۔ مناجات کے پہلے شعر میں انھوں نے اللہ سے اپنی بینائی کی بھیک مانگی ہے اورلن عالم کے لیے استعانت کی درخواست کی ہے۔ ان کی مناجاتوں میں دوسرے شعر میں ام

لق وارفتگی اور والہانہ انداز پایا جاتا ہے۔ زاری اور عاجزی و تضرع و انکساری کی کیفیات میں بھی شو

آاقا اس حق کو ساحل کے نزدیک ’’دعا‘‘ بندے کا پورا کرتا ہے۔ اس لیے ان کی حق ہے اور ہی ایسا عمل ہے دکھائی دیتا ہے۔ عبادتوں کے بعد دعا مناجاتوں میں تذبذب نہیں وثوق کارفرما

ملتا ہے۔ ساحل کی مناجاتوں میں اس رشتے کا معبود کے رشتہ کا غایت اظہار و جس میں عبدیی اور بندے انداز اظہار بڑے موثر لن استغن میں ہوا ہے۔ ساحل کی بعض مناجاتوں میں معبود کی شا

باہم مربوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بڑی شان والا مالک کے غایت تذلل کی انمل حالت کوآاقا دو توجہ کرتا ہے تو وہ لمحہ ہر جب اپنے پھٹے حال غلام پر جانب افتخار و انبساط کا ہوتا ہے۔

خوشی آاقا کے توجہ فرمانے پر غلام کو محسوس ہوتا ہے تو خوشی اور فخر اپنے توجہ فرمانے پر کو عشقنہ‘‘ کی یہ کیفیت کتنی وجد و ہوتی ہے اور فخر سے اس کا سینہ پھولنے لگتا ہے۔ ’’عشقنی

آافریں ہے۔ ساحل کی مناجاتوں میں بندہ ایسی کیفیات کوبارہامحسوس کرتا ہے۔

زبان سے نکلے ہوئے برجستہ کلمات ہوتے ہیں۔ اس لیے مناجات احتیاج کے موقع پر و چونکہ دعاآاپ ان میں حسن کاری تو آاویزی بدرجہ اتم ہوتی ہے۔ ساحل کی مناجاتوں میں نہیں ہوتی لیکن دل

آاہنگ تڑپا دلوں کو کو حسن شعر ی کے دلکش و دلربا نمونے نہیں ملیں گے مگر دینے والا صحیح حسن ہوتا ہے۔ اضطراب ہی مناجاتی شاعر ی کا ملے گا کہ تضرع و ضرور

اا یہ اردو ساحل اگر اپنی تمام حمدوں اور مناجاتوں کا ایک علاحدہ مجموعہ ترتیب دے دیں تو یقین ادب کے سرمایہ میں بیش بہا اضافہ ہو گا۔ پاکستان کے شعرا اب اس طرف توجہ دینے لگے ہیں

لر آا چکے ہیں، ہند میں ابھی شعرا خلوص و اور حمد و مناجات کے سیکڑوں مجموعے منظ عام پر

Page 230: Adab MenHamd o Munajat

انہماک کے ساتھ اس جانب متوجہ نہیں ہوئے۔ ایسی حالت میں ساحل کی چند حمدیں و غنیمت ہے۔ مناجاتیں بسا

Page 231: Adab MenHamd o Munajat

یعاجزہنگن گھاٹوردھا)مہاراشٹر( ضلع گھاٹ، ہنگن

مظاہرہ کا مناجات و حمد میں نظموں آازاد کی اعجاز منصور

جی کے ذریعے ہوا ہے تعین صحیح معنوں میں ن م راشد اور میرا نظموں کے خدوخال کا آازاد میں اور انہیں کے زمانے میں یہ نظم نہ صرف ہیئت کی سطح پر تبدیل ہوئی بلکہ اس کے مواد

آازاد نظم کے تعلق سے یہ بات فراموش نہیں کی جاسکتی کہ اس بھی انقلابی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ آازاد نہیں ہے۔ اس میں جو آازاد نظم بحر کی ہیئت پابندیوں کی حامل رہی ہے۔ سچ پوچھئے تو

کے تمام ارکان جذبے اور خیال کے تابع ہوا کرتے ہیں جب ارکان اختیار کی جاتی ہے اس بحر مصرعے کی ساخت میں طوالت یا اختصار سے چھوٹا بڑا کرتی ہے تو کی کمی بیشی مصرعے کو

