complete research on punishment for blasphemy with references

9
ال : تگزدر عامر رسل ک م م ت ش(ت اہ سال) ک روش م لم س ا ف------ اد ؟ئے ارتدسالت یا بر بنا ر ائے توہین پر سزائے موت۔۔۔۔۔بر بن رسالت توہین( نظر میں "مت کیے افقہا) ) ۱ سوال( : وخص جں کوئی شاست میسلمان ریے کہ مایا جاتا ہ پر یہ بت عام طور ہ کا علنی ;pma& رسولگر گستاخیے؛وہ اے زندگی بسر کرتا ہ حیثیت س کیسلمان شہری مسے شخص کے لیےے کہ ایتفاق ہس پر ا7 بین امت کے ما9 ے اام فقہااب کرے تو تم ارتک کااتہ با یے کیی رو سلمی ک اس7 ہے ۔ علم قتل(E دF ح) جرم کی شرعی سزاس7 ص ا خا درست ہے ؟ جواب :ہ ر چہ اگعلوم ہوتا ہے کقی مراجعت سے م تحقی فقہ اسلمی کی7 مصادررس رائے پ7 ے ابت سی نست کم9 ے اام فقہے،تاہی رائے ہ یہ گروہ کیے ایک فقہا کےمت ک9 ے اے کہ علماعلوم ہوتا ہستقصا سے م7 یں ہے ۔ ا درست نہS وی قطعا کا دعجماع ا ائیل دو آرا پ درجہ ذی اں منن کے ہ9 ملے میں اس معا7 مسئلے میں نزاع ہے ۔ اس7 بین ا ما ہیں : جاتیE دF س جرم کی شرعی ح7 ص اد ہو یا عورت،خااہ وہ مرجرم کو،خو یہ کہ ایسے م ایک پر قتل کیا جائے گا ۔ کے طورنث ب أحمد،لیامگردوں،ااے شن ک9 لک اور ا ماامبق یہ ایت کے مطار روا مشہو ;pma& نظر ہےویہ کا نقطہق بن راہسحا سعد اور ا) 1 ( ۔تاخیں گس شان میہ وسلم کی علیی ال صل الے کہ رسول ہ رائے یہ دوسریعلن کرتا ایمان کالت پر عدم اا شخص درحقیقت رساب کر کے ایسرتکا اس جرم کا7 کے اسے9 نچہ ا مرتد ہوجاتا ہے ۔ چنارج اورسلم سے خا ;pma& ا اصل دائرہس کے نتیجے میں در7 اور اE دF ی حس ک9 لت اا رس7 وہینائے تر بنہ بی،نہ کائے گاد سزاے موت دی جئے ارتد بر بنا پر ۔عی کے طور شرامگردوں،اے شان ک9 م أبوحنیفہ،ا _ماس رضی ال عنہ،ان عبا اب ;pma& نظر سیدنا یہ نقطہیہ ال کک رحم مال امبق ایت کے مطا ہے ۔ ایک روال کوفہ کام اوزاعی اور اہ _ما ثوری،ای رائے ہے یہ بھی) 2 ( ۔ أبو یوسف رحمہ الام امتوفی:) 183 ( ھ" ب الراج کتا" میں فرماتے ہیں : الم سب رسول مسل أيا رجل صلى عليه وسلم أو البه# كذت من;pma&;pma&هقد كفر بال وب;pma&;pma&ان أو عابه أوتنقصه ف الرأةقتل: ل ت أبا حنيفة قالرأة ، إل أنك ال ، وكذل قتلن تاب وإل زوجته ، فإ) 3 ( . '' یا وہب کی تکذین کی9 ، ا علیہ وسلم پر سب وشتم کیای ال صل ال نے رسولسلمان جس م ۔ اور( ا د ہوگیس طرح وہ مرت7 اور ا) س نے کفر کیا9 ل شبہ ا ہوا تو با مرتکبا تنقیص ک یب جوئی عین کی9 اےاپن) ر وہ ر اگل گئی ۔ پھے نک نکاح س7 س کے عقد9 بھی اوی بیس کی9 تیجے مین ا کے ن(ادارتد) س7 اافیے معے لیس ک9 و اب ت ت(ائےل ہوجرہ داخا دوبں میلم ;pma& اس دائرہاور)ےوبہ کرل ت( جرم سےس7 ا

Upload: muneeb-rehman

Post on 14-Feb-2016

221 views

Category:

Documents


2 download

DESCRIPTION

This is the complete version of research for the punishment of blasphemy , and contains the references from all of the great Musim scholars of history.

TRANSCRIPT

عامرگزدرت�ا�ل :

م ر�سل ک م� ت ------ف ا�سلم ک ر�و�ش م(ت ا�ہ سا�ل) ش�

توہین� رسالت پر سزائے موت۔۔۔۔۔بر بنائے توہین� رسالت یا بر بنائے ارتداد ؟

(فقہاے ا"مت کی نظر میں)

عام طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ مسلمان ریاست میں کوئی ش��خص ج��و : ) سوال۱( مسلمان شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرتا ہے؛وہ اگر گستاخی& رسول کا علنی��ہ کا ارتکاب کرے تو تمام فقہاے ا9مت کے مابین ا7س پر اتفاق ہے کہ ایسے شخص کے لیے خاص ا7س جرم کی شرعی سزا (حFدE) قتل ہے ۔ علم7 اس�لمی ک�ی رو س�ے کی��ا ی�ہ ب��ات

درست ہے ؟ مصادر7 فقہ اسلمی کی تحقیقی مراجعت سے معلوم ہوتا ہے ک��ہ اگ��ر چ��ہجواب :

فقہا کے ایک گروہ کی یہی رائے ہ���ے،تاہم فقہ��اے ا9م��ت ک��ی نس��بت س��ے ا7س رائے پ��ر اجماع کا دعوی قطعاS درست نہیں ہے ۔ ا7ستقصا سے معلوم ہوتا ہے کہ علماے ا9مت ک��ے مابین ا7س مسئلے میں نزاع ہے ۔ ا7س معاملے میں ا9ن کے ہ��اں من��درجہ ذی��ل دو آرا پ��ائی

