اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک...

27
ول ص ا ک ف ی ٹ ن ئور سا ر ا ت د دی ے ج ک گاری الہ ن ف م ی ق ی ق ح ت ں می اردو4.1 ر4 ظ ن م س9 پم اور ے کا کا ن ا ن ئ اری ن ع م اور ک ف ی ٹ ن ئ و سا ک ق ی ق ح ت ات ن م س ر ا ے ی ھن لک الہ ف م ی ق ی ق ح ت ں م ا ن ئ ی د م ل ع ہS ت ف ا ی ی ق ر ت" " ول صری ا ا ن ع م ے ک ات نW ئ ا ن ک ی وZ ش وا ح ہ9 چ ت ا ن9 چ- ھا تا ک9 وچf ہ روعZ ش ں می یf ہ ں صدی ی ھاروn ت ا ار عo ا ل کا م عر9 ت اس ے لگا نo ر ا4 ظ ن ں می ے ص ر ع ی ش ں ا می وں ب ا ن ک ی ل ے وا ن ا ی ج ھ ک ل ں می وں ب ا ی ی ر بر مغام م تf ہ ا ی کا ہ سار اریZ اور اس ت ف اس و ے جل م ی ق ی ق ح ت ں اور ی ب ا ن ک ی ن مٹر9 ت ات ن م س د ر دی ی ج ک ت ی ع و ب ی م ل ع ں می ات نW ئم اور اد و ل ع ی ب رZ ش عا م ھا۔ ت و ک عات ل مطا ے ئنر ا9 ت وعات ص و م ے ک خ ت ار وصا ی ص خ ے ن ی ن ئ وسا س کn ا ب نZ ش پ ل ا ب را ت چ ے ھ ت ے لگ ے ن وf ہ عام س اور پ را ف ی، لn ی ی، ا من ر ج ے جیس وں ک ل م ر گ ی ے د ک9 ورت ب اور ا ن ک ار عo ا ے کا ن ر ک ع ئ اZ س ت ح ت ے ک وں ل و ص د ا دی ج ق ی ق ح ت وصا ص خ ں می ے ن ما ی ر ش ی اور ا ک ی م د قZ س ”ی ب ب ن ا ی اس ج ھ ت ے ن ی اداروں عن اZ ی اور اس ق ی ق ح ت ے ک د ن لٹ اf ہ ں۔ گی ل ے نo ے ا من ں سا یZ شZ ش و ک´ ں ی ر تf ہ ب ی ک´ ں می ت ی ئ ر ت و

Upload: insaf-khan

Post on 27-Jan-2016

65 views

Category:

Documents


10 download

DESCRIPTION

مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹفک اصول

TRANSCRIPT

Page 1: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

ےاردو میں تحقیقی مقال نگاری ک جدید تر اور سائنٹیفک اصول ہ

پس منظر4.1

ےترقی یافت علمی دنیا مں تحقیقی مقال لکھن یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور ہ ہوچکا تھا- ی میں شروع ہمعیاری بنان کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہ ےتمام مغربی زبانوں ہچنانچ حواشی و کتابیات ک معیاری اصول اور اشاری سازی کا ا ہ ے ہ۔میں لکھی جان والی کتابوں میں اسی عرص میں نظر آن لگا تھا معاشرتی علوم ے ے ے

ےاور ادبیات میں علمی نوعیت کی جدید رسمیات پر مبنی کتابیں اور تحقیقی مجلون لگ تھ جب رائل ایشیا ٹک سوسائٹی ن خصوصا تاریخ ک ےاس وقت عام ے ے ے ے ہ

ےموضوعات پر اپن مطالعات کو جدید اصولوں ک تحت شائع کرن کا آغاز کیا اور ے ےالینڈ ک تحقیقی اور اشاعتی ےیورپ ک دیگر ملکوں جیس جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہ ے ے

ےاداروں ن بھی اس جانب پیش قدمی کی اور اسی زمان میں خصوصا تحقیق و ےترین کوششیں سامن آن لگیں ۔ترتیب متن کی ب ے ے ہ

ہمغربی جامعات اور تحقیقی و طباعتی ادار اس بار میں اپن اختیار کرد یا وضع ے ے ےیں ان اداروں اور میت دیت اور ان کی پابندی کرت ۔کرد رسمیات کو ب حد ا ہ ے ے ہ ے ہ

ر ادار یا و سکتا لیکن ہجامعات میں ان رسمیات ک معیارات میں فرق یا اختالف ہ ہے۔ ہ ےیں تی ۔جامع اپن لئ وضع کرد اور اختیار کرد اصولوں پر سختی س کاربند ر ہ ہ ے ہ ہ ے ے ہ

م ہآکسفورڈ اور کیمبرج کی جامعات میں ان ک طباعتی اداروں میں ی رسمیات با ہ ےون اں س شائع ر مقال یا و یں لیکن کیمرج میں لکھا جان واال وسکتی ےمختلف ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہر کتاب بڑی حد تک یکساں معیارات اور اصولوں ک تحت لکھی یا شائع کی ےوالی ہر مغربی جامع یا تحقیقی ادار کو اپنی مخصوص م تحقیق میں یں یوں ےجاتی ہ ہ ہ ۔ ہ

یں ۔رسمیات یا اسالیب و اصولوں پر عمل پیرا دیکھ سکت ہ ےو سکیں ن ہلیکن افسوس آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفق طور پر ن ط ۔ ہ ے ہ ہی وسکی چنانچ ایک ی کوئی مناسب پیش رفت ہان ک بار میں سوچا گیا اور ن ہ ۔ ہ ہ ہ ے ے

م ایک ی شعب میں لکھ جان وال مقاالت با ہجامع میں، بلک اس جامع ک ایک ے ے ے ے ہ ے ہ ہ ہیں کسی ایک مقال میں حواشی کسی طرح لکھ و سکت ےدوسر س مختلف ے ۔ ہ ے ہ ے ے

یں اور کتابیات کسی طرح مرتب کی جاتی دوسر مقال میں ان ک لکھن ےجات ے ے ے ہے۔ ہ ےیں وسکت ۔اور مرتب کرن ک اصول مختلف ہ ے ہ ے ے

، قریب قریب اسی عرص میں، جب ڈاکٹر نجم االسالم ن اس جانب توج ہراقم ن ے ے ےہدی، اس بار میں سوچنا اور ایک حد تک عمل کرنا شروع کردیا تھا بلک پی ایچ ڈی ۔ ے

ی اس تعلق س جدید مغربی معیارات1975ء -1970ےکیلئ دوران تحقیق ) ے( ہہاوراسالیب یا رسمیات میں اس حد تک جاذبیت محسوس کی تھی ک اپن مقال ے ہ

: انجمن ترقی اردو، کراچی، " )مطبوع ہ"تحریک آزادی میں اردو کا حص ء( کو ان1976ہ

Page 2: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

ےی جدید اصولوں اور اسالیب ک تابع رکھا اور اسناد اور مآخذ ک حوالوں، حواشی ے ہ")کتابیت( ک لئ و اصول اختیار کیئ جو اس وقت تک بلک رست اسناد محول ہاور "ف ے ہ ے ے ہ ہ

یں ی دیکھن میں آت ۔اب بھی اردو میں شاذ ہ ے ے ہ

ہ رسمیات مقال نگاری4.2

عنوان کا تعین4.2.1

یں آتا اور رسمیات کا اطالق اس پر الزم ہاگرچ عنوان راست تحقیق ک ذیل میں ن ے ہار ن کا اظ یں، لیکن اس س مقال نگار ک تحقیقی مزاج اور تجزیاتی و تنقیدی ذ ہن ہ ے ہ ے ہ

ی اور مناسب ک ی غیر ضروری ونا چا ذا اس جامع اور معنویت کا حامل ہوتا ل ہ ہے ے ہ ہ ے ہ ہے۔ ہم عنوان کی و اردو میں بالعو ےالفاظ اور طوالت س پاک، مختصر اور جاذب توج ۔ ہ ہ ے

ےجاذبیت کیلئ اس کی معنویت کی مناسبت س الفاظ ک انتخاب اور الفاظ کی ے ے: یں دی جاتی- مثال ایک عنوان میت ن ہےترتیب یا بندش کو خاطر خوا ا ہ ہ ہ

ے"پاکستان اور بھارت ک درمیان تجارت کی صورت حال اس ک مسائل اور ان کا ےحل"

، لیکن اس کا انداز قدیم اور ی غیر ضروری م ہی عنوان اپنی جگ یقینا قابل ف ہے ہے ہ ہ ہ: ےطوالت کا حامل یا قدر مختصر بھی کیا جا سکتا تھا جیس ے ہے۔

ے"پاکستان اور بھارت ک درمیان تجارت: صورت حال، مسائل اور حل "ےعنوان میں قدیم اور روایتی انداز کی بجائ حروف جار اور حروف ربط س گریز ے

یں ، جبک معنویت میں کوئی فرق ن ہکرک زیاد جامعیت اور اختصار پیدا کیا جا سکتا ہ ہے ہ ے: ہےپڑتا اسی طرح ایک عنوان ۔

" ہ"حضرت خواج باقی بالل کی علمی اور متصوفان خدمات کا ایک تنقیدی جائز ہ ہ ہی جو بامعنی اور پھر ی بھی ونا چا یں اس مطالع اں لفظ جائز مناسب ن ہی ہے ے ہ ہ ہ ے ہے۔ ہ ہ ہ