کام لیا جاتا ہے۔ اس میں مروجہ الفاظ اور تراکیب کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ بلکہ زندگی کے نئےآاج کی زندگی کی و لب محرکات، نئے احساسات، نئے خیالات، نئے اسالیب، نیا لہجہ اور

سچائی ان کی نظموں میں کھ کر لطف دیتی ہے۔ غرض موجودہ نظم قدیم نظم کے ڈھانچے سےآادمی بہت مختلف ہے یعنی اس نظم کاکینوس مسلسل اسی انداز سے وسیع ہو رہا ہے جیسے

آاگے بڑھ رہا ہے۔ اس کینوس پر وجودی تنہائی، قلبی اضطراب، ذہنی مادی اور سائنسی لحاظ سے آاسودگی کی تلاش، اقتصادی ناہمواری، خلفشار، حسیاتی روئیے، زندگی کی گرانباری، روحانی

ہجرت مکانی اور تعصبانہ فسادات کی گوناگوں تصویریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ تاجرانہ جبر، روزگار و اس نظم کی کل کائنات جدت طرازی ہی ہے۔ پچھلے دس برسوں میں یہ نظم جس سج دھج کے

آائی ہے وہ اپنے طرز میں کی بھر نہیں بلکہ دنیا ہی میں جدید احساس اور طرز فکر ساتھ سامنے ےمنا سموئے ہوئے ہیں اور یہ کار جانے والی شاعر ی کے بھی بہت سے رنگ اپنے اندر

آاشکار کئے ہیں ان میں کچھ مخصوص شعرا کی طرف نشان دہی کی جنہوں نے اعجاز کی طرح

Page 232: Adab MenHamd o Munajat

اا جا نیازی، صلاح الدین پرویز، محمد الایمان، منیر آاغا، ساقی فاروقی، اختر وزیر سکتی ہے۔ مثلآافاق قلمکاروں کی بھیڑ علوی، ندا آازاد نظم کے فاضلی، شہر یار اور زبیر رضوی وغیرہ ان شہرہ میں

بھی کم نہیں ہے۔ ان کے یہاں بھی تعلق سے ودربھ کے نامور کتابی شاعر منصور اعجاز کا قد تاثیر نظموں کی وجہ سے ان گنت رسائل کے ہیئت کے نئے تجربے ملتے ہیں یہ مختصر اور پر

علاوہ ادب پرور ’’ شب خون‘‘ ، ’’شاعر ‘‘ ، ’’توازن‘‘ ، ’’اسباق‘‘ اور ’’قرطاس‘‘ وغیرہ میں بھی اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔

آاج کے عہد کے مسائل کی منھ بولتی تصویریں ہیں ان کی نظموں میں منصور اعجاز کی نظمیں علامت، استعارے، تشبیہہ، تمثیل، اشارے، کنائے وغیرہ کے جلوے ہی نہیں دکھاتی دیتے بلکہ

حیات انسانی کا انتشار، رشتوں کی شکست، سیاست کی شعبدہ گری، تعلیمی الجھنیں، عظمت، بے ساختہ پن، سچائی اور صاف گوئی، اسلوب میں جدت طرازی، ماضی کی بازیافت، لہجہ کا

کے رنگ بکھراؤ اور عصر حاضر توانائی، سماجی اخلاق کا جذبات و احساسات میں شدت و سوچ کا واحد یقین ہے۔ ان کی بامعنی نظمیں پڑھ کر بخوبی اندازہ و مظاہرہ ان کی فکر ڈھنگ کا کائنات کی احساسات سے ہٹ کر زندگی و سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے ذاتی جذبات و لگایا جا

گہرائی و گیرائی سے اگر نظر انداز نہیں کیا ان کی نظموں کے موضوعات کو دوسری حقیقتوں کوآافاقیات کی منزل تک پہنچاتا ہوا جائے تو پرکھا جانچا اور محسوس ہو گا اسلوب کا اظہار ہی انہیں

سکتی ہے کہ ان کی شاعر ی میں وقت کے المیہ کا اور یہ بات بھی پورے وثوق سے کہی جا سکتا ہے۔ نوحہ سنائی دیتا ہے ایک دن انہیں تاریخی طور پر لافانی بنا جو