جاتی ہیں :Eد��Fایک یہ کہ ایسے مجرم کو،خواہ وہ مرد ہو یا عورت،خاص ا7س جرم کی شرعی ح

کے طور پر قتل کیا جائے گا ۔ مشہور روایت کے مطابق یہ ا_مام مالک اور ا9ن ک��ے ش���اگردوں،ا_مام أحمد،لی���ث ب��ن

۔)1(سعد اور اسحاق بن راہویہ کا نقطہ& نظر ہے دوسری رائے یہ ہے کہ رسول ال صلی ال علیہ وسلم کی شان می��ں گس��تاخی کے ا7س جرم کا ارتکاب کر کے ایسا شخص درحقیقت رسالت پر عدم ایمان کا اعلن کرتا اور ا7س کے نتیجے میں در اصل دائرہ& اسلم سے خارج اور مرتد ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ ا9سےEد��Fبر بنائے ارتداد سزاے موت دی ج��ائے گ��ی،نہ ک��ہ ب��ر بن��ائے ت��وہین7 رس��الت ا9س ک�ی ح

شرعی کے طور پر ۔ یہ نقطہ& نظر سیدنا ابن عباس رضی ال عنہ،ا_مام أبوحنیفہ،ا9ن ک�ے شاگردوں،ا_م���ام ثوری،ا_مام اوزاعی اور اہل کوفہ کا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق ا_م��ام مال��ک رحم��ہ ال ک��ی

۔)2(بھی یہی رائے ہے میں فرماتے ہیں :"کتاب الراج" ھ)183(متوفی:ا_مام أبو یوسف رحمہ ال

أو عابه أوتنقصه فقد كفر بال وب&&انت من&&هكذ#به ال عليه وسلم أو صلىأيا رجل مسلم سب رسول ال . )3(زوجته ، فإن تاب وإل قتل ، وكذلك الرأة ، إل أن أبا حنيفة قال: ل تقتل الرأة

جس مسلمان نے رسول ال صلی ال علیہ وسلم پر سب وشتم کیا ، ا9ن کی تکذیب کی یا وہ'' ا9ن کی عیب جوئی یا تنقیص کا مرتکب ہوا تو بل شبہ ا9س نے کفر کیا (اور ا7س طرح وہ مرت��د ہوگی��ا) ۔ اور ا7س (ارتداد) کے نتیجے مین ا9س کی بیوی بھی ا9س کے عقد7 نکاح س��ے نک��ل گئی ۔ پھ��ر اگ��ر وہ (اپن��ے ا7س جرم سے) ت�وبہ کرل�ے(اور دائرہ& اس��لم می��ں دوب�ارہ داخ�ل ہوج�ائے) ت��ب ت��و ا9س ک�ے لی�ے مع�افی

ہے،ورنہ دوسری صورت میں ا9سے قتل کردیا جائے گا ۔ ا7س طرح کے ج��رم ک��ا ارتک��اب اگ��ر ک��وئی خ��اتون کرے تو ا9س کا حکم بھی یہی ہے ۔ تاہم یہ واضح رہے کہ ا_مام أبو حنیفہ رحمہ ال فرماتے ہیں کہ عورت

۔''کو قتل نہیں کیا جائے گا ائمہ حنفیہ کا ا7س پر مزید کہنا یہ ہ�ے ک�ہ قت�ل ک�ی ی�ہ س�زا اگ�ر خ�اص گس�تاخی رسول کی حFدE7 شرعی ہوتی تو پھر ا7س ج��رم ک��ے مرتک��ب غی��ر مس��لم ش��ہری ک��و بھ��ی سزاے موت ہی دی جاتی ۔ جبکہ ا9س کی سزا ائمہ حنفی��ہ ک��ے نزدی���ک،جیسا ک��ہ آگ��ے

ہے ۔ ''تادیب وتعزیر''واضح ہوگا،قتل نہیں بلکہ مزید یہ کہ بعض احادیث و آثار کی بنی��اد پ��ر ام��ام حس��ن بص���ری،ا_مام نخع���ی،ا_مام أبوحنیفہ اور ا9ن کے بعض شاگردوں کی رائے یہ ہے کہ ارتداد اگر کس�ی خ�اتون س�ے ہ�وا ہے تو ا9سے قید کیا جائے گا؛اسلم کی دعوت دی جائے گی اور ا9سے اس��لم پ��ر مجب��ور کیا جائے گا ۔ خواتین ا7س معاملے میں سزائے موت سے مستثنxی ہیں ۔ ا9نہی��ں بہ��ر ح��ال قتل نہیں کیا جائے گا ۔ یہی رائے سیدنا عبد ال ب��ن عب��اس رض�ی ال عن�ہ س�ے م��روی

۔)4(ہے

حواشی ھ ۔1417 ۔ دار ابن ح���زم،بیروت ۔ طبع��ہ& ا9ول��xی:260 الصارم المسلول علی شاتم الرسول،ال_مام ابن تیمیۃ/ص:)1(

ھ ۔1421 ۔دار الفتح،عمان،الردن ۔ طبع��ہ& اول��xی:156السیف المسلول علی من سب الرسول،ال_مام السبکی،ص: ۔مطبع��ۃ در س��عادت ۔ ال_س���تانۃ،الترکیۃ ۔ ط9ب��ع320/1مجموعۃ رسائل ابن عابدین،علمہ امین بن عابدین ش��امی،

ھ ۔1325علی ذمۃ محمد ھاشم الکبتی ۔

1417 ۔ دار ابن حزم،بی��روت ۔ طبع��ہ& ا9ول��xی:334،320 الصارم المسلول علی شاتم الرسول،ال_مام ابن تیمیۃ/ص:)2( ۔ عون المعبود شرح سنن أبی داود ، أبو الطیب محمد54/5ھ ۔ زاد المعاد فی ھدی خیر العباد ۔ ال_مام ابن القیم ۔