اں "تحقیقی ! ی وسکتا " تحقیق کا موضوع کیس ہمحل نظر ک "تنقیدی جائز ہے ہ ے ہ ہ ہےو تو ی اس س قطع نظر اگر تنقیدی مطالع موضوع کا تقاضا ونا چا " ہمطالع ہ ے ے۔ ہ ہ ہ

: وسکتا ہےعنوان یوں ہ" : علمی اور متصوفان خدمات کا تنقیدی مطالع ہ"حضرت باقی بالل ہ ہ

، جس میں " کافی : علمی اور متصوفان خدمات کا مطالع ہےورن "حضرت باقی بالل ہ ہ ہ ہوم شامل اسی طرح ایک عنوان ہے۔اس مطالع کی تنقیدی یا تحقیقی نوعیت کا مف ہ ے

ہے۔" ۔"شرعی حدود ک نفاذ کی تاریخ اور پاکستان میں ان ک نفاذ کا جائز ہ ے ے

وسکتا تھا: ہی عنوان اس طرح ہے"شرعی حدود کا نفاذ: پاکستان میں ان ک نفاذ کی تاریخ"

: ائیوں قبل کا ایک عنوان ہےاسی طرح، دو تین د ہ" ہ"گزشت صدی میں راجھستان میں اردو کی ترقی میں غیر مسلموں کا حص ہ

ی تھا کیونک ی عنوان اگر ونا چا ہاس میں "گزشت صدی" ک بجائ "انیسویں صدی" ہ ے ہ ہ ے ے ہہاکیسویں یا بائیسویں صدی میں پڑھا جائ تو صرف عنوان کو پڑھن س مغالط ے ے ے

: و سکتا ہےیقینی چنانچ ی عنوان اس طرح ہ ہ ہ ہے۔ہ" راجھستان میں اردو کی ترقی: انیسویں صدی میں غیر مسلموں کا حص "

Page 3: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

: ہےایک اور عنوان " ہ"موالنا محمد باقر آگا کا عربی، فارسی اور اردو ادب میں حص ہ

و سکتا تھا: ہی اس طرح ہ: عربی فارسی اور اردو خدمات" ہ"موالنا محمد باقر آگا

" : عربی فارسی اور اردو خدمات، ایک مطالع ہیا: "موالنا محمد باقر آگا ہ: ہےایک ی بھی عنوان ہ

" ند ک مصنفین کا حص ند فارسی ادب میں سر ہ" ے ہ ہوسکتا تھا: ہی عنوان یوں ہ

" ند کا حص ند فارسی ادب: مصنفین سر ہ" ہ ہمیت اور ہعنوان ک انتخاب میں اختصار اور الفاظ کا جامع و بامعنی استعمال بڑی ا ے

اں مار ی مقال کو قابل توج بنا سکتی ہکشش رکھتا اور عنوان کی جاذبیت ے ہ ہے۔ ہ ے ہ ہے، جبک قوسین کا استعمال ہذیلی عنوان کو قوسین میں لکھن کا ایک عام رحجان ہے ے

: و سکتا مثال ایک عنوان ہےعنوان میں غیر ضروری اور بال جواز ہے۔ ہہ"سب رس کا مطالع )تحقیقی کی روشنی میں("

ی تھا: یں اس اس طرح لکھنا چا ےی قطعی مناسب ن ہ ے ۔ ہ ہ: تحقیق کی روشنی میں ہسب رس کا مطالع

: وسکتا تر ہےبلک زیاد ب ہ ہ ہ ہ" ہ"سب رس: ایک تحقیقی مطالع

ی اور حرف جار و ونا چا ےان مثالوں کی روشنی میں گویا عنوان کو مختصر اور جامع ہ ہو اور اس میں قوسین ک ےحروف ربط ک غیر ضروری استعمال س ب نیاز ہ ے ے ے

ی ے۔استعمال س گریز کیا جانا چا ہ ے

ہ اقتباس کا مسئل4.2.2

ہبعض اوقات موضوع اور نفس مضمون کی مناسبت س مقال نگار/مصنف کو کوئی ےےاقتباس یا قول بطور حوال یا مثال یا ثبوت اپن خیال کی تائید و حمائت میں اپن ے ہ

ر ہدالئل و تجزی کو موثر اور مستند بنان ک لی نقل کرنا پڑتا لیکن ی انداز ک ہ ہ ہے۔ ے ے ے ےیں ، جدید اصولوں ک تحت مستحسن ن ہے۔جگ اصل لفظ یا عبارت نقل کر دی جائ ہ ے ے ہ

، و ہاب رواج ی ک جو عبارت، اقتباس یا خیال بطور ثبوت یا معاونت پیش کیا جائ ے ہ ہے ہو بلک اس کل عبارت یا اقتباس کو ہاصل لفظوں یا کل عبارت کی صورت میں ن ہ ہ

ےمقال نگار اپن لفظوں میں اختصار ک ساتھ تحریر کر اور اس عبارت یا اقتباس کا ے ے ہہمکمل حوال حاشی میں ضروری تفصیالت ک ساتھ درج کر د ک و ماخذ میں کس ہ ے ے ے ہ

مار بعض مصنفین کئی وا ےصفح پر یا کس صفح س کس صفح تک پھیال ہ ہے۔ ہ ے ے ے ہے ےیں، ہکئی پیراگراف بلک کئی کئی صفحات پر مشتمل عبارت بھی بعین نقل کر دیت ے ہ ہ

ےجبک محض اس عبارت ک نفس مضمون کو اپن لفظوں میں تحریر کر دینا اور اس ے ہاں عبارت ک اصل اں، بعض صورتوں میں، ج ےک ماخذ کا حوال د دینا کافی ہ ہ ہے۔ ے ہ ے

وں تاک و اصل الفاظ بطور مثال یا ثبوت بحث کی معاونت ہالفاظ نقل کرن ضروری ہ ہ ےہے۔کر سکیں تو و متعلق الفاظ یا سطور یا عبارت بصورت اقتباس نقل کی جاسکتی ہ ہ

ی ک اگر و اقتباس محض چند لفظوں یا ایک آدھ ونی چا پابندی ی ہلیکن اس ک لی ہ ے ہ ہ ہ ے ےی اور پھر ی میں واوین میں نقل کر دینا چا و تو اس جاری جمل ےسطر پر مشتمل ہ ہ ے ے ہےاس ک خاتم پر حاشی کا نشان لگا کر اس کا حوال یا ماخذ کی تفصیل حاشی میں ہ ے ے ے

Page 4: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

اگلی و تو اس نیچ ےدرج کر دینا چایئ لیکن اگر اقتباس ایک آدھ سطر س زیاد ے ہ ہ ے ے۔ی ےسطر کی جگ پر ، درمیان میں، دونوں جانب یکساں فاصل چھوڑ کر نقل کرنا چا ہ ہ ہ

ےاور ی بھی التزام رکھنا چایئ ک اس اقتباس کی کتابت کا سائز عام کتابت ک سائز ہ ے ہون اور کتابت کا و اس طرح و اقتباس درمیان میں دو فونٹ کم ےس ہ ہ ۔ ہ ۔۔۔۔۔۔۔ ے

ون کی وج س نمایاں اور متن س مختلف نظر آتا لیکن اس ک باوجود ےسائزکم ہے ے ے ہ ے ہئ مثال ونا چا تمام ضرور و اس ک آغاز و خاتم پر واوین کا ا ے۔و کسی حجم کا ہ ہ ہ ے ے ہ ہ

دو واوین دونوں ر واوین ، جس میں دو ﴿ایک اقتباس ذیل میں دیکھا جا سکتا ے ہ ہےایک ایک واو، دونوں جانب کا استعمال اور ان کافرق توج ر واوین اور اک ہجانب ﴾ ﴿ ے ہ ﴾

: ہےطلب ن فورا" ایک شرعی فتو کامضمون تیار کیا اور اس سلطنت ک ے"شیخ مبارک ے ے ے ۔۔۔ور پیش کر دیا اس فتو میں اس مش ہسربرآور د علماء ک دستخطوں ک لی ے ۔ ے ے ے ہےاسالمی اصول ک بیان کیا گیا ک اگر قرآن و سنت ک احکام اپن نفاذ میں کسی ے ہ ہ

وں اور علمائ شریعت اپنی تفسیر و تعبیر وت ےصورت حال پر پوری طرح منطبق ن ہ ے ہ ہادات پیش کی ک جو اجت وں تو ' ایک سلطان عادل' کو ی حق حاصل ےمیں متحد ن ہ ہ ہے ہ ہ ہ

وں، ان میں س کسی ایک کو تسلیم کر ل " ے۔گی ے ہ ۱ےاں اسی ر واوین میں الزما نقل کیا جائ گا، اس لی ی ہاس اقتباس میں، جو دو ے ے ے ہ

ر واوین میں تحریر کیا ےطرح نقل کیا گیا ، تین الفاظ "ایک سلطان عادل" کو اک ہ ہےیا ی کسی بھی ، جس کی غرض و غایت ی ک اقتباس کی اس عبارت میں ہگیا ۔۔۔۔۔ ہ ہے ہ ہے، ان الفاظ یا' ایک سلطان عادل' کو نمایاں کرنا یا ہےعبارت یا جمل میں کیا جا سکتا ے