سمندر موجزن دکھائی دیتا ہے۔ یہ تاثیر انہیں کہیں مستعار نوع ان کی تخلیقات میں حقائق کا بہر ابلاغ کی راہ کو ہموار کرنے کے لینے کی ضرورت نہیں پڑی چونکہ حساس شاعر اپنے اظہار و

لئے ہمہ وقت چوکس ذہن، وسیع النظر اور کشادہ دل سے کام لیا کرتا ہے اس شاعر نے بھی اپنی پیش کیا ہے۔ ہنر مختصر الفاظ میں کہنے کا تقدس پذیر چھوٹی چھوٹی نظموں میں بڑی بات کو

آائی ہوئی محسوس ہوتی ہیں مشاہدے کے طور پر یہ بعض جگہ تو عالم کونین کی وسعتیں سمٹ :نظم ملاحظہ فرمائیں

کربلا:تمہارے ظلم کی/میرے صبر کی

Page 233: Adab MenHamd o Munajat

جب انتہا ہو گی/ تو پھر ایک کربلا ہو گی

مقصدی جواز اور حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ ایوت محل بصورت دیگر مضمون قلمبند کرنے کاآازاد کے منفرد لہجے کے منصور اعجاز نے اپنی فن شناسی کی قدرت کے مد نظر شہرت یافتہ

ثبت کر کے سوچ کی مہر و نظم جیسی صنف کے سینے پر حمد و مناجات کی تقدس پذیر فکرآازاد نظم غور فرمائیں۔ اس نظم میں ایمان کی تازگی کا اعلان کیا ہے۔ بایں ہمہ ’’تخلیق کائنات‘‘ یہ

وہ جذبہ بھی پنہاں ہے جسے ہم دعائے کے ساتھ ساتھ مناجات کا خالق دوجہاں کی حمد و ثنا :کرتے ہیں مستجاب تصور

آابی یہ زمیں نہ بناتا/ہم خلاؤں میں تیرتے رہتے / تو تخلیق کائنات:اگر تو نے زمیں کی کوکھ میں / تپش دے کر/ نے خورشید کو ذخیرے نہ سموئے ہوتے / ہم فضاؤں میں نمی چوستے ہوتے / تو

چمکایا نہ ہوتا / فصلیں اگتی اور پکتی کیسے ؟/ ہماری دنیا اندھی/ اندھیاری ہو جاتی/ ربآاسمان کی/ بے پناہ دولت اور خلافت/ہمیں عطا کر دی)کتنا سخت اللعالمین!/ تو نے زمین و

الرحیم!/ ہمیں امتحان ہے (/ قیامت قریب ہے اور ہم/ بے چین و پریشان/ بے حس و حرکت/ یا غفور ہیں / تجھے بھی یہی دے / ہم پر امید ایمان کی حرارت سے پگھلا دے / کل کائنات پر پھیلا

مقصود ہے نا۔ ؟

ایک اور حمد و ثنا کے تیری ہے۔ اس علم حکمت کے بعد رضا راضی ہوں اسی میں جو میں تو یہ یقین بھی اہل زمرے میں خدائے ذوالجلال کی عرفانیت، معرفت اور وحدانیت کی عبدیت کا

یی دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی ذات اقدس ہی پائیدار اور دائمی ہے۔ ایمان کو دعوت تقو :یہ انداز بھی خوب ہے خدا کا وصف اور اس کی مدحت سرائی کا

لینے کی/کوئی شئے نہیں ہے / خدا انصاف ہے لینے کی/نظروں میں سما پائندہ:خدا/چھو آائندہ وآائندہ و مجبور و / احساس ہے /حوصلہ ہے / خدا بے کس کی تلوا رہے / مظلوم کی ڈھال ہے / خدا

پائندہ ہے / ازل تا ابد

آاسودگی کا پر اور :ضامن محسوس ہوتی ہے امید مناجات کی یہ کیفیت بھی روح کی

امید ندامت:جہاں جتنا بڑا ہے /گناہ اتنے بہت/میرے گناہ میری عمر سے بھی زیادہ ہیں / مگر پر بھی نہیں خدا۔۔۔ / تیری رحمت کی انتہا