۔ المفصل فی شرح حدیث ''من ب��دل دین��ہ ف��اقتلوہ'' عل��ی ب��ن ن��ایف الش��حود،12/12شمس الحق العظیم آبادی ۔ دار الفت���ح،عمان،الردن ۔ طبع��ہ&155۔154 ۔ السیف المسلول علی من سب الرسول،ال_م��ام الس��بکی،ص397/2 ۔مطبع��ۃ در س��عادت ۔320/1 ھ ۔ مجم��وعۃ رس��ائل اب��ن عاب���دین،علمہ امی��ن ب��ن عاب��دین ش��امی،1421اول��xی:

ھ ۔1325ال_ستانۃ،الترکیۃ ۔ ط9بع علی ذمۃ محمد ھاشم الکبتی ۔

۔ھ� 1382الطبعةالثالثة ، عام . القاھرة ،المطبعة السلفیة ۔ 182 ص:)3(

،260 مسند أبی حنیفۃ (روایۃ أبی نعیم)،رقم الحدیث :)4( مکتبۃ الکوثر،ریاض ۔ طبعہ& ا9ولxی ۔ مص��نف اب��ن190/1 ۔�� 28407،32127،35814ابی شیبۃ،رقم الحدیث : کتاب الخراج،ا_م���ام ۔ م2004مکتبۃ الرشد،الریاض ۔ طبعہ& ا9ولxی:

۔الشفا بتعریف حقوق المصطفxی بتحقیق الشیخ علی محم��د البج���اوی،القاضی عی��اض،181۔180أبو یوسف ،ص: ۔ دار260 ھ ۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول،ال_مام ابن تیمیۃ/ص:1404 ۔ دار الکتاب العربی،بیروت ۔ 1024/2

ھ ۔ عون المعبود شرح سنن أبی داود،أبو الطیب محمد ش��مس الح��ق العظی��م1417ابن حزم،بیروت ۔ طبعہ& ا9ولxی:،319/1 ۔ مجموعۃ رسائل ابن عابدین،علم��ہ امی��ن ب��ن عاب��دین ش��امی،12/12آبادی، ۔ مطبع��ۃ در س��عادت ۔322

ھ ۔1325ال_ستانۃ،الترکیۃ ۔ ط9بع علی ذمۃ محمد ھاشم الکبتی ۔

توہین� رسالت اور توبہ

(ائمہ7 فقہا کا نقطہ7 نظر)

کوئی مسلمان اگر گستاخی رسول کا علنیہ ارتکاب کرتا ہے تو ا7س پر) سوال :۲( بتایا جاتا ہے کہ تمام فقہاے ا9مت کے نزدیک ا7س جرم کی شرعی سزا کے طور پر ا9س��ے

ا7س جرم کے ثابت ہوج��انے ک��ے بع��دبغیر کسی مہلت کے فی الفور قتل کردیا جائے گا ۔ معلوم یہ کرنا ہے ک��ہمجرم اگر توبہ بھی کرتا ہے تو ا9س کی وہ توبہ قابل قبول نہ ہوگی ۔

فقہ اسلمی کی رو سے کیا یہ بات درست ہے ؟ ا7س مسئلے میں کیا واقعت��اS ا9م��ت ک��ےفقہا کا اجماع ہے ؟

فقہ اسلمی کے ما�خذ کی رو سے یہ بات قطعاS ثابت نہیں ک�ی جاس�کتی:جواب کہ ا7س مسئلے میں فقہاے ا9مت متفق ہیں ۔ یہ واقعہ ہے کہ ا9ن کے م��ابین ا7س مس��ئلے

۔س�وال می�ں بی�ان ک�ردہ نقط�ہ& نظ�ر مش�ہور روای�ت ک�ے)1(میں بھی اختلف پایا جات�ا ہ�ے مطابق ا_مام مالک،ا_مام أحمد،لیث بن سعد،ابن تیمیہ اور بعض دوسرے فقہا کا ہ��ے ۔ ت��اہم ا7س مسئلے میں سیدنا علی،سیدنا ابن عباس رض��ی ال عنہما؛ا_م���ام أب��و حنیف��ہ اور ا9ن کے شاگردوں اور مشہور روایت کے مطابق ا_مام شافعی،ا_مام اوزاعی اور ایک روایت ک��ے مطابق ا_مام مالک اور ا_مام أحمد کی رائے بھی ا7س مسئلے میں یہ ہے کہ ایسا ش��خص نہ صرف یہ کہ اگر توبہ کرلے تو ا9س کی توبہ قبول کی جائے گی،بلک��ہ ا9س��ے مہل��ت دے

۔)2(کر توبہ کی تلقین اور ا9س کا مطالبہ کیا جائے گا پھر بعض فقہا کا کہنا ہے کہ ایسے مجرم سے تین مرتبہ توبہ کا مطالبہ کیا ج��ائے گا ۔ ایک رائے یہ ہے کہ توبہ کا مطالبہ کرنے کے بعد ا9سے تین دن کی مہل��ت دی ج��ائے

کے مطابق ائمہ& حنفی��ہ ک��ے نزدی��ک ایس��ے ش��خص ک��ے ھ)321(مت��وفی:گی ۔ ا_مام طحاوی سامنے اسلم کو از سر نو پیش کیا جائے گا ۔ وہ اگر مہلت مانگے تو ا9سے تی��ن دن ک��ی مہلت دی جائے گی ۔ ا_مام نخعی اور ا_مام ثوری کے نقطہ& نظر کے مط��ابق ج��ب ت��ک ا9س کی توبہ متوقع ہے،ا9س وقت تک ا9سے مہلت دی جائے گی ۔ سیدنا علی رضی ال عن��ہ

۔)3(سے روایت ہے کہ ا9سے دو مہینے تک مہلت دی جائے گی

حواشی 1421 ۔ دار الفتح،عمان،الردن ۔ طبعہ& اولxی:161 السیف المسلول علی من سب الرسول،ال_مام السبکی،ص:)1(

ھ ۔

ھ ۔1417 ۔ دار ابن ح���زم،بیروت ۔ طبع��ہ& ا9ول��xی:320 الصارم المسلول علی شاتم الرسول،ال_مام ابن تیمیۃ/ص:)2( ۔ السیف المسلول علی م��ن س��ب397/2المفصل فی شرح حدیث''من بدل دینہ فاقتلوہ''،علی بن نایف الشحود،