و ۔پڑھن والوں کو ان کی طرف خاص طور پر توج دالنا مقصود ہ ہ ےیں، ان کا مطلب کسی ہاس اقتباس ک آغاز میں جو تین نقط دیکھ جا سکت ے ے ے ےوتا ک اس مقام پر اس اقتباس کی کچھ عبارت، جمل یا الفاظ ہاقتباس میں ی ہ ہے ہ ہ

یں ، جو کسی وج س غیر ضروری سمجھ گئ اس ے۔اقتباس س حذف کر دی گی ے ے ہ ہ ے ے ےاور پھر اس ک بعد عبارت کو وتا ی مطلب ےصورت میں تین نقط لگان کا ی ہے ہ ہ ے ے

ہے۔مربوط کر لیا جاتا ، جس ایک عام عبارت میں شامل یا نقل کی جا ےبین السطور اقتباس کی مثال ی ہے ہ

: ا ہےر ہو، و ہنوجوان ابوالکالم کا خیال تھا ک "جو تحریک صرف بر عظیم تک محدود ہ ہ ۔۔۔

و سکتی ی تحریک کچھ مفید یں کر سکتی، و ہمقامی مسلم ملت کی کوئی خدمت ن ہ ہ " ۔ جو تمام دنیا ک مسلمانوں کو اپنی آغوش میں ل ل ے ے ے ہ لیکن عمر رسید۲ہے

ندوستانی قوم پرست اور سیاست داں بن کر ر گ ! ۔۔۔ابوالکالم محض ے ہ ہوں تو ان کو واوین ، کوئی شعر یا اشعار نقل کرن یں اسی جگ کوئی مصرع ہاگر ی ے ہ ہ ہ

اں حوال دینا ضروری ، اور اس مقصد ک لی شعر ک یں، ےمیں لکھنا ضروری ن ے ے ہے ہ ہ ہاں بیت کی عالمت درج کر ک شعر نقل ی ی ےاختتام پر حاشی کا نشان لگانا چا ﴾ ﴿ ہ ے۔ ہ ے

ہےکیا جاتا ی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ہتو

۳ہورن گلشن میں عالج تنگی داماں بھی تھا یں اور اگر ی اقتباس تمام ضروری ن ہاس طرح شعری اقتباس ک لی واوین کا ا ہ ہ ے ے

ےمحض ایک مصرع یا مصرع ک ایک ٹکڑ کا تو اس جاری سطر ک درمیان ے ہے ے ے ے ے: ڈاکٹر اشتیاق حسین ہنقل کیا جا سکتا مثال ک طور پر ی عبارت دیکھی ک ے ہ ے ہے۔

ہقریشی ن ابوالکالم آزاد کی فکری تبدیلیوں کا جس طرح تجزی کیا اور انھیں اتحاد ے

Page 5: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

وت ندوستانی قوم پرست ےعالم اسالم کا داعی قرار دین ک بعد جب انھ�یں محض ہ ہ ے ےت تو ی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا" ورن و چا و گا ک "تو ی سوچا ےدیکھا تو ی ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہےخود کو جمال الدین افغانی کا جانشین بنا سکت تھ اور سار عالم اسالم کی جانب ے ے

ے۔س عزت ووقار حاصل کر سکت تھ ے ےو تو انھیں ہلیکن اگر ی اقتباس ایک س زیاد مصرعوں یا شعر یا اشعار پر مشتمل ہ ے ہی اس صورت ے۔نیچ درمیان میں، دونوں جانب یکساں فاصل رکھ کر درج کرنا چا ہ ہ ے

یں ۔میں آغاز اور خاتم پر واوین لگانا ضروری ن ہ ےےاشعار ک لی بھی ماخذ کا حوال دینا ضروری چناچ شعر یا اشعار ک خاتم پر، ے ہ ہے۔ ہ ے ے

و ، نثری اقتباس کی طرح حاشی کا نشان لگانا ضروری ان اں ضروری اں ج ۔ج ہے ے ہ ہ ہر ایک ک لی متعلق وں تو وں اور الگ الگ ہاشعار ک ماخذ ایک یا ایک س زیاد ے ے ہ ہ ہ ہ ے ے

ےمقام پر حاشی کا نشان لگانا اور پھر ان ک ماخذ کی تفصیالت حاشی میں درج کرنا ے ےہے۔ضروری

ی ک مسائل:4.2.3 ے ماخذ کی نشاند ہ

یں ہتحقیق کی اخالقیات اور دیانت داری کا تقاضا ک جو بھی نیا خیال، نکت یا واقع ک ہ ہ ہ ہےےس یا کسی س اخذ کیا جائ یا کسی بھی قسم ک ماخذ س کسی طرح کا ے ے ے ے

وں گ مطالع زیاد ، اس کا مکمل حوال دینا الزمی حوال جتن ےاستفاد کیا جائ ے ہ ہ ے ے ہے۔ ہ ے ہوں گ اس س مصنف یا مقال نگار ک ےک استناد اور وقار میں اضاف کا باعث ہ ے ے۔ ہ ے ے

ےمطالع کی وسعت، جستجو کی نوعیت اور دیانتداری کا ثبوت ملت اس لی ۔ ہے ےر مقام پر ماخذ کا حوال ر ی اور استفاد ک یں لینا چا ہحوالوں میں بخل س کام ن ہ ہ ے ے ے ہ ہ ے

ی ے۔ضرور دینا چا ہوتا ک ی حوال کس مقام پر دیا جا ہاب سوال ی پیدا ہ ہ ہے ہ ے؟ عام طور پر حوال حاشیۓہ ے

و ، یا باب یا مقال یا کتاب ک آخر میں اس یں جو چا پا ورقی ۔میں دی جات ے ے ہ ہے ہ ے ےیوں س مغربی دنیا میں حوالوں ک ا ، لیکن گزشت چند د یں ر ن ےمیں اختالف بظا ے ہ ہ ہ ہے ہ ہ

ےلحاظ و شمار کو ان کی نوعیت ک لحاظ س دو بڑ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ے ےیں جن کا وت ہ ایک بنیادی ماخذ اور دوسر ثانوی ماخذ بنیادی ماخذ و ماخذ ے ہ ہ ۔ ے ۔ ہے

ر تحریر، جو چا وتا مثال شیکسپیر کی ہےتعلق موضوع مطالع س راست یا قریبی ہ ہے۔ ہ ے ہد یں بلک ع ی ن الئ گی اور ی و، و بنیادی ماخذ ک ہکسی نوعیت اور کسی حالت میں ہ ہ ہ ے ہ ہ ہ

و یا اب تک غیر ہشیکسپیر میں ان موضوعات پر جو کچھ لکھا گیا، چا و مطبوع ہ ہ ہےی مین شمار م اس بنیادی ماخذ مار استفاد میں آیا تو و، اگر و ہمطبوع ے ہ ہے ے ے ہ ہ ہ ہ

د کاتمام مواد، جو کسی د ک تعلق س اس ع یں بلک اس ع ی ن ہکریں گ صرف ی ے ے ہ ہ ہ ہ ے۔، و بھی بنیادی ماخذ میں شمار ماری معاونت کر مار مطالع میں ہصورت میں ے ہ ے ے ہر تحریر اور اورنگ و تو اورنگ زیب کی مارا موضوع مطالع ہو گا اگر اورنگ زیب ہ ہ ہ ۔ ہو ، مار لی معاون ر تحریر،جو د میں لکھی جان والی ہزیب ک تعلق س اس ع ے ے ہ ہ ے ہ ے ے

الی گی اس اعتبار س تمام عصری ےسند کا کام د گی اور بنیادی ماخذ ک ۔ ے ہ ےیں وت ۔دستاویزات ، فرامین ، مراسلت اور خطوط وغیر بنیادی ماخذ ہ ے ہ ہ

یں اترت یں جو بنیادی ماخذ کی تعریف پر پور ن وت ےان ک برعکس ثانوی ماخذ و ہ ے ہ ے ہ ہ ےیں یعنی شیکسپیر وت د مابعد ک جائزوں اور مطالعوں پر مشتمل ۔یا تو ع ۔ ۔ ۔ ۔ ہ ے ہ ے ہ

د شیکسپیر ک بعد کسی مصنف ن قلم اٹھایا یا بعد میں ےک مذکور موضوعات پر ع ے ہ ہ ےالئیں وں، ثانوی ماخذ ک ، چا و کسی نوعیت ک وت ر ہمطالع اور جائز تحریر ہ ے ہ ہے ہے ے ہ ے ے

Page 6: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

یں، لیکن ہگ اورنگ زیب پر اگرچ جادو ناتھ سرکار کی تصنیفات ب حد معیاری ے ہ ے۔ا جائ گا اس ک مقابل میں محمد ساقی مستعد ےانھیں اورنگ زیب پر ثانوی ماخذ ک ے ۔ ے ہ

ےخان کی تصنیف "ماثر عالمگیری " جو تجزی و معلومات ک لحاظ س جادو ناتھ ے ےسٹری آف اورنگ زیب" س کم درج کی لیکن بنیادی ماخذ ہےسرکار کی تصنیف " ے ے ہ

و گی ۔شمار ہوں، مقاالت ہاسی طرح آج اگر شیکسپیر اور اورنگ زیب پر اعلی معیا رکی تحقیقات ،تب بھی وں اور ان میں بنیادی ماخذ س استفاد کیا جائ ےلکھ جائیں، کتابیں تحریر ہ ے ہ ے