Page 234: Adab MenHamd o Munajat

اا بخشش کا :ذریعہ ہے احساس گناہ بھی یقین

یہ گناہ ہم کیوں کرتے اندیشہ:جب تیری مرضی بغیر/پتہ کوئی ہلتا نہیں /سانس بھی چلتی نہیں / پھرہیں /کیا ہم دوزخ کا ایندھن ہیں ؟

:قربان جائیے میں مناجات کی اس انفرادی کیفیت پر آاخر اور

مانگتی رہی/ یارب!۔۔۔ / ہمارے دن ماں :میری ماں /مصلے پہ بیٹھ کر/یقیں کے ہاتھ اٹھا کر/دعا دے پھیر

کی لائق مطالعہ نظمیں بھی ہیں، خارجی افکار یہ کہ منصور اعجاز کی کچھ اور داخلی و مختصرمتنوع سماجی جو

علائم اور مسائل سے مکالمہ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ شاعر نے معنی خیز لفظیات، رموز آاباد کی ہے۔ برائے تصدیق ان انگیز دنیا اپنی نظموں کی ایک خوبصورت فکر برت کر استعارات کو

پر لہجے اور اسلوب سے بجا طور میں ان کے اپنے لب و کی نظمیں دیگر شعرا کی بھیڑ ذکر کچھ زیادہ ہی ہوا کرتا سکتی ہیں۔ کیونکہ اچھے شاعر کے یہاں ماتم کائنات کا پہچانی جا

آاتے ہیں۔ ہے اور منصور اعجاز ہر نکتہ نگاہ سے مندرجہ بالا موضوعات پر پوری طرح قابض نظر آاواز جرس‘‘ اور ۱۹۹۳فسادات اور بابری مسجد کی مسماری کے تعلق سے ء میں۱۹۹۴ء میں ’’

مراٹھی درد‘‘ علاوہ ازیں گجرات فسادات پر نظموں کا نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ’’چاندنی کا:اعجاز بام ہو چکے ہیں۔ ان دنوں بقول منصور ء میں شائع ہو کر طشت از۲۰۰۳ترجمہ مارچ

زمانہ ہو کوئی بھی بربریت ساتھ ہے ساقی

کبھی طائف کبھی کوفہ کبھی گجرات ہے ساقی

مجموعہ بھی اشاعت کے مراحل طے کر نظموں کا آازاد اسی نفس مضمون کے مابین بنام ’’زجز‘‘ مسودہ اور مراٹھی نظموں کے اردو ترجمے رہا ہے۔ ’’بازگشت‘‘ کے نام سے ایک نثری تخلیق کا

یی منصور کا اپنے ادبی مقصد میں اعجاز کو کام بھی بڑی عرق ریزی سے جاری ہے۔ خداوند تعالآانے والی نسلوں کا لمحہ لمحہ کامیابی و کامرانی عطا کرے۔ تاکہ اردو ادب کے ارتقائی سفر پرچم

آامین۔ آامین ثم کی رہنمائی کے لئے ہمیشہ ہمیشہ لہراتا رہے

Page 235: Adab MenHamd o Munajat

عادل ہارون رشیدناگپور(مہاراشٹر کامٹی)ضلع

مناجات و حمد میں کتب درسی رائج میں مہاراشٹر

آان مجید میں سورۃ نور یی فرماتا ہے کہ: ’’کائنات کی ہر قر یی کی ثنا میں اللہ تعال بیان شے اللہ تعالآان شریف میں کم از (سورۃ الانعام، )۲(سورۃ فاتحہ،)۱کم مندرجہ ذیل پانچ سورتیں ) کرتی ہے۔ ‘‘ قر

یی کے۵(سورۃ سبا اور )۴(سورۃ کہف، )۳ (سورۃ فاطر لفظ ’’الحمد‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیی کی صفات ظاہر ہوتی ہیں۔ دنیا یی ہیں۔ جن سے اللہ تعال زبان میں اللہ کی ہر ننانوے اسمائے حسن

یی کی حمد و ثنا نثر نظم کی صورت میں بیان کی گئی ہے ہمارے اردو کے شعرا نے بھی و تعال کی عمر اور صلاحیت کے اعتبارسے درسی حمد و مناجات تحریر فرمائی ہیں ان میں سے طلبا