۔�� 161الرسول،ال_مام الس��بکی،ص: ھ ۔ مجم��وعۃ رس��ائل اب��ن1421 ۔ دار الفت���ح،عمان،الردن ۔ طبع��ہ& اول��xی:162 ۔ مطبعۃ در سعادت ۔ ال_ستانۃ،الترکیۃ ۔ ط9بع علی ذمۃ محمد325 ۔ 320/1عابدین،علمہ امین بن عابدین شامی،

ھ ۔1325ھاشم الکبتی ۔

۔ دار المعرفۃ،بیروت ۔ الشفا بتعریف حقوق المص��طفxی بتحقی��ق الش��یخ99/10 المبسوط،ال_مام السرخسی ۔ )3( ھ ۔ الص��ارم المس��لول عل��ی1404 ۔ دار الکتاب العربی،بیروت ۔ 1026،1024/2علی محمد البجاوی،القاضی عیاض، ھ ۔1417 ۔ دار ابن حزم،بیروت ۔ طبعہ& ا9ولxی:328شاتم الرسول،ال_مام ابن تیمیۃ/ص:

توہین رسالت کے مرتکب ذمیوں کے بارے میں ا?مام أبو حنیفہ کا نقطہ7 نظر

توہین7 رسالت اور ش��تم7 رس��ول ک��ے ب��اب می��ں ی��ہ بت��ائیں ک��ہ مس��لمان) سوال :۳( ریاست میں ا7س کا مرتکب اگر کوئی غیر مسلم شہری ہ��و ت��و ا9س ص��ورت می��ں ا7م��ام أب��و

حنیفہ رحمہ ال کے نزدیک ا9س کے لیے کیا سزا ہے ؟ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ا7س حوالے سے عل��م اس��لمی ک��ے متع��دد :جواب

مراجع میں ا_مام أبو حنیفہ،ا_مام ثوری اور علماے کوفہ میں سے ا7ن دون��وں ک��ے ش��اگردوں کی یہ رائے نقل ہوئی ہے کہ کوئی غیر مسلم شہری اگر شتم7 رسول اور توہین7 رس��الت کا علنیہ ارتکاب کرتا ہے تو ریاست ا9س کی تادیب کرے گی اور تعزی��راS ا9س��ے ک�وئی س��زا دے گی ۔ کوئی حکمران اگر سیاسی طور پر ا9س کے لیے سزائے موت کا فیصلہ کرے ت��و وہ الگ بات ہے،لیکن ا7س جرم کی حFدE7 شرعی کے طور پ��ر بہرح��ال ا9س��ے قت��ل نہی��ں کی��ا جائے گا ۔ اپنے ا7س موقف کے ح��ق می��ں ا7ن ائم��ہ ک��ا کہن��ا ہ��ے ک��ہ اہ��ل ذ7م���ہ ک��ے ا7ن غی��ر مسلموں کے علم وعمل میں جس طرح کا کفر وشرک پہلے سے پایا جاتا ہے؛ج��رم ک��ے اعتبار سے وہ بجائے خود گستاخی رسول سے کہیں زیادہ سنگین ہے ۔ چنانچہ ا7ن بڑے جرائم کی موجودگی میں اپنے عقد7 ذمہ کی امان کا پاس رکھتے ہوئے ہم اگر ا9نہیں قت��ل

نہیں کرسکتے تو شتم7 رسول کی بنا پر ا9نہیں کس طرح قتل کیا جاسکتا ہے ؟ یہاں قارئین پر یہ بات بالخصوص واضح رہنی چ��اہیے ک��ہ راق��م الح��روف ک��ی تحقی��ق واستقصا کے مطابق مذکورہ بالہ تینوں سوالوں ک�ے ج�واب می�ں ا_م�ام أب�و حنیف�ہ،ا9ن ک�ے شاگردوں اور فقہاے حنفیہ کی نسبت سے جو کچھ بیان ہوا ہے،علم کی دنیا میں وہ��ی ا9ن کے واحد اور معتمد اقوال ہیں،جن کے سوا مرجوح اور غیر مشہور روای��ت ک��ی حی��ثیت

سے بھی فقہ حنفی میں کوئی دوسری راے کسی ماخذ میں نقل نہیں ہوئی ہے ۔ غیر مسلم شہریوں کے بارے میں ا_مام أبو حنیفہ،ا_مام ث��وری اور ا9ن ک��ے ش��اگردوں سے منسوب رائے الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ سلف وخلف کے متعدد علما وفقہا

:نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہے ۔ جس کی تفصیل حسب7 ذیل ہے علم��ہ أب��و س��لیمان الخط��ابی رحم��ہ ال ن��ے چ��وتھی ص��دی ھج��ری می��ں اپن��ی

میں؛قاض��ی عی��اض رحم��ہ ال ن��ے چھ��ٹی ص��دی) 296/3("بی داود)أمعال السنن (شرح سنن "کتاب

میں؛ا_م��ام قرط��بی رحم��ہ ال) 1031،1030/2("حقوق الصطفJیبتعريف الشفا "ھجری میں اپنی کتاب

میں؛س����اتویں ص��دی)83/8("الامع لحکام القرآن" نےساتویں صدی ھجری میں اپنی تفسیر

می������ں؛ا_مام)427/19("الهذبالموع شرح "ھجری ہی میں ا_مام نووی رحمہ ال نے اپنی کتاب

"الصارم السلول علی شات الرسول"ابن تیمیۃ رحمہ ال نے آٹھویں صدی ھجری میں اپنی کتابمیں ا_مام أبو حنیفہ،ا_مام ثوری اور ا9ن کے شاگردوں کا یہی نقطہ& نظر نقل کیا ہے ۔ )16/1(

گیارھویں صدی ھجری می��ں علم��اے حنفی��ہ می��ں س��ے م9ل عل��ی ق��اری ن��ے اپن��ی می�ں بھ�ی یہ�ی موق�ف نق�ل کی��ا ہ�ے ۔ تیرھ��ویں)107/7("الصابيح ة شرح مشکاالفاتيح ةمرقا"کتاب