ا جائ گا ی ک یں ثانوی ماخذ ۔انھیں بنیادی ماخذ ن ے ہ ہ ہائیوں س ایک ی روی سامن آیا ک بنیادی ماخذ کا ہحوالوں ک ضمن میں چند د ہے ے ہ ہ ے ہ ے

ی قوسین میں درج کر دیا جائ اور عبارت کی ایت اختصار س بین السطور ، ن ےحوال ہ ے ہ ہہروانی کو جاری رکھا جائ بعض مقال نگار بنیادی ک ساتھ ساتھ ثانوی ماخذ کا حوال ے ہ ے۔

یں، لیکن ی انداز مستحسین ہبھی اسی طرح بین اسطور قوسین میں درج کر دیت ہ ےوا جبک اکثر مصنفین حوالوں کو بین السطور یں یں اور اسی لی ی روی عام ن ہن ۔ ہ ہ ہ ہ ے ہے ہیں یں اور ان کو حواشی میں درج کرنا مناسب سمجھت ۔پیش کرن ک حق میں ن ہ ے ہ ے ے

ی اس س ، کیونک جو سند بین السطور پیش کی جار ی طریق مناسب بھی ےی ہے ہ ہ ہے ہ ہوں استناد کا حوال صرف خاص ہطرح استناد کو بھی دیکھن س دلچسپی رکھت ۔ ہ ے ے ے

وتا چناچ استناد حاشی میں بھی پیش کی جا م ےدلچسپی رکھن والوں ک لی ا ے ہ ہے۔ ہ ہ ے ے ےی یں اور اکثریت کا عمل اور مناسب بھی ی ہے۔سکت ہ ہے ہ ے

ہاس طرح اگرچ حوال پاروقی حاشی میں دینا سب س زیاد مناسب ک اسی ہے ہ ے ے ہ ہو جاتی لیکن فی الوقت اس امر میں ی رکاوٹ یا ی ہصفح پر ماخذ کی نشاند ہے ہ ہ ے

، ابھی تک کمپیوٹر ولت اپنا لی ہےدشواری موجود ک جب س کتابت ن مشینی س ہ ے ے ہ ہےولت ک ساتھ و سکا ک حواشی کو س یں ےپر اردو کتابت کا مناست نظام وضع ن ہ ہ ہے ہ ہ، اس وتی ہےپاورقی تحریر کیا جا سک اس میں وقت، محنت اور توج زیاد درکار ہ ہ ہ ے۔ےوج س فی الوقت اگر حواشی کو باب ک آخر یا کتاب ک اختتام پر شامل کیا جائ ے ے ے ہ

ر باب وں ی حواشی شامل تر ک کتاب ک اختتام پر تی زیاد ب ولت ر ہتو س ۔۔۔ ہ ہ ے ہ ہے ہ ہ ہے۔ ہ ہو سکتا ایک وں تو بار بار ماخذ کو دیکھن کا عمل بیزارکن ہے۔ک بعد متعلق حواشی ہ ے ہ ہ ے

ےی جگ سلسل س تمام حواشی کو م یک نظر تالش کرنا آسان عمل اس لی ہے۔ ہ ے ے ہ ہوتی کتابیات " رست اسنادمحول ہےبھی ک حواشی ک فوری بعد بلک متصل "ف ہ ﴾ ﴿ ہ ہ ہ ے ہ

و تو ی کام مزید ہجس حوالوں کی تفصیالت ک لی اگر فوری اور اسی وقت دیکھنا ہ ے ے ےو جاتا ہے۔آسان ہ

؟ ےاب سوال ی ک ماخذ کا حوال درج کس طرح کیا جائ ہ ہ ہے ہہ حوال درج کرن کا طریق4.2.4 ے ہ

ےماخذ کا حوال دین ک لی عبارت میں متعلق مقام پر بالعموم حاشی کی عالمت ہ ے ے ے ہ : ، جیس ' پر نمبر شمار دیا جاتا ےیعنی' ہے ے لیکن مشینی کتابت ک آغاز میں3،2،1۔۔۔۔

ےچونک اس عالمت کو تالش کرنا، استعمال کرنا دشوار لگا اس لی مشینی کاتبوں ن ے ہل سمجھا اس لی قوسین میں نمبر ےاس عالمت ک بجائ قوسین کا استعمال س ہ ے ے

ہےشمار لکھ کر تقاضا پورا کرن لگ اور ی قدر رواج بن گیا ی عمل آسان تو لیکن ہ ۔ ے ہ ے ےیں قوسین میں حاشی نمبر درج کر ک اس ےبیت کا مذکور نشان بھی کچھ مشکل ن ہ ۔ ہ ہیں اس ت ہمقصد کو پور کرن میں ایک قباحت ی ک قوسین ک متنوع استعمال ر ے ہ ے ہ ہے ہ ےی ک لی تر ک حاشی کی نشاند ےلی کسی اشتبا اور یکسانیت س بچن ک لی ب ے ہ ے ہ ہے ہ ے ے ے ے ہ ے

' ی استعمال کیا جای ے۔قوسین ک استعمال ک بجای روایتی بیت کا نشان ' ہ ۔۔۔۔ ے ے ے

Page 7: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

ہاب سوال ی ک ماخذ یا سند ک حوال میں ماخذ کو بنیاد بنایا جائ ی مصنف کو ؟ ے ے ے ہ ہے ہیعنی

ے حوال کا اندراج مصنف ک ذیل میں یا ماخذ ک ذیل میں؟4.2.5 ے ے

یں اور حوال جس طرح درج ہکچھ مصنفین حاشی میں سند کا حوال ماخذ کو بنات ہ ے ہ ےیں: یں ، اس کی درج ذیل صورتیں عام ہکرت ہ ے

اروی، ندوة1 موالنا حفظ الرحمن سیو یااز ہ- اخالق اور فلسف اخالق" مصنف ﴾ ﴿ ہلی 35ء ص 1964ہالمصنفین، د

اروی، ص 1 ہ- اخالق اور فلسف اخالق"، موالنا حفظ الرحمن سیو 35ہکیو نک کتاب "اخالق اور یں ہلیکن ی اندراج یا ماخذ کا حوال منطقی او ر درست ن ۔ ہ ہ ہ

، جو اس کی اروی ن لکھا مصنف موالنا حفظ الرحمن سیو " کو اس ک ہےفلسف ے ہ ے ہیں اور اس میں تحریر کرد خیاالت و مباحث ک ذم دار بھی ےتصنیف کا سبب بھی ے ہ ہمیت رکھتا اور مار لی کسی تخلیق یا تصنیف کا خالق اور مصنف بنیادی ا ہےیں ہ ے ے ہ ۔ ہمیت رکھتی چونک محصول معلومات کا اصل وسیل یا سبب مصنف ہکتاب ثانوی ا ہ ہ ہے۔ ہہ، اس لی معلومات کا ماخذ مصنف اور مصنف ک وسیل س ی کتاب ضمنی ے ے ے ہے ے ہےی خیاالت، جو اس کتاب میں بیان کی و سکتا ک اس مصنف ن ایس ےماخذ ہ ے ے ہ ہے ہ ہے۔

میت یا وسیل مصنف وں، اس صورت میں بنیادی ا ہوں، کسی اور جگ بھی بیان کی ہ ہ ے ہ ہےی کا اور ذیل حیثیت ان دونوں ماخذ کو حاصل ر گی اس لی منطقی طور پر ۔ ہے ے ہے ہ

چنانچ مذکور ماخذ کا حوال مذکور ی ونا چا ہمصنف ک ذیل میں ماخذ کا حوال درج ہ ہ ہ ے۔ ہ ہ ہ ےو گا: ہتفصیالت ک ساتھ اس طرح درج ے

لی اروی " اخالق اور فلسف اخالق" ، ندوة المصنفین، د ہموالنا حفظ الرحمن سیو ہ ہ35ء ص 1964

تر اصول ک تعلق س اں اس حوال میں، اور اسی طرح س حوال دین ک ب ےاب ی ے ہ ے ے ہ ے ے ہیں مثال ک طور پر: ےکچھ باتیں قابل غور اور محل نظر ۔ ہ

ی تاک حاشی میں جگ زیاد استعمال ن1 ونا چا ر حوال کو مختصر س مختصر ہ- ہ ہ ے ہ ے ہ ہ ے ے ہ، پڑھن اور م اور غیر ضروری تفصیالت کو بار بار لکھن ےو اور سب کچھ یا غیر ا ے ہ ہ

: ، اس لی ران کی گراں باری ن ر ےد ہے ہ ے ہ، کیونک تمام متعلق2 ی نا چا ہ – حوال کو محض بنیادی تفصیالت تک محدود ر ہ ے ہ ہ ے

اں یں ی وتی میں الزما موجود یا کتابیات " رست اسناد محول ہتفصیالت آخر میں "ف ۔ ہ ہ ﴾ ﴿ ہ ہرست یں، جن کی مدد س تمام تفصیالت کو ف ہصرف و تفصیالت یا اشار کافی ے ہ ے ہ

، " میں آسانی س تالش کیا اور دیکھا جا سکتا ہےاسناد محول ے ہہ – اس مصنف ک نام میں اور دیگر مصنفین ک ناموں میں، موالنا، مولوی، عالم ،3 ے ے

یں بعض ناموں ک ساتھ اس نوعیت ک سابق ےحکیم، ڈاکٹر وغیر اصل نام کا حص ن ے ے ۔ ہ ہ ہوتا ک ی کبھی اور یں، لیکن کبھی کبھی ایسا بھی وت ہاور الحق استعمال تو ہ ہے ہ ہ ے ہ ے