کتب میں حمد و مناجات ہر درجے ہر جماعت میں شامل نصاب ہیں۔

ہشتم ’’بال بھارتی‘‘ ہے۔ نویں اور ریاست مہاراشٹر میں جودرسی کتب رائج ہیں ان کا نام اول تا بارہویں جماعت کی کتابوں کا دسویں جماعت کی کتابوں کا نام ’’کماربھارتی‘‘ اور گیارہویں و

نام ’’یوک بھارتی‘‘ رکھا گیا ہے۔

کی ہے اس نصابی کتاب تیار اعت کے لئے جوممہاراشٹر ریاست کی اردو لسانی کمیٹی نے اول ج کے دو حصے ہیں بال بھارتی حصہ اول، بھارتی حصہ دوم اور ان دونوں ہی کتابوں میں حمد و

:مناجات ہے اس کے بول یوں ہیں مناجات شامل ہیں۔ پہلے حصے میں جو

خدا تو بڑا ہے

تجھی سے دعا ہے

بنا ہم کو اچھا

Page 236: Adab MenHamd o Munajat

بنا ہم کو سچا

ہمیں ایک کر دے

ہمیں نیک کر دے

: اور دوسرے حصے میں نظم کے بول اس طرح ہیں

بولو بچو اللہ اللہ

کون ہے مالک

آاقا کون ہے

کون ہے حاکم

کون ہے راجا

بولو بچو اللہ اللہ

شامل حمد یہ سلسلہ بارہویں جماعت تک جاری ہے۔ دوسری جماعت میں جو حمد و مناجات کا :نصاب ہے اس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں

اللہ سب کا مالک ہے

سب کا داتا ہے اللہ

ساری دنیا پر اپنا

پیار لٹاتا ہے اللہ

یی سے یوں مخاطب ہے ہر تیسری جماعت کا :طالب علم اللہ تعال

اے میرے خدا ہے تجھ سے دعا

تو مجھ کو بنا ہمت والا

دے عقل مجھے سوچوں سمجھوں

کیا اچھا ہے کیا کام برا

Page 237: Adab MenHamd o Munajat

:ہے جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں کردہ حمد چوتھی جماعت میں تاجدار تاج کی تحریر

اے خدائے پاک اے پروردگار

دونوں عالم پر ہے تیرا اختیار

تیرے در پر سر جھکاتے ہیں سبھی

تیری رحمت کے ہیں سب امیدوار

یمعیل میرٹھی کی حمد شامل ہیں۔ جس کی ابتدا پانچویں جماعت کی درسی کتاب میں محمد اس:ان اشعار سے ہوتی ہے

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا

آاسماں بنایا کیسی زمیں بنائی کیا

پیروں تلے بچھایا کیا خوب فرش خاکی

اور سر پہ لاجوردی اک سائباں بنایا

چھٹی جماعت میں ادارہ بال بھارتی کی اردو لسانی کمیٹی نے سروراحمد کی تحریر کردہ حمد :شامل نصاب کی ہے۔ فرماتے ہیں

سب کا تو حاجت روا ہے اے خدا

ہر گھڑی انعام ہے ہم پر ترا

حد نہیں ہے تیرے احسانات کی

شکر تیرا ہو نہیں سکتا ادا

ساتویں جماعت میں روش صدیقی کی جو حمد شریک نصاب ہے اس کے بول کچھ اس طرح :ہیں

آاغاز تیرے نام سے

اے کار ساز دو جہاں

Page 238: Adab MenHamd o Munajat

رحمت تری سب سے سوا

تو سب سے بڑھ کر مہرباں

اے مالک روز جزا

یی ہم کو دکھا راہ ہد

حمد پڑھائی جاتی ہے وہ سراج الحق حافظ لدھیانوی کی ہے۔ جس کے آاٹھویں جماعت میں جو :اشعار یہ ہیں آاخر کے دو

نے راز فطرت بتائے ہیں تو

نے علم کیا کیا سکھائے ہیں تو

نے بخشا ہے نطق کا اعجاز تو

لم راز آادمی کو محر کر دیا

حمد نویں جماعت سے رائج ہوتی ہے اس جماعت میں جو درسی کتاب ’’کمارتی بھارتی‘‘ جو :آاخری شعر اور مقطع یوں ہے شامل نصاب ہے وہ حضرت داغ دہلوی کی ہے۔ جس کا