رد"صدی ھجری میں فقہاے حنفیہ میں سے علمہ ابن عابدین رحمہ ال نے اپنی کت��اب می���ں ا_م���ام أب���و" النامخيشات أحكام والکام علی ة الولتنبيه" اور)399،398/4("التار علی الدر الختار

حنیفہ،ا9ن کے شاگردوں اور ائمہ حنفیہ کا یہ موقف نہ صرف یہ کہ خود بیان کی��ا ہ���ے،بلکہا7س کی روایت میں ا_مام ابن تیمیہ کی بھی توثیق کی ہے ۔

نيل" تیرھویں صدی ھجری ہی میں ا_مام شوکانی رحمہ ال ن��ے بھ��ی اپن��ی کت��اب میں اور چودھویں صدی ھج��ری می��ں أب��و الطی��ب عظی��م)381،380/7("الوطار شرح منتقی الخبار

می��ں علم��اے ک��وفہ ک��ا یہ��ی موق��ف)12/12("عون العبود شرح سنن أبی داود" آبادی نے اپنی کتاب

نقل کیا ہے ۔

قارئین کے ا7فادے کے لیے مح��و�لہ ب��الہ تم��ام مص��ادر ک��ے اص��ل مت��ون بھ��ی ا7س��ی:تاریخی ترتیب کے ساتھ مع تراجم پیش خدمت ہیں

میں فرماتے ہیں :"معال السنن (شرح سنن أبی داود)"اپنی کتاب ھ)388(متوفی: ۔ ا_مام خطابی1

عليه وسلم ما هم علي&&ه م&&ن الش&&ركال: ل يقتل الذمي بشتم النب صلى وحكي عن أب حنيفة أنه قال .) 1(أعظم

ا_مام أبوحنیفہ سے مروی ہے کہ ا9نہوں نے فرمایا : غیر مسلم شہری کو شتم7 رسول کے ج��رم'' ب�ذات خ�ود ا7س س�ےہ�ے،وہمیں قتل نہیں کیا جائے گا ۔ (کیونکہ) جس ش�رک پ�ر وہ پہل�ے س�ے ق��ائم

۔''کہیں زیادہ بڑا جرم ہے

می���ں " حقوق الصطفJیبتعريفالشفا "اپن���ی کت���اب ھ)544(مت���وفی: ۔ علمہ قاضی عیاض مالکی 2

لکھتے ہیں:

فأما الذمي إذا صرح بسبه أو عرض أو استخف بقدره أو وصفه بغي الوجه الذى كفر به فل خلف عندنا ف قتله إن ل يسلم ، لنا ل نعطه الذمة أو العهد على هذا ، وهو قول عامة العلماء إل أبا حنيفة والثوري وأتباعهم&&ا

.)2(: ل يقتل ، لن ما هو عليه من الشرك أعظم ولكن يؤدب ويعزرمن أهل الكوفة فإنم قالوا '' کوئی غیر مسلم شہری اگر نبی صلی ال علیہ وس��لم پ�ر علنی��ہ س�ب و ش��تم کرت��ا،ا9ن ک�ی شان میں گستاخی کرتا،ا9ن کی تحقیر کرتا اور کسی ایسے (نازیبا) وصف سے ا9ن کو موص�وف کرت�ا ہ�ے کہ جو ا9س کے کفر کا سبب نہیں ہ��ے ت��و ا9س ص��ورت می��ں اگ��ر وہ اس��لم قب��ول نہی��ں کرلیت��ا ت��و ایس��ے شخص کے قتل کیے جانے کے باب میں ہمارے ہاں (مالکیہ میں) کوئی اختلف نہی��ں ہ��ے ۔ کی��ونکہ ا7س طرح کے جرم کے ارتکاب پر ہم نے ا9سے کوئی عہد وامان نہیں دے رکھا ہے ۔ عام طور پر اہل عل��م ک��ی یہی رائے ہے،تاہم ا_مام أبو حنیفہ،ا_مام ثوری اور اہل کوفہ میں سے ا9ن کے شاگردوں کا ق��ول ی��ہ ہ��ے ک��ہ ایسے ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔ کیونکہ وہ ج�س ش�رک پ�ر پہل�ے س�ے ق�ائم ہ�ے ، وہ ا7س س�ے کہیں زیادہ بڑا جرم ہے (لیکن ا7س کے باوجود ہم ا9سے قتل نہیں کرتے) ۔ تاہم ا9س کی تادیب ضرور کی

جائے گی اور (قتل کے سوا) تعزیراS ا9سے کوئی سزا دی جائے گی''۔

میں سورہ& توبہ کی آیت نمبر"الامع لحکام القرآن"اپنی تفسیر ھ)671(متوفی: ا_مام قرطبی ۔3

کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۸

أكثر العلماء على أن من سب النب صلى ال عليه وسلم من أهل الذمة أو عرvض أو اس&&تخف بق&&دره أو . إل أبا حنيفة والثوري وأتباعهما منوصفه بغي الوجه الذي كفر به فإنه يقتل؛ فإنvا ل نعطه الذمة أو العهد على هذا

. )3(أهل الكوفة فإنم قالوا : ل يقتل ، ما هو عليه من الشرك أعظم ، ولكن يؤدب ويعزر نبی صلی ال علی��ہ وس��لم پ�ر'' اکثر علما کی رائے یہ ہے کہ ذمیوں میں سے جس شخص نے

علنیہ سب وشتم کیا،ا9ن کی شان میں گس��تاخی ک��ی،ا9ن ک��ی تحقی��ر ک��ی اور کس��ی ایس��ے (نازیب��ا) وصف سے ا9ن کو موصوف کیا جو ا9س کے کفر کا سبب نہی��ں ہ��ے ت��و ا9س ص��ورت می��ں ا9س��ے قت��ل کردی��ا جائے گا ۔ کیونکہ ا7س طرح کے جرم کے ارتکاب پر ہم نے ا9سے ک��وئی عہ��د وام��ان نہی��ں دے رکھ��ا ہ��ے ۔ تاہم ا_مام أبو حنیفہ،ا_مام ثوری اور اہل کوفہ میں سے ا9ن کے شاگردوں کی رائے یہ ہے کہ ایس��ے ذم��ی کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔ کیونکہ وہ جس شرک پر پہلے سے قائم ہے وہ ا7س سے کہیں زیادہ بڑا جرم ہے (ا7س کے باوجود ہم ا9سے قتل نہیں کرتے) ۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ا9س کی ت��ادیب ک��ی ج��ائے