وت کبھی یں بھی یں اور کبھی اور کسی جگ استعمال ن وت ے۔کسی جگ استعمال ہ ہ ہ ہ ے ہ ہوتا ک ایس مصنفین کی کسی کتاب میں ی سابق یا الحق استعمال ےیوں بھی ے ہ ے ہ ہے ہ

وں اس صورت میں یں اور کسی دوسری کتاب میں شاید ی استعمال ن بھی ۔وت ہ ہ ہ ہ ے ہی ک اس طرح ہاور کچھ نام کی غیر ضروری طوالت کو کم کرن ک لی مناسب ی ہے ہ ے ے ے

۔ک سابق اور الحق نام ک الزمی جزو ک طور پر استعمال ن کی جائیں ے ہ ے ے ے ے ےوگی: حفظ الرحمن ہچنانچ درج باال حوال درج کرن کی ایک مناسب صورت ی ہ ے ہ ہ

Page 8: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

اروی، "اخالق اور فلسف اخالق"، ص ہسیو 35ہی اں محض اتنا حوال ولت و افادیت کی مناسبت س ی ہلیکن حالی رجحانات اور س ہ ہ ے ہ ہ

و گا: ہکافی اروی ، ص 35ہحفظ الرحمن سیو

وگا " میں موجود رست اسناد محول ۔کیونک کتاب کا نام، دیگر تفصیالت کی طرح، "ف ہ ہ ہ ہاں، اگر اس مصنف کی یں اں بآسانی دیکھی جاسکتی ہاس لی تمام تفصیالت و ۔ ہ ہ ےیں تو پھر اپن اپن حوال میں مصنف ک ےایک س زیاد تصانیف استفاد میں آئی ے ے ے ہ ے ہ ے

وگا مثال ر تصنیف کا عنوان بھی ضرور شامل ۔نام ک بعد ہ ہ ےاروی " اخالق اور فلسف1 ہ – حفظ الرحمن سیو ہاروی " اسالم کا اقتصادی نظام"، ص 2 128ہ - حفظ الرحمن سیو

ا تو ی ی حاشی میں یک بعد دیگر آر ہاور اگر ان دونوں ماخذ کا حوال کسی ایک ہے ہ ے ے ے ہ ہ: وں گ یوں درج ےحوال ہ ے

ارویاخالق" ، ص 1 35ہ " اخالق اور فلسف اخالق" ، ص 35ہ - حفظ الرحمن سیو128 – ایضا، "اسالم کا اقتصادی نظام" ، ص 2

ےواقع ی ک جدید رجحانات، ضرورتوں اور تقاضوں ک پیش نظر آج علمی دنیا میں ہ ہے ہ ہو گئی ی اختصار وقت ک ضیاع اور زحمت س میت حاصل ےاختصار کو بڑی ا ے ہ ۔ ہے ہ ہ

ار یا ابالغ کو نیو کلیائی اختصار دین ک لی ےبچن ک لی بلک وسیع تر معنوں میں اظ ے ے ہ ہ ے ے ےا چنانچ کوشش ی ک وقت اور گنجائش دونوں کو بچایا جائ اور با ےروارکھا جا ر ہ ہے ہ ہ ہے۔ ہو، بچا جائ اس مقصد ک لی گزشت ، جو کسی بھی نوعیت کی ہر بار کی تکرار س ے ے ے۔ ہ ے

کتابیات کی ترتیب میں رست اسناد محول ائیوں س حوال ک اندرج اورف ﴾چند د ﴿ ہ ہ ے ے ے ہیں اس اختصار اور جامعیت کا تقاضا تھا ک تصنیف ی ہمزید تبدیلیاں اختیار کی جا ر ۔ ہ ہو گئی یعنی اب تمام تفصیالت س قطع میت حاصل سن اشاعت کو بڑی ا ےک ۔ ہے ہ ہ ے

وئ تصنیف کا سن اشاعت اور صفح نمبر درج ہنظر حاشی میں ماخذ کا حوال دیت ے ہ ے ہ ے، اگر اس مصنف کی صرف ایک کتاب استفاد میں ےکر دینا کافی یعنی اب حوال ہ ہے۔

: ہےآئی ، تو اس طرح دیا جاتا ہےاروی، ص 78ہحفظ الرحمن سیو

یں تو پھر ی حوال ی یں، یا آر ہورن اگر اس مصنف کی دو کتانیں استفاد میں آئی ہ ہ ہ ہ ے ہےاس طرح متعلق تصنیف ک سن اشاعت ک ساتھ دیا جائ گا: ے ے ہ

اروی ، 78ء ، ص 1964ہحفظ الرحمن سیور ایک کا ضیاع ل اور جامع اس س جگ اور وقت اور محنت ہی اصول زیاد س ہ ے ۔ ہے ہ ہ ہ

" رست اسناد محول وتا ان تصانیف کی تمام تفصیالت، مصنف ک ذیل میں، "ف یں ہن ہ ے ۔ ہ ہیں ۔کتابیات میں فوری دیکھی جاسکتی ہ ﴾ ﴿

" کی رست اسناد محول ون ک باعث علیحد س "ف ہاں، جن مقاالت میں، مختصر ہ ے ہ ے ے ہ ہ، ان میں حاشیوں میں صرف سن اشاعت کو ملحوظ رکھ بغیر، ےضرورت ن ر ہے ہ

لی بار حاشی میں دیا جا ےمصنف کا نام، تصنیف کا عنوان اور اگر اس ماخذ کا حوال پ ہ ہا ، تو دیگر تفصیالت بھی درج کی جائیں گی، لیکن ی حوال دوسری بار یا بار بار ہر ہ ہے ہ

لی بار مصنف ی تو پ ی تصنیف استفاد میں آ ر ا ، تو مصنف کی صرف ایک ہآر ہے ہ ے ہ ہے ہ کا نام اور دیگر تفصیالت درج کی جائیں، بعد میں صرف مصنف کا مختصر نمبر کافی

ہے۔و تو حاشی میں وئ ک ماخذ کا حوال دینا ےگویا اب تک ی امور ط ہ ہ ہ ے ہ ے ہ

، جیس ندوی ، سید سلیمان، ص 1 ے – صرف مصنف کا نام اور صفح نمبر کافی ہے 12ہ

Page 9: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

یں، تو حوال2 ے – لیکن اگر اس مصنف کی ایک س زیاد تصانیف استفاد میں آئی ہ ے ہ ے، جیس ےمیں مصنف کا نام، متعلق تصانیف کا سن اشاعت اور صفح نمبر کافی ہے ہ ہ

12ء ص 1950ندوی، سید سلیمان، ے – ایک ی بھی التزام رکھا جاسکتا ک اگر استفاد میں کوئی اور مصنف" ندوی"3 ہ ہے ہ

وں گ کیونک نام کی تفصیل بھی کتابیات میں مل یں تو ی اندراجات اور مختصر ہن ے۔ ہ ہ ہے ہ: وں گ ےجائ گی، اس لی ی اندراجات اس طرح ہ ہ ے ے

12ء ، ص 1950، ندوی 12ندوی، ص ی تو4 یں کی جار " شامل ن رست اسناد محول ہ – اگر مقال مختصر اور اس میں "ف ہ ہ ہ ہے ہ

لی بار مفصل دیا جای گا اور دوسری بار یا بار بار و ہماخذ کا حوال حاشی میں پ ے ہ ے ہیں تو ی ہحوال مختصر یعنی صرف مصنف کی ایک س زیاد تصانیف استفاد میں آر ہ ے ہ ے ہ

ہمصنف ک نام ک ساتھ تصنیف کا عنوان بھی تحریر کرنا ضروری اور پھر صفح ہے ے ے۔نمبر بھی

؟4.2.6 ے صنف کا نام کس طرح درج کیا جائ

ےاب سوال ی ک حوال میں مصنف کا نام کس طرح درج کیا جائ ؟یعنی کیا اس ے ہ ہے ہاروی "اسالم کا اقتصادی ہطرح درج کرنا مناسب؟:موالنا محمد حفظ الرحمن سیو

۔۔۔نظام" ےلیکن دیکھا جائ تو اس نام کو اسی طرح درج کرنا سائنٹیفک اصولوںتحت مناسبر تصنیف میں موالنا محمد ر جگ یں ک اس مصنف کا نام کیونک ضروری ن یں ہن ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ہ

اس مصنف کی دو تصانیف کی تفصیالت اوپر درج و اری لکھا گیا ۔حفظ الرحمن سیو ہ ہءاخالق،،پر مصنف کا نام تحریر :”موالنا ،ان میں س ”اخالق اور فلسف ہےکی گئیں�� ہ ےاور دوسری تصنیف ”اسالم کا اقتصادی نظام ،،پر اس اری ،، ۔۔حفظ الرحمن سیو ہ

ی بھی ممکن ک ی مصنف ا ری ،، ہطرح لکھا :”موالنا محمد حفظ الرحمن سیو ہ ہے ہ ۔ ہ ہےاں و جو ی وں اور اس دور میں انھوں ن کوئی کتاب لکھی ہجب ”موالنا ،،ن ر ہ ے ہ ہے ہاری ،،یا وگا:”حفظ الرحمن سیو ی تو و نام شاید یوں لکھا ہاستفاد میں آر ہ ہ ہے ہ ے