مجھ گنہ گار کو جو بخش دیا

نے تو جہنم کو کیا دیا تو

یغ کو کون دینے والا تھا دا

نے جو دیا اے خدا تو دیا تو

آابادی کی تحریر دسویں جماعت میں نظیر :شامل کی گئی ہے کردہ حمد اکبر

بو ہو کے ہر اک پھول کی پتی میں بسا ہے

آاب ستاروں میں ضیا ہے موتی میں ہوا

تنہا نہ ہمارے ہی وہ شہ رگ سے ملا ہے

نزدیک ہے وہ سب سے جہاں اس سے بھرا ہے

Page 239: Adab MenHamd o Munajat

آایا جب چشم کھلی دل کی تو پہچان میں

گیارہویں سے درسی کتاب کا نام ’’یوک بھارتی‘‘ ہو جاتا ہے اور اس جماعت میں شاعر مشرقآافاق مناجات کے پندرہ اشعار شامل نصاب ہیں ان میں سے چند ڈاکٹر محمد اقبال کی شہرہ

:ہیں منتخب اشعار قارئین کی نذر

آازاد کر خرد کو غلامی سے

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے

بق دے بی سوز صدی دل مرتض

جوانوں کو سوز جگر بخش دے

مرا عشق میری نظر بخش دے

اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ معانی کی کو بارہویں جماعت کے نوجواں طلبایہ مناجات پڑھنے کے لئے دی جاتی ہے :

قلب محزوں کی صدائے درد ہے سنتا ہوا

رہ کے شہ رگ سے قریں وہ دھڑکنیں بنتا ہوا

زندگی کی ابتدا ہو یا کہ اس کی انتہا

ھپکیاں دیتا ہواتہر جگہ موجود ہے وہ

اس کی مرضی پر ہے مبنی دو جہاں کا ہر نظام

اک صدائے کن پہ اس کے ہر عمل ہوتا ہوا

تیرگی ہو یا کوئی خطرہ ہو تو موجود ہے

نور میں ڈھلتا، عصائے موسوی بنتا ہوا

بے سکوں ماحول میں محرومیوں کے درمیاں

Page 240: Adab MenHamd o Munajat

آاسرا ہے حوصلہ دیتا ہوا بس ترا ہی

گلشن ارض کے پھولوں کی ادا میں تو ہے

دشت افلاک کی خاموش فضا میں تو ہے

رعد میں برق میں بادل میں گھٹا میں تو ہے

صبح میں شام میں ظلمت میں ضیا میں تو ہے

میرے اس دل میں ہے تو دل کی دعا میں تو ہے

درد میں تو ہے مرے، میری دوا میں تو ہے

دشت و صحرا میں ہے، گلشن کی فضا میں تو ہے

کی نوک میں، پھولوں کی قبا میں تو ہے خار

یا کو تو بجا اپنے اشعار پہ ہے فخر عط

تہہ میں معنی کی ہے تو حرف و نوا میں تو ہے

مناجات میرا تو سن یا سمیع

منجے خوش توں رکھ رات دن سمیع

بھلا کر بھلا منج سوں جو ہوئیگا

برا کر برا منج سوں جن یا سمیع

مرے دوستاں کوں تو نت دے جنت

مرے دشمناں کو اگن یا سمیع

ابادان کر ملک میرا سوتوں

بسا سوتوں دے مرا من یا سمیع

Page 241: Adab MenHamd o Munajat

کی کئی یونیورسٹیوں میں گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ تک اردو پڑھائی جاتی ہے اور ریاست مہاراشٹر پی ایچ ڈی اردو زبان میں کرنے کے مواقع حاصل ہیں۔ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی درسی کتب میں بھی حمد و مناجات شامل ہے۔ میرے خیال میں ناگپور یونیورسٹی سے اس موضوع پر

آاف فلاسفی کی ڈگری بھی تفویض کی گئی ہے۔ ڈاکٹریٹ

***

یل، ساحل کمپیوٹرس، ناگپور جن کے توسط سے ان پیج تشکر محمد رفیع الدین ولد شرف الدین ساحفائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

آائی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ آارگ، کتابیں ڈاٹ فری ڈاٹ کام کی250اردو لائبریری ڈاٹ مشترکہ پیشکش

A presentation of http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, and http://kutub.250free.com