گی اور (قتل کے سوا) تعزیراS ا9سے کوئی سزا دی جائے گی'' ۔

میں فرماتے ہیں :"الهذبالموع شرح "اپنی کتاب ھ)676(متوفی: ۔ ا_مام نووی4

وسلم ل يقت&&ل م&&ن ك&انواواحتج الطحاوي لصحابه بديث أنس الذى فيه أن رسول ال صلى ال عليه عليك ، وأيده بأن هذا الكلم لو صدر من مسلم لكانت ردة ، وأما صدوره من اليهودي فال&&ذيالس~اميقولون له

.)4( فلذلك ل يقتلهم النب صلى ال عليه وسلم ،هم عليه من الكفر أشد ور ا_مام طحاوی نے اپنے علم��ا ک�ی رائے ک��ے ح��ق می��ں س�یدنا ان��س رض��ی ال عن��ہ ک��ی ا9سا''

حدیث سے استدلل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی ال علیہ وسلم نے (الس�لم علی��ک کے بجائے بد دعا دینے کی غرض سے) الس�ام علیک کہنے والوں کو قتل نہیں فرمای�ا ۔ اپن�ی رائے ک�ی تائید میں ا_مام طحاوی نے مزید فرمایا کہ ا7س طرح کی بات اگر کوئی مسلمان کرے تو یہ ''ارت��داد'' ہ��ے ۔ جہاں تک یہود سے ا7س کے صادر ہونے کا تعلق ہے تو یہ جاننا چاہیے کہ وہ ج��س کف��ر پ��ر ق��ائم ہی��ں وہ ا7س سے کہیں زیادہ سنگین جرم ہے ۔ چنانچہ ا7سی وجہ سے ن�بی ص�لی ال علی��ہ وس��لم ن�ے ا9نہی�ں

۔''قتل نہیں فرمایا شتم7 رسول ک�ے موض�وع پ��ر اپن�ی ش�ہرہ& ھ)726(متوفی: ۔ شیخ السلم علمہ ابن تیمیہ5

میں ائمہ& حنفیہ ک��ا نقط��ہ& نظ��ر ا7ن الف��اظ می��ں بی��ان"الصارم السلول علی شات الرسول"آفاق کتاب

فرماتے ہیں : وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا : ل ينتقض العهد بالسب ، ول يقتل الذمي بذلك ، لكن يعزر على إظه&&ار ذلك كما يعزر على إظهار النكرات الت ليس لم فعلها من إظهار أصواتم بكتابم ونو ذلك ، وحكاه الطح&&اوي

. )5( عن الثوري اه& جہاں تک ا_مام أبو حنیفہ اور ا9ن کے ساتھیوں کے موقف کا تعلق ہے تو ا9ن کا کہنا ہ��ے ک��ہ ش��تم7''

رسول کی بنا پر غیر مسلم شہری کا (مسلمان ریاست سے کیا ہوا ) عہد و پیمان نہیں ٹوٹتا ۔ چن��انچہ ا7س جرم کی بنا پر ا9سے قتل نہیں کیا جائے گا ۔ تاہم ا7س جرم کے علنیہ ارتک�اب پ�ر ا9س�ے ک�وئی س�زا دی جائے گی،جیسا کہ ا9ن منکرات کے علنیہ ارتکاب پر ا9سے سزا دی جاتی ہ��ے ج��ن ک��ی (مس��لمان ریاست میں) انہیں اجازت نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر ا9ن کا بآواز7 بلند اپنی کتاب کی تلوت کرن��ا وغی��رہ ۔

ا_مام طحاوی نے یہی موقف ا_مام ثوری کی نسبت سے بھی حکایت کیا ہے'' ۔ می��ں"الفاتيح ة شرح مشکاالفاتيح ةمرقا"اپن��ی کت��اب ھ)1014(مت���وفی: ۔ م9ل علی ق��اری حنف��ی 6

فرماتے ہیں :

قال الظهر : وفيه أن الذمي إذا ل يكف لسانه عن ال ورسوله ودينه فهو حرب م�ب&اح ال&د~م ق&ال بع&ض .)6(علمائنا ، وبه أخذ الشافعي ، وعند أصحاب أب حنيفة ل ينقض عهده به

مFظہر (صاحب المفاتیح فی حل المصابیح) فرماتے ہیں ک��ہ ا7س روای��ت می��ں ا7س ب��ات ک��ی دلی��ل'' بھی موجود ہے کہ کوئی ذمEی اگر ال،ا9س کے رسول اور دین پر سب و شتم سے اپنی زب��ان ک��و نہی��ں

اور م9باح الدم ہے ۔ ہمارے بعض اصحاب علم ن�ے یہ�ی رائے پی��ش ک�ی ہ�ے ۔ اور ا7س�یحFربیروکتا تو وہ موقف کو ا_مام شافعی نے اختیار کیا ہے ۔ ا_مام أبو حنیفہ کے ساتھیوں ک��ی رائے ی��ہ ہ��ے ک��ہ ذم��ی ک��ے ا7س جرم سے (مسلمان ریاست سے کیا ہوا) ا9س کا عہد وپیمان نہیں ٹوٹتا (چنانچہ ا9سے قتل نہیں کیا

۔''جائے گا) ؛مذہب7 ھ)1252(متوفی: ۔ متاخرین7 فقہاے حنفیہ میں سے علمہ امین بن عابدین دمشقی 7

حنفی میں جن کے مقام ومرتبہ سے ہر شخص واق�ف ہ���ے؛بالخصوص ش��تم رس�ول ک�ے می���ں علم���اے حنفی���ہ ک���ا"النام خيحکام شات أ والکام علی ة الوليهتنب"موضوع پر وہ اپنی کتاب

موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : إن الساب~ إذا كان كافر�ا ل ي�قتل عندنا ، إل إذا رآه المام سياسة� ، ولو كان السب� هو العل�ة ل�ق�ت�ل حد�ا ل

.)7(سياسة� رسول ال صلی ال علیہ وسلم پر سب وشتم کرنے وال اگر ک�وئی غی��ر مس��لم ہ�ے ت�و ہم�ارے''

حکمران سیاسی ط�ور پ�ر ا9س ک�ے لی�ے س�زائے م�وت ک�انزدیک ا9سے قتل نہیں کیا جائے گا ۔ الE یہ کہ فیصلہ کرے ۔ ا7س معاملے میں سزاے موت کی علEت اگر شتم7 رسول ہوتی ت��و ایس��ے مج��رم ک��و ض��رور

شرعی سزا کے طور پر قتل کیا جاتا،نہ کہ سیاسۃS '' ۔

ج���و "رد التار علی الدر الختار" ا7سی طرح علمہ ابن عابدین حنفی اپنی مشہور کتاب

کے نام سے بھی معروف ہے؛ا9س میں فرماتے ہیں :"عابدينبن ا يةحاش"

شیخ السلم اب��ن تیمی��ہ ک��ی کت��اب می��ں می��ں ن��ے دیکھ��ا ہ��ے ک��ہ ا9نہ��وں ن��ے ا7سمعاملے میں علماے حنفیہ کا فقہی مذہب ا7ن الفاظ میں بیان کیا ہے:

وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا : ل ينتقض العهد بالسب ، ول يقتل الذمي بذلك ، لكن يعزر على إظه&&ار ذلك كما يعزر على إظهار النكرات الت ليس لم فعلها من إظهار أصواتم بكتابم ونو ذلك ، وحكاه الطح&&اوي عن الثوري . ومن أصولم: يعن النفية أن ما ل قتل فيه عندهم مثل القتل بالثقل والماع ف غي القبل إذا تكرر ، فللمام أن يقتل فاعله ، وكذلك له أن يزيد على الد القدر إذا رأى الصلحة ف ذلك ، ويملون ما جاء عن الن&&ب صلى ال عليه وسلم وأصحابه من القتل ف مثل هذه الرائم ، على أنه رأى الصلحة ف ذلك ، ويس&&مونه القت&&ل

سياسة . وكان حاصله : أن له أن يعزر بالقتل ف الرائم الت تعظمت بالتكرار ، وشرع القتل ف جنسها، ولذا أفت أكثرهم بقتل من أكثر من سب النب صلى ال عليه وسلم من أهل الذمة وإن أسلم بعد أخذه، وقالوا: يقتل سياسة ،

وهذا متوجه على أصولم اه&. فقد أفاد أنه يوز عندنا قتله إذا تكرر منه ذلك وأظهره، وقوله : وإن أسلم بعد أخذه ، ل أر من صرح ب&&ه

.)8(عندنا، لكنه نقله عن مذهبنا وهو ثبت فيقبل ش�تم7 رس�ول ک�ی'' اور جہاں تک أبو حنیفہ اور ا9ن کے شاگردوں کا تعلق ہے تو وہ کہتے ہیں ک�ہ

بنا پرغیر مسلم شہری کا (مسلمان ریاست سے کیا ہوا) عہد و پیمان نہیں ٹوٹتا ۔ چنانچہ ا7س جرم کی بنا پر ا9سے قتل نہیں کیا جائے گا ۔ ت�اہم ا7س ج��رم ک��ے علنی��ہ ارتک��اب پ�ر ا9س��ے ک�وئی س��زا دی ج�ائے گی،جیساکہ ا9ن منکرات کے علنیہ ارتکاب پر ا9سے سزا دی جاتی ہے جن کی (مسلمان ریاست می��ں) ا9نہیں اجازت نہیں ہے ۔ مثال کے طور پرا9ن کا بآواز7 بلند اپنی کتاب ک�ی تلوت کرن�ا وغی�رہ ۔ ا_م�ام طح�اوی نے یہی موقف ا_مام ثوری کی نسبت سے بھی حکایت کیا ہے ۔ اور یہ بات بھی حنفیہ ک��ے ا9ص��ول می��ں سے ہے کہ جن جرائم پر ا9ن کے نزدیک قتل کی سزا نہیں ہے،ا9ن می��ں بھ��ی بع��ض ج��رائم ا7س ن��وعیت کے ہوا کرتے ہیں کہ ا9ن کا اگر بار بار ارتکاب کیا جائے تو حاکم کو یہ حق حاصل ہے کہ ایسے مج��رم ک��و قتل کردے ۔ ا7سی طرح وہ مصلحت دیکھ کر کسی مع�املے می��ں مق��رر س�زا می��ں اض�افہ بھ�ی کرس�کتا ہے ۔ توہین7 رسالت جیسے جرائم کے باب میں سزاے موت کے حوالے سے نبی صلی ال علی��ہ وس��لم اور آپ کے صحابہ رضی ل عنہم سے روایتوں میں جو کچھ نقل ہ�وا ہے؛علم��اے حنفی��ہ ا9س�ے حکم��ران

کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔''سیاسی قتل''کی مصلحت ہی پر محمول کرتے اور ا7سے ائمہ حنفیہ کے موقف کا خلصہ یہ ہے کہ وہ جرائم جن کے بتکرار ارتکاب سے ا9ن کی س��نگینی اور بڑھ جائے اور جن میں قتل مشروع ہو،ا9ن میں حکمران ک��و ی��ہ ح��ق حاص��ل ہ��ے ک��ہ وہ (اگ��ر مص��لحت دیکھےتو) مجرم کی تعزیر کو قتل تک بڑھادے ۔ اور یہی وجہ ہ��ے ک��ہ ا7ن می��ں س��ے اک��ثر علم��ا ن��ے ا9س ذمی کے بارے میں جو توہین7 رسالت کا بتکرار ارتکاب کرتا ہے؛اگرچہ گرفت میں آج�انے ک�ے بع�د اس��لم ہی کیوں نہ لے آئے؛ا9س کے قتل کا فتویx دیا اور کہا ہے کہ ایسے مجرم کو سیاسۃS قتل کی��ا ج��ائے گ��ا