ئیں،جو تصنیف چونک کتابیات یا حوالوں میں و نام لکھن چا ہ”محمد حفظ الرحمن،، ے ہ ہ ۔۔و، اس صورت میں کوئی ال علم مقال نگار ان تین ناموں کو الگ الگ مصنف ہپر لکھا ہ

جی ک لحاظ س حروف ت ےسمجھ کر ے ہ ۔۔ایک شاید ”موالنا ،،ک تحت درج ےتین مختلف مقامات پر ان کا اندراج کر گا ۔ ے

ےوگا،دوسرا نام ”محمد ،،ک ذیل میں ،اور تیسرا نام ”حفظ الرحمن ہ۔،،ک ذیل میں ے

اں ،معاشرتی اور اخالقی تقاضوںک باعث،ناموںکو درج کرن ک معامل میں ےمار ے ے ے ہ ے ہیں ت ۔میش تکلفات اور احترامات الزم ر ہ ے ہ ہ ہ

ولت حل نکال لیا اور ناموں ک آخری ت آسان اور با س ےمغربی دنیا ن تواس کا ب ہ ہ ےیں ل درج کرت و یا نسبتی ،پ ہجزو کو جو چا خاندانی ے ے ہ ہ ہے

مار ��� اس لحاظ س مثال یں ےاور پھر وقف کا نشان )،(لگا کر بقی نام تحریر کر دیت ہ ے ۔ ہ ے ہ ہ: ےنام یوں لکھ جا ئیںگ ے

؛ ہجعفری، سیدرئیس احمد؛میمن، محمدعمر ؛صدیق،سعیدالل؛احمد، ؛صدیق،محمد؛مستور،خدیج اب قدرت الل ہش ہ ہ

؛وغیر ہ۔عزیز؛خاں،سیداحمد؛بیگ،مرزافر حت الل ہ

Page 10: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

یں: م یوں لکھت ہاس اعتبار س شاعروںک نا م اور تخلص کا لحاظ ے ہ ے ےہغالب، مرزااسدالل خاں؛ آتش،خواج حیدر علی؛بیدل، ہ

ہ۔مرزاعبدالقادر؛سعدی،مصلح الدین؛وغیرمیں ی نام بھی بعین لکھن ےلیکن جب اسی اصول ک تحت ہ ہ ہ ے

اروی،حفظ الرحمن؛علی گڑھی، وری، ضیاء الدین؛سیو ہپڑیں،جیس :ندوی ،سلیمان؛ ال ہ ےاور تی یںر مار لی ی ترتیب بالعموم قابل قبول ن ؛تو اری، محب الل ؛ ب ۔لطف الل ہ ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ہ

ےاسی مناسب س جب ی اصول اختیار کر لیاجائ اور کسی ہ ےلوی؛حافظ شیرازی؛ مجاز لکھنوی؛ وں :غالب د ہتصنیف پر جب ی نام تحریر ہ ہ

لوی،غالب؛ :د ہمرزاابوطالب لندنی، تو انھیںیوں لکھنا پڑتا ہےجبک ان ناموں کی تمام تر ہشیرازی، حافظ؛ لکھنوی، مجاز؛ لندنی،مرزاابوطالب ۔

یں روں س ن ہے۔عرفیت ان ک تخلص س یا محض ش ہ ے ہ ہے ے ےمار لی ،جدید تر مغربی اصولوں ک ےمذکور باالصورتوں میں س ی نام ے ے ہ ہ ے ہ

یں اور قدر رواج میں نی و عملی طور پر قابل قبول بھی ےمطابق،ذ ہ ہ� جعفری، سید رئیس احمد؛غالب،مرزااسدالل خاں؛ندوی، سید سلیمان یں، مثال ۔بھی ہ ہ

ہاس عمل کی ایک عمد مثال ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی تصنیف ”برعظیم پاک، ءتصنیف وتالیف وترجم :شعب ،،)مطبوع ند کی ملت اسالمی ہو ہ ہ ہ ہ

،،1967ہجامع کراچی،کراچی، ہء راقم کی تصنیف”تحریک آزادی میںاردو کا حص:انجمن ترقی اردو ،کراچی، ،1976ہ)مطبوع ہے(

ی ترتیب روا رکھی گئی ہے۔اور راقم کی دیگر متعدد تصانیف اور مقاالت میں ی ہےان تمام مذکور مثالوں میں صرف تخلص ک بعد ک الحق منطقی طو ر پر محل ے ے ہ

مار معاشرتی یں کیو نک اگر عرفیت یا نام کا نمایاں جزو ملحوظ ر تو ےنظر ہ ہے ہ ہا ں مروج جدید تر م ی ہاور ثقافتی پس منظر میں تخلص اس مقصد ک لی کافی ہ ۔ہ ہے ے ے

ےاصولوںمیں اپن مخصوص مزاج ک پیش نظر ی تصرف کر سکت ہ ے ےےیں ک حوال اور کتابیات میں محض شاعروں ک نام کو تخلص ک تحت درج کریں ے ے ہ ہی عمل اس ہگ اور باقی سار نام ان ک آخری جزو ک لحاظ س شامل کریںگ ے۔ ے ے ے ے ےیں ر شاعر اپن تخلص ک بعد عالقائی نسبت ن و سکتا ک ہلی بھی قابل قبول ے ے ہ ہ ہے ہ ے

اں نسبتی حوال یا الحق اس لی ی ےلگاتا ے ہ ے ۔اس طرح اب حوالوں یا کتابیات و گا ۔س صرف نظر کرنا ایک محدود استثنائی عمل ہ ے

ہےمیں درج ذیل ناموں کی ترتیب یوں ر گی:لوی، اسدالل خان؛ ابوالحسن علی ؛پاریکھ،ڈاکٹر عبدالر ہغالب د اروی، محمدؤہ ہف؛ سیو

ہ۔حفظ الرحمن؛ احمد،انوار؛وغیرآخری دو ناموں میں ،یا اس طرح ک دیگر ناموں ”احمد،،نام کا ےاب اس عمل میں ۔۔۔

یں اور ی شخصیات”عزیز،،اور ”انوار،،ک جزو س معروف ےمعروف جزون ے ہ ہے ہوتا ر ان ناموں کو توڑنا اور کم معروف جزو کو ترجیح دینا ناگوار محسوس ہیں ،بظا ہ ہ

ہے لیکن یکسانیت اور عادت کو برقرارےرکھن ک لی اس گوارا کرنا مناسب اورکسی ب قاعدگی س بچن ک لی ے ے ے ے ہے ے ے ے ے

ہےضروری یں تو م کلی طور پر ، تخلص س قطع نظر ، ی جدید تر اصول اختیار کر لیت ہاگر ے ہ ے ہ

ےکتابیات میں کسی نام کو تالش کرن میں کسی طرح کوئی الجھن ،دشواری اوراں ی معامل ،ک ناموںکو کس طرح کتب خانوں اور مار وگی جبک ہناکامی ن ہ ہ ہ ے ہ ہ ۔ ہ ہ

نچ سکا یںپ نوز کسی متفق فیصل تک ن ۔کتابیات کی ترتیب میں ملحوظ رکھاجائ ، ہ ہ ے ہ ہ ے

Page 11: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

یں یں،لیکن ان پر سب کا اتفاق ن یں ،جو اگرچ قابل غور ی وتی ر ہے۔متعددکوشش ہ ہ ہ ہ ہ ہندوی ،سید سلیمان،توعام اجا سکتا ک نام ک آخری جزو ک لحاظ س ،مثال� اں ی ک ےی ے ے ہ ہے ہ ہ ہ

یںاور یں اں اس ترتیب ک عادی ن مار ہلوگ ہ ے ہ ے ہی ی نام تالش کریںگ ،تو ےو کتابیات وغیر میں سید سلیمان ندوی ،سید ک تحت ہ ہ ے ۔ ہ ہ

مار رواج میں بھی ت آسان اور جو ہےاس کا حل ب ے ہ ہے ہہک جدید

ی ہتر اصول ک تحت اس نام کا اندراج تمام تفصیالت ک ساتھ ندوی، سید سلیمان ے ےولت ی لیکن کتابیات کو زیاد س زیاد مکمل ،جامع اور آسان وباس وناچا ہک تحت ہ ے ہ ے ہ ہ ےوگا:ندوی ،سید سلیمان؛لیکن سلیمان ندوی ک تحت بھی ےبنان ک لی ی اندراج یوں ہ ہ ے ے ےو گا،یعنی ندوی ک تحت مذکور اندراج ک عالو و گااور و اس طرح ہایک اندراج ے ہ ے ہ ہ ہ

وگا: ہ”سلیمان،،کی جگ بھی ایک اندراج اس طرح ہ:ندوی ،سید سلیمان ۔سلیمان ندوی ،سید دیکھی ے

ہاس ضمنی حوال س و تمام افراد جو چا ندوی ک تحت ی نام تالش کریںیا ے ہے ہ ے ےنچ جائیں گ ےسلیمان ک تحت و فوری تفصیالت تک بآسانی پ ہ ہ ے

ولت ی بھی شامل کی جا سکتی ک ایک اندراج ”سید،،ک تحت بھی ےایک اور مزید س ہ ہے ہ ہ:ندوی ،سید سلیمان یعنی :سید سلیمان ندوی دیکھی ۔ضمنی حوال کا د دیا جائ ے ے۔ ے ےیں گ نچن میں معاون ر ے۔اس طرح ی دونوں انداجات یا مقامات اصل انداراج تک پ ہ ے ہ ہیں: ہبعض صورتوں میں اس جدید اصول ک تحت نام اس طرح بھی لکھ جات ے ے ے

، سید، ڈاکٹر- ، ڈاکٹر سید اور عبدالل ہڈاکٹر سید عبدالل عبدالل ہ ہ۔م ہیعنی نام میں شامل خطبات، القاب اور کنیت وغیر کو بدل کو نام ک بنیادی اور ا ے ہ

: - جیس ےاجزا کو ترجیحا ترتیب دین کا عمل آج زیاد پسندید ہے ہ ہ ے: عبدالکریم، سید ی ےڈاکٹر سید محمد عبدالکریم، جس اس ترتیب س لکھا جانا چا ہ ے ے

محمد، ڈاکٹر-=: ہےاگرچ ی اس طرح بھی ممکن ہ ہ

عبدالکریم، ڈاکٹر سید محمدےیا ایک مثال اور: موالنا محمد ثنا الل امرتسری، جس ان صورتوں میں لکھا جاسکتا ہ

ہے:ہامرتسری، محمد ثنا الل موالنا یا امرتسری، موالنا محمد ثناء الل ہ

، موالنا زیاد ہان میں اور ایسی مثالوں میں اول الذکر: امرتسری، محمد ثناء الل ۔ ۔۔۔ ہو یا ناموں ک ر جگ اس نام ک ساتھ لکھا یں ک موالنا ، کیونک ضروری ن ےمناسب ۔ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہے

ادر وغیر ، مولوی، موالنا، یا خطبات جیس شمس العلماء، خان ب : ڈاکٹر، عالم ہسابق ہ ے ہ ےوں ۔الزما" لکھ ہ ے

یں ہاس ساری بحث اور ان مثالوں ک مطابق نام کا آخری جزو چونک بالعموم بدلتا ن ہ ےی کو شروع میں لکھ وتا، اس لئ اندراج میں نام ک آخری جزو یں ہیا نظر انداز ن ے ے ہ ہےکر وقف کا نشان )،( لگا کر نام کا بقی جزو یا اجزاء اوپر دی گئی مثالوں ک مطابق ہ ہ

وئ آخری جزو کو ر نام کو تالش کرت ےلکھن س ب قائدگی روا ن ر گی اور ہ ے ہ ہے ہ ے ے ےر و تو پھر نام ک ہملحوظ رکھنا ایک عادت سی بن جائ جب کسی اشتبا کا خدش ے ہ ہ ہ ے۔

تاک ضمنی اندراج یا اندراجات ک ی ےمعروف جزو س بھی ضمنی اندراج کر دینا چا ہ ے ہ ےنچا جائ ے۔توسط س بھی اصل مقام تک پ ہ ے

وتا ک تصنیف س قطع نظر اگر کوئی کتاب ترتیب یا تدوین اں ی سوال پیا ےاب ی ہ ہے ہ ہ ہو تو اس صورت میں بنیادی حوال کس کا دیا جائ گا؟ اصل ےمتن پر مبنی یا مشتمل ہ ہ

Page 12: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

ےمتن ک مصنف کا یا اس متن ک مرتب و مدون کا؟ ے؟4.2.7 ے ترتیب و تدوین کا حوال اور انداراج، مصنف ک نام س یا مرتب ک نام س ے ے ے ہ

؟ م اس کتاب کا حوال یا انداج کس طرح کریں گ ےاب دیکھنا ی ک ہ ہ ہ ہے ہی" مصنف ضیاء الدین برنی، ب تصحیح سرسید احمد ہکتاب کا نام: "تاریخ فیروز شا ہ ہ

، سرسید اکیڈمی، علی گڑھ ء، عکسی اشاعت طبع اول، ایشیاٹک2005ہخان، مطبوع ، ء1863ہسوسائٹی کلکت

وا اں استعمال ، لیکن جو نسخ ی ہےاس کتاب کا اصل مصنف ضیاء الدین برنی ہ ہ ہ ہےم ن اس ےاس سر سید احمد خان ن مرتب کیا اور اس پر مقدم بھی لکھا اگر ہ ہے۔ ہ ہے ے ے

ہکتاب ک متن ک صفح ے ہ س استفاد کیا تو حاشی میں حوال اس طرح درج22ے ے ہے ہ ےکریں:

22برنی، ص یں، کیونک اس مصنف اں مصنف کا پورا نام یا "برنی، ضیا الدین" لکھنا ضروری ن ہی ہ ہ

یں کی اور برنی نام کا کوئی اور م ن اس مقال میں استعمال ن ہکی کوئی اور کتاب ے ے ہاں برنی کا پورا م ی یں آیا ورن مار استفاد میں ن ہمصنف بھی اس مقال ک لی ہ ہ ۔ ہ ے ے ہ ے ے ے

ے۔نام لکھتو " میں اس طرح رست اسناد محول ہحوال س قطع نظر، اس ماخذ کا اندراج " ف ہ ہ ے ے

گا:ی" ب تصحیح و مقدم سر سید احمد خاں،2005برنی، ضیا الدین، ہء "تاریخ فیروز شا ہ ہ

، ہسر سید اکیڈمی، علی گڑھ عکسی اشاعت، طبع اول ، ایشیاٹک سوسائٹی، کلکت ﴿ ﴾ء1862

م ن ےلیکن اگر اس کتاب میں شامل سر سید احمد خاں ک تحریر کرد مقدم س ہ ے ے ہ ےو گا: ، حاشی میں یوں ہاستفاد کیا تو اس کا حوال ے ہ ہے ہ

7خاں، سید احمد ، ص یں ، جس کا نام "خاں" ک " میں کوئی اور مصنف ایسا ن رست اسناد محول ےاگر " ف ہ ہ ہ

و گا: و تو پھر ی حوال اس طرح درج ہتحت درج ہ ہ ہ، ص 7خاں، ص ی"، ص 7ہ ، یا خاں، مقدم ہ، یا خاں، مقدم " تاریخ فیروز شا 7ہ

مار اس مقال میں استفاد میں آئی ہےاور اکر سر سید کی کوئی اور تحریر بھی ے ے ے ہو گا: ی حوال حاشی میں اس طرح ہتو پھر ی ے ہ ہ

ی" ص ہخاں، سید احمد ، مقدم "تاریخ فیروز شا 7ہو گا: رست اسناد محول " میں اس کا اندراد اس طرح ہاور پھر "ف ہ ہ

ی"، مصنف ضیاء الدین برنی،2005ہخاں، سید احمد، سر، مقدم ہء " تاریخ فیروز شا ہسر سید اکیڈمی، علیگڑھ

م ن "دیوان غالب " یں، جس م حوال دینا چا ےاگر غالب ک کسی شعر یا غزل کا ہ ے ہ ہ ہ ےہمرتب امتیاز علی خان عرشی، مطبوع انجمن ترقی اردو، علیگڑھ ے س37ء ص 1959ہ

ےاخذ کیا تو حاشی میں حوال اس طرح دیا جائ گا: ہ ے ہے37غالب، ص

یں تو ی حوال اس ی مار استفاد میں ر ہلیکن اگر غالط ک اور دیوان یا تصانیف ہ ہ ہ ے ے ہ ےو گا: ہطرح

37ہغالب، مرتب عرشی، ص ہلیکن اگر مقدم ک صفح ے م ن استفاد کیا تو حاشی میں حوال اس طرح5ہ ہ س ے ہے ہ ے ہ ے

Page 13: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

ےدیا جائ گا:5عرشی، ص

مار استفاد میں آئی تو ہےاور اگر امتیاز علی خاں عرشی کی کوئی اور تصنیف ے ے ہےحوال یوں دیا جائ گا: ہ

"دیوان غالب"ص 5ہعرشی، مقدمو تو دونوں ک پور نام اسی ترتیب س لکھ ےلیکن عرشی اگر کوئی اور بھی ے ے ے ہ

: ےجائیں گ ، جیس ے5ہعرشی، امتیاز علی خاں، مقدم "دیوان غالب" ص

" میں غالب اور عرشی ک اندراجات اس طرح اپن اپن مقام رست اسناد محول ے"ف ے ے ہ ہ: ےپر کی جائیں گ ے

، ہء " دیوان غالب"، اسد الل خاں غالب، انجمن1959ہعرشی ، امتیاز علی خاں، مقدمترقی اردو، علی گڑھ ہ ء "دیوان غالب" مرتب امتیاز علی خاں عرشی، انجمن1959ہغالب، اسدالل خاں،

ترقی اردو، علی گڑھو: ہترجم کی صورت میں اگر درج ذیل کتاب کا حوال دینا مقصود ہ ے

د وسطی میں" مصنف کنور محمد اشرف، اردو ترجم قمر ندوستانی معاشر ع ہ" ہ ہ ہ ہلی، 301ء ص 1947ہالدین، نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، نئ د

ہتو ی حوال ، اگر اس مصنف کی اور اشرف نامی کسی اور مصنف کی کوئی اور کتاب ہو، تو حاشی میں اس طرح آئ گا: ےاستفاد میں ن آئی ے ہ ہ ے

301اشرف ص ہیا اگر اس مصنف کی کوئی اور کتاب بھی استفاد میں آئی تو حوال اس طرح دیا ہے ے

ےجائ گا:301ء ص 1947اشرف،

ےاگر اشرف نامی کوئی اور مصنف کی کتاب یا مقال استفاد میں آیا تو ی حوال ہ ہے ے ہ: وں گ ےاس طرح ہ

301اشرف ، کنور محمد، ص یا

301ء ، ص 1947اشرف، کنور محمد، ر گز ن آئ گا تا آنک مرتب یا ہمترجم یا مرتب کا حوال اصل مصنف ک مقام پر ے ہ ہ ے ہ

ے۔مترجم کی ذاتی کاوش زیر بحث ن آئ ہاں ی بات ط ک ترتیب و تدوین یا ترجم کی صورت میں اندراج اصل مصنف ک ےی ے ہ ہے ے ہ ہو گا اور مقدم یا حواشی و تعلیقات لکھن کی بنیاد پر اور زیر بحث آن پر ےنام س ے ہ ہ ے

۔مرتب یا متر جم کا حوال مذکور باال صورتوں میں دیا جائ گا ے ہ ہ

یں؟4.2.8 ہ کیا مختصر مقال میں کتابیات ضروری ن ے

ل آئ ل پ ےبعض افراد کا خیال ک حاشی میں کسی تصنیف یا جاخذ کا حوال اگر پ ہ ے ہ ہ ے ہ ہےییں اور بعد میں اس صرف بنیادی تفصیالت ونی چا ےتو تمام تفصیالت اس کی درج ہ ہ

لی بات ی ک ؟ پ ہتک مختصر کر دیا جائ لیکن سوال ی ک ایسا کیوں کیا جائ ہے ہ ہ ے ہ ہے ہ ۔ ےوں تو پھر ان تفصیالت رست اسناد محول یا کتابیات میں ساری تفصیالت یکجا ہجب ف ہ ہ

ی تحقیقی ؟ دوسری بات ی ک چا کام کتنا ہس حاشی کو کیوں بوجھل کیا جائ ہے ہ ہے ہ ے ے ے

Page 14: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

، حاشی اور ضروری تفصیالت صرف چند خاص و ایس حوال ےنوعیت کا کیوں ن ے ے ہ ہیں، عام افراد کو ان س کوئی دلچسپی یا وت ےنسبت رکھن وال قارئین کا درد سر ہ ے ہ ے ے

تی صرف چند افراد ک لی جو یوں بھی کتابیات ک ذریع یں ر ےخاص نسبت ن ے ے ے ۔ ہ ہ، چنانچ یں، حاشی کو غیر ضروری طوالت کیوں دی جائ نچ سکت ہتفصیالت تک پ ے ے ہ ے ہ

ی ی دینا چا ر جگ حد تک مختصر ترین ے۔حاشی میں ماخذ کا حوال ہ ہ ہ ہ ہ ےیا تھیسس ی جاسکتی ک ایسا ایک مکمل کتاب ، تحقیقی مقال اں ایک بات ی ک ﴾ی ﴿ ہ ہ ہے ہ ہ ہ

ہایک مفصل مقال ک لی تو ممکن ،کسی مختصر مقال ل لی ی کیوں کر ے ے ے ہے ے ے ےیں ی بات درست " شامل ن رست اسناد محول ؟ جس میں کتابیات یا "ف ہمناست ۔ ٰہہ ہ ہ ہے

ی یں آتا ان ماخذ کی نشاند یں ایک تحقیقی ماخذ اور مصادر ک بغیر وجود میں ن ہن ۔ ہ ے ۔ ہر مقال میں وتا اس طرح ی کسی مقال کو استناد اور معیار حاصل ےک ذریع ہ ہے۔ ہ ے ہ ے ےو، حوالوں اور استناد کو حاشیوں میں درج کرن ک ساتھ ی کیوں ن ےچا و مختصر ے ہ ہ ہ ہ ہےی تاک تمام رست اسناد ضرور آخر میں شامل کرنی چا ہساتھ ان کی ایک کتابیات یا ف ے ہ ہ

ی نظر میں مقال ک معیارکا و جائیں ان کی بنیاد پر ایک ےماخذ ب یک نظر معلوم ے ہ ۔ ہ ہو جاتا ہے۔انداز ہ ہ

ہشاید ی بات عجیب لگ ک میں جب کسی کتاب کو جس کا مزاج یا موضوع تحقیقی ے ہوں ک اس کی کتابیات کس ل پیچھ دیکھتا وں تو اس پلٹ کر پ اتھ میں لیتا ہو ، ہ ے ے ہ ے ہ ہ ہ

؟ اور اگر اشاری بھی آخر میں شامل تو اس اشاری ےمعیار اور کس سلیق کی ہے ہ ہے ےیں؟ ان ک ذریع محقق یا مصنف کی محنت، جستجو، رسائی ےک عنوانات کیا کیا ے ہ ےرست اسناد وتا چنانچ میں ایک مختصر مقال میں بھی " ف ہاور سلیق کا انداز ے ہ ہے۔ ہ ہ ےی معیار کا وں اور اس گونا گوں افادیت اور ساتھ " یا کتابیات ک حق میں ہمحول ے ہ ے ہ

ایت عمد مختصر تحقیقی مقال ایس بھی وں، میں ن بعض ن ےضامن سمجھتا ے ہ ہ ے ہی درج یں ، جن ک آخر میں کتابیات موجود تھی اور اس میں پانچ چھ ماخذ ہدیکھ ے ے ہ ے

! ےتھ

4.2.9: ہ گمنام یا نا معلوم مصنفین کا حوال

یں ، کچھ لوگوں یں، یا ان پر نام موجود ن ہایس ماخذ جن ک مصنفین کا نام معلوم ن ہ ے ےی لیکن ی غیر منطقی یا بال جواز ونا چا ہکا خیال ک کتاب ک عنوان ک تحت ے۔ ہ ہ ے ے ہ ہے

�یں، جن ک بار میں ی معلوم ک اس ےفیصل اس ک بجائ ایسی تمام کتاب ہ ہے ہ ے ے ے ے ہے۔ ہیں کیا، یا ہکسی ن لکھا لیکن مصلحتا یا کسی اور وج س اس پر اپنا نام تحریر ن ے ہ ے

ا ، مصنف کا نام مٹ وتا ر ہےدستبرد زمان س جو عام طور پر مخطوطات ک ساتھ ہ ہ ے ے ہو گیا تو ایس ماخذ کو " نامعلوم" ک ذیل میں درج کرنا ےگیا یا متعلق صفح ضائع ے ہ ہ ہ

ی یعنی حاشی میں اس طرح: ےچا ے۔ ہ93ء ص 2007نامعلوم ،

رست اسناد محول میں اس طرح ہاور ف ہور2007نامعلوم، " ، نوح پبلشرز ال ۔ ء "قیامت قریب ہ ہے

ی ایک تو حاشی میں " میں "نامعلوم" صرف ی رست اسناد محول ےاگر کتابیات یا "ف ہے ہ ہ ہےصرف اس طرح لکھا جائ گا:

93نامعلوم، ص نگ، ہبعض تصانیف، خصوصا حوال جاتی نوعیت کی ، جیس انسا ئیکلو پیڈیا، لغات، فر ے ہوتا ایسی کتابیں بالعموم ادار یا یں ےگزٹیئر وغیر پر کسی مصنف یا مرتب کا نام ن ۔ ہ ہ ہ

Page 15: اردو میں تحقیقی مقالہ نگاری کے جدید تر اور سائنٹیفک اصول

یں لیکن چونک حاشی میں ادار یا ناشر ک نام کو درج ےناشر ک نام س چھپتی ے ے ہ ۔ ہ ے ے: ےکر ک اصل کتاب کا حوال اس ک نام ک ذیل میں دینا مناست جیس ۔ ہے ے ے ہ ے

”Encyclopedia Americana“227، ص ”Imperial Gazetteer of India“411 ، ص 8ء، ج 1910یا ،

ی حوال دینا یں تو ی ہاگر اس گزٹییر کی کئی یا ایک س زاید جلدیں استفاد میں آئی ہ ہ ے ے: ہےو گا ورن صرف ایک جلد کی صورت میں ی حوال اس قدر کافی ہ ہ ہ ہ

”Imperial Gazetteer of India“411ص " میں صفح نمبر ک بغیر درج کیا رست اسناد محول ےان دونوں ماخذ کا اندراج " ف ہ ہ ہ

۔جائ گا ےےاس قسم کی مثالوں ک ذیل میں ، و کتابیں جو مصنف یا مرتبین ک ناموں س ے ہ ے

یں یں لیکن ان کی حیثیت مستقل ن وت وتیں یا ان ک مرتبین ک نام تو یں ہشائع ن ہ ے ہ ے ے ہ ہیں، وت ہوتی اور ایسی کتابیں یا ان ک منصوب اداروں س معروف ومتعلق ے ہ ے ے ے ہ

رست اسناد محول " میں ان کا حوال ان اداروں ۔۔۔۔۔۔"ف ہ ہ ہی مثال: ے۔ک ذیل میں دیا بانا چا ہ ے

۔۔۔۔۔ ء تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و بھارت''1975- 1971پنجاب یونیورسٹی ، ےاس تاریخ کی کسی ایک انفرادی جلد کا حوال حاشی میں اس طرح دیا جائ گا: ے ہ

69 ، ص 5 ء، ج 1972پنجاب یونیورسٹی ، رست اسناد محول " میں : ہیا ایک اور مثال ، " ف ہ

ہ، کراچی انفرادی جلد کا حوال ،21-1ء "" ج 2007 ء – 1977اردو لغت بورڈ ، ےحاشی میں:

822، ص 20اردو لغت بورڈ ، ج