۔(نہ کہ توہین7 رسالت کی حدE شرعی کے طور پر) ۔ یہ تمام تفصیل حنفیہ کے ا9صول پر مبنی ہے ابن تیمیہ کے کلم پر علمہ ابن عابدین فرماتے ہیں کہ حنفیہ کے موقف کی ترجمانی میں یہاں ابن تیمیہ نے یہ واضح کیا ہے کہ ذمی س�ے ش��تم7 رس��ول ک��ا ص��دور علنی��ہ اور بتک��رار ہ��و ت��و (تعزی��راS اور سیاسۃS) ا9س کا قتل بھی جائز ہے ۔ ا7س پر مزید جو بات ابن تیمیہ نے یہ بی��ان ک��ی ہ��ے ک��ہ گرف��ت می��ں آجانے کے بعد اگرچہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوجائے؛تب بھی یہ��ی حک��م ہوگ��ا ۔ ا7س ب��ات ک��ی تص��ریح ہمارے فقہا میں سے کسی کے ہاں مجھے نہیں مل سکی ۔ لیکن ابن تیمیہ ن�ے چ�ونکہ ا7س��ے ہم�ارے مذہب کے طور پر نقل کیا ہے اور ا9ن کی شخصیت بہت ہی قابل اعتماد ہے،چنانچہ ا9ن کی یہ ب�ات قب�ول

۔'' کی جائے گی

میں لکھتے ہیں :" الوطار شرح منتقی الخبارنيل"اپنی کتاب ھ)1255(متوفی: ۔ ا_مام شوکانی 8

وعن الكوفيي إن كان ذميا عزر وإن كان مسلما فهي ردة.........واحتج الطحاوي لصحابه بديث أنس وأما صدوره من اليهود فالذي هم عليه من،الذكور ف الباب وأيده بأن هذا الكلم لو صدر من مسلم لكانت ردة

. )9( فلذلك ل يقتلهم النب صلى ال عليه وآله وسلم،الكفر أشد اور اہل کوفہ (یعنی علماے حنفیہ) کا یہ موقف روایت ہوا ہے ک��ہ ش��اتم7 رس��ول اگ��ر ذم��ی ہ��و ت��و''

ا9سے تعزیراS ک��وئی س��زا دی ج��ائے گ�ی ۔ اور اگ��ر وہ مس��لمان ہ��ے ت��و ا9س ک��ا ی��ہ عم��ل ارت��داد ہ�ے ۔۔۔۔۔۔۔ اورطحاوی نے اپنے علما کی رائے کے حق میں باب میں مذکور سیدنا انس رض�ی ال عن�ہ ک�ی ح�دیث سے استدلل کیا ہے ۔ اور اپنی رائے کی مزید تائید ا_مام طحاوی نے ا7س ط��رح فرم��ائی ہ��ے ک��ہ ایس��ی بات (یعنی نبی صلی ال علیہ وسلم کو السEلم علیک کہنے کے بجائے بد دعا کی غرض س�ے الس��Eام علیک کہنا) اگر کوئی مسلمان کرتا ہے تو یہ ارتداد ہے ۔ اور جہاں تک یہود سے ا7س کے ص�ادر ہ�ونے ک�ا تعلق ہے تو یہ جاننا چاہیے کہ وہ جس کفر پر قائم ہیں؛جرم ک�ے اعتب�ار س�ے وہ ا7س س�ے کہی�ں زی�ادہ

۔'' سنگین ہے ۔ چنانچہ ا7سی وجہ سے نبی صلی ال علیہ وسلم نے ا9نہیں قتل نہیں فرمایا

می��ں"عون العبود"بو داود کی ش��رح أ ھ)1329(مت���وفی: ۔ أبو الطیب شمس الحق عظیم آبادی 9

فرماتے ہیں : .)10(ر�د~ة وإن كان مسلما فهي ع�ز�ر ذمي�اوعن الكوفيي إن كان

اور اہل کوفہ (یعنی علماے حنفیہ) کا یہ موقف روایت ہوا ہے کہ گستاخ7 رسول اگ��ر ذم��ی ہ��و ت��و''۔ ''ا9سے تعزیراS کوئی سزا دی جائے گی ۔ اور اگر وہ مسلمان ہے تو ا9س کا یہ عمل ارتداد ہے

حواشی ھ ۔1351 ۔ طبعۃ وتصحیح الشیخ محمد راغب الطباخ فی مطبعتہ العلمیۃ ۔ حلب،سوریا ۔طبعہ& ا9ولxی ۔ 296/3) 1(

.1024/2الشفا بتعریف حقوق المصطفxی بتحقیق الشیخ علی محمد البجاوی،القاضی عیاض،. 1031،1030/2) 2( ھ ۔1404دار الکتاب العربی،بیروت ۔

ھ ۔1384 ۔ دار الکتب المصریۃ ۔ القاھرۃ ۔ طبعہ& ثانیہ:83/8 )3(

۔ دار الفکر،بیروت ۔ مصدر الکتاب : موقع یعسوب 427/19) 4(

ھ ۔1417دار ابن حزم،بیروت ۔ طبعہ& ا9ولxی: ۔ باب حکایۃ مذھب أبی حنیفۃ ۔ 16/1) 5(

ھ ۔ 1422۔ دار الکتب العلمیۃ،بیروت ۔ لبنان ۔ طبعہ& ا9ولxی: 107/7) 6(

مطبعۃ در سعادت. 320/1مجموعۃ رسائل ابن عابدین:کتاب تنبیہ الولۃ والحکام علی أحکام شاتم خیر النام،) 7( ھ ۔1325۔ ال_ستانۃ،الترکیۃ ۔ ط9بع علی ذمۃ محمد ھاشم الکبتی ۔

ھ ۔1415 ۔ دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع ۔ بیروت،لبنان ۔ 399،398/4 )8(

م ۔1973 ۔ دار الجیل ۔ بیروت ۔ 381،380/7) 9(

ھ ۔1415۔ دار الکتب العلمیۃ ۔ بیروت ۔ طبعہ& ثانیہ: 12/12) 